سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
آج کی اس پوسٹ میں ہم فیڈرل بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل غزل ” سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
مشکل الفاظ کے معانی : مراسم (روابط ، تعلق) مفہوم : محبوب رخصت ہوتے وقت ملاقات کے تمام راستے ختم کر گیا ۔ وہ چاہتا تو کچھ حد تک رابطہ رکھا جا سکتا تھا ۔
تشریح : احمد فراز ہر دل عزیز اور مقبول عام ترقی پسند اور انقلابی سوچ کے حامل شاعر تھے ۔ احمد فراز نے اپنی شاعری کو غم دوراں اور غم جاناں کا ایک حسین امتزاج بنا کر پیش کیا ۔ اپنی شاعری کے تیکھے پن اور کاٹ دور لب لہجے کے باعث کئی بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔نغمگی ، موسیقیت ، تغزل ، روانی اور رومانیت ان کی شاعری کی اہم خصوصیت ہیں ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کی بے رخی اور بے حسی کا تذکرہ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب قطع تعلقی کا ارادہ رکھتا تھا لیکن مجھے امید تھی کہ ماضی میں ہمارے جو اچھے مراسم رہے ہیں محبوب ان کا ضرور پاس رکھے گا اور وہ تعلق بالکل منقطع کرنے کی بجائے آنے جانے اور دعا سلام کی حد تک تو رابطہ ضرور بحال رکھے گا لیکن افسوس کہ محبوب نے ماضی کے اچھے روابط کا بھی لحاظ نہ رکھا ۔ محبوب رخصت ہوتے وقت تمام تعلقات توڑ کر چلا گیا حالانکہ ہمارے تعلقات ایسے نہ تھے کہ ایک دم توڑ دیے جاتے اور ملاقات کے تمام سلسلے منقطع کر دیے جاتے ۔
بقول ندا فاضلی :
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجئے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
شاعر جہاں محبوب کے ساتھ تعلقات منقطع ہونے کی بات کر رہا ہے وہیں وہ ماضی میں محبوب کے ساتھ اپنے مضبوط مراسم اور تعلقات کا ذکر بھی کر رہا ہے ۔ اس میں شکوہ بھی ہے کہ محبوب کا تعلقات ختم کرتے وقت اتنا سوچ لینا چاہیے تھا کہ ماضی میں ہمارا ایک دوستانہ تعلق رہا ہے ۔ ہم ایک عرصہ تعلق میں رہے ہیں ۔ اس پر اتنا تو حق بنتا ہے کہ کبھی کبھار رابطے یا بات چیت کا کوئی ذریعہ برقرار رکھا جاتا ۔ اتنا تو ہونا چاہیے تھا کہ ہمارا آنا جانا رہتا ۔ رابطہ مضبوط نہ سہی کمزور ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ رہتا تو ضرور ۔ محبوب نے ماضی کے تعلقات اور رابطے کا ذرا بھی بھرم نہیں رکھا ۔
بقول میر وزیر علی صبا :
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
شعر نمبر 2 :
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مشکل الفاظ کے معانی : شکوہ ( گلا ، شکایت ) ، ظلمت شب (رات کی تاریکی )
مفہوم : رات کے اندھیرے کو برا بھلا کہنے سے بہتر تھا ہر شخص اپنے اپنے حصے کی کوئی شمع جلا دیتا۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر شخص رات کی ظلمت کی شکایت تو کرتا ہے لیکن اسے دور کرنے کے لیے شمع کوئی نہیں جلاتا جبکہ بہتر یہی ہے کہ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق ظلمت کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ ظلمت شب علامت ہے زمانے کی خرابی ، جہالت ، ظلم و ستم اور بدامنی کی جبکہ شمع علامت ہے تعمیری کوششوں کی ، علم امن اور ترقی کی ۔
شاعر کہتا ہے کہ زمانے کی خرابی کا شکوہ و شکایت کرتے رہنے کی بجائے ہر شخص کو انفرادی سطح پر کوئی نہ کوئی تعمیری کام کرنا چاہیے تاکہ زمانے کی وہ خرابی دور ہو سکے ۔ معاشرہ افراد ہی کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ جب ہر فرد پوری ایمانداری سے اپنی ذمہ داری ادا کرے گا تو پورے معاشرے کی اصلاح ہو جائے گی ۔
بقول علامہ محمد اقبال:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو ہمیشہ زمانے کی خرابی کا شکوہ کرتے رہتے ہیں اور اس خرابی کے ذمہ دار کبھی معاشرے کو اور کبھی حکومت کو ٹھہراتے ہیں جبکہ اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کیے رہتے ہیں ۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خرابیوں کا شکوہ کرنے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ ان خرابیوں کو درست کرنے کے لیے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں ۔ شاعر کے ارد گرد زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہیں ۔ جو ظلمت شب پر شکوہ کناں تو ہیں لیکن اسے دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے یہاں تک کہ معمولی سی شمع بھی روشن کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایسے میں شاعر کہتا ہے کہ ظلمت شب کا شکوہ کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ ہر شخص اپنے حصے کی کوئی شمع ہی روشن کر دیتا تاکہ رات کی کچھ تاریکی تو کم ہوتی۔ دنیا میں چاروں طرف اندھیرا ہے ہر شخص اپنے حصے کا چراغ جلا کر کسی حد تک روشنی کر سکتا ہے۔ یہ بات اس سے کہیں بہتر ہے کہ خرابیوں اور خامیوں پر محض باتیں کرتے رہیں ۔ ہر شخص اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق تعمیری جذبے سے کام لے ایک نہ ایک دن یہ تاریکی ضرور ختم ہو جائے گی ۔
بقول ساحر لدھیانوی :
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
شعر نمبر 3 :
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی ایک عمر لگی جان سجاتے جاتے
مشکل الفاظ کے معانی : ہجر (جدائی ) ، جاناں (محبوب) ، جان سے جانا( مراد مر جانا )
مفہوم : اے محبوب تیری جدائی میں مر جانا بہت آسان تھا مگر پھر مرنے میں بھی ایک عمر لگ گئی۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کے ہجر و فراق میں ملنے والی تکالیف کا تذکرہ کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہم نے سوچا تھا کہ تم سے اگر جدا ہوئے تو مر جائیں گے ۔ اس وقت یہ بات کہنا بہت آسان لگتا تھا لیکن درحقیقت یہ بہت مشکل کام تھا ۔ جب تو مجھ سے جدا ہوا تو تیری جدائی اور فراق کو سہتے سہتے ایک عرصہ گزر گیا ۔
بقول افتخار عارف :
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
اے محبوب تیرے فراق اور ہجر میں موت بہت آسان تھی مگر مجھے جان سے جانے میں بھی ایک عرصہ لگا ۔ بظاہر یہ آسان لگتا ہے کہ انسان کسی کی جدائی میں مر جائے لیکن درحقیقت یہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ موت نجات ہے مگر نجات کی گھڑی اچانک نہیں آ جاتی بلکہ اس کے لیے بھی ایک طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مشہور عربی مقولہ ہے ۔ ” الانتظار اشد من الموت ” انتظار موت سے بھی سخت ہوتا ہے ۔
شاعر نے راہ محبت کی مشکلات کا ذکر بڑے موثر انداز میں کیا ہے کہ راہ محبت میں موت بھی آسان نہیں ہوتی ۔ موت کی وجہ سے محبوب کے ہجر و فراق میں تڑپنے کی اذیت سے نجات مل سکتی ہے لیکن عاشق کو مرتے مرتے بھی ایک عرصہ لگتا ہے ۔ بقول مرزا اسد اللہ خان غالب :
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
اور بقول احمد ندیم قاسمی :
تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا
شعر نمبر 4 :
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
مشکل الفاظ کے معانی : جشن مقتل( قتل گاہ کا جشن) ، برپا ہونا( منعقد ہونا ) ، پابجولاں( پاؤں میں بیڑیاں)
مفہوم : قتل گاہ میں کوئی جشن منعقد ہی نہ ہوا ورنہ ہم بھی زنجیر میں بندھے خوشی سے قربان ہونے کے لیے چلے جاتے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی ہمت ، بہادری اور جرات کا تذکرہ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ لوگ عموماً موت سے ڈرتے ہیں۔ موت کو شکست سمجھتے ہیں ۔ موت کے نام پر ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن عاشق صادق کے لیے محبوب کی خاطر جان قربان کرنا سب سے بڑی سعادت ہوتی ہے ۔
بقول شاعر :
عشق جب قتل گاہ کو جاتا ہے
یہ بھی روز سعید ہوتا ہے
دراصل یہ عاشق کے عشق کی صداقت کی علامت ہوتی ہے ۔ جان قربان کرنے سے عاشق محبوب کی نظروں میں سرخرو ہو جاتا ہے ۔ جان کی قربانی عشق کی صداقت کا سب سے بڑا امتحان ہوتی ہے ۔غالب کے بقول جب تلوار عاشق کا سر قلم کرنے کے لیے نیام سے باہر نکلتی ہے تو عاشق کے لیے وہ عید کے چاند کی مانند ہوتی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ قتل گاہ میں ہی کوئی جشن منعقد نہ ہوا اگر ہوتا تو ہم بھی خوشی خوشی جان قربان کرنے کے لیے آ جاتے اگرچہ ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ہیں مگر ہم اس حال میں بھی ضرور جاتے کیونکہ ہم اپنے عشق میں صادق ہیں لیکن افسوس کہ قتل گاہ میں ہماری آزمائش کے لیے ایسا کوئی امتحان ہی نہ ہوا۔ ۔
شعر کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا کہ بہادر لوگ کسی بھی عظیم مقصد کے لیے جان کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے ۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں چنانچہ اس کے لیے انہیں سر ہی کیوں نہ کٹوانا پڑے۔
احمد فراز نے ساری زندگی مارشل لاء حکومتوں اور امراء کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھا ۔ ان کی شاعری میں معاشرتی نا ہمواریوں سماجی ، ناانصافیوں اور حکومت وقت کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ شاعر نے یہاں اپنے عزم و حوصلے اور ہمت کا ذکر کیا ہے جو کہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی اور اس کے عوض قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پاؤں میں بیڑیاں ہونے کے باوجود بھی میرے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ میں نے سنا تھا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے لیکن یہاں قتل گاہ میں ایسا کوئی منظر نظر نہیں آیا ورنہ میں پابجولاں بھی بخوشی تختہ دار کی جانب جان قربان کرنے کے لیے چلا آتا کیونکہ مجھے معلوم ہے بہادر لوگ جس حوصلے اور شان سے تختہ دار کے قتل گاہ کی طرف جاتے ہیں وہ انہیں زندہ و جاوید اور امر کر دیتی ہے ۔
بقول فیض احمد فیض :
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو تو کوئی بات نہیں
شعر نمبر 5 :
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
مشکل الفاظ کے معانی : پاس وفا (وفا کا لحاظ) ، نبھانا (وفاداری کرنا)
مفہوم : اسے وفا کا لحاظ تھا یا نہیں مگر اے فراز تم تو وفاداری نبھاتے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے آپ پر تنقید کرتا ہے کہ محبوب وفاداری کا لحاظ کرتا یا نہ کرتا یہ اس کا فعل تھا لیکن تم تو وفاداری نبھاتے جاتے ۔ تمہیں اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں ہر حال میں ادا کرتے رہنا چاہیے تھا۔ محبوب کا اپنا ظرف ہے اور تمہارا اپنا ظرف ہے ۔
اس شعر میں خود احتسابی کا انداز موجود ہے لیکن ساتھ ساتھ محبوب کی بے رخی کی جانب بھی اشارہ ہے ۔ شاعر نے در پردہ محبوب کو بے وفا کہا ہے لیکن ساتھ خود پر بھی تنقید کی ہے کہ محبوب نے وفا کی یا نہیں کی یہ اس کا معاملہ تھا لیکن تمہیں تو وفا کرنی چاہیے تھی ۔ شاعر نے محبوب کے رویے پر رشک ظاہر کرتے ہوئے خود سے وفاق کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے ۔ محبوب تو بے وفائی کیا ہی کرتے ہیں لیکن عاشق وفا نبھاتے ہیں اور اس کے لیے جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں لہٰذا محبوب کے رویے پر نالاں ہونے کی بجائے اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے اور اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ فراز کی اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.