رسم جفا کامیاب ، دیکھیے کب تک رہے
آج کی اس پوسٹ میں ہم پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کی ایک غزل ” رسم جفا کامیاب ، دیکھیے کب تک رہے ” جس کے شاعر حسرت موہانی ہیں کی تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
رسم جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے
مشکل الفاظ کے معانی : رسم جفا( ظلم کی رسم) ، حب وطن (وطن کی محبت) ، مست خواب( نیند میں ہونا )
مفہوم کب تک انگریز راج رہے گا ؟ بہت جلد اس ظلم کا خاتمہ ہونے والا ہے اور آزادی کی کرن پھوٹنے والی ہے ۔
: تشریح : حسرت موہانی کی یہ غزل مطلع سے مقطع تک سیاسی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ حسرت موہانی ایک نڈر اور بے باک صحافی تھے ۔ ان کا دماغ سیاست کے لیے ، دل شاعری کے لیے اور جسم انگریزوں کے مظالم سہنے کے لیے بنا تھا ۔ تحریکِ آزادی کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ انھوں نے برطانوی راز کی کھل کر مخالفت کی ۔ جس کی پاداش میں ان کو کئی بار جیل میں جانا پڑا اور جیل میں قید با مشقت کاٹنی پڑی ۔
تشریح طلب شعر میں حسرت موہانی نے بر صغیر کے مسلمانوں پر انگریزوں کے مظالم کی بات کی ہے کہ فرنگیوں نے جو برصغیر میں ظلم و ستم کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے یہ کب تک رہے گا ۔کب تک انگریز مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہیں گے ۔ مطلب زیادہ دیر نہیں رہیں گے ۔ مسلمانوں کے اندر وطن کی محبت کب تک سوئی رہے گی ۔ کب تک مسلمان انگریزوں کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہیں گے یعنی بہت جلد مسلمانوں کے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ شاعر اس بات کی نوید سنا رہا ہے کہ وہ وقت اب جلد آنے والا ہے کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا وطن پھر سے حاصل کر لیں گے اور فرنگی راج کا خاتمہ کر دیں گے ۔ تھوڑے دنوں تک ہی یہ سلسلہ رہے گا ۔ ایک وقت آئے گا جو مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کے جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرے گا ۔ آج جو ہندوستان میں مسلمانوں کے خون سے کھیلا جا رہا ہے یہ جلد ختم ہو جائے گا ۔ ظلم آخر ظلم ہے جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
دیکھیے سہتے ہیں کب تک اہل دل جورو ستم
دیکھیے رہتی ہے کب تک ظلم کی رسی دراز
شعر نمبر 2 :
دل پہ رہا مدتوں غلبہ یاس و حراس کا
قبضہ حزم و حجاب دیکھیے کب تک رہے
مشکل الفاظ کے معانی : یاس و حراس( نا امیدی) ، حزم( احتیاط ) ، حجاب( جھجک، ڈر )
مفہوم : ایک مدت سے فرنگی راج کا قبضہ ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے ۔ یہ قبضہ دیکھئے کب تک جاری رہتا ہے ۔
تشریح : حسرت موہانی کہتے ہیں کہ ایک مدت تک ہمارے دل پر نا امیدی اور خوف کے بادل چھائے رہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اجتماعی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی تمام مسلمان مایوسی اور نا امیدی کی گہری دلدل میں پھنس چکے تھے ہر طرف فرنگی راج تھا اور ظلم و استبداد کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا ۔ ہر کوئی خوف اور مایوسی میں مبتلا تھا حسرت موہانی کہتے ہیں کہ آخر کب تک مسلمان اس طرح مایوسی اور نا امیدی کی زندگی گزاریں گے ۔ ایک خاص وقت ہم نے مایوسی کی وادی میں گزار لیا ہے ۔ اب انگریزوں کے خلاف ہم برسرِ پیکار ہو کر ہی رہیں گے ۔ ہمارے دلوں پر ان کے ایک انجانے خوف کا جو قبضہ تھا وہ قبضہ اب خوف ختم ہو جائے گا ۔ یوں جب بر صغیر کے مسلمان جذبہ آزادی کے لیے اٹھیں گے تو خوف اور ہچکچاہٹ کے تمام بادل چھٹ جائیں گے بس تھوڑے دنوں کی بات ہے ۔ یہ انگریز قومیں اپنی موت آپ مر جائیں گی کیونکہ انھوں نے ہر طرح کے مظالم کا جو سلسلہ رواں رکھا ہے ۔ وہ اب دم توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
بقول شاعر :
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشان نظری کا
شعر نمبر 3 :
تا با کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبت کی لوگوں میں دیکھیے کب تک رہے
مشکل الفاظ کے معانی : تابہ کجا کب تک دراز لمبا طویل سلسلہ ہائے فریب دھوکہ دہی کا سلسلہ ضبط برداشت تاب طاقت مفہوم تشریح حسرت موہانی نے اس شعر میں انگریزوں کی چالاکیوں اور مکاریوں کو موضوع بنایا ہے برصغیر پر جب انگریزوں نے اپنا تسلط جمایا تو تب سے انہوں نے مسلمانوں پر زندگی کا قافیہ تنگ کر دیا ظلم کا ایسا بازار گرم کیا جس کا ایندھن صرف اور صرف مسلمان تھے مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں نے ہر طرح کا ظلم ستم روا رکھا تشریح طلب شیر میں حضرت معنی کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ انگریزوں کے مظالم کا یہ سلسلہ اخر کب تک جاری رہتا ہے کب تک بر صغیر کے مسلمان یوں ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے انگریزوں کے مکر و فریب میں کب تک مسلمان الجھتے جائیں گے جب مظلوم ظلم کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو ظلم کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں حسرت معنی کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ظلم و زیادتی برداشت کرنے کی طاقت کب تک رہے گی کب تک مسلمان فرنگیوں کے بنائے ہوئے مکروہ جالوں کا شکار ہوتے رہیں گے اب مسلمانوں کی برداشت ختم ہو چکی ہے اب ان کے اندر ایک احساس ذمہ داری اور جذبہ ازادی بیدار ہو چکا ہے اب وہ ظلم کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اب وہ دن دور نہیں جب انگریز یہاں سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ اب مسلمانوں کا ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور ظلم نے انہیں بہادر بنا دیا ہے شعر نمبر چار پردہ اصلاح میں کوشش تخریب کا خلق خدا پر عذاب دیکھیے کب تک رہے مشکل الفاظ کے معنی پردہ اصلاح اصلاح کے پردے میں تخریب بگاڑ خلق خدا خدا کی مخلوق مفہوم تشریح جب انگریز ہندوستان پر قابض ہو گئے تو انہوں نے یہاں پر بہت سے کاموں اور منصوبوں کا اغاز کیا مختلف شعبہ جات قائم کیے سڑکوں اور ریلوے کے نظام کو متعارف کروایا اور دیگر ذرائع نقل و حمل کو بھی خاصی ترقی دی یہ سارے کام انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیے اور وہ منصوبہ تھا اقتدار کو طول دینا تشریح طلب شعر میں حضرت موہنی کہتے ہیں کہ فرنگیوں نے اپنی مکاریوں اور چالبازیوں کو چھپانے کے لیے اصلاح کا پردہ یعنی منافقت کی چادرطانی ہوئی ہے بظاہر ملک و قوم کی اصلاح کا نام ہے لیکن دراصل وہ قوم کے اندر ایک ایسی تخریب کاری یعنی ایک ایسی انتشار عمل کو فروغ دے رہے ہیں جو قوم کو اندر سے کمزور کر رہا ہے گویا چہرہ روشن اور اندروں تاریک تر ہے شاعر کہتا ہے کہ خدا کی مخلوق پر یہ جو عوام کی بہتری اور اصلاح اور فلاح و بہبود کے نام پر عذاب نازل ہوا ہے یہ حقیقت میں ظلم و ستم اور غلامی کو ہمارا مقدر بنایا جا رہا ہے یہ سفاکانہ چالوں کے سوا کچھ نہیں شاعر کے لہجہ پر امید ہے کہ مسلمانوں پر یعنی اللہ کی مخلوق پر جو انگریزوں کی صورت میں عذاب نازل ہوا ہے یہ اب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا
شعر نمبر پانچ حسرت ازاد پر جور غلامان وقت از راہ بغض و عتاب دیکھیے کب تک رہے مشکل الفاظ کے معنی جور ظلم غلام وقت کے غلام بغض دشمنی مفہوم تشریح حضرت مونی بن صغیر کے ان بہادر مسلمانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے فرنگی راج کے سامنے اپنے گھٹنے نہیں ٹیکے حسرت معنی کئی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے لیکن کلمہ حق ضرور کہتے رہے انہوں نے انگریزوں کے ہر ظلم کو ہنس کر برداشت کیا حسرت ایک ازاد منش انسان تھے اور عمر بھر غلامی کا ہار اپنے گلے میں نہیں لٹکایا تشریح طلب شعر میں بھی واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ اج اگر وقت کے غلام اور چڑھتے سورج کے پجاری میرے ساتھ اپنے دشمنی اور عداوت کو بڑھا کر خود کو بڑا کرنے کی کوشش میں ہیں تو ان کو یہ جان لینا چاہیے چڑھتے ہوئے سورج کے پگاری ذرا غور سے سن سورج کبھی کسی سر پہ سایہ نہیں کرتا اج کچھ مفاد پرست لوگ فرنگیوں کے ساتھ مل کر مجھے اپنی عداوت اور دشمنی کی اگ میں جلانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اخر ان کا یہ اقتدار ختم ہو جائے گا اور برصغیر پاک و ہند میں امن و اتشی کی ایسی ہوائیں چلیں گی کہ کینہ پروری اور عداوت کی اگ ہمیشہ کے لیے سرد پڑ جائے گی پھر وہ ابن الوقت قسم کے لوگ جو وقتی مصلحت اور ذاتی فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزوں کی جی حضوریاں کر رہے ہیں ان کے ہر صحیح غلط قدم میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ازادی ہمیں ازادی پسند لوگوں کو اپنے بغض کینے اور عتاب کا نشانہ بنا رہے ہیں شرمندہ اور ناکام و نامراد ہوں گے
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.