آج کی اس پوسٹ میں ہم ن۔ م ۔ راشد کی نظم ستارے جو کہ ایک سانیٹ ہے ، کی تشریح کریں گے ۔
بند نمبر 1 :
نکل کر جوئے نغمہ خلد زار ماہ و انجم سے
فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ
یہ سوئے نوحہ آباد جہاں آہستہ آہستہ
نکل کر آ رہی ہے ایک گلستان ترنم سے
مشکل الفاظ کے معانی : جوئے نغمہ( نغموں کی نہر ، نغموں کی ندی) ، خلد( جنت) ، زار (وہ جگہ جہاں کوئی چیز بہت زیادہ پائی جائے بطور لاحقہ استعمال ہوتا ہے ) ، ماہ و انجم( چاند اور ستارے) ، فضا( زمین و آسمان کے درمیان خلا ) ، وسعتوں )وسعت کی جمع پھیلاؤ ، کشادگی) ، رواں ( جاری ہونا ، بہنا ) ، سوئے (کی طرف) ، نوحہ آباد جہاں ( دنیا کا غم کدہ) ، گلستان ترنم ( نغموں کا باغ)
مفہوم : نغموں کی نہر چاند ستاروں کی جنت سے نکل کر آسمان کی وسعتوں میں آہستہ آہستہ رواں ہے ۔ یہ ترنم کے گلستان سے نکل کر دنیا کے غم کدے کی جانب آہستہ آہستہ آ رہی ہے ۔
تشریح : ن ۔ م ۔ راشد (نذر محمد راشد) کا شمار جدید نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ یہ عام روش سے ہٹ کر چلے اور انھوں نے نظم کی ہیئت اور اسلوب میں بہت سے تجربے کیے ۔ علامات ، رمز و کنایہ اور ابہام کی کثرت کی وجہ سے ان کی شاعری عام فہم نہیں ہے ۔ ان کی شاعری کا محور و مرکز آفاقی انسان ہے جو اقدار کی شکست وریخت نے اپنے وجود کے معنی و مفہوم کھو بیٹھا ہے۔ یہ اسے اس کے وجود کا احساس دلاتے ہیں ۔ نظم ستارے ہیئت کے لحاظ سے سانیٹ ہے ۔ نظم کی یہ ہیئت انگریزی سے مستعار لی گئی ہے ۔ سانیٹ میں چودہ مصرعے ہوتے ہیں اور یہ دو بند پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پہلا بند چار چار مصرعوں کے دو حصوں پر تقسیم ہوتا ہے اور دوسرا بند تین تین مصرعوں کے دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ تمام مصرعوں میں قافیہ کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے ۔ ن ۔ م ۔ راشد نے سانیٹ کی ہیئت میں بھی کئی تجربے کیے۔ اس نظم میں شاعر نے انسان کے جنت سے نکالے جانے اور زمین کے ظلمت کدہ میں آباد ہونے کو علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔ انسان کی اس جلاوطنی کے دکھ کو شاعر نے ستاروں کی زبانی بیان کیا ہے اور انسان کو اپنی گمشدہ جنت پانے کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو پیدا کیا تو ابتدا میں انہیں جنت میں ٹھہرایا تھا ۔ لیکن شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی وجہ سے انھیں جنت سے جلا وطن کر دیا گیا اور زمین پر بھیج دیا گیا ۔ زمین آزمائشوں اور غموں کا گھر ہے۔ یہاں رہتے ہوئے انسان کو اپنی گم شدہ جنت کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ رات کے وقت آسمان پر چمکتے ہوئے چاند اور ستارے اپنی خاموش زبان میں انسان کو نغمے سنا رہے ہیں تاکہ انسان اپنی جلاوطنی کا غم بھول جائے ۔ چاند ستارے نغمے سناتے ہوئے آسمان کی وسعتوں میں خراماں خراماں محو سفر ہے۔ ان کا رخ زمین کے غم کدے کی جانب ہے ۔ چاند ستاروں کی دودھیا روشنی ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے جنت سے کوئی ندی بہہ رہی ہو اور وہ خاموش زبان سے اپنی لہروں اور موجوں سے نغمے سنا رہی ہے۔ چاند ستاروں کی یہ ندی آہستہ آہستہ زمین کے ظلمت کدے اور غم کدے کی طرف رواں دواں ہے ۔ یہ ندی ترنم کے گلستان سے نکل کر آ رہی ہے ۔
بقول علامہ محمد اقبال :
زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو
چمکنے والے مسافر ! عجب یہ بستی ہے
جو اوج ایک کی ہے دوسرے کی پستی ہے
شاعر نے دنیا کو نوحہ آباد کہا ہے یعنی دنیا غموں کا گھر ہے ۔ یہاں ہر شخص آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرا رہتا ہے ۔ اس وجہ سے دنیا میں ہر وقت نوحہ گری جاری رہتی ہے۔ ستاروں کے یہ نغمے ترنم کے گلستاں یعنی جنت سے نکل کر آ رہے ہیں ۔ جہاں دنیا کے غم کدے کی طرح رونا دھونا اور نوحہ گری نہیں ہے ۔ وہاں ہر وقت خوشی و مسرت کے نغمے سنائی دیتے ہیں ۔ انسان اپنے اصلی گھر یعنی جنت سے جلا وطن ہو کر زمین پر آ بسا ہے لیکن وہ مکمل طور پر اس کے ماحول میں ڈھل نہیں سکا ۔ جنت میں کوئی غم نہیں تھا ۔ ہر لمحہ خوشیاں ہی خوشیاں تھیں جبکہ زمین پر اسے ہر پل ہزاروں آزمائشوں اور غموں کا سامنا رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان ہر لمحہ بے آرام اور پریشان رہتا ہے ۔ وہ اپنے اصلی گھر کی تلاش میں رہتا ہے اور ویسا ہی عیش و آرام چاہتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ چاند ستارے انسان کی تسلی اور دل جوئی کے لیے اسے نغمے سناتے ہیں ۔
بند نمبر 2 :
ستارے اپنے میٹھے مد بھرے ہلکے تبسم سے
کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ
سناتے ہیں اسے اک داستان آہستہ آہستہ
دیارِ زندگی مدہوش ہے ان کے تکلم سے
مشکل الفاظ کے معانی : مد بھرے (مست ، نشیلے ، سریلے ) تبسم (مسکراہٹ) ، فطرت کو جمع کرنا (فطرت کو عروج پر پہنچانا ، جوبن پر لانا) ، داستان (طویل کہانی) ، دیار زندگی( زندگی کا شہر) مدہوش (بدمست ، سرشار ) تکلم (کلام ، گفتگو )
مفہوم : ستارے اپنی نشیلی مسکراہٹ سے حسنِ فطرت کو آہستہ آہستہ جوان کر رہے ہیں اور ایک کہانی سنا رہے ہیں۔ ان کی گفتگو سے زندگی مدہوش ہو گئی ہے۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ ستارے جنت سے جلا وطن کیے گئے انسان کو نغمے سنا رہے ہیں اور اسے اپنی گمشدہ جنت کو پا لینے کی ترغیب دے لا رہے ہیں۔ شاعر نے ستاروں کے چمکنے کو ان کی مسکرانے سے تشبیہ دی ہے ۔ مسکراتے چہرے اداس رنجیدہ دلوں کو خوش کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ رات کے وقت آسمان کے ستارے اس طرح چمکتے ہیں جیسے کوئی حسین چہرہ مسکرا رہا ہو ۔ ستاروں کی مسکراہٹ میں ایک کشش اور نشہ ہے جو انسان کو اپنی جانب توجہ متوجہ کرتا ہے ۔ ستارے اپنی دلفریبی اور مد بھری مسکراہٹ سے حسن فطرت کو آہستہ آہستہ عروج اور جوبن پر لا رہے ہیں ۔ ستاروں کے چمکنے میں ایک فطرتی حسن ہے ۔ ان کے چمکنے سے رات کا حسن اور خوبصورتی مزید بڑھ رہی ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آر سی میں
شاعر مزید کہتا ہے کہ ستارے اپنی خاموشی کی زبان میں اہلِ دنیا کو ایک طویل داستان سنا رہے ہیں۔ وہ داستان ازلی داستان جو اس کی تخلیق سے شروع ہوتی ہے ۔ جب خالق کائنات نے زمین کا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور انسان کو تخلیق کیا۔ اسے علم و حکمت سے نوازا اور ملائک پر برتری بخشی اور انھیں انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ سب فرشتے اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے انسان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے لیکن شیطان نے اپنے تکبر کی بنا پر انسان کو سجدہ نہ کیا اور راندہ درگاہ ہوا ۔ شیطان نے عزم کیا کہ وہ ہمیشہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا ۔ چنانچہ اس نے انسان کو ورغلا کر جنت سے نکلوا دیا ۔ مشیت الٰہی کے مطابق اب انسان کو ایک خاص مدت تک زمین پر رہنا ہے اور آزمائشوں سے گزر کر اپنی گمشدہ جنت کو پانا ہے ۔ ستاروں کا یہ داستان سنانے کا انداز اتنا سحر انگیز ہے کہ ان کی گفتگو سے دنیا کی زندگی بے خود اور سرشار ہو رہی ہے۔ ان کے انداز تکلم میں ایک طلسماتی اثر ہے ۔ جس سے انسان مدہوش ہو جاتا ہے۔ انسان کو اپنا ماضی یاد آتا ہے اور وہ اپنی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے ۔ ستارے جانتے ہیں کہ یہ دنیا غموں کا گھر ہے ۔ یہ آزمائشوں ، آہوں اور سسکیوں سے بھری ہوئی ہے یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں اور غم مستقل رہتے ہیں ۔ چنانچہ ستارے انسان کو عزم و ہمت اور حوصلہ مندی کی داستان سنا کر اس کے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انسان ستا روں کی زبانی یہ مسحور کن داستان سنتے سنتے نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے ۔
بقول علامہ محمد اقبال :
اے شب کے پاسبانوں ، اے آسماں کے تارو !
تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمہاری
چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمہاری
بند نمبر 3 :
یہی عادت ہے روز اولیں سے ان ستاروں کی
چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرت کی حکومت ہو
چمکتے ہیں کہ انساں فکر ہستی کو بھلا ڈالے
مشکل الفاظ کے معانی : روز اولین( پہلا دن ، روز اول) ، مسرت( خوشی ، شادمانی ) ، فکر ہستی (زندگی کی پریشانیاں ، زندگی کے غم)
مفہوم : ازل سے ستاروں کی یہی عادت ہے کہ وہ اس لیے چمکتے ہیں کہ دنیا میں خوشی کی حکومت ہو اور انسان زندگی کی پریشانیوں کو بھول جائے ۔ تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ روز اول سے ہی ستارے اسی طرح چمک رہے ہیں یہی ان کی عادت ہے ۔ یہ روز اول سے اسی طرح انسان کو اس کی داستان سناتے ہیں اور اسے اس کی حقیقت سے آشنا کر کے اسے اس کا اصلی گھر اس کی گمشدہ جنت کی یاد دلاتے ہیں۔ جنت انسان کا اصل گھر اور منزل ہے اور خوشیوں کا جہان ہے ۔ وہاں دنیا کے غموں اور پریشانیوں کا گزر نہیں ۔ وہاں صرف آرام و آسائش ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ستارے یہ سب اس لیے کرتے ہیں تاکہ دنیا میں خوشیوں اور مسرت کی حکومت ہو ۔ انسان اپنے غم ، پریشانیاں اور فکریں بھلا دے ۔ دنیا میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں ۔ ستاروں کو معلوم ہے کہ یہ دنیا غموں اور دکھوں کا گھر ہے ۔ یہ آزمائشوں آہوں اور سسکیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں اور غم مستقل رہتے ہیں ۔ ستارے انسان کو عزم و ہمت اور حوصلہ مندی کی داستان سنا کر اس کے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسے بتاتے ہیں کہ یہ دنیا تیرے لیے مسخر کی گئی ہے۔ اس کی ہر چیز تیرے تصرف میں ہے ۔ لہٰذا اے انسان تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
بقول علامہ محمد اقبال :
کھول آنکھ ، زمین دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تک تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنے آرام و سکون کا سامان کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ سخت محنت و مشقت کے مراحل طے کرتا ہے ۔ رات کو دن بھر کی مشقت سے تھک ہار کر جب انسان لیٹتا ہے تو ستارے اسے نغمے کی صورت میں اس کی داستان سناتے ہیں ۔ اسے اس کی منزل اور اس کا اصل گھر یاد دلاتے ہیں تاکہ انسان زندگی کی فکروں اور پریشانیوں کو بھول جائے ۔
شاعر کہتا ہے روز اول سے ہی ستاروں نے یہ خدمت اپنے سپرد لی ہوئی ہے ۔ اب یہ ان کی عادت بن گئی ہے ان کا کام بھٹکنے والوں کو سیدھی راہ دکھانا اور منزل کا پتہ دینا ہے ۔
بند نمبر 4 :
لیے ہے یہ تمنا ہر کرن ان نور پاروں کی
کبھی یہ خاک داں گہوارا حسن و لطافت ہو
کبھی انسان اپنی گمشدہ جنت کو پھر پا لے !
مشکل الفاظ کے معانی : تمنا( خواہش) ، کرن ( شعاع) ، نور پاروں (روشنی کے ٹکڑے مراد ستارے) ، خاک داں ( زمین ، دنیا ) ، گہوارہ حسن و لطافت (خوبصورتی اور خوشی کا مرکز) ، گم شدہ جنت( کھو جانے والی جنت)
مفہوم: ستاروں کی ہر کرن کی یہی خواہش ہے کہ یہ دنیا خوشی اور خوبصورتی کا مرکز بن جائے اور انسان اپنی کھوئی ہوئی جنت کو پھر سے حاصل کر لے ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ نہ صرف ستاروں بلکہ ستاروں سے پھوٹنے والی روشنی کی ہر کرن ہر شعاع یہ آرزو اور خواہش لے کر زمین کی طرف رخ کرتی ہے کہ اے کاش کبھی تو یہ زمین حسن اور لطافت کا گہوارہ بن جائے ۔ یہاں سے بد امنی اور جہالت کا خاتمہ ہو ۔ یہاں امن و آشتی اور بھائی چارہ قائم ہو ۔ عدل و انصاف اور محبت و خلوص کی فضا قائم ہو ۔ ہر کرن یہ تمنا رکھتی ہے کہ کاش زمین سے ظلم و ستم اور فساد ختم ہو جائے ۔ یہاں محبت اور ہمدردی اور انسانیت کے جذبے پروان چڑھیں ۔ انسان اس زمین کو حسن و لطافت کا گہوارہ بنا دے ۔ انسان اپنے اچھے اور صالح اعمال کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی جنت کو پھر سے حاصل کر لے ۔ جہاں سے کبھی اسے نکالا گیا تھا ۔ ستاروں کا رات بھر چمکنا انسان کو مسور کن نغمے اور داستان سنانا اسی آرزو کی تکمیل کے لیے ہے کہ زمین خوشیوں کا گھر بن جائے اور انسان اپنی گمشدہ جنت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اسی مقصد کے لیے بھیجا تھا اور اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا تھا تاکہ انسان اس امتحان میں کامیاب ہو کر عیش و آرام کے گھر یعنی جنت کو پا لے ۔ انسان اپنے اس امتحان میں اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ دنیا کو امن و خوشی کا گہوارہ بنائے ۔ یہاں محبت و ہمدردی اور انسانیت کو فروغ دے ۔ اعمالِ صالح ہی کے ذریعے انسان اس امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔
بقول علامہ محمد اقبال :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ستاروں کی یہی خواہش ہے کہ اے کاش کبھی تو انسان اپنی جنت کو پانے میں کامیاب ہو جائے ۔ دراصل یہ شاعر کے دل کی آرزو ہے جس سے اس نے ستاروں کی زبانی بیان کیا ہے ۔ شاعر دنیا میں ظلم و ستم ، ناانصافی اور فساد کا خاتمہ چاہتا ہے۔ امن و سلامتی اور خلوص اور محبت کا فروخت چاہتا ہے ۔
بقول احمد ندیم قاسمی :
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو ، کوئی خستہ حال نہ ہو
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ستارے” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.