آج کی اس پوسٹ میں ہم ناصر کاظمی کی غزل ” سفر منزل شب یاد نہیں” کی تشریح پڑھیں گے ۔
ناصر کاظمی کی غزل کی تشریح
شعر نمبر 1 :
سفر منزل شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : سفر منزل شب( رات کی منزل کا سفر) ، رخصت ہونا( چلے جانا ، ساتھ چھوڑ جانا )
مفہوم : زندگی کے سفر میں کون ، کب اور کہاں ساتھ چھوڑ گیا مجھے یاد نہیں ۔
تشریح : ناصر کاظمی جدید اردو غزل کے نمائندہ شاعر ہیں ۔ ماضی کی یاد ، تنہائی ، اداسی ، محرومی اور ہجرت ان کی شاعری کی اہم موضوعات ہیں ۔ ایک مستقل اداسی اور تنہائی زندگی سے دوری اجنبیت اور محرومی کا احساس ناصر کاظمی کے مزاج کی ایسی کیفیت ہے جو ان کی شاعری پر دھند کی مانند چھائی ہوئی ہے ۔ ناصر کاظمی کا اسلوب میر کی طرح سادہ اور دلکش ہے ۔ سہل ممتنع اور چھوٹی بحروں کا استعمال ان کی غزل کی خصوصیت ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس کو آپ اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھ سکتے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ رات کی تاریک منزل کا سفر مجھے اب کچھ یاد نہیں اور اس سفر کے دوران میں کس شخص سے نے میرا کتنا ساتھ دیا اور کون کس مقام پر مجھے تنہا چھوڑ گیا مجھے یاد نہیں ۔ ایک ایک کر کے ہر شخص نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور واپس پلٹ گیا ۔ منزل شب مصائب غموں اور پریشانیوں کی علامت ہے ۔ شاعر کی زندگی خستہ حالی اور غموں میں گزری ۔ جس کی وجہ سے شاعر زندگی کے سفر کو رات سے تشبیہ دیتا ہے ۔ رات آہستہ آہستہ ڈھلتی جاتی ہے تو ستارے بھی ایک ایک کر کے رخصت ہوتے جاتے ہیں ۔ یہ سب اتنی خاموشی سے ہوتا ہے کہ جب صبح ہوتی ہے تو رات کی منزل کا یہ سفر ختم ہو چکا ہوتا ہے اور سب ستارے غائب ہو چکے ہوتے ہیں ۔
شاعر کہتا ہے کہ میری زندگی کے سفر میں بھی ایک ایک کر کے اتنے لوگ رخصت ہو گئے کہ منزل پر پہنچنے کے بعد جب میں نے دیکھا تو یہ یاد کرنا بھی مشکل ہو گیا کہ کس نے کتنا ساتھ دیا اور کون کب اور کس جگہ رخصت ہوا تھا ۔
بقول محسن احسان :
ایک ایک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
شاعر زمانے کی مطلب پرستی اور بے حسی کو بیان کرتا ہے ۔ لوگ چڑھتے سورج کی پرستش کرتے ہیں غربت اور سہ ختی میں قریبی رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ جب راستہ کٹھن ہو اور منزل تاریک ہو تو لوگ آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور واپس پلٹ جاتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ تمام زندگی مجھے دکھوں اور مصائب کا سامنا رہا اور پریشانیوں میں مبتلا رہا ۔ میری خستہ حالی اور سہ بختی میں سب دوستوں اور عزیز رشتہ داروں نے جو میرے شریک سفر تھے ایک ایک کر کے میرا ساتھ چھوڑ دیا ۔ اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ کون کب اور کہاں رخصت ہوا ۔
بقول ناسخ :
سہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انسان سے
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر نے اس شعر میں ہجرت کے غم کو بیان کیا ہے ۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں ہجرت کا غم اور بچھڑے ہوئے لوگوں کا ماتم کا اظہار بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ تقسیمِ ہند کے بعد ناصر کاظمی کو انبالہ سے ہجرت کر کے لاہور آنا پڑا ۔ انبالہ سے لاہور تک کا سفر ہزاروں خطرات اور پریشانیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہجرت کے اس سفر میں بہت سے ہم سفر اس سے بچھڑ گئے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ منزل پر پہنچنے کے بعد یاد بھی نہیں پڑتا کہ ہجرت کے اس سفر میں کون کس جگہ مجھ سے بچھڑا ۔
بقول ناصر کاظمی:
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
ایک اور شعر میں ناصر کاظمی کہتے ہیں :
اب ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہم نوا جو میرے رت جگوں میں شامل تھے
شعر نمبر 2:
اولین قرب کے سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : اولین (پہلا ) ، قرب( قریب ہونا ) ، سرشاری (بے خودی ، مستی ، مدہوشی) ، ارمان( خواہش ، آرزو )
مفہوم : محبت کی ابتدا میں بے خودی کی کیفیت میں کتنی خواہشیں تھیں جو اب یاد نہیں ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ابتدائے محبت کے زمانے میں جب میں محبوب سے پہلی بار ملا تو مجھے اس قدر سرور اور خوشی ملی کہ ناقابل بیان ہے ۔ پہلی بار محبوب سے ملاقات محبوب کا وہ حسن و جمال اور اس کی وہ مہربان نگاہیں ایسے میں مجھے عجیب سرشاری اور بے خودی محسوس ہوئی ۔ اس وقت میرے دل میں کیسے جذبات تھے کیا کیا ارمان اور خواہشات مچل رہی تھی لیکن اب وہ سب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ ان کی یادیں بھی میرے دل سے محو ہو گئی ۔ اب محبوب سے جدا ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے ۔ محبوب سے جدائی اور حالات کی تلخیوں کی وجہ سے میں سب کچھ بھول گیا ہوں ۔ مجھے اب یاد نہیں کہ آغاز محبت میں میرے کیا کیا خواب تھے اور کیا کیا ارمان تھے ۔
بقول بہادر شاہ ظفر :
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
زندگی حادثات کے مجموعے کا دوسرا نام ہے ۔ یہ ایک ایسی شاخ ہے جس پر حادثات کے شگوفے پھوٹتے رہتے ہیں ۔ حادثات مختلف انداز میں رونما ہو کر انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا بلکہ مدت سے رونما ہو رہا ہوتا ہے محسوس تب ہوتا ہے جب سب کچھ یک دم بدل جاتا ہے ۔
بقول قابل اجمیری :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کچھ حادثات اہم ہوتے ہیں اور کچھ غیر اہم کچھ معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ غیر معمولی شعراء چونکہ معاشرے کا حساس طبقہ ہوتے ہیں اس لیے وہ اہم اور غیر معمولی حادثات کے ساتھ ساتھ غیر اہم اور معمولی حادثات سے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ ناصر کاظمی کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ تقسیمِ ہند تھا ۔ جس کے نتیجے میں انہیں اپنے آبائی شہر انبالہ سے ہجرت کر کے لاہور آنا پڑا یہاں آ کر انہیں اپنوں سے دوری کا غم ، حالات کی تلخیاں اور وقت کی سختیاں برداشت کرنا پڑیں ۔ کچھ عرصہ بعد مشرقی پاکستان کی علیدگی کا سانحہ بھی دیکھنا پڑا ۔ غم دوراں اور غم روزگار نے شاعر کے عزیز لوگوں کی یاد تلک اس کے دل سے مٹا دی۔ اکثر شعرا محبوب کی یاد کو زمانے کے غم پر ترجیح دیتے ہیں یعنی محبوب کی خوشگوار یادیں زمانے کے غم اور حالات کی تلخیوں کو بھلا دیتی ہیں ۔
جیسا کہ حبیب جالب کہتے ہیں :
ہم زمانے کا ستم بھول گئے
جب تیرا لطف نظر یاد ایا
لیکن ناصر کاظمی نے یہاں زمانے کے غم کو محبوب کی یاد پر ترجیح دی ہے اور یہ مضمون باندھا ہے کہ زمانے کے غم اور حالات کی تلخیوں کی وجہ سے محبوب کے ساتھ گزرے لمحات اور محبوب کی یادیں مجھے بھول گئیں ۔ اب مجھے کچھ یاد نہیں کہ اس وقت میرے دل میں کیا کیا ارمان اور خواہشیں تھی جیسا کہ فیض احمد فیض کہتے ہیں :
اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
شعر نمبر 3 :
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : چبھن( کھسک ، بے قراری) ، خلش( طلب ، چاہت) ، آرزو (خواہش)
مفہوم : دل میں ہر وقت ایک بے قراری رہتی تھی وہ کس کی طلب میں تھی اب یاد نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ میرا دل ہر وقت بے قرار بے چین رہتا تھا ۔ دل میں ایک خلش ہمہ وقت رہتی تھی لیکن حالات کے تھپیڑوں نے مجھے سب کچھ بھلا دیا ۔ حالات کی تلخیوں کے سبب مجھے اب یاد نہیں کہ وہ کون تھا جس کی مجھے طلب تھی اور جس کی چاہت میں میں بے قرار رہتا تھا ۔ میں کس کے لیے ہمہ وقت محو دعا رہتا تھا اور کس کو پانے کی جستجو مجھے ہر وقت بے چین رکھتی تھی ۔ زندگی ایک ایسا سائباں ہے جو جسم کو پورا سایہ مہیا نہیں کرتا کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے ۔ دنیا میں ہر انسان ہمیشہ کی خوشی اور شادمانی چاہتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ ماضی میں شاعر کے ساتھ بھی چاروں طرف ہر طرح کی نعمتیں تھیں ۔ مسکراتے چہرے ، کھلتے گلاب ، فرحت بخش ہوا اور دیگر نعمتیں موجود تھیں مگر یہ سب ہونے کے باوجود بھی شاعر کے دل کو اطمینان اور سکون حاصل نہیں ہوتا تھا ۔ ایک بےقراری اور چبھن سی ہمہ وقت رہتی تھی جیسا کہ ایک اور جگہ ناصر کاظمی کہتے ہیں :
اج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
شاعر کہتا ہے کہ دنیا کی رنگینی دلکشی اور رونقوں کے باوجود بھی میرے دل کے اندر کی اداسی ، بے کلی اور بے تابی ختم نہیں ہوتی تھی ۔ مجھے ہر چیز حاصل تھی مگر جانے پھر بھی کس چیز کی کمی تھی اور کون سی چیز ایسی تھی جس کی طلب اور ضرورت باقی تھی ۔ اس شعر کی خوبی اور اس کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ کس چیز کی طلب اور چبن کی وضاحت نہیں کی گئی یعنی شاعر کو خود بھی اس کے بارے میں معلوم نہیں کہ کس چیز کی طلب تھی گویا شاعر نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا ہے یعنی جانتے بجھتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کی ہے ۔یہی اس شعر کا حسن ہے جس سے اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی ہے ۔ غزل کو روایتی اور رومانوی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ محبوب کا فراق یعنی جدائی اور اس سے دوری شاعر کو بے قرار اور بے چین کر دیا کرتی تھی یا محبوب سے ملاقات اور اس کے حسن و جمال کے دیدار کی چاہت اسے ہمہ وقت بے قرار رکھتی تھی ۔
بقول جون ایلیا :
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
جب انسان کے دل میں کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو انسان اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، محنت کرتا ہے ، ذہن میں ہزاروں منصوبے بناتا ہے ، مشکلات اور تکلیفیں برداشت کرتا ہے ۔ جب تک وہ چیز حاصل نہیں ہو جاتی وہ ہمہ وقت ایک ذہنی اور قلبی بے قراری اور بے چینی کی کیفیت میں رہتا ہے ۔ ماضی میں شاعر کی حالت بھی ایسی ہی تھی اسے جس چیز کی خواہش اور طلب تھی اسے حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا تھا طرح طرح کے منصوبے بناتا تھا اور ہر وقت ایک بے قراری اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتا تھا لیکن اب حالات کی ستم ظریفی نے اسے سب کچھ بھلا دیا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کر رہا ہو کہ مجھے وہ سب بھول گیا لیکن درحقیقت وہ اسے نہیں بھولا ۔
بقول جوش ملی آبادی :
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
اس شعر کا دوسرے پہلو یہ بھی ہے کہ اہل فکر کے نزدیک چیزوں کا ہونا ان کی موجودگی اور کثرت ہی سب کچھ نہیں بلکہ ان کا صحیح استعمال انسان کو سچی خوشی دیتا ہے ۔ اسی طرح رشتوں کا ہونا اور ان کی کثرت بڑی بات نہیں بلکہ رشتوں کا احترام ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کا صحیح مقام ہی انسان کو سچی خوشی فراہم کرتا ہے ۔ جب یہ سب نہیں ہوتا تو انسان اپنے اندر کہیں کچھ کمی محسوس کرتا ہے ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ ہر وقت بے چین و بے قرار رہتا ہے ۔ ماضی میں شاعر کو بھی غالباً ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ۔ اسے جو رشتے میسر تھے ان میں احساس ذمہ داری اور احترام کی پاسداری نہیں تھی ۔ جس کی وجہ سے شاعر خود ترسی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا ۔ اس کے دل میں ہر وقت ایک چبھن اور ایک کھسک سی رہتی تھی لیکن اب وہ سب باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں ۔ وقت کے مرہم نے سب زخم مند مل کر دیے ہیں ۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا وہ لوگ نہیں رہے اب شاعر کو یاد بھی نہیں کہ ماضی میں کس وجہ سے اس کے دل میں چبھن سی رہتی تھی ۔
بقول احمد فراز :
آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
شعر نمبر 4 :
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : شبنم (اوس کے قطرے) ، عجب( منفرد ، مختلف)
مفہوم : میرا محبوب ستارہ ، شبنم یا پھول کس کی مانند تھا مجھے یاد نہیں ۔
تشریح : ہر عاشق کو اپنا محبوب دنیا کا سب سے حسین انسان لگتا ہے ۔ وہ کبھی اس کی خوبصورتی کو چاند سے تشبیہ دیتا ہے کبھی اس کی نزاکت کو پھول سے تشبیہ دیتا ہے اور کبھی اسے اتنا حسین بتاتا ہے کہ پھول بھی اس کے سامنے شرما جائے ۔ جیسا کہ میر کا شعر ہے ۔
بقول میر تقی میر :
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
اس کی آنکھوں کو ستاروں کی مانند روشن اور چمکدار بناتا ہے اور اس کی چال ڈھال اور لب رخسار ، قدو قامت اور گیسوں کو مختلف اشیاء سے تشبیہ دیتا ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کے تین استعارے استعمال کیے ہیں ۔ ستارہ ، شبنم اور پھول یہ سب خوبصورتی کی علامات ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ ماضی میں جب محبوب کی محبت میرے دل میں جوان تھی اور زندہ تھی محبوب مجھے دنیا کا سب سے حسین انسان معلوم ہوتا تھا ۔ اس کا روشن چہرہ مجھے آسمان کے چمکتے ستارے کی مانند لگتا تھا اور اس کی نرم مزاجی اور نرم روی میرے دل و جگر کو شبنم کی مانند ٹھنڈک پہنچاتی تھی ۔ اس کی نزاکت پھول کی نازک پنکھڑیوں کی سی تھی ۔ میرا محبوب خوبصورت ، دلفریب اور منفرد تھا لیکن گردشِ زمانہ نے میرے دل و دماغ سے محبوب کی یادوں کے سب نقوش مٹا دیے ۔ مجھے اب یاد نہیں کہ محبوب ستارے کی مانند روشن چہرے کا مالک تھا یا شبنم کی طرح دل کو ٹھنڈک پہنچانے والا ، یا پھول جیسا خوبصورت تھا ، نرم و نازک اور خوشبودار تھا۔ زمانے کی سختی اور تلخیوں نے میرے ذہن و دل سے سب کچھ محو کر دیا ۔
بقول احمد مشتاق :
بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے
اور بقول احمد فراز :
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
شاعر نے اس شعر میں بھی غم زمانہ کی شدت کا اظہار کیا ہے کہ مجھے اتنے غم ملے اور مجھے اتنے مخدوش اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ جن میں الجھ کر میں محبوب کی یادیں اس کا حسن و جمال ، اس کی شکل و صورت اور نقوش سب کچھ بھول گیا ہوں ۔ شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر دراصل تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کر رہا ہے کہ مجھے محبوب کی شکل و صورت اور اس کی یادیں سب کچھ بھول گیا لیکن درحقیقت وہ اسے بھولا نہیں ۔ آج بھی وہ اسے کبھی کبھی یاد آتا ہے ۔ ناصر کاظمی ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
کون ہے تو ، کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
شعر نمبر 5 :
کیسی ویراں ہے گزرگاہ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : گزرگاہ (خیال خیال کا راستہ ، خیال کی شاہراہ ) ، رخسار لب (ہونٹ) ، عارض و لب( مراد چہرہ )
مفہوم : جب سے مجھے محبوب کا چہرہ یاد نہیں تب سے میری گزرگاہ خیال ویران ہو گئی ہے ۔
تشریح : یاد انسانی نفسیات کا ایک پہلو ہے کہ جس میں انسان خود بادشاہ ہوتا ہے اور یاد کے سلسلے کو انسان جتنا چاہے طویل کر سکتا ہے ۔ خوشگوار یادیں تنہائیوں کو حسین بنا دیتی ہیں۔ تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کی یاد کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ محبوب سے جُدا ہونے کے بعد محبوب کی خوبصورت اور خوشگوار یادیں ہی عاشق کی خوشی کا سامان ہوتی ہیں جنہیں وہ فرصت کے لمحات میں ذہن و دل میں تازہ کر کے بے خود اور سرشار ہو جاتا ہے ۔ محبوب کی یاد اور اس کے تصور سے خیالوں کی دنیا میں ایک رونق اور میلا سا لگا رہتا ہے ۔ محبوب کی یاد کی بدولت اس کی تنہائی حسین اور خوشگوار ہو جاتی ہے ۔ ہجر میں بھی وہ وصال کی مسرت پاتا ہے ۔
بقول مومن خان مومن :
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک عرصہ سے مجھے محبوب کی یاد نہیں آئی اس کے لب و رخسار اور اس کا حسن و جمال مجھے بھول گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے میرے خیالوں کے گزرگاہ ویران اور سنسان ہو چکی ہے ۔ جب تک میرے ذہن و دل میں محبوب کی یاد تازہ تھی مجھ پر خوشی اور مسرت کی کیفیت طاری رہتی تھی لیکن جب سے میں محبوب کی یاد سے غافل ہوا ہوں اور اس کا تصور بھلا بیٹھا ہوں میرا ذہن اور دل خوبصورت خیالوں سے خالی ہو چکا ہے ۔ میرے خیال کی شاہراہ ویران ہو چکی ہے ۔ شاعر استفہامیہ انداز میں حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ گزر گاہ خیال کیسے ویران ہو گئی ؟ اب یہاں پہلے جیسی رونق نہیں رہی ۔
بقول یامین غوری :
تیرے دم سے رونقیں تھی ساری ہم نشین
زندگی میں پہلے سی وہ بات اب نہیں
اور بقول غالب :
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
عموماً جس راستے سے مسافر گزرتے رہیں وہ راستہ آباد اور پر رونق رہتا ہے لیکن جس راستے سے مسافر گزرنا چھوڑ دیں وہ راستہ ویران ہو جاتا ہے ۔ شاعر ماضی میں ہر وقت محبوب کے حسن و جمال اور لب و رخسار کے تصورات میں کھویا رہتا تھا جس کی وجہ سے ذہن میں ایک رونق اور میلا سا لگا رہتا تھا لیکن زمانے کی تلخیوں اور مخدوش حالات کی وجہ سے اس کے ذہن و دل سے محبوب کی یاد محو ہو گئی ہے ۔ وہ محبوب کا حسن و جمال اور اس کے لب و رخسار کی رعنائی بھول چکا ہے ۔ ایک عرصہ سے اس کے خیال کی شاہراہ پر محبوب کی یاد کا گزر ہی نہیں ہوا ۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ پھر سے وہی خوبصورت دن لوٹ آئیں ۔
بقول مرزا غالب :
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
شعر نمبر 6 :
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو اب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : دیار (ملک ، شہر)
مفہوم : ماضی کے شہر اور بستیاں جہاں ہم رہتے تھے اب بھولتی جا رہی ہیں میں یاد کرنے کی کوشش بھی کروں تو اب یاد نہیں آتیں کہ وہ کہاں تھی ۔
تشریح : انسانی نفسیات ہیں کہ جو منظر اس کی نگاہوں کے سامنے سے بار بار گزرتا رہے وہ اسے یاد رہتا ہے لیکن اگر وہ منظر دوبارہ نظر نہ آئے تو کچھ عرصہ تک تو ذہن میں اس کی یاد باقی رہتی ہے اور اس کے بعد وہ بھول جاتا ہے یعنی کسی بھی چیز کے تکرار سے وہ حافظہ میں محفوظ رہتی ہے ورنہ وہ بھول جاتی ہے ۔ علم نفسیات کی رو سے شعور ، لاشعور اور تخت الشعور انسانی دماغ کے تین افعال ہیں ۔ ہماری یاد آج شعور سے لاشعور میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ کافی عرصہ تک استعمال نہیں ہوتی تو بالاخر تخت و شعور میں چلی جاتی ہے ۔ جہاں سے کوشش کے باوجود بھی اسے پھر سے تازہ نہیں کیا جا سکتا ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے ۔ ناصر کاظمی کو ہجرت کا عظیم سانحہ دیکھنا پڑا جس کے نتیجے میں اسے اپنے آبائی شہر انبالہ سے ہجرت کر کے پاکستان لاہور میں آنا پڑا ۔ یہاں آنے کے بعد کام کی مصروفیت کی وجہ سے اور کچھ نامساعد حالات کی سختی اور تلخیوں میں الجھنے کی وجہ سے اسے ماضی کی یادیں تازہ کرنے کی فرصت ہی نہ ملی چنانچہ اسے ماضی بھولتا چلا گیا اور اب اس کی یہ کیفیت ہے کہ کوشش کے باوجود بھی اسے کچھ یاد نہیں آتا ۔
بقول احمد فراز :
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
عموماً شعراء کے ہاں یہ مضمون کثرت سے ملتا ہے کہ ماضی کی یاد انہیں نہیں بھولتی ، چاہے وہ خوشگوار یادیں ہوں یا المناک ماضی ان کا مسلسل پیچھا کرتا رہتا ہے ۔ وہ ماضی کو بولنا چاہتے ہیں لیکن کوشش کے باوجود بھی نہیں بھلا پاتے بلکہ جتنا بھولنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی بڑھ کر یاد آتا ہے ۔
بقول حسرت موہانی :
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیوں پر یاد آتے ہیں
ماضی اگر الم ناک ہو تو وہ نہ صرف یہ کہ بھولتا نہیں بلکہ بار بار یاد آنے پر اذیت بھی دیتا ہے یہاں تک کہ شاعر تنگ آ کر خدا سے اپنے حافظہ کے زائل ہونے کی دعا کرتا ہے تاکہ وہ بار بار کی ذہنی اذیت سے بچ جائے ۔
بقول اختر انصاری :
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن ناصر کاظمی نے یہاں اس سے مختلف مضمون باندھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ماضی کی خوشگوار یادیں اور میرے ہمدرد ، ہم خیال دوست احباب اب مجھے بھولتے جا رہے ہیں ۔ جن بستیوں میں کبھی میں رہا کرتا تھا اب ایک عرصہ ہوا کہ وہاں جانا نہیں ہوا اور انہیں دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ وہاں کے در و دیوار ، گلی کوچے ، خوشنما اور پر فضا ماحول ، دوست احباب اور رشتہ دار وغیرہ جن کے درمیان میری زندگی کا ایک بڑا حصہ گزرا اب ان کی یاد بھی ذہن سے محو ہو چکی ۔ اب اگر انہیں میں یاد بھی کرنا چاہوں تو وہ یاد نہیں آتے ۔ زمانے کی گردش نے یادوں کے سب نقوش مٹا دیے ہیں۔
بقول مرزا غالب :
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزمِ آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
غزل کی روایتی انداز میں دیار سے مراد محبوب کا شہر بھی ہو سکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب میں محبوب کے شہر اور اس کی گلی کوچوں میں روزانہ صبح آیا جایا کرتا تھا ۔ محبوب سے اور محبوب کے دیار سے خوبصورت اور خوشگوار یادیں وابستہ تھیں ۔ وہاں کے در و دیوار گلی کوچوں اور لوگوں سے یادیں وابستہ تھیں ۔ اب محبوب سے جدا ہوئے ایک عرصہ ہو چکا اور گردش زمانہ نے ان تمام یادوں کے نقوش میرے ذہن و دل سے مٹا دیے ہیں۔ اب اگر میں کوشش بھی کروں تو مجھے کچھ یاد نہیں آتا ۔
بقول احمد مشتاق :
بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے
شعر نمبر 7 :
یہ رشتہ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : رشتہ جان( جان کا رشتہ) ، صورت (شکل ، چہرہ)
مفہوم : وہ شخص جس کا خیال میرے لیے زندگی کی مانند تھا اب اس کا چہرہ بھی مجھے یاد نہیں ۔
تشریح : محبوب کی یاد اردو غزل کا حسن ہے ۔ شاعر یادوں کے سہارے زندہ رہتا ہے اور یادوں سے دل بہلاتا ہے انہی میں خوشیاں تلاش کرتا ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر نے یہ مضمون باندھا ہے کہ نا سازگار حالات کے باعث محبوب کی یادوں کے عکس دھندلا گئے ہیں اور محبت کی دنیا خواب و خیال ہو گئی ہے ۔ زمانے کی گردش نے محبوب کے نقوش مٹا دیے ہیں چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ وہ محبوب جس کا تصور اور خیال بھی میرے لیے زندگی کی علامت ہوا کرتا تھا جس کی یاد اور جس کے خیال سے میرے ویران دل کی دنیا روشن اور آباد ہو جاتی تھی ، میری زندگی کی تمام خوشیاں اور رونقیں لوٹ آتی تھیں ، اب حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے اس کا چہرہ بھی مجھے یاد نہیں ۔ ایک اور جگہ ناصر کاظمی یہی مضمون باندھتے ہیں :
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کے خیال کو رشتہ جان کہا ہے یعنی محبوب تو محبوب اس کا خیال بھی میرے لیے زندگی کی مانند ہوا کرتا تھا ۔ اس کے خیال کی بدولت میرے تن مردہ میں زندگی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی ۔ محبوب کا خیال ایسی روشنی تھا کہ جس کے آنے سے دل کی دنیا روشن ہو جاتی تھی۔ محبوب کا تصور زندگی کی علامت ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا ۔
بقول علامہ اقبال :
میری زندگی کا نور ہے تو
میرے دل کا سرور ہے تو
شاعر کو ہجرت کی وجہ سے محبوب سے جدا ہونا پڑا اور نئے ماحول سے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے پہلے جیسی محبت رہی نہ دیوانگی اور شدت احساس حالات کی ستم ظریفی اور کام کی مصروفیت نے محبوب کی یاد اور شکل و صورت تک بھلا دی ہے۔ چنانچہ شاعر نے غم زمانہ کی شدت کا اظہار کیا ہے کہ مجھے اتنے غم ملے اور مجھے اتنے مخدوش اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ جن میں الجھ کر میں محبوب کی حسین یادیں اس کا حسن و جمال اس کی شکل و صورت اور نقوش سب کچھ بھول گیا ہوں ۔ شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر دراصل تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے انجان بننے کی کوشش کر رہا ہے کہ مجھے محبوب کی شکل و صورت اس کی یادیں سب کچھ بھول گیا لیکن درحقیقت وہ اسے بھولا نہیں ۔ آج بھی اسے کبھی کبھی یاد آتا ہے۔
ناصر کاظمی ایک اور جگہ کہتے ہیں :
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
اکثر شعراء محبوب کی یاد کو زمانے کے غم پر ترجیح دیتے ہیں یعنی محبوب کی خوشگوار یادیں زمانے کے غم اور حالات کی تلخیوں کو بھلا دیتی ہے جیسا کہ حبیب جالب کہتے ہیں :
ہم زمانے کا ستم بھول گئے
جب تیرا لطفِ نظر یاد آیا
لیکن ناصر کاظمی نے یہاں زمانے کے غم کو محبوب کی یاد پر ترجیح دی ہے اور یہ مضمون باندھا ہے کہ زمانے کے غم اور حالات کی تلخیوں کی وجہ سے مجھے محبوب کی یاد اور اس کا تصور فراموش ہو گیا ہے یہاں تک کہ محبوب کا چہرہ بھی اب مجھے یاد نہیں ۔ جیسا کہ فیض احمد فیض کہتے ہیں :
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ایک اور جگہ فیض احمد فیض ہی کہتے ہیں :
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
شعر نمبر 8 :
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : احباب (دوست)
مفہوم : حقیقت یہ ہے کہ دوستوں کو ہم پہلے بھی یاد نہیں تھے جو اب ہم شکوہ کریں کہ انہوں نے ہمیں بھلا دیا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر دوست احباب سے شکوہ کرتا ہے اور ان کی بے حسی کو بیان کرتا ہے ۔ دوستی کا رشتہ خونی رشتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ دوست وہ ہے جو مشکل وقت میں دکھ درد میں ساتھ دیتا ہے ۔ تنہائی میں ساتھ وقت گزارتا ہے ۔ مایوسی میں حوصلہ بڑھاتا ہے اور ہمت دلاتا ہے ۔ خوشیوں میں شریک ہو کر انہیں دوبالا کر دیتا ہے الغرض دوست ایک بہترین سہارا ہوتے ہیں لیکن اگر دوست مفاد پرست اور مطلبی ہوں تو ان کی وجہ سے دکھوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے پھر انسان کہتا ہے کہ اتنا دکھ مجھے دشمنوں نے نہیں پہنچایا جتنا دوستوں کے ہاتھوں مجھے دکھ ملا ۔
بقول حبیب جالب :
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں دونوں بھی کیا کمی کی ہے
شاعر کہتا ہے کہ انبالہ میں رہتے ہوئے میرے دوستوں نے کبھی میرا حال نہیں پوچھا اور کبھی مجھے یاد نہیں انہوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا اور نہ خیال رکھا ۔ جب اچھے دنوں میں انہوں نے مجھے یاد نہیں کیا تو اب برے دنوں میں جب میں ہجرت کر کے ان سے دور تنہا زندگی گزار رہا ہوں وہ مجھے کیا یاد کریں گے ۔ جب اس وقت انہوں نے میرا کبھی حال نہیں پوچھا جب میں ان کے پاس ہوتا تھا اب ان کے تغافل اور ان کی بے رخی پر کیا شکوہ کہ وہ اب مجھے کیوں یاد کریں گے ۔ سچ تو یہ ہے کہ دوستوں نے مجھے کبھی یاد ہی نہیں کیا ۔ جو وہ اب مجھے یاد کریں گے ۔
بقول شاعر :
کوئی دوست ہے نہ رقیب ہے
تیرا شہر کتنا عجیب ہے
یہاں کس کا چہرہ پڑھا کروں
میرے کون اتنا قریب ہے
میں کس سے کہوں میرے ساتھ چل
یہاں سب کے سر پر سلیب ہے
گلا کریں تو کس سے کریں
جو ہو گیا وہ نصیب ہے
مشہور ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے جب کوئی اپنے عزیز یا دوست کو یاد کرتا ہے تو اس کے دل کو بھی خبر ہو جاتی ہے کہ اس کا دوست اسے یاد کر رہا ہے ۔ انسان کی چھٹی حس اسے آگاہ کر دیتی ہے اور اس کے دل میں بھی اپنے عزیز دوست کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ شاعر چونکہ ایک عرصہ سے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے دور ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اگر میرے دوست احباب مجھے یاد کرتے تو میرے دل کو ضرور خبر ہو جاتی لیکن جب وہ مجھے اس وقت بھی یاد نہیں کیا کرتے تھے تو اب کہاں یاد کرتے ہوں گے ۔
بقول جون ایلیا :
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
دراصل لوگ مفاد پرست ہوتے ہیں مطلب کہ خاطر ملاقات کرتے ہیں مطلب براری کے بعد اپنا رخ بدل لیتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ آج مادیت پرستی کے زمانے میں ہر شخص بے حسی اور خود غرضی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اپنی ذات کے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتا ۔ ہر شخص کو اپنے اپنے دکھوں ، مصائب اور مشکلات کی فکر رہتی ہے ۔ کوئی بھی دوسروں کے دکھ درد اور مصائب و مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتا ۔ شاعر کو بھی اپنے دوست احباب سے یہی شکوہ ہے کہ ہر دوست اپنے آپ میں محو و مگن ہے ۔ کسی کو میرا خیال تک نہیں آتا ۔ کوئی میرے دکھ درد اور مسائل و مصائب کی طرف توجہ نہیں کرتا ۔ ایک اور جگہ ناصر کاظمی زمانے کے بے حسی کا اسی طرح شکوہ کرتے ہیں :
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد اشنا کہے کوئی
کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی
شعر نمبر 9 :
یاد ہے سیر چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد
نہیں مشکل الفاظ کے معانی : سیر چراغاں (روشنیوں کی سیر مراد اچھے دن) ، دل کا بجھنا (مایوس ہونا ، افسردہ ہونا)
مفہوم : مجھے زندگی کے اچھے دن اور خوشیاں تو یاد ہیں لیکن میرا دل کیوں اداس ہے یہ یاد نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے وہ زندگی کے اچھے دن اور خوشیوں بھرے لمحات یاد ہیں جو میں نے اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محبوب کے ہمراہ گزارے تھے ۔ وہ خوشی کی محفلیں جن میں میں ان کے ہمراہ لطف اندوز ہوا کرتا تھا آج بھی مجھے یاد ہے لیکن اب میرا دل بجھ سا گیا ہے ۔ اب میں اکتا سا گیا ہوں۔ میرے دل میں ایک عجیب اداسی چھائی ہوئی ہے ۔ میرا دل ہر چیز سے بیزار ہو گیا ہے ۔ ناصر کاظمی ایک اور جگہ کہتے ہیں :
اج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ انسان جب خوش ہوتا ہے تو وہ میلوں ٹھیلوں کی طرف رخ کرتا ہے اور سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ ناصر کے زمانہ میں لاہور میں میلہ چراغاں لگا کرتا تھا چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ مجھے لاہور کے میلہ چراغاں کی سیر یاد ہے ۔ وہاں خوشی و مسرت اور رونقوں بھرا ماحول ہوا کرتا تھا لیکن اب میرا دل اداس اور بیزار ہو گیا ہے ۔ مجھے کسی بھی تفریحی مقام کی سیر کا لطف نہیں آتا ۔ شاعر نے یہاں دل کی بیزاری اور اداسی کا سبب نہیں بتایا اس کی وجہ محبوب سے جدائی اور تنہائی بھی ہو سکتی ہے اور رشتوں میں عدم احساس اور صحیح مقام نہ ملنے سے دل میں جو ایک خلا اور کمی سی پیدا ہو جاتی ہے وہ بھی ہو سکتی ہے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ ناصر کاظمی کی غزل ” سفر منزل شب یاد نہیں” کی تشریح و توضیح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.