شکیب جلالی کی غزل گوئی پر نوٹ لکھیں ۔ آج ہم اس پوسٹ میں منفرد احساس کے مالک شاعر سید حسن رضوی شکیب جلالی کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کریں گے تا کہ ان کی سوانح حیات کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے ۔
عالمی ادب کے منظرنامے پر ایسے ادیبوں اور شاعروں کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جنھوں نے زندگی کی الجھنوں سے گھبرا کر خودکشی کے دامن میں پناہ لی۔
ان ادیبوں اور شاعروں میں مغرب کے ساتھ ساتھ مشرقی روایات کے حامل شعراء بھی شامل ہیں ۔ چند ایک کے نام یہ ہیں: – سیفو ، ارنسٹ ہیمنگوے، سلویا پلاتھ، این سیکسٹن،ورجینیا وولف، ایڈگر ایلن پو، مایا کوسکی، یوکیومشیما، رضا کمال شہزاد، صادق ہدایت اور فرخی یزدی اور آج کے زیرِ بحث شاعر شکیب جلالی کے نام سرِ فہرست ہیں۔
اردو ادب کے منظرنامے پر بھی ایسے کئی شاعروں اور ادیبوں کے نام نظر آتے ہیں جنھوں نے زندگی کے بکھیڑوں سے تنگ آ کر موت کے دامن میں پناہ لینے کو ترجیح دی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ تمام شعراء و ادباء جنھوں نے یوں موت کو گلے لگایا وہ تمام کے تمام ادیب اور شاعر اس وقت اپنی شہرت کے عروج پر تھے اور ان سب کی عمریں 25 سے 50 سال کے درمیان تھیں ۔
ان میں دو ایک ایسے ادیب بھی ہیں جن کی خودکشی کے بارے میں تو کچھ وثوق سے کہا بھی نہیں جا سکتا کہ ان کی موت خود کشی تھی بھی کہ نہیں مگر وہ خودکشی کا رجحان رکھتے تھے اور ایک دن ایسے غائب ہوئے کہ پھر ان کا کچھ اتا پتا نہ ملا۔ ان میں شمس آغا اور شبیر شاہد کے نام شامل ہیں۔
اردو ادب میں اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جو بعد ازاں ’راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
ثروت حسین کا ایک شعر ہے ۔
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں
اردو ادب میں جس شاعر کی خودکشی کے واقعے نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ شکیب جلالی تھے۔
شکیب جلالی کی فکر فن اور شخصیت کے سرسری مطالعے کے دوران میری آنکھیں نم ہوگئیں کہ ایک حساس طبع شخص کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے حادثات اور کٹھن حالات کیسے کمزور سے بہادر بنا دیتے ہیں ۔
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دل کشی نہ رہی
ابتدائی زندگی کا تعارف : سید حسن رضوی شکیب جلالی
یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ ان کے والد سید صغیر حسین اور دادا سید شفاعت حسین محکمہ پولیس میں کام کرتے تھے شکیب جلالی نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی ۔
امتیاز کلثوم نے شکیب جلالی پر ایم اے سطح کا مقالہ لکھا ۔ اس تحقیقی مقالے کو امتیاز کلثوم نے پروفیسر سجاد باقر رضوی کی نگرانی میں تحریر کیا۔ غالباً یہ 1944ء کا واقعہ تھا کہ جب ان کے والد نے پولیس کی ملازمت چھوڑ کر پیری مریدی کرنے لگے۔ ان کی چلہ کشی کے دوران ایسی حالت ہو جاتی کہ وہ آپے سے باہر ہو جاتے انہیں اپنی اور نہ دوسروں کی کوئی ہوش رہتی۔
ایک دن وہ اپنی بیوی اور نو سالہ بیٹے شکیب کے ہمراہ ریلوے لائن کے ساتھ جا رہے تھے اتنے میں گاڑی آ گئی اس وقت اچانک دماغی دوری پڑا ۔ جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی بیوی کو اُٹھا کر گاڑی کے آگے پھینک دیا۔ ایسے میں شکیب دم بخود اپنی ماں کے کٹے ہوئے جسم اور بہتے ہوئے خون کو دیکھ رہے تھے جس کا اثر تاحیات ان کے دل ودماغ میں مرتسم رہا ۔
شکیب جلالی کی معاشی حالت شروع سے ہی بہت خراب تھی ۔ والدہ کی وفات اور والد کی دماغی حالت کے باعث سارے گھر کی ذمہ داری ان پر آن پڑی ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔
عملی زندگی کا آغاز : سنہ 1950ء میں شکیب جلالی اپنی چار بہنوں کے ہمراہ پاکستان آ گئے جہاں ملازمتوں کے سلسلے میں وہ مختلف شہروں میں مقیم رہے ۔ شکیب جلالی نے اپنی خود دار طبیعت، احساس ذمہ داری اور حساس مزاج کے باعث عملی زندگی کا آغاز راولپنڈی سے کیا اور پہلی ملازمت کلیم ڈپارٹمنٹ راولپنڈی میں کی پھر اپنے بہت قریبی دوست ماجد الباقری کے ساتھ مل کر پنڈی سے ایک ادبی جریدہ ” گونج ” کے نام سے بھی جاری کیا۔
شکیب جلالی کے بیٹے اقدس رضوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ رسالہ ” گونج ” ماجد الباقری سے اختلافات پر بند ہُوا تو لاہور چلے آئے اور اپنے بہنوئی کے ادارے “جاوید پبلی کیشن ” میں ملازمت اختیارکی اور وہاں سے دو رسالوں”شاہکار ” اور “وحدت” کی ادارت کی پھر 1958 ء میں رسالہ “جاوید” کی ادارت سنبھالی مگر معاشی مسائل سے نبٹنے کے لیے رات کو روزنامہ ” مغربی پاکستان “میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔
ابتدا میں مختلف رسائل کے دفاتر میں ملازمت کی ، پھر محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے ۔ ان کی تمام زندگی کرب و ملال اور تلخیوں میں گزری ۔ وہ ابھی 9 سال کے تھے کہ ان کے والد نے شکیب جلالی کی والدہ کو ان کی آنکھوں کے سامنے ٹرین کے سامنے دھکا دیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی ۔ یہ صدمہ تا دم مرگ شکیب جلالی کے قلب و اذہان پر چھایا رہا ۔ وہ اکثر بیمار رہا کرتے تھے اور آخر میں کئی ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے ۔ وہ صرف 32 برس کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے ۔
شکیب جلالی کی شاعری: شکیب کا نام اردو غزل گو شعراء کی صف اول میں کیا جاتا ہے ۔ جدید اُردو غزل کے چند بڑے ناموں میں سے ایک نام شکیب جلالی کا بھی تھا۔ جن نے غزل کی ڈوبتی سانسوں کو ایک نئی تازگی عطا کی۔ شکیب صرف شعر بناتے نہیں بلکہ اس کے اندر اپنی روح بھی پھونکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر شعر میں پرواز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر
آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
اس طرح کے لازوال اشعار شکیب جلالی کی شاعری میں جابجا ہمیں ملتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں ہمیں نئے اور ان دیکھے جہانوں کا سفر ملتا ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے انسان کی محرومیوں، معاشرتی تضاد،کائنات، انسان اور خدا کے ازلی بندھن اور مسائل کی گتھیاں سلجھاتی اور سوال اٹھاتی ہوئی شاعری ہے۔
ہر چمکتے ستارے کا انجام تاریکی ہے ۔ شکیب جلالی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا ۔ بعض شاعر شکیب کی شہرت اور مقبولیت سے حسد کرنے لگے جس پر شکیب کے نام پر خود عامیانہ سی غزلیں، نظمیں لکھ کر مختلف جرائد کو بھجوانا شروع کر دیں ۔ جب وہ نگارشات شائع ہوتی تو پرچے لوگوں کو دکھاتے کہ یہ ہے شکیب جسے لوگوں نے سر پر بٹھا رکھا ہے ایسا کلام وافر مقدر میں چھپا۔ جس سے شکیب کو ذہنی طور پر اذیت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ وہ پہلے سے ہی والدہ اور والد کے انتقال پر زیادہ ذہنی خلفشار کا شکار تھے اُوپر سے اُن دوستوں کی مہربانیوں نے اسے مزید پریشان کیا ۔ جس کے باعث شکیب ذہنی مریض ہو گئے اور بیمار رہنے لگے ۔ شکیب جلالی کا مجموعہ کلام ” روشنی اے روشنی ” بہت جلد مقبول ہوا اور اس کے اکثر اشعار زبان زد خاص و عام ہو گئے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز اس وقت کیا ۔ جب اردو غزل نئے امکانات اور تجربات سے گزر رہی تھی ذہنی اور فکری رویوں میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ اس دور میں ایسے شعراء قابل قدر جانے جاتے تھے جن کے ہاں عصری شعور کے ساتھ ساتھ تجربات اور مشاہدات میں بھی جدت نظر آئے ۔ جدید رحجانات کے باعث شکیب جلالی بہت جلد ممتاز ہو گئے ۔
صحافتی خدمات :
شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انھوں نے ایک رسالہ ” جاوید ” نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر “مغربی پاکستان” نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے اور جلد ہی مغربی پاکستان کو بھی چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے ۔
وجہ شہرت : وہ آسان زبان کے شاعر سمجھے جاتے تھے لیکن ان آسان الفاظ میں بھی معنوی تہ داری موجود ہے ۔ شکیب جلالی نے چند ایک نظمیں بھی کہیں لیکن ان کی اصل مہارت غزل کے میدان میں ہے ۔
مجموعہ ہائے کلام : روشنی اے روشنی
وفات :
شکیب جلالی 12 نومبر 1966 ء کو ایک خوب صورت شام ساڑھے تین بجے وہ گھر سے نکل گئے، ساڑھے پانچ بجے اطلاع گئی کہ انھوں نے خود کو سرگودھا کے ریلوے سٹیشن پر ٹرین کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی اور اس طرح شعلوں سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
نوٹ : امید ہے کہ آپ شکیب جلالی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.