دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا

آج کی اس پوسٹ میں ہم ایک ضرب المثل کی تحقیق آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں جو غلط العوام کا شکار ہو گئی ہے اور وہ ضرب المثل ہے ” دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ” تو آئیے چند حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی وضاحت کریں ۔

دور طالب علمی سے آج تک ہم اس ضرب المثل کو اسی طرح پڑھتے آئے ہیں یعنی ” دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا” مگر کچھ وقت قبل ایک ٹی وی شو کے مشہور میزبان آفتاب اقبال نے اس کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ لفظ کتا انگریزی والا ڈاگ نہیں بلکہ کتا ک پر زبر کے ساتھ وہ ڈنڈا ہے جو دھوبی اپنے ساتھ دھوبی گھاٹ لے جاتا ہے ۔ اس کو دھوبی کبھی گھر تو کبھی دھوبی گھاٹ لے جاتا ہے ۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اسے ہمارے اردو دانوں کی کم عقلی اور بہت سوں نے اردو کی کمزوری اور لاپرواہی قرار دیا ۔ تو آئیے تحقیق کی روشنی میں اسے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور ہماری رائے آپ کے سامنے ہے ۔

دراصل اس ضرب المثل کی تحقیق عابد علی بیگ نے کی ہے ہم ان کے مشکور ہیں آئیے ان کی تحقیق سے ہم بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

عابد علی بیگ صاحب نے بڑی عرق ریزی سے یہ مضمون قلم بند کِیا ہے۔

بغور پڑھیے اور مُغالَطہ دور کیجیے!

” دھوبی کا کتکا یا کتا  “

(تحقیق و تحریر : عابد علی بیگ )

نور اللغات میں بھیڑ چال ( یا بھیڑیا چال) کے معنی درج ہیں: دیکھا دیکھی، اندھا دھند،دستور کے موافق۔

فرہنگ ِآصفیہ کے مطابق درست بھیڑیا چال ہے لیکن بھیڑ چال مشہور ہے۔ اس کے جو مطالب بیان کیے گئے ہیں و ہ ہیں : جس طرح ایک بھیڑ کے پیچھے سب بھیڑیں ہو لیتی ہیں اسی طرح اوروں کی دیکھا دیکھ کام کرنے لگنا۔ رویہ کے مطابق، عام رِیت ۔

سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد سے اس قسم کی چالیں عام دکھائی دیتی ہیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب بظاہر خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس رو میں بہہ کر بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے کوئی بھی اچنبھے والی بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس پر قائم نظر آتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہنا کہ پاکستان کا ایک قومی ترانہ پہلے بھی تھا جسے جگن ناتھ آزاد سے قائد اعظم نے لکھوایا تھا اور وہ آزادی کی رات اور پھر ایک عرصہ تک ریڈیو سے روزانہ نشر ہوتا رہا۔ یا پھر یہ کہ قومی ترانہ فارسی میں ہے بجز ایک لفظ ’ کا‘ کے۔

حالیہ چند برسوں میں کچھ لوگ یہ دعوٰی کرتے بھی نظر آئے ہیں کہ مشہور محاورہ ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ دراصل ’دھوبی کا ’’کتکا ‘‘گھر کا نہ گھاٹ کا‘ ہے ۔ اگر اس بات کو آگے بڑھانے سے قبل چند منٹ تحقیق کرلیتے تو یہ بات اتنی نہ پھیلتی۔

فرہنگ آصفیہ جلد سوم کے مطابق ” کُتکا ” بھنگ گھوٹنے کا سونٹا، سونٹا ، موسل ہے۔

لغت کشوری میں ” کتکہ ” کے معنی موٹا ڈنڈا درج ہیں

نور اللغات جلد چہارم میں  ” کُتکا ” اسے ترکی میں موٹا ڈنڈا یا بھنگ گھوٹنے کا سونٹا بتا یا گیا ہے۔

کسی بھی لغت میں اسے دھوبی کے زیر استعمال اوزار نہیں بتایا گیا۔

اب دیکھتے ہیں کہ ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘ کے بارے میں مستند کتابیں اور مصنفین و شعرا کیا کہتے ہیں۔

نور اللغات جلد دوم میں درج محاورہ یوں ہے ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ نکما ، بے کار، آوارہ گرد

محاوراتِ اردو، اندر جیت شرما میں لکھا ہے  ” دہوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ” بے ٹھکانے آدمی، کسی کام کا نہیں ۔

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ میں عشرت جہاں ہاشمی لکھتی ہیں ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ کسی کام کا نہ ہونا ۔

اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی اور لسانی پہلو میں ڈاکٹر یونس اگاسکر نے لکھا ہے۔ ” دھوبی کے کتے کے نصیب میں بھی گھر سے گھاٹ تک چکر لگانا لکھا ہوتا ہے۔ وہ نہ گھاٹ پر مستقل رہ سکتا ہے اور نہ گھر پر اس کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ دھوبی اور دھوبن گھاٹ پر جائیں تو اسے ساتھ جانا ہوتا ہے اور گھر لوٹنے لگیں تو واپس آجانا پڑتا ہے۔ کسی ایک جگہ جم کے رہنا اس کی تقدیر کہاں؟ بے چارا ’’ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘

 اردو ضرب الامثال جامع الامثال میں شان الحق حقی کہتے ہیں ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ یعنی جس کا کوئی ٹھکانا نہ ہو، دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔

 انتظار حسین اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں

” لیکن کہیں یہ نہ ہو کہ اس چکر میں پروفیسر انجم رومانی ٹوٹی پھوٹی غزل کہنے سے بھی جائیں اور راشد صاحب کو جو چار بھلے آدمی اب پڑھ لیتے ہیں وہ بھی انہیں طاق میں بٹھا دیں اور اردو بے چاری دھوبی کا کتا بن کر رہ جائے ‘‘

منٹو کی کتاب منٹو کے ڈرامے میں ڈرامہ جیب کترا کا مکالمہ ہے۔

تم ناامید ہو جاؤ گی تو میرا کیا بنے گا۔۔۔۔۔۔ میں تو دھوبی کا کتا بن جاؤں گا۔ نہ گھاٹ کا رہوں گا نہ گھر کا۔۔۔۔۔۔ پرماتما کے لیئے نراش نہ ہو۔۔۔۔۔۔ میں ضرور ایک دن ان انگلیوں کو ٹھیک کرلوں گا۔

اور اب دیکھیے کہ خدائے سخن میر تقی میر کیا کہتے ہیں۔

کلیات میر جلد دوم میں در ہجو عاقل نام، نا کسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشت میں آپ لکھتے ہیں۔

کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا

دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

کیا آ پ کو اب بھی یقین ہے دھوبی کا کتکا والی بات میں کچھ وزن ہے ؟

اگر ہاں تو کوئی مستند حوالہ پیش کیجئے

(تحقیق و تحریر: عابد علی بیگ )

امید ہے کہ آپ نے اس تحریر سے کچھ فائدہ اٹھایا ہو گا ۔ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو ہماری ضرور اصلاح فرمائیے گا ۔ شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply