رخ و زلف پر جان کھویا کیا
آج کی اس پوسٹ میں ہم خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل ” رخ و زلف پر جان کھویا کیا ” کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : رخ( رخسار ، منہ ، گال) ، کھویا کیا( ضائع کر دی) ، زلف (گیسو ، بادلوں کی لٹ) ، اندھیرا( تاریکی) ، جان( زندگی) ، اجالا ( روشنی)
مفہوم : شاعر محبوب کے حسن و جمال پر مرتا اور اس کی جدائی میں رات دن روتا ہے۔ اس طرح تمام عمر محبوب کی خاطر روتے ہوئے گزری ۔
تشریح : آتش کو شاعری میں کمال حاصل تھا۔ آپ کے کلام میں عامیانہ و سوقیانہ پن دکھائی نہیں دیتا۔ آتش کے مذکورہ شعر سے ان کے مزاج کی شوخی اور رنگینی کا اظہار ہوتا ہے ۔ زیرِ نظر شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کے چہرے کو دن کے اجالے اور زلفوں کو رات کی سیاہی سے تشبیہ دی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تیرے حسن و جمال خوبصورتی اور ناز و ادا کی کیا تعریف کروں جب سے تجھے دیکھا ہے دن کا سکون اور رات کا چین جاتا رہا ہے ۔ تیرے گیسوے دراز اور حسین چہرے کو جب سے دیکھا ہے دل ہے کہ اس اس وقت سے بے قرار ہے۔
بقول شاعر :
ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احترام صبح نہیں ہوتی
شاعر نے محبوب کو پانے کے لیے اپنی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے۔ وہ دن رات اس کی جدائی میں روتا رہتا ہے۔
بقول شاعر :
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
شاعر عموماً محبوب کے حسن پر مر مٹتے ہیں۔ ان کا سکون و قرار لٹ جاتا ہے ۔
بقول شاعر :
چہرہ ہے یا چاند کھلا ہے ، زلف گھنیری شام ہے کیا
ساغر جیسی آنکھوں والی یہ تو بتا تیرا نام ہے کیا
شعر نمبر 2 :
ہمیشہ لکھے وصف دندان یار
قلم اپنا موتی پرویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : ہمیشہ( ہر وقت ) ، یار (دوست ، محبوب ) ، وصف ( خوبی) ، قلم (خامہ) ، دندان (دانت ) ، موتی پرونا (موتیوں کی لڑی بنانا ، دل آویز باتیں کرنا)
مفہوم : محبوب کے دانتوں کی تعریف کیا کی گویا قلم سے موتی پرو دیے ۔ محبوب کے دانتوں کو موتیوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
تشریح : آتش کی شاعری صنائی ، مرصع کاری اور الفاظ کی نگینہ کاری کی عمدہ مثال ہے ۔ مذکورہ شعر میں الفاظ نگینے کی طرح جڑے محسوس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے محبوب کو حسن و جمال تو واقعی کمال کا ہے ۔ خاص طور پر اس کے دانت بہت خوبصورت ہیں ۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ محبوب کے دانت سفید ، چمکدار اور ترتیب وار ہیں جیسے کسی مالا میں موتی پروئے ہوتے ہیں اور شاعر جب اپنے محبوب کے دانتوں کی تعریف لکھتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ اس کا قلم موتی پرو رہا ہے یعنی قلم سے اتنے خوبصورت الفاظ تحریر ہوتے ہیں کہ جیسا الفاظ نہ ہو موتی ہوں ۔ ایک شاعر محبوب کے دانتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
جب وہ دانتوں میں دباتے ہیں گلابی آنچل
کتنے پر کیف نظاروں کو سزا ملتی ہے
ایک اور شاعر محبوب کی خوبصورت دانتوں کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں :
تیرے وصف ، دندان و لب نے کر دیا بے قدر عالم کو
گوہر کو، لعل کو ، یاقوت کو ، ہیرے کو ، مرجان کو
شعر نمبر 3 :
کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر
میں جاگا کیا، بخت سویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : کیوں کر( کس طرح) ، جاگا کیا (جاگتا رہا) ، عمر ( زندگی) ، بخت( نصیب، قسمت ) ، سویا( سویا ہوا) ، سویا کیا (سویا رہا)
مفہوم : کیا بتاؤں کہ میری زندگی کس طرح گزری بس یوں سمجھیے کہ میں جاگتا رہا اور قسمت سوئی رہی۔
تشریح : آتش کے اشعار میں سادگی و سلاست، نادر تشبیہات و استعارات ، تغزل ، رجائیت ، آتش بیانی ، رندانہ موضوعات اور صنائع بدائع کی خصوصیت ملتی ہیں ۔ مذکورہ شعر میں شاعر اپنی بد نصیبی کا رونا روتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی زندگی مصائب و مشکلات میں گزری، اسے دنیا کے بکھیڑوں نے آ گھیرا اور سکون و قرار جاتا رہا، اسے کوئی خوش نصیبی حاصل نہ ہوئی یوں سمجھ لیجئے کہ وہ خود تو جاگتا رہا اور تڑپتا رہا لیکن اس کی خوش نصیبی سوئی رہی۔ اسے محبوب ملا نہ پیسہ ، نہ خوشیاں ملی ہر چیز سے محروم رہا۔ اس شعر میں شاعر درحقیقت اپنی بد نصیبی پر روشنی ڈال رہا ہے کہ بد نصیبی نے میرے گھر کا راستہ کچھ اس طرح دیکھ لیا کہ عمر بھر بد نصیبی کی نحوست طاری رہی اور خوش نصیبی گویا میرے گھر کا راستہ بھول گئی۔
بقول شاعر :
تقدیر بنانے والے تو نے کمی نہ کی
اب کس کو کیا ملا ہے مقدر کی بات ہے
ایک اور شاعر اپنی بدنصیبی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:
نہ شاد رہے برباد رہے تقدیر ہی اپنی پھوٹ گئی
جس شاخ پہ ہم نے ہاتھ رکھا وہ شاخ وہیں سے ٹوٹ گئی
شعر نمبر 4 :
رہی سبز بے فکر کشت سخن
نہ جوتا کیا میں ، نہ بویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : سبز (ہری، تر و تازہ) ، جوتا کیا (یعنی بیل وغیرہ جوتے) ، بے فکر (بے پرواہ ، آزاد ) ، بویا کیا( بیج بونا ، زمین تیار کرنا ) ، کشت (کھیتی) ، سخن( بات ، کلام ، شعر)
مفہوم : میری شاعری کی آزاد کھیتی ہمیشہ تر و تازہ رہی حالانکہ اس میں نہ کچھ جوتا گیا اور نہ کچھ کاشت کیا گیا ۔
تشریح: شاعر خواجہ حیدرعلی آتش کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کی فصل بے فکر و آزاد اور ہمیشہ تر و تازہ ہی رہی۔ محبوب کی حسن و جمال اور خوبصورتی کی تعریف میں میں نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ۔ گویا ایسے ہی ہوا جیسے کبھی کسان نہ تو ہل چلاتا ہے ، نہ بیج بوتا ہے پھر بھی جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں خود بخود ہی اگ آتی ہیں ۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی بلند پایا اور عظیم ہے ۔ شعروں کی روانی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی گویا اس سلسلے میں کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ گویا شاعر کے اشعار میں فطرتی تاثیر پائی جاتی ہے ۔ اسے اشعار لکھنے کے لیے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا ۔ اشعار خود بخود اس کے ذہن میں اترتے جاتے ہیں اور غزلیں تخلیق ہوتی جاتی ہیں ۔ یوں اس کی شاعری کی فصل ہمیشہ تر و تازہ رہی ۔
بقول شاعر :
اشکوں سے جو بچ نکلی ہے شعروں میں ڈھلی ہے
جو بات میری خلوت دل میں نہ سمائی ہے
شعر نمبر 5 :
برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : برہمن (پنڈت ، ہندو عالم مراد عاشق ) ، حسرت( خواہش) ، گویا (بولنے والا) ، بت( مورتی ، مجسمہ مراد محبوب )
مفہوم : پنڈت کی خواہش کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بتوں کو بولنے کی طاقت نہ دی ۔( محبوب نے عاشق سے بات نہ کی)
تشریح : آتش زیر نظر شعر میں کہتے ہیں برہمن یعنی ہندو عالم کی ہمیشہ خواہش رہی کہ وہ بت جن کے سامنے وہ جھکتے اور عبادت کرتے ہیں وہ بھی باتیں کریں لیکن پتھر کے یہ بت ، بت ہی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں قوت گویائی نہیں دی ۔ اس لیے پنڈت کی خواہش پوری نہیں ہو سکی ۔ اسی طرح شاعر کی بھی خواہش رہی کہ اس کا محبوب اس سے ہم کلام ہو لیکن اس کی یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوئی۔ محبوب نے اس سے کلام نہیں کیا اور اس کی دلی آرزو نے بھی حسرت نا تمام کا ہی روپ دھار لیا۔ اس شعر میں بتوں کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے یہاں پر بت سے مراد محبوب ہے ۔
بقول شاعر :
مجھ سے تو فرطِ محبت میں ہوئے تھے سجدے
تجھ سے یہ کس نے کہا تھا کہ خدا ہو جانا
ایک اور شاعر محبوب کی سرد مہری کا گلا یوں کرتے ہیں :
سنگ مرمر سے تراشا ہوا دلکش پیکر
کس نے کہا ہے کہ بھگوان ہے میرا
صرف اس واسطے اس بت سے عقیدت ہے مجھے
ترشے جانے میں بہت درد سہا ہے اس نے
شعر نمبر 6 :
مزا غم کے کھانے کا جس کو پڑا
وہ اشکوں سے ہاتھ اپنا دھویا کیا
مشکل الفاظ کے معانی : ہاتھ دھونا (پانی سے ہاتھ صاف کرنا) ، غم کھانا (رنج سہنا ، صدمہ اٹھانا)، اشک (آنسو )
مفہوم : جسے غم سہنے کی عادت پڑ سی گئی ہو وہ ہمیشہ آنسو ہی بہاتا رہتا ہے یعنی جسے دکھ برداشت کرنے میں لطف آتا ہو وہ ہمیشہ آنسو ہی بہاتا رہتا ہے۔
تشریح : آتش قادر الکلام شاعر ہیں ۔ ان کے مذکورہ شعر میں محبوب سے جدائی اور قسمت کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر کی زندگی فراق یار میں دکھ سہتے سہتے گزر جاتی ہے۔ اس کی قسمت میں یہ بات نہیں ہے کہ اسے محبوب ملے۔ محبوب کی بے رخی سے پریشان شاعر کہتا ہے جسے رنج و الم سہنے یا صدمہ اٹھانے کی عادت پڑ جاتی ہے آنسو اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔ گویا وہ محبوب کی جدائی میں اتنا روتا رہتا ہے کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آنسو ایک نہیں بلکہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان سے ہاتھ دھوئے جا سکتے ہیں۔ یہی حال شاعر کا بھی ہے وہ بھی دکھوں میں زندگی گزارتے ہوئے آنسو بہا کر ان سے ہاتھ دھوتا رہا ہے یعنی بہت زیادہ روتا رہا ہے ۔
بقول شاعر :
آنکھوں میں اشک ہے یا پانی ہے
جو کچھ بھی ہے آپ کی مہربانی ہے
عشق میں محبوب سے جدائی آنکھوں میں انتظار اور آنسو لے کر آتی ہے۔
بقول شاعر :
آنسو ہیں مقدر تو کر لیں گے گوارا
کشکول لیے بھیک نہ مانگیں گے خوشی کی
شعر نمبر 7 :
زنخداں سے آتش محبت رہی
کنویں میں مجھے دل ڈبویا کیا
زنخداں (ٹھوڑی) ، محبت( پیار ) ، ڈبویا کیا( ڈبو دیا، غوطہ دیا)
مفہوم : آتش کا دل محبوب کی ٹھوڑی میں بننے والے کنویں میں اٹکا رہا گویا دل نے انھیں غم میں مبتلا کر دیا۔
تشریح : شاعر خواجہ حیدر علی آتش اپنی غزل کے مقطع میں خود سے ہم کلامی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے آتش تو نے محبوب کو بہت چاہا اس کا حسن و جمال واقعی قابل تعریف ہے لیکن تجھے محبوب کے ہنسنے سے اس کی ٹھوڑی میں بننے والے گڑھے سے ہمیشہ پیار رہا ۔ گویا تجھے تیرے دل نے اس کنویں میں ڈبو دیا اور تو اسی کنویں میں غوطے کھاتا رہا یعنی تیرا دل تھوڑی کے گڑھے میں اٹکا رہا اور تو محبوب کو بہت چاہتا رہا۔ اس شعر میں محبوب کی ٹھوڑی کے گڑھے کو کنویں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح کنویں میں ڈوب کر باہر نکلنا مشکل ہے اسی طرح شاعر کا دل محبوب کی ٹھوڑی کے گڑھے میں ڈوب گیا ہے اور اب اس محبت سے نکلنا ناممکن ہے ۔
بقول شاعر :
ہو کے میرا اسی کی کہتا ہے
دل کو پالا تھا کیا اسی کے لیے
ایک اور شاعر دل کے جانے کا گلہ اس طرح کرتے ہیں :
شکل و صورت تو واجبی سی تھی
دل کے جانے کا ایک بہانہ ہوا
نوٹ : امید ہے کہ آپ خواجہ حیدرعلی آتش کی غزل “رخ و زلف پر جان کھویا کیا ” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.