احمد فراز کی غزل گوئی پر نوٹ لکھیں ۔ آج ہم منفرد لب و لہجے کے شاعر احمد فراز احمد کے بارے میں پڑھیں گے ۔ ان کی سوانح حیات ، شاعری کی نمایاں خصوصیات ، ان کی شاعری کا باغیانہ روپ اور تصانیف کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے ۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ابتدائی زندگی کا تعارف : سید احمد شاہ ان کا اصل نام تھا جب کہ ادب کی دنیا احمد فراز کے نام سے مشہور ہیں ۔ فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فراز ہو گیا اور آج بھی ان کی وجہ شہرت احمد فراز ہی ہے ۔ وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام سید محمد شاہ برق تھا جو خود بھی اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے ۔ اس لحاظ سے فراز نے ایک ادبی ماحول میں آنکھ کھولی ۔ احمد فراز نے ایڈورڈ ز کالج پشاور سے بی ۔ اے کا امتحان پاس کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم ۔ اے کیا ۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ” تنہا تنہا ” شائع ہوا تو وہ ابھی بی۔ اے میں تھے۔
عملی زندگی کا آغاز : تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدگی اختیار کی اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ” درد آشوب ” چھپا جس کو ” پاکستان رائٹرز گلڈ ” کی جانب سے ” آدم جی ” ادبی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انھیں 1976 ء میں آکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انھیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ 1989ء سے 1990ء چیرمین آکادمی پاکستان، 1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک ” نیشنل بک فاؤنڈیشن ” کے سربراہ بھی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انھیں “نیشنل بک فاؤنڈیشن ” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔
فراز کی باغیانہ روش :
شاعر اور سماجی شخصیت حارث خلیق کے مطابق میر سے لے کر غالب اور اس کے بعد فیض، راشد اور جوش ملیح آبادی، ان تمام شعراء کا رنگ فراز صاحب کے ہاں نظر آتا ہے۔ وہ روایت سے جڑے شاعر تھے۔ حارث خلیق کے مطابق مزاحمتی شاعری کی طرف ان کا رجحان پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے بڑھا اور وہ ایک رومانوی شاعر سے انقلابی شاعر بنے ۔ اردو شاعری اور ترقی پسند تحریک میں رومان اور انقلاب کا امتزاج ہوا اور لوگوں نے انقلاب کو اپنے محبوب کی طرح دیکھنا شروع کیا۔ شاید فراز بھی اسی کارواں کے اک مسافر اور اسی روایت کے شاعر تھے ۔
احمد فراز جنھوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انھوں نے ضیا الحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں لکھیں جن کو بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انھیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیا جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔
2004ء میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ میں انھیں “ہلالِ امتیاز “سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنھیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیں بھی عالمی شہرت کی حامل ہیں ۔ جن کو بھی بہت شہرت ملی ۔
احمد فراز شروع سے ہی آزادی اظہار کے قائل تھے اسی وجہ سے انہیں فوجی حکومتوں میں شدید تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا یہاں تک کہ 2004 میں ملنے والا اعزاز ” ہلال امتیاز ” انہوں نے اس بنا پر واپس کر دیا کہ حکومت انسانی حقوق کی کھلم کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ اسی طرح کوہاٹ میں موجود پبلک لائبریری کو پلازے میں تبدیل کرنے پر وہ اس قدر دل برداشتہ تھے کہ انہوں نے وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد کوہاٹ میں دفن نہ کیا جائے ۔
ایک انٹرویو ، ایک روداد : معروف صحافی اور ادیب انور سن رائے کو انٹرویو دیتے ہوئے فراز نے بتایا تھا کہ پہلی مرتبہ انھوں نے کون سا شعر لکھا تھا ؟ کہتے ہیں میں نویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے عام سا پیس کوٹ کے لیے لے آئے تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ ہمارے معاشرے میں بھی اس قسم کا تضاد موجود ہے۔
میری شاعری کی ابتدا دو طرح سے ہوئی ۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔ اسی انٹرویو میں وہ اپنی زندگی اور اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی منظم آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو ہر کام پھرتی اور چابک دستی سے کرے گا ۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کراچی میں ہوئی۔
شاعری کی نمایاں خصوصیات : احمد فراز کی شاعری کو جتنا قبول عام حاصل ہوا شاید یہ کسی اور کو حاصل ہوا ہوگا سہل ممتنع میں شعر کہنا اور پھر اسے عوام و خاص کے ذہن میں مرتسم کرنا احمد فراز کے لیے بے حد آسان کام تھا ۔ ان کے کلام میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ قدرے تفکر بھی پایا جاتا ہے ۔ سماجی ناانصافیوں پر احتجاج تقریباً ہر شاعر کا موضوع رہا ہے لیکن احمد فراز کے ہاں یہ رنگ سب سے جدا ہے احمد فراز نے عوام اور جمہوریت کے حق میں نہ صرف قلم کے ذریعے آواز اٹھائی بلکہ دورِ آمریت میں جلاوطنی کی سزا بھی کاٹی ۔ وہ ملازمتوں سے بھی فارغ کیے گئے اور مشکل وقت بھی دیکھا ۔ فراز کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے ۔ فراز نے محبت کے لازوال جذبے کو نغموں میں ڈھال کر تصویر یار کے اس پار پیکر تراشی کی۔ ان کی شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں ہی نہیں۔ وہ تو ظلم و جبر اور آمریت پر بھی ٹوٹ کر برسنے والے بادل تھے ۔
25 اگست 2008ء کو احمد فراز ہمیں داغ مفارقت دے گئے اور انھیں اسلام آباد کے قبرستان ایچ ایٹ میں سپردِ خاک کیا گیا ۔
مجموعہ ہائے کلام : اب تک احمد فراز کی شاعری کے تیرہ مجموعے شائع ہو چکے جن میں تنہا تنہا ، درد آشوب ، نایافت ، شب خون ، میرے خوا ب ریزہ ریزہ ، جاناں جاناں ، بے آواز گلی کوچوں میں ، نابینہ شہر میں آئینہ ،سب آوازیں میری ہیں ، پس انداز موسم ، خواب گل پریشاں ہے ، غزل بہانہ کروں اور عشق جنوں پیشہ وغیرہ شامل ہیں ۔
سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے
نوٹ : امید ہے کہ آپ احمد فراز کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی جان چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.