سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
آج کی اس پوسٹ میں ہم فیڈرل بورڈ جماعت گیارہویں کی ایک غزل ” سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں ” جس کے شاعر فراق گورکھ پوری ہیں ، کی تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : سودا (شوق ، جنون ، عشق) ، تمنا (آرزو , خواہش) ، ترک محبت( محبت کو چھوڑنا ، محبت ختم کرنا) ، بھروسہ( یقین ، اعتماد)
مفہوم : میرے دل و دماغ میں عشق کی دیوانگی باقی نہیں رہی اور دل میں آرزو بھی نہیں ہے ۔ اگرچہ میں نے محبت ترک کر دی ہے لیکن خود پر بھروسا نہیں کہ یہ جذبہ پھر کب بیدار ہو جائے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے منفرد انداز میں جذبہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ شاعر کہتے ہیں کہ میں نے عشق میں کچھ ایسے زخم کھائے ہیں کہ اب اس کا بھوت میرے سر سے اتر گیا ہے ۔ اب میرے سر میں وہ پہلے کسی سی عشق کی دیوانگی باقی نہیں رہی اور دل میں محبوب کو حاصل کرنے کی خواہش بھی باقی نہیں رہی تاہم مجھے محبت کرنے کا کچھ اعتبار بھی نہیں کہ کب محبت پھر سے شروع کر دوں اگرچہ میں نے محبت ترک کر دی ہے لیکن اس ترک محبت کا کچھ بھروسا نہیں ہے ۔
جب سے میں نے محبوب سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ۔ میرے دماغ میں موجود عشق و محبت کا جنون سرد پڑ چکا ہے ۔ میرے اندر عشق نے انگڑائیاں لینا چھوڑ دی ہیں میری بے قراریاں دم توڑ چکی ہیں ۔ محبت اب مجھے اب اپنے محبوب سے کوئی سروکار نہیں نہ مجھے اب اس سے کوئی رابطہ رکھنا ہے اور نہ اس کی محبت میں مارا مارا پھرنا ہے ۔
بقول فرحت عباس شاہ :
اب اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طے ہوئی لیکن سوال درد کا ہے
میرا دل تمناؤں سے خالی ہو گیا ہے اور خوشیاں اس سے رخصت ہو گئی ہیں ۔ امیدیں اس گھر کی باسی نہیں رہی آرزوئیں وادی دل میں نہیں اترتی ۔ دوسرے مصرعے میں عشق کے اختیارات کی بات کرتے ہیں کہ عشق پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا یہ جس من میں سما جائے وہاں سے واپس نہیں پلٹتا ۔ عشق کے جذبے کے متعلق اردو شاعری کے غالب ترین شاعر غالب کیا خوب کہتے ہیں ۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اصل میں شاعر یہ کہتے ہیں کہ میں نے ترک محبت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن مجھے اپنے آپ پر بھروسا نہیں ہے کہ یہ جذبہ عشق نہ جانے کب پھر سے بیدار ہو جائے ۔ شاعر زبان سے تو انکار عشق کرتا ہے لیکن دل مسلسل اقرار عشق کر رہا ہے ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
شعر نمبر 2 :
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی :
مدت ( عرصہ ، وقت) ، یاد( خیال ، سوچ) ، بھول گئے( یاد نہ رہا) ، ایسا بھی نہیں( ایسی بات نہیں)
مفہوم : اے محبوب ایک مدت گزر گئی لیکن تمہارا تذکرہ نہ ہوا اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم تجھے بھول ہی گئے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر ہر عاشق کی فطرت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیاوی مصائب و مسائل میں گھر جانے کے سبب میں وہ بھی یادوں سے محو ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا گردشِ حالات نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ دیار محبوب کو بھی چھوڑنا پڑا ۔ روزگار کی تلاش میں اس قدر مگن ہوئے کہ ایک عرصہ تک محبوب کی یاد بھی نہ آئی ۔ ایسی ہی کیفیت کا اظہار مشہور شاعر حضرت موہانی کچھ اس طرح کرتے ہیں :
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
دوسرے مصرعے میں شاعر محبوب سے مخاطب ہیں اور اسے یقین دلانے کے انداز میں کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے زندگی کی مصروفیات نے ہمیں تم سے غافل رکھا اور ہم نے تجھے یاد نہیں کیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم تجھے بھول گئے ہوں ۔
بقول پروین شاکر :
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
دراصل شاعر کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں محبوب کی یاد ستاتی ہے جب وہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں تو کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں اور محبوب کی یاد تک نہیں آتی ۔ بعض اوقات زندگی کی مشکلات اور مصروفیات دل و دماغ پر اتنی غالب آ جاتی ہیں کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا لیکن جب ایک بار محبوب کی یاد تازہ ہو جائے تو پھر وہ دنیا کی ہر چیز کو بھلا دیتی ہے اور کچھ دیر کے لیے شاعر ہر چیز سے بے خبر ہو جاتا ہے ۔
بقول جگر مراد آبادی :
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
شعر نمبر 3 :
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : غفلت( بھول چوک) ، پہلے سے سوا( پہلے سے بڑھ کر ) ، خاطر بیمار( بیمار کے لیے) ، شکیبا ( تسلی ، صبر)
مفہوم : آج محبوب کی آنکھوں میں پہلے سے بڑھ کر غفلت اور لاپرواہی دکھائی دے رہی ہے اور آج ہی مجھ بیمار عشق کو کوئی تسلی دینے والا بھی کوئی نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کے فطری انداز لاپرواہی کو بیان کر رہے ہیں شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کی آنکھوں میں غفلت کا پایا جانا معمولی بات ہے لیکن آج محبوب کی آنکھوں میں پہلے سے بڑھ کر بے رخی اور بے اعتنائی دکھائی دیتی ہے تو اس بات کا بہت دکھ ہوا ۔ شاعر محبوب سے مخاطب ہیں کہ اے محبوب ہمارے اور تمہارے درمیان ایک خاص تعلق ہے ۔ تم نے ہمیشہ ہمارے ساتھ غفلت کا رویہ اپنایا ہے جو آج پہلے سے بہت بڑھ کر سامنے آیا ہے اور اردو کی کلاسیکی شاعری میں عاشق کو ہمیشہ مشتاق اور محبوب کو لاپرواہ دکھایا جاتا ہے ۔
بقول غالب :
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہیٰ یہ ماجرہ کیا ہے
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے مایوس کن رویے کے بعد عاشق کو تسلی دینے کے لیے کسی کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن بیمار عشق کو تسلی دینے والا کوئی نہیں جب محبوب غیر بن کر ملتا ہے تو شاعر کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔ اس کے صبر کے سارے ضبط ٹوٹ جاتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ پہلے تو میرا دل محبوب کی بے رخی پر صبر کرنے کا عادی ہو چکا تھا لیکن آج محبوب بھی بے رخی برتنے میں بہت آگے جا چکا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میرا دل آج بھی صبر کرتا لیکن آج تو دل کو کسی طرح صبر آ ہی نہیں رہا ۔
بقول مومن خان مومن :
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں آتا
شعر نمبر 4 :
بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : سکون (آرام ، اطمینان) ، دل وحشی( دیوانہ دل ، پاگل دل) ، کنج زندں( جیل کا گوشہ ، قید خانہ ) ، وسعت( پھیلاؤ ، وسیع ہونا) ، صحرا ( ریگستان)
مفہوم : اصل بات یہ ہے کہ میرے پاگل دل کا علاج تو قید خانے میں ہے اور نہ صحراؤں کی وسعت میں ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی سکون دل کا نام ہے لیکن یہ سکون دل عاشق کی زندگی سے اس طرح نکل چکا ہے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔ اس لیے وہ دلی قرار کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ اسے قرار اور سکون حاصل نہیں ہو پاتا ۔ وہ اپنے آپ کو پابند سلاسل بھی کر لیتا ہے دنیا سے ناطہ توڑ کر جنگلوں اور صحراؤں کا مقیم بھی بن جاتا ہے لیکن اس کا اضطراب بڑھتا ہی جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں وہ سکون کا اور زیادہ متلاشی ہو جاتا ہے ۔
بقول شاعر :
سکون درکار ہے لیکن سکوں حاصل نہیں ہوتا
ذرا جو دل کو ٹھہرا دے وہ درد دل نہیں ہوتا
تابش دہلوی
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتے ہیں کہ سکون کا طالب عاشق سکون پانے کے لیے صحراؤں اور جنگلوں کا رخ کر لیتا ہے لیکن لوگ اسے دیوانہ سمجھ کر پس زندان ڈال دیتے ہیں لیکن اسے نہ قید خانے میں سرور زندگی حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی وسیع صحراؤں میں دربدر بھٹکنے سے سکون حاصل ہوتا ہے ۔
بقول آزاد انصاری :
ہم کو نہ مل سکا فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
دراصل شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیوانوں کی دیوانگی کا اصل علاج محبوب سے وصال اور ملاقات ہے ۔ ان کے دل کی بے سکونی سکون میں تبھی بدل سکتی ہے جب محبوب ان کے سامنے ہوگا ۔ اس کے سوا ان کی وحشت اور دیوانگی کا کوئی علاج نہیں ۔
شعر نمبر 5 :
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی: صیاد (شکاری) ، گل( پھول)
مفہوم : اے صیاد پھول بھی ہم ہیں اور بلبل بھی ہم ہیں افسوس تو نے کچھ سنا نہ دیکھا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے شاعرانہ تعلیٰ سے کام لیا ہے ۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے صیاد وہ خوبصورت اور خوش نما پھول ہم ہی ہیں جس کی خوشبو سے تمام ماحول معطر ہے جس کی رعنائی کے چرچے پورے عالم میں ہیں ۔ وہ بلبل بھی ہم ہی ہیں جس کے نغمے اور زمزمے کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔
بقول قتیل شفائی :
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
لیکن افسوس کہ محبوب ایسا بد ذوق اور کوتاہ نظر نکلا کہ اس نے نہ وہ پھول دیکھا نہ اس کی وہ خوشبو سونگھی اور نہ رعنائی دیکھی ، نہ وہ بلبل دیکھا اور نہ اس کے وہ رس بھرے نغمے سنے بلکہ ایک ان میں پھول کو بھی تو نے توڑ ڈالا اور بلبل کو بھی شکار کر لیا ۔ شعر میں صیاد سے مراد انگریز حکمران ہیں جنہوں نے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا 1857 ء کے بعد دلی کو تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ اس کی خوبصورتی اور رعنائی کو خاک میں ملا دیا گیا ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جو مشہور شاعر بھی تھے انہیں جلا وطن کر دیا گیا الغرض انگریزوں کو اپنے مفاد سے غرض تھی ہندوستان کی خوبصورتی اور رعنائی سے کچھ سروکار نہ تھا ۔
بقول بہادر شاہ ظفر :
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلا
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
شعر نمبر 6 :
یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانہ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانہ بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : ہنگامے( شور مچانا ، اوندھم مچانا) ، دیوانہ عشق (عشق میں دیوانے ہونے والے) ، ایسوں کا( ایسے عاشقوں کا) ، ٹھکانہ (مراد اعتبار ، بھروسہ)
مفہوم : سچے عاشق زبان پر شکوے نہیں لایا کرتے لیکن دیوانگی میں آہ و فغاں کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگرچہ عشق میں دیوانے لوگ محبت کے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہیں اور محبوب کے سامنے عجز و انکساری کا اظہار کرتے ہیں لیکن ایسے دیوانوں کا کچھ بھروسہ بھی نہیں کہ یہ شوریدہ سر کب طوفان برپا کر دیں اور ان کی خاموشی کب کسی طوفان کا پیش خیمہ بن جائے ۔ ان کا کچھ بھروسا نہیں اپنی محبت کی خاطر اور محبوب کو حاصل کرنے کے لیے یہ سر پھرے دیوانے کچھ بھی کر سکتے ہیں چنانچہ ایسے دیوانوں کا کچھ بھروسا نہیں کہ کیا کر گزریں ۔
بقول شاعر :
پھر مشکل کیا آسان کیا
جب ٹھان لیا تو ٹھان لیا
شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے شاعر کہنا چاہتا ہے عاشق کو اعلی ظرف ہونا چاہیے ۔ عاشق دلی احساسات کو نوک زباں پر نہیں لاتے کیونکہ زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو راہ عشق کی ناکامیاں برداشت نہیں کر پاتے اور محبوب کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ میدان عشق میں قدم رکھنے والوں کو اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ محبوب کی طرف سے ملنے والے ظلم و ستم کو کمال صبر سے برداشت کرنا ہوگا کیونکہ بقول جگر مراد ابادی :
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
دوسرے مصرعے میں شاعر ناکام عاشقوں کا تذکرہ کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں ایسے بہت سے ناکام عاشق ڈھونڈے جا سکتے ہیں جو اس کی آزمائش برداشت نہیں کر پاتے ۔ وہ دل کے سارے راز زمانے والوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ۔ وہ ذرا بھی ندامت محسوس نہیں کرتے ۔ وہ راہ عشق کو پھولوں کی سیج سمجھ لیتے ہیں لیکن جب انہیں کانٹوں پر چلنا پڑتا ہے تو سارے ضبط توڑ دیتے ہیں عشق کی سنگلاخ سرزمین پر چلتے چلتے پاؤں آبلہ پائی کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے ناکام عاشقوں کے لیے پیغام عشق ہے ۔
بقول مصطفی زیدی :
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
شعر نمبر 7 :
منہ سے ہم اسے برا تو نہیں کہتے کہ فراق
ہے تیرا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : منہ سے( زبان سے) ، برا کہنا (برائی بیان کرنا) ، فراق( شاعر کا تخلص جدائی) ، دوست( قریبی دوست) ، آدمی اچھا نہیں (اچھے اخلاق کا حامل نہیں)
مفہوم : اے فراق ! تیرے دوست کے بارے میں بری رائے نہیں رکھتے لیکن اتنا ضرور بتا دیتے ہیں کہ وہ اخلاقی لحاظ سے اچھا آدمی بھی نہیں ہے ۔
تشریح : شاعر غزل کے مقطع میں کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب ہم ذوق کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے لیکن ہمارے اندر اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ اسے سر بازار برا کہہ سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارا تعلق اس کے ساتھ ہے اور محبوب سے وابستہ ہر چیز توقیر قرار قرار پاتی ہے ۔ محبوب کے ساتھ تھوڑی سی نسبت بھی معمولی چیز کو نادر و نایاب بنا دیتی ہے اور کوئی بھی شخص اس پر انگلی اٹھانے سے گریز کرتا ہے ۔
بقول شاعر :
ہو گئی آپ سے نسبت جسے اے دلربا
میری کیا طاقت کہ اس کو میں برا کہتا پھروں
دوسرے مصرعے میں شہر اپنی جرات آمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچی بات زبان پر لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے دوست وہ شخص تیرا دوست ضرور ہے لیکن کہنے والا کہتے ہیں کہ وہ برے اخلاق کا حامل ہے ۔ اچھا آدمی نہیں ہے ۔ زبان کا برا ہے ۔ اخلاقی برائیوں کا حامل ہے ۔ ہم تو سچی بات نوک زبان پر لے آئے ہیں ۔ اب یہ بات تم پر منحصر ہے اب تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی اصلاح کیسے کرتے ہو ۔ اسے خوش اخلاق کیسے بناتے ہو اس کو راہ راست پر کیسے لاتے ہو کیونکہ کہا جاتا ہے دوست ہی دوست کے لیے بہت بڑا مثل ثابت ہوتا ہے اصل میں شاعر یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ یار انسان خدا کا بندہ ہی ہوتا ہے کسی بھی انسان کے بارے میں رائے دینے سے پہلے ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اس کا خدا کے ساتھ جو تعلق ہے اس کے افعال کی جزا اور سزا کا اختیار بھی اللہ کے پاس ہے اس لیے ہمیں کسی کی برائی کو اچھالنے کی بجائے خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ فراکھ گورکھپوری کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
السلام علیکم محترم۔۔ بہت ہی شاندار کاوشیں آپ کی۔۔ بہت شکریہ آپ کا اتنا بہترین مواد مہیا کیا۔۔ سر دہم اور بارہویں جماعت کا نیا نصاب آجکا کے۔۔اس ے نوٹس کب تک اپلوڈ کریں گے؟
وعلیکم السلام
میں آج کل اپنے امتحانات میں مصروف ہوں ۔ ان شاءاللہ جلد ہی نئے نصاب پر کام شروع کروں گا ۔