آج کی اس پوسٹ میں ہم حسرت موہانی کی سوانح حیات ، شاعری ، فکر و فن اور مجاہد آزادی کے بارے میں پڑھیں گے جنھیں رئیس المتغزلین اور رئیس الاحرار کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
سوال نمبر 1 : حسرت موہانی اصل نام کیا تھا ؟
جواب : حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا اور حسرت تخلص تھا ۔
سوال نمبر 2 : حسرت موہانی کب پیدا ہوئے ؟
جواب : حسرت موہانی 1875ء میں پیدا ہوئے ۔
سوال نمبر 3 : حسرت موہانی کہاں پیدا ہوئے ؟ جواب : حسرت موہانی قصبہ موہان ضلع اناؤ ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
سوال نمبر 4 : حسرت موہانی کے والد کا کیا نام تھا ؟
جواب: حسرت موہانی کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔
سوال نمبر 5 : حسرت موہانی نے عربی کی تعلیم کس سے حاصل کی ؟
جواب : سید حسرت موہانی نے عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتح پوری سے حاصل کی ۔ سوال نمبر 6 : حسرت موہانی نے فار سی کی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟
جواب : حسرت موہانی نے فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد امیر خان سے حاصل کی ۔ سوال نمبر 7 : حسرت موہانی نے 1903ء میں علی گڑھ سے کون سا رسالہ نکالا ؟
جواب : حسرت موہانی نے 1903ء میں علی گڑھ سے رسالہ ” اردو معلی ” نکالا ۔
سوال نمبر 8 : شبلی نعمانی نے حسرت موہانی کے بارے میں کیا کہا ہے ؟
جواب : حسرت کی شبانہ روز محنت اور آزادی ہند کا بہت بڑا مجاہد ہونے کی وجہ سے شبلی نعمانی نے حسرت کے بارے میں کہا ہے کہ ” تم آدمی ہو یا جن پہلے شاعر تھے ، پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہوگئے ہو ” ۔
سوال نمبر 9 : حسرت موہانی میں کون کون سی اعلی خوبیاں تھیں ؟
جواب : حسرت موہانی ایک بلند پایہ شاعر ایک عظیم سیاستداں، ایک صوفی بزرگ ، درویش ، مجاہد، ایک صحافی ، نقاد و محقق ، کانگریسی، مسلم لیگی، کمیونسٹ اور جمیعت علما کی بہت سی شخصیات میں نمایاں رہے ۔
سوال نمبر 10 : حسرت موہانی کی شاعری کی نمایاں خصوصیات بیان کریں ۔
جواب :حسرت موہانی جدید اردو غزل میں ایک اہم مقام اور امتیازی شان رکھتے ہیں حسرت نے سیاست کو واضح طور پر غزل کے مضمون میں شامل کر کے اس میں ایک مستقل اِضافہ کیا ہے ۔ ان کی غزل شگفتگی ، بیان جولانی ، فکر عشق کی رنگینی و رعنائی اور حسن اور سوز و گداز کا ایک خوبصورت مرقع ہے ۔ حسرت نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ اور نئی توانائی عطا کی ہے ۔ قدیم اساتذہ فن کے مطالعے نے ان کی غزل میں ایک درد ، گداز اور برجستگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔
سوال نمبر 11 : حسرت موہانی کو کون سا لقب دیا گیا ؟
جواب : غزل کی بے پناہ خدمت کی وجہ سے حسرت کو ” رئیس المتغزلین ” کا لقب دیا گیا ۔
سوال 12 : حسرت موہانی کو رئیس الاحرار کیوں کہا جاتا ہے ؟
جواب : حسرت موہانی کے زمانے میں ایک تحریک نے جنم لیا جسے احرار کہا جاتا تھا اور حسرت موہانی اس تحریک کے سرگرم رکن تھے اسی وجہ سے انہیں “رئیس الاحرار ” بھی کہا جاتا ہے ۔
سوال نمبر 13 : حسرت موہانی کب سے کب تک قید و بند کی صعوبتیں سہتے رہے ؟
جواب : حسرت موہانی 1907ء سے لے کر 1947ء تک کئی بار جیل گئے اور کئی بار رہا ہوئے یوں تقریباً چار دہائیوں تک وہ قید و بند کی صعوبتیں سہتے رہے ۔
سوال نمبر 14 : بابائے اردو مولوی عبد الحق نے حسرت کے بارے میں کیا کہا ہے ؟
جواب : بابائے اردو مولوی عبد الحق نے اپنے ایک مضمون “مولانا حسرت موہانی ” جو ماہنامہ ” تہذیب” ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا ۔ مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھا کہ ” اگر کوئی ناواقف پہلی بار مولانا حسرت کو دیکھتا تو سمجھتا کہ یہ کوئی مخبوط الحواس شخص ہے۔ ان کی ٹوپی پر جو اکثر ترکی ہوتی تھی ۔ آدھ آدھ ا نگل چیکٹ جمع ہوتا تھا۔ داڑھی پریشان، لباس میں کوئی سلیقہ نہیں، نہ میلا نہ اجلا، جوتے نے کبھی برش کی صورت نہ دیکھی تھی ۔
آواز جھینگر سے ملتی جلتی لیکن اس بے ڈال قالب میں بے پایاں روحانی وقت، اخلاقی جرات اور خلوص و صداقت تھی ۔
سوال نمبر 15 : معروف دانشور سرشار صدیقی حسرت کو کس نام سے یاد کرتے تھے ؟ سرشار صدیقی حسرت موہانی کو ” فوق البشر ” کے نام سے یاد کرتے تھے ۔
سوال 16 : جیل میں حسرت کا سب سے زیادہ مشہور شعر کون سا ہے ؟
جواب : حسرت موہانی کی شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ قید و بند میں لکھا گیا جن میں سب سے زیادہ مشہور شعر یہ ہے :
مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
سوال نمبر 17 : حسرت کا کتب خانہ کتنی مالیت کا تھا اور اسے کتنے پیسوں میں خریدا گیا ؟
جواب : حسرت موہانی کو پہلی بار ۱۹۰۸ء میں گرفتار کیا گیا اور دو سال کی سزا اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ کی مزید سزا تجویز کی گئی۔چونکہ آپ جرمانہ ادا کرنے سے معذور تھے اس وجہ سے ان کا نہایت نادر کتب خانہ جس میں سیکڑوں نایاب قلمی کتابیں اور کمیاب تصانیف، دیوان اور تذکرے تھے جنھیں حسرت نے انتہائی تلاش و جستجو اور صرف سے اکٹھا کیا تھا کاٹ کباڑ کی طرح نیلام کر دیا گیا۔ بیگم حسرت کے مطابق ” یہ کتب خانہ ساڑھے چار ہزار کی مالیت کا تھا اور حکومت نے اسے صرف ساٹھ روپے میں فروخت کردیا ۔
سوال نمبر 18 : حسرت موہانی نے کتنے حج کیے ؟ جواب : حسرت نے 13 حج کیے ۔
سوال نمبر 19 : حسرت موہانی نے کب اور کیسے وفات پائی ؟
جواب : سید حسرت موہانی نے ۱۹۵۰ء میں حج ادا کیا۔ وہ حج سے واپسی پر پاکستان بھی تشریف لائے ۔ شاید انہیں اپنے بلاوے کا احساس ہو چلا تھا ، بعض نے لکھا کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا ۔ انھیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے میں بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور پاکستان تشریف لائے ۔ کراچی میں اپنے احباب سے ملاقات ان کا بنیادی مقصد تھا۔ یہاں آپ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ مستقل طور پر پاکستان میں قیام کرلیں لیکن آپ کا جواب تھا کہ ” میں ہندوستانی مسلمانوں کو اکیلا نہین چھوڑ سکتا “۔ کراچی سے لاہور ہوتے ہوئے مولانا کانپور چلے گئے۔بیماری طول پکڑتی جارہی تھی ۔ کمزوری اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ بہتر علاج کی غرض سے آپ کانپور سے لکھنوء منتقل ہوگئے اور فرنگی محل میں قیام کیا ۔ اسی جگہ ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو مولانا حسرت موہانی نے داعیٰ اجل کو لبیک کہا۔
سوال نمبر 20 : حسرت موہانی کہاں دفن ہیں ؟ جواب : حسرت موہانی لکھنو میں مولوی انور کے میں دفن ہیں ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ رئیس المتغزلین حسرت موہانی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.