رومانوی تحریک

آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو ادب کی ایک اہم تحریک ” رومانوی تحریک” کا پس منظر ، اغراض و مقاصد ، اس تحریک کے اردو ادب پر اثرات  اور رومانوی تحریک کی اہم شخصیات  کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے ۔

رومانوی تحریک کا پس منظر اور تعارف : رومانیت کا لفظ رومان اور رومانس سے لیا گیا ہے۔ ان دونوں الفاظ کے مطالب کو سمجھنے کے بعد ہی رومانیت کا مفہوم پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ رومان میں جو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں وہ ہیں نسوانی حسن کی دل فریبیاں ، فطرت کی دلکشی،خوبصورتی اور حسن۔ اور رومانس میں فرضی قصے بیان کیے جاتے ہیں جن میں کسی ہیرو کے نمائندہ کارنامے بھی ہوتے ہیں۔ ایسے قصے ما فوق الفطرت ہوتے ہیں۔ انہی دونوں الفاظ سے رومانوی یا رومانیت کی بنیاد قائم ہوئی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ لفظ ادبی اصطلاح کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور اس لفظ کا استعمال ایسی تحریر کے لیے ہونے لگا جس میں معاملات عشق و محبت کا بیان ہو، خیالی و تصوراتی باتوں، قصوں اور کہانیوں کا بیان ہو، ساتھ ہی اس میں مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہو۔ اس سلسلے میں جذبات و احساسات کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ رومانیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

“رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو، رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو، آزادی سے بہنے دیا جائے۔”

بہر حال دیکھا جائے تو رومانیت عشق و محبت اور فرضی قصوں پر ہی محیط نہیں بلکہ یہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتی ہے۔ اردو ادب میں رومانیت سے جڑے ادیبوں نے محبت، انسان دوستی، آزادی اور خیالات و تصورات کو پروان چڑھایا۔ ان ادیبوں نے انسان کو مستی کی دنیا سے آشنا کیا۔ انھوں نے خیال، ہیئت اور زبان کا بنا بنایا ڈھانچہ بدل دیا اور قاری کو تخیلات کی دنیا کا سیر کرایا۔

دیکھا جائے تو اردو ادب میں رومانوی تحریک در اصل سر سید احمد خان کی تحریک کا رد علم تھی۔ یعنی سر سید تحریک میں عقلیت، مقصدیت اور حقیقت نگای پر زور دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کے جذبات دبے جارہے تھے۔ اسے دیکھتے ہوئے کچھ ادیبوں نے سر سید کے اس ادب کی پر زور مخالفت کی اور انہوں نے تخیلات اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو ابھارنے کو اپنا مقصد بنایا۔ اس طرح یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اسی تحریک کا نام رومانوی تحریک ہے ۔

اردو کی رومانوی تحریک (Romantic Movement) اردو ادب کی ایک اہم اور منفرد تحریک ہے جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں پروان چڑھی۔ یہ تحریک انگریزی ادب کی رومانوی تحریک سے متاثر تھی، خاص طور پر ورڈزورتھ، کولرج، اور بائرن جیسے شاعروں کے خیالات سے۔ اردو میں رومانوی تحریک کا آغاز ایک نئے رجحان اور جذباتی آزادی کا اظہار تھا، جس میں تخیل، فطرت سے محبت، اور جذبات کے گہرے اظہار کو اہمیت دی گئی۔

رومانوی تحریک دراصل کلاسیکی ادب کے سخت اصولوں اور موضوعات کے خلاف ایک ردعمل تھی۔ کلاسیکی ادب میں موضوعات محدود اور اصول وضوابط زیادہ تھے، جب کہ رومانوی تحریک میں فرد کی ذات، احساسات، اور تخیل کو زیادہ اہمیت دی گئی۔

 رومانوی تحریک کی خصوصیات :

1. فطرت کی محبت: رومانوی شاعری میں فطرت کے مناظر اور جمالیات کا خوبصورت انداز میں ذکر ملتا ہے۔

2. ذاتی احساسات کا اظہار: اس تحریک کے ادیب اور شاعر اپنی جذباتی کیفیت کو براہ راست اور کھلے انداز میں پیش کرتے تھے۔

3. تخیل کا غلبہ: خیالات اور جذبات کو تخلیقی انداز میں پیش کرنا اس تحریک کی اہم خصوصیت تھی۔

4. عشق اور رومانی کیفیت: محبت کو ایک پاکیزہ اور اعلیٰ جذبہ سمجھ کر پیش کیا گیا۔

5. انفرادیت پر زور: فرد کی اہمیت اور اس کے خیالات کو مرکز میں رکھا گیا۔

اہم شعراء اور ادیب:

میرزا غالب : اگرچہ غالب کو رومانوی تحریک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، لیکن ان کی شاعری میں رومانوی رجحانات واضح نظر آتے ہیں۔

میر تقی میر: ان کی شاعری میں عشق اور جذبات کا خوبصورت اظہار ملتا ہے۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال : ان کی شاعری میں بھی رومانوی عناصر ملتے ہیں، خاص طور پر فطرت اور تخیل کے حوالے سے۔

حالی، شبلی نعمانی، اور اکبر الہٰ آبادی: ان شعراء نے رومانوی تحریک کے خیالات کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا۔

 رومانوی تحریک کے اردو ادب پر اثرات:

اردو کی رومانوی تحریک نے اردو ادب کو ایک نئی سمت دی اور اسے جذبات، فطرت، اور تخیل کے اظہار کے لیے مزید وسعت دی۔ یہ تحریک اردو شاعری اور نثر کو جدیدیت کی طرف لے کر گئی اور آج بھی اردو ادب میں اس تحریک کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔

یہ تحریک صرف ایک ادبی رجحان نہیں بلکہ ایک زندگی کے فلسفے کی عکاس تھی، جس نے انسان کے اندرونی جذبات کو اہمیت دی اور ادب کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

رسالہ مخزن اور رومانوی تحریک : رسالہ مخزن

سر عبد القادر نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یعنی 1901ء میں لاہور سے ماہنامہ مخزن جاری کیا۔ جسے اردو کی علمی و ادبی رسائل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی اشاعت سے نہ صرف یہ کہ رومانیت کی تحریک کو تقویت ملی بلکہ بعد میں آنے والی تحریکوں کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ اس رسالے میں اپنے دور کے تمام رومانیت پسندوں نے لکھا اور اس رسالے نے بہت سے ادبیوں کو اردو دان طبقے سے روشناس کرایا ۔

ابو الکلام اور رومانوی تحریک : مولانا ابو الکلام آزاد کی رومانی نثر کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں کہ ان کی آواز بلندیوں سے آتی ہے اور ان کی بلند شخصیت کی طرح آسمانوں سے نیچے نہیں اترتی وہ ایک پیغمبرانہ سطوت سے بولتے ہیں۔ ان کے لہجے میں انفرادیت کی وہ کھنک ہے جو اس دور کے کسی اور نثر نگار کے ہاں نہیں ملتی۔ بقول قاضی عبد الغفار،

” اردو ادب میں کوئی دوسرا ادیب ایسا نظر نہیں آتا جس نے اس شدت کے ساتھ اپنی انفرادیت کے تازیانے عوام کی ذہنیت پر مارے ہوں۔ “

مولانا ابو الکلام آزاد نے نثر کو نثریت سے آزاد کرایا اور ایک علاحدہ اسلوب کی بنیاد رکھی۔ ان معنوں میں آزاد جدید عہد کے پہلے صاحب طرز نثر نگار ہیں جس نے اپنے طرز کے زیر اثر حکومت و فلسفہ کے دبستانوں کو اپنے نغمہ رنگ کے آگے بے کیف کر دیا۔ ان کی نثر حکیمانہ ہونے سے زیادہ کچھ اور بھی ہے۔ انھوں نے ہمارے ایشیائی ذہنوں پر انفرادیت کے تازیانے مارے پستی اور محرومی ،ذلت اور کم ہمتی کا احساس دلایا ہے جو تبدیلی کی شدید خواہش اور حال سے بے پناہ نفرت کی شکل میں ظہور پزیر ہوا۔ ان کی نثر نے اردو ادب کو ایک نیا اعتماد بخشا۔ البتہ ان کی نثر کی ایک خامی ہے کہ اس پر ابوالکلام آزاد کے مطالعے کا بوجھ لدا ہوا ہے اور قاری اس سے متاثر ہونے کی بجائے فوراً مرعوب ہو جاتا ہے۔ اور نثر کا تانا بانا خاصا الجھا ہوا ہے اور اس کی تقلید آسان نہیں  محمد حسین آزاد کی تحریروں میں رومانیت

محمد حسین آزاد کے یہاں یہ رنگ ہلکا ہے، انہوں نے سر سید کی مخالفت میں اس اسلوب کو نہیں اپنایا بلکہ فطری طور پر ان کی تحریریں رومانیت کا اثر لی ہوئی ہیں۔

 میر محمد ناصر اور رومانوی تحریک: میر ناصرؔ علی دہلوی نے سر سید تحریک کی کھل کر مخالف کی۔ انہوں نے نثر میں رومانی نثر کو اختیار کیا۔

عبد الحلیم شرر اور رومانوی تحریک :

عبد الحلیم شررؔ نے اپنے تخیلات اور جذبات کے ذریعہ اس تحریک کو بڑھاوا دیا۔ اسی طرح رومانوی تحریک کو رسالہ “مخزن” سے بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس رسالے میں لکھنے والوں نے رومانیت کو بلندی عطا کی۔

اختر شیرانی کی شاعری میں رومانیت :اردو رومانوی شاعروں میں سب سے اہم نام اختر شیرانی کا ہے۔ انہیں” شاعر رومان” بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے رومانیت میں بھی ایک خاص انداز اپنایا۔ ان کے یہاں عورت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں محبوباؤں کے نام بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اردو شاعری میں محبوباؤں کا نام لیا ہے ور محبت کے جذبات کو بیان کیا ہے۔ ان کی نظموں میں وطن سے محبت کا ذکر ہے۔ ان کے یہاں وطن ان کی محبوبہ ہے جس سے وہ بے حد محبت کرتے ہیں۔ایسے مقام پر بھی محبت کے جذبات سے کام لیا گیا ہے۔

اردو کی رومانوی تحریک میں کئی اہم شخصیات شامل ہیں جنہوں نے اپنے جذباتی اور تخیلی انداز سے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔ ان شخصیات نے نہ صرف رومانوی خیالات کو پروان چڑھایا بلکہ اردو ادب میں انفرادیت اور تخیل کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

 میرزا غالب اور رومانوی تحریک

غالب کو رومانوی تحریک کا براہ راست حصہ نہیں سمجھا جاتا، لیکن ان کی شاعری میں تخیل، عشق، اور جذبات کے عناصر نمایاں ہیں۔ ان کا کلام انسانی جذبات کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟

غم اگرچہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

 رومانوی تحریک اور میر تقی میر :  میر تقی میر کو “خداۓ سخن” کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں عشق کی لطافت، جذبات کی گہرائی، اور فطرت کی خوبصورتی کو نہایت دلکش انداز میں پیش کیا گیا۔

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا؟

 علامہ اقبال

اقبال کی شاعری میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں پہلو نمایاں ہیں۔ انہوں نے عشق کو نہ صرف جذباتی بلکہ روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کی شاعری میں فطرت کی تعریف اور انسان کے خوابوں کو بلند کرنے کی ترغیب دی گئی۔

مشہور اشعار:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

الطاف حسین حالی اور رومانوی تحریک: حالی نے اپنی شاعری اور تنقید میں جذبات کے لطیف اظہار کو فروغ دیا۔ ان کی مشہور نظم “مد و جزر اسلام” میں رومانوی انداز میں امت مسلمہ کی حالت کا اظہار کیا گیا ہے۔

مشہور کلام:

برسوں کے تجربات کا حاصل زباں پہ ہے

اشکوں کی جھیل، آنکھ کا کاجل زباں پہ ہے 

شبلی نعمانی اور رومانوی تحریک:

شبلی نے نہ صرف تنقیدی انداز میں رومانوی تحریک کو پروان چڑھایا بلکہ ان کی نثر اور شاعری میں بھی جذباتیت کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے تخلیقی کام نے اردو ادب کو ایک نیا موڑ دیا۔

شبلی نعمانی کی چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:

1. شعرالعجم

2. سیرة النبی ﷺ

3. الفاروق

4. المامون

5. الغزالی

6. موازنہ انیس و دبیر

7. تاریخ اسلام

رومانوی تحریک اور داغ دہلوی

داغ کی شاعری میں عشق، محبوب کی تعریف، اور جذباتی اظہار کا عنصر نمایاں ہے۔ ان کے کلام نے اردو غزل کو ایک نیا رنگ دیا۔

مشہور اشعار:

نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجیے

رومانوی تحریک اور اکبر الہٰ آبادی

اکبر کی شاعری میں رومانوی جذبات کے ساتھ طنز اور مزاح کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز سے جذباتی اور معاشرتی موضوعات کو بیان کیا۔

مشہور اشعار:

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

مجموعی اثرات:

ان شخصیات نے اردو ادب کو جذبات، تخیل، اور فطرت کے حوالے سے ایک نئی روح دی۔ ان کے کام نے اردو شاعری کو عالمی سطح پر منفرد مقام دیا اور اردو کے قارئین کو عشق و محبت، فطرت کی خوبصورتی، اور انسانی جذبات کی گہرائیوں سے روشناس کرایا۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ رومانوی تحریک  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply