روز مرہ اور محاورہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم روز مرہ اور محاورہ کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے ۔ تعریف ، طریقہ کار اور مختلف مثالوں سے وضاحت کریں گے ۔ 

روز مرہ اور محاورہ کی تعریف ، وضاحت اور مثالیں دیں ۔

روز مرہ:- روزمرہ علم بیان کی ایک اصطلاح ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علم بیاں کسے کہتے ہیں ؟ علم بیان کے معنی ہیں وہ شستہ و فصیح تقریر یا تحریر جس کے ذریعے انسان اپنے دل کی بات ظاہر کرے۔ تقریر و تحریر کی خوبیوں کے ذکر اور ان کی بحث کو علم بیان کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ وضاحت طلب ہے کہ اصطلاح سے کیا مراد ہے ؟ اصطلاح کے معنی یہ ہیں کہ جب ہم اس بات پر اتفاق کر لیں کہ کسی لفظ کو اس کے اصلی معنوں سے ہٹ کر کسی اور مفہوم میں استعمال کریں تو ایسا استعمال اصطلاح کہلاتا ہے ۔

مثلاً :- صلاۃ کے معنی دعا ہیں لیکن امت مسلمہ نے اس کے معنی نماز مقرر کر لیے ہیں۔ علم بیان میں کلمے کو لغت کہتے ہیں اور کلام کو اگر اہل زبان کے اسلوب بیان طریق و اظہار اور گفتگو کے انداز کے مطابق ہو تو اسے روزمرہ کہتے ہیں۔

مثلاً  “دو چار ” “چار چھ” اور” آٹھ دس” بلا عطف و اضافت اہل زبان کے اسلوب بیان کے مطابق ہو تو اسے  “روز مرہ” کہتے ہیں ۔ اگر ان پر قیاس کر کے کوئی شخص دو ہی دو کے فرق سے” چھ آٹھ ” ، ” سولہ اٹھارہ ” ، سترہ انیس ” یا ” اکیس تیئیس ” بولے یا لکھے تو چونکہ یہ اہل زبان کے طریق اظہار کے مطابق نہیں ہیں اس لیے” روزمرہ” نہیں۔ اہل زبان ” دس پندرہ” بولتے ہیں “نو پندرہ”  یا ” گیارہ پندرہ ” نہیں بولتے ۔” پندرہ بیس” بولتے ہیں” چودہ بیس ” یا ” سولہ بیس ” نہیں بولتے ۔ لہذا یہ بھی روزمرہ نہیں ہے۔

کوئی فقرہ بھی اہل زبان کے انداز گفتگو کے خلاف ہو تو اس سے” روزمرہ “نہیں کہیں گے۔ مثلاً ” بشیر و نزیر  کو دس روپے نقد اور بصیر اور نصیر کو پانچ پانچ کتاب انعام میں ملیں” ۔  یہ بھی” روزمرہ ” کے خلاف ہے ، کیونکہ اہل زبان اس مفہوم کو اس طرح ادا کرتے ہیں: ”  بشیر اور نزیر کو  دس دس روپے نقد اور بصیر اور نصیر کو پانچ پانچ کتابیں انعام میں ملی”  یہاں یہ بھی واضح ہو گیا کہ “روزمرہ “کا تعلق ایک کلمے سے نہیں اس کے لیے دو یا دو سے زیادہ کلمات کی ضرورت ہوتی ہے  ۔ ہاں زیادہ کی کوئی حد نہیں۔

مزید غور کیجئے ۔”میں روز مدرسے جاتا ہوں” یہ “روزمرہ”  ہے لیکن اگر آپ کہیں “میں ہر دن مدرسے جاتا ہوں ” تو نہ صرف یہ کہ روز مرہ نہیں ہے بلکہ جملہ ہی بے معانی ہو جائے گا ۔اگرچہ روز اور دن ہم معنی و مترادف ہیں اس لیے کہ پہلا جملہ اہل زبان کے انداز گفتگو کے مطابق اور دوسرا جملہ اس کے خلاف ہے۔ اس طرح میں دن میں مدرسے جاتا ہوں یا دن کو مدرسے جاتا ہوں۔ درست اور روزمرہ ہے لیکن میں روز مدرسے جاتا ہوں یا روز کو مدرسے جاتا ہوں نہ صرف یہ کہ روز مرہ نہیں بلکہ دونوں جملے بالکل مہمل اور غلط ہیں ۔ تیجہ یہ نکلا کہ مرکبات یعنی کلام ناقص  و تام میں جس طرح اہل زبان بولتے ہیں اسی طرح بولیے لکھیے تو درست روزمرہ اور مقبول لیکن اس کے خلاف بولیے لکھیے تو یا مجہول غلط یا کم سے کم خلاف روزمرہ ہے لہذا ناپسندیدہ  ہے ۔

محاورہ:- محاورے کے لغوی معنی گفتگو اور بات چیت کے ہیں ، چاہے وہ گفتگو اہل زبان کے اسلوب و بیان کے مطابق ہو یا نہ ہو لیکن بیان میں اس کلمے یا کلام کو محاورہ کہتے ہیں جو اہل زبان کی اسلوب بیان کے مطابق ہو اور اپنے حقیقی معنی میں نہیں مجازی معنی میں ہو ۔مثلا “تین پانچ “اور “سات پانچ “ان دونوں مثالوں کے لغوی معنی ادنی اعلیٰ اور چھوٹے بڑے سب جانتے ہیں لیکن پہلے “تین پانچ “کے اصطلاحی یعنی مجازی معنی لڑائی جھگڑے ،دنگا فساد اور مکر و فریب کے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مرکب “سات پانچ ” بھی اصطلاحی یعنی مجازی معنی حیلہ بہانہ،  عیاری، مکاری اور لڑائی جھگڑا کے ہیں۔ مزید غور کیجئے” پانچ ” کلمہ ہے یعنی مفرد لفظ اس کے لغوی معنی کون نہیں جانتا لیکن اس کے مجازی معنی “ذہین “چالاک،  مکار عیار و طرار کے ہیں ۔وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل مثالوں پر غور کیجئے ۔صاحب آپ تو فرماتے تھے  ” شیخ صاحب بڑے سیدھے سادے آدمی ہیں انہیں “سات پانچ “ذرا نہیں آتی اجی حضرت وہ تو بڑے نکلے ہر بات میں اتنی “سات پانچ ” کرتے اور ہر معاملے میں اتنی پانچ ” لاتے ہیں کہ توبہ بھلی ۔ “

نوٹ : امید ہے کہ آپ روز مرہ اور محاورہ کے بارے میں تفصیل سے جان چکے ہوں گے ۔اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

 شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply