ناصر کاظمی

ناصر کاظمی کی شاعری پر نوٹ لکھیں ۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم ناصر کاظمی کی زندگی ، علمی و فکری رویوں اور ہجرت کے واقعات کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اور تصانیف پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

ابتدائی تعارف: ہجرت کا روشن ستارہ ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انڈیا کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے اور ان کی تعیناتی مختلف مقامات پر رہی اس لیے ناصر کاظمی نے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی ۔ ناصر کاظمی کی والدہ بھی اک پڑھیں لکھی خاتون تھیں ۔ وہ انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں بطور ٹیچر اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامہ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانہ آزاد، الف لیلٰی ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھیں ۔ ناصر کاظمی نے میٹرک کی تعلیم مسلم ہائی اسکول انبالہ سے حاصل کی ۔ آگے کی تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے تھے۔ ناصر کاظمی وہاں کے ایک ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر بات کرتے تھے۔ انھوں نے بی اے کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر ناسازگار حالات کی وجہ سے ناصر نے بنا بی اے پورا کیے تعلیم ترک کردی ۔ ادھوری تعلیم چھوڑ کر وہ واپس انبالہ چلے گئے اور زمینوں کی دیکھ بھال شروع کر دی ۔

وارداتِ قَلبی : ناصر شاعر کیسے بنے اور ان کو شاعری سے کب عشق ہوا اس کی ایک وجہ تو ہم پڑھ چکے کہ ہجرت کے واقعات نے انھیں بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ دوسری طرف کچھ عشقیہ داستانیں بھی قلب و جگر کو گھائل کرتی رہی ۔ مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ چنانچہ وہ پوری طرح جوان ہونے سے پہلے ہی گھائل ہو چکے تھے۔ اس بارے وہ خود کہتے ہیں کہ ” عشق، شاعری اور فن یوں تو بچپن سے ہی میرے خون میں ہے، لیکن اس ذوق کی پرورش میں ایک دو معاشقوں کا بڑا ہاتھ رہا ” پہلا عشق ناصر کو تیرہ سال کی عمر میں حمیرہ نامی لڑکی سے ہوا اور اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے۔ ان کے کالج کے ساتھی اور دوست جیلانی کامران کا بیان ہے کہ ، ” ناصر کا پہلا عشق حمیرہ نام کی اک لڑکی سے ہوا۔ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرہ حمیرہ کہہ رہا تھا۔ یہ 1944ء کا واقعہ ہے ” اس کے بعد انھوں نے جس لڑکی سے عشق کیا اس کا سراغ کسی کو نہیں لگنے دیا۔ بس وہ اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو اس درد و الم سے دوچار کرتا رہا ۔

کچھ تو عشق نے پاگل بنایا اور کچھ زندگی نے بھی ستایا

عملی زندگی : قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور مختلف صحافتی اداروں سے منسلک رہے ۔ انھوں نے پہلے ادبی رسالہ “اوراق نو” کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ 1952ءمیں رسالہ” ہمایوں ” کی ادارت سنبھالی ۔ لاہور میں آ کر وہ صحافتی دنیا سے وابستہ ہوئے وہ ماہنامہ ” ہمایوں ” کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان لاہور میں بھی ملازمت کی ۔

ہجرت کا شاعر: جہاں اور بہت سے لوگوں کو ہجرت کی تنگی و ترقی سے گزرنا پڑا وہاں ناصر کاظمی جیسے حساس طبیعت شاعر نے بھی یہ دکھ دیکھا یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری رنج و الم کی شاعری ہے اور اسی بنا پر انھی میر ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ناصر کی شاعری کو دیکھتے ہوئے حامد کاشمیری یوں رقم طراز ہیں: ” ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ” (حامدی کاشمیری )

ناصر کاظمی اس پس منظر میں جہاں ایک طرف دلی اجڑ رہی ہے تو دوسری طرف لاہور میں ہجرت کا کہرام برپا ہے تو ایسے میں شاعری اور شاعر کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں وہ یوں رقم طراز ہیں: – ” غزل کا احوال دلّی کا سا ہے۔ یہ بار بار اجڑی ہے اور بار بار بسی ہے کئی بار غزل اجڑی لیکن کئی بار زندہ ہوئی اور اس کا امتیاز بھی یہی ہے کہ اس میں اچھی شاعری ہوئی ہے ۔ ” (ناصر کاظمی)

حقیقت سے روگردانی:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ناصر کا پچپن انتہائی لاڈ پیار میں گزرا تھا اور کوئی محرومی ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ کبوتر بازی، گھوڑ سواری، سیر سپاٹا، ان کے مشاغل تھے لیکن جب پاکستان پہنچ کر ان کی زندگی غموں سے دربار ہوئی تو انھوں نے حقیقت سے منہ موڑنا شروع کر دیا اور ایک مصنوعی زندگی جینے لگے ۔ خود کو غموں اور دکھوں سے بچانے کے لیے اک مصنوعی اور خیالی زندگی میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ دوستوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی چھوڑتے اور دوست ان سے لطف اندوز ہوتے۔

دل ❤️ کے زخموں کو کوئی شاعری کہے پروا نہیں

درد تو تب ہوتا ہے جب کوئی واہ واہ کہے

ناصر ایسا اس لیے کرتا تھا کہ کچھ دیر کو غم غلط کر سکے اور خود کو پر سکون کر سکے جب کہ اس کے ایسا کرنے پر اس کے کبھی اس پر تو کبھی اس کی باتوں پر ہوا کرتے تھے مثلاً ناصر کہتے ہیں شکار کے دوران شیر سے ان کا دو بار سامنا ہوا لیکن دو طرفہ مروّتیں آڑے آ گئیں۔ ایک بار تو شیر قیلولہ کر رہا تھا اس لئے انھوں نے اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، پھر دوسری بار جب شیر جھاڑیوں سے نکل کر ان کے سامنے آیا تو ان کی بندوق میں اس وقت کارتوس نہیں لگا تھا۔ شیر نظریں جھکا کر جھاڑیوں میں واپس چلا گیا۔ ایک بار البتہ انھوں نے شیر مار ہی لیا۔ اس کی چربی اپنے کبوتروں کو کھلائی تو بلیاں ان کبوتروں سے ڈرنے لگیں۔ وہ ایسی جگہ اپنی ہوائی جہاز کے ذریعہ آمد بیان کرتے جہاں ہوائی اڈہ ہوتا ہی نہیں تھا۔ “

کچھ مخلص دوست ناصر کی اس حرکت پر روتے بھی تھے ۔ تخیل کو حقیقت کے طور پر جینے کی ناصر کی ان کوششوں پر ان کے دوست زیر لب مسکراتے بھی تھے اور ان کے حال پر افسوس بھی کرتے تھے۔ مگر قسمت کا جیسا کہ ہر شخص پا رہا ناصر نے بھی اس میں سے اپنا حصہ پا لیا ۔

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم

یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں

علمی و ادبی خدمات: ناصر کی غزلوں میں قدیم رنگ اور جدید رومانی رویوں کا امتزاج ملتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک کے عروج میں جب نظم زوروں پر تھی تو ناصر نے غزل کی ساکھ کو قائم رکھا ۔ ان کی غزل میں میر کے طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ ان کا طرزِ احساس بھی ملتا ہے ۔ پاکستان کا قیام ایک طرف تو مسلمانوں کے لیے ایک عظیم واقعہ ہے لیکن دوسری طرف بدترین فسادات ، قتل و غارت گری ، دہشت گردی اور اپنی مٹی سے ہجرت اس کے الم ناک پہلو بھی ہیں ۔ ان حالات نے اوروں کی طرح ناصر کاظمی کے دل و دماغ پر بھی برے اثرات مرتب کیے ۔ ان کی غزلوں میں اعلیٰ اقدار کی شکست کا ماتم ہے ۔ حزن و یاس محرومی اور ناکامی کے احساس کے ساتھ معاشرے کی منفی قدروں پر طنز اور تلخی کا اظہار ان کی غزل میں نمایاں نظر آتا ہے ۔

شاعری کی نمایاں خصوصیات: ناصر کی شاعری میں سادگی اور دلکشی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادہ الفاظ میں وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔

وفات : اپنی نجی زندگی میں ناصر حد درجہ لا ابالی اور خود اپنی جان کے دشمن تھے۔ 26 سال کی عمر سے ہی ان کو دل کی بیماری تھی لیکن کبھی پرہیز نہیں کیا۔ انتہائی تیز چونے کے پان کھاتے۔ ایک کے بعد ایک سگرٹ سلگاتے ، ہوٹلوں پر جا کر نان، مرغ، اور کباب کھاتے اور دن میں درجنوں بار چاے پیتے۔ شب گشتی ان کا معمول تھی۔ رات رات بھر آوارہ گردی کرتے۔ ان بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو 1971ء میں معدہ کا کینسر ہو گیا اور یوں ہجرت کا یہ ستارہ سید ناصر رضا کاظمی 2 مارچ 1972ء کو ہم سے جُدا ہو گیا اور مومن پورا لاہور میں انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا ۔

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

تصانیف : برگ نے ، دیوان اور پہلی بارش غزلوں کا مجموعہ ہے جب کہ نشاطِ خواب نظموں کا مجموعہ ہے اور اسی طرح ” سر کی چھایا ” ایک منظوم ڈرامہ ہے ۔ ” برگ نے ” ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو 1952ء میں شائع ہوا ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ ناصر کاظمی کے بارے میں کافی باتیں جان چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

2 thoughts on “ناصر کاظمی”

Leave a Reply