دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آج کی اس پوسٹ میں ہم مرزا غالب کی مشہور غزل ” دل ❤️ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ” کی تشریح اور مشکل الفاظ کے معانی پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔

شعر نمبر 1 :

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : نادان (ناسمجھ ، بے وقوف) ،  درد( تکلیف) ،  دوا( علاج )

مفہوم :  نہ سمجھ دل کو کیا ہو گیا ہے ۔ پریشان سا رہتا ہے ۔ تکلیف کا علاج بھی یہی بتا سکتا ہے جو سوچ سے بالکل عاری ہو چکا ہے ۔

تشریح  : مرزا غالب نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ اردو شاعری میں ان کا مقام بہت بلند ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے ۔ وہ بہت زیادہ وسعتِ نظر رکھتے تھے ۔ غالب ہر دور کے اہم شاعر ہیں۔ ان کی فنی عظمت کو ہر ایک نے سراہا ہے۔ ان ان کی ہمہ گیر شخصیت کی طرح ان کی شاعری میں بھی بڑا تنوع اور بو قلمونی پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں موضوعات کا ایک لا متناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ ان کی اردو غزل مضامین کی رنگا رنگی، وسعت نظر، تخیل کی بلندی پہلو داری ، معنی آفرینی ، نادر تشبیہات و استعارات ، نئے نئے الفاظ و تراکیب ، طنز و ظرافت ، آفاقیت اور جدت ادا کی بدولت بہت اعلیٰ پائے کی ہے ۔ ان خصوصیات کی بدولت انھیں اردو شاعروں کی صف اولین میں ممتاز جگہ ملی ہے۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اے ناسمجھ دل تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو ہر وقت غمزدہ اور پریشان رہتا ہے۔ تیری اس افسردگی و دیوانگی نے مجھے اداس کر رکھا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے ۔ تو ہی بتا کہ آخر اس تکلیف کا علاج کیا ہے تاکہ میں اس پر عمل کر کے سکون حاصل کر سکوں ۔ غالب اپنی غزل کے اس مطلع میں اپنے ہی دل سے مخاطب ہیں کہ اگر تو تکلیف میں مبتلا ہے تو اس درد کا مداوا بھی تو ہی کر سکتا ہے ۔ سوال کا مدعا استفسار ہرگز نہیں بلکہ اس طرح کی ملامت ہے جو دل کو کی جا رہی ہے ۔ شاعر کا دل درحقیقت کسی کی محبت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ ایک محبت میں گرفتار دل ہر وقت بے چین و بے قرار رہتا ہے۔ دل کی خوشی صرف محبوب کے دیدار اور قرب تک محدود ہو جاتی ہے۔ زندگی کی تمام خوشیاں محبوب کی ذات سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ دل بے ایمان ہو جاتا ہے اور اپنا نہیں رہتا ۔ انسان کا اختیار دل پر سے اٹھ جاتا ہے ۔

بقول شاعر :

اے دل کسی کے قرب کی مانگے ہے کیوں دعا

زخموں سے کیا ابھی تیرا دامن بھرا نہیں

ایک اور شاعر دل کی تکلیف کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:

تم مانگ رہے ہو دل سے میری خواہش

بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا

انسان کا دل ایک نہ سمجھ بچے کی طرح ہوتا ہے جب وہ کسی پر آ جائے تو انسان کو اس پر اختیار نہیں رہتا ۔ اس لیے غالب بھی دل کی تکلیف کو اس کی ناسمجھی سے عبارت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں آخر اس کا تدارک کیسے کیا جائے ؟

شعر نمبر 2 : 

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار

یا الہیٰ یا ماجرہ کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : مشتاق (چاہنے والا) ،  ماجرہ( قصہ  ، کہانی) ،  بیزار (متنفر  ،ناخوش ناراض) ،  یا الہیٰ (اے اللہ تعالیٰ )

مفہوم : ہم محبوب کو چاہتے ہیں جبکہ وہ ہماری طرف توجہ نہیں دیتا ۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟

تشریح  : غالب کی شاعری میں موضوعات کی رنگا رنگی ، تشبیہات و استعارات ، وسعت نظری،  پہلو داری ، معنی آفرینی اور تخیل کی بلند پروازی پائی جاتی ہے ۔ مذکورہ شعر میں فرماتے ہیں کہ ہم محبوب کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور اس کی خاطر ہر دکھ سہنے کو تیار ہیں ۔ محبوب ہے کہ اسے ہم پر ترس نہیں آتا ۔ وہ پیار کا جواب پیار سے نہیں دیتا ۔ ہم اسے چاہنے والے ہیں اور وہ ہمیں دھتکارنے والا ہے۔ اے پروردگار تو ہی بتا کہ آخر کیا ماجرہ ہے کہ ہمارا محبوب ہم سے ناراض ہے ۔ غالب کہتے ہیں کہ اے اللہ کیا سبب ہے ؟  کیا وجہ ہے کہ میں اپنے محبوب کے پیار میں پورا پورا ڈوب چکا ہوں مگر وہ مجھ سے ہر لمحہ بیزاری کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتا  ۔

بقول شاعر :

سب کے ہیں آپ سب سے محبت ہے آپ کو

میرے نہیں ہیں آپ شکایت ہے آپ سے

ایک اور شاعر بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں:

 

الفت کا مزہ جب ہے کہ ہوں وہ بھی بے قرار

دونوں طرف ہو اگ برابر لگی ہوئی

شاعر محبوب کی بیزاری کا گلہ اس طرح کر رہے ہیں:

غیروں کی باتیں چھوڑیے آخر وہ غیر ہیں

اپنا بنا کے آپ تو رسوا نہ کیجیے

قدرت کا قانون ہے آپ جس شخص کو بہت زیادہ چاہنے لگتے ہیں وہ بیزار ہونے لگتا ہے ۔ دوریوں میں بہت کشش ہوتی ہے ۔ شاعر کی بے انتہا محبت اور چاہت محبوب کو بیزار کر دیتی ہے ۔

بقول شاعر :

اس قدر نہ ٹوٹ کے چاہو اسے

وہ بے وفا ہو جائے گا

ایک اور شاعر فرماتے ہیں :

کسی کے ظرف سے بڑھ کر نہ کر مہرو وفا ہر گز

کہ اس بے جا شرافت میں بہت نقصان ہوتا ہے

شعر نمبر 3 : 

میں بھی منھہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھوں کہ مدعا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : منھ( منہ) ، کاش( خدا کرے) ، زبان رکھنا( بول سکنا) ،  مدعا (مقصد، خواہش )

مفہوم : میں بھی اپنی خواہش بیان کر سکتا ہوں۔ اللہ کرے محبوب پوچھ ہی لے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔

تشریح : میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں میرے منہ میں بھی زبان ہے ۔ اے محبوب میں اپنا حرفِ مدعا اس لیے بیان نہیں کر رہا کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر زبان کھولی تو تو ناراض ہو جائے گا۔ اس لیے چپ چاپ بیٹھا ہوں۔ میری بھی خواہش ہے کہ تم بھی مجھ سے میری دلی آرزو پوچھ لو ۔ میرا حرفِ مدعا پوچھو اور مجھ سے جان سکو کہ میرا حسب آرزو کیا ہے ؟  غالب شعر میں اپنے محبوب سے اپنا مدعا اور منشا دریافت کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

بقول شاعر:

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

غالب چاہتا ہے کہ وہ محبوب کو اپنے دل کا درد بتائے، اپنے دل کی باتیں کر لے مگر محبوب اس سے پوچھتا ہی نہیں ۔

بقول شاعر:

یہ دستورِ زباں بندی کیسا ہے  تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

محبوب کی سرد مہری کے باوجود شاعر کو اس سے وفا کی امید ہے ۔ جیسے کہ:

شاید کہ چاند بھول پڑے راستہ کبھی

رکھتے ہیں اس امید پہ کچھ لوگ گھر کھلے

شعر نمبر 4 : 

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : وفا (خیر خواہی ، ساتھ دینا) ،  امید ( توقع) ،  نہیں جانتے( واقف نہیں)

مفہوم  : ہم ان سے وفا کی امید رکھتے ہیں جو کسی سے بھلا کرنا ہی نہیں جانتے ۔ جو وفا کے مفہوم سے ہی واقف نہیں ۔

تشریح :  غالب کی شاعری میں معنی آفرینی اور تخیل کی بلند پروازی پائی جاتی ہے۔ مذکورہ شعر میں شاعر محبوب پر گہرا طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں ہمیں محبوب کی بے رخی و بے مروتی نے مار ڈالا ہے۔ ہم ہیں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے رات دن کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا محبوب ہماری طرف پیار بھری نظروں سے ضرور دیکھے گا ۔ ہم اس محبوب سے وفا کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو لفظ وفا سے بھی واقف نہیں ہے۔ شاعر دراصل بیان کرتا ہے کہ اس کا محبوب جفا پیشہ ہے اور وفا کے مفہوم سے بھی نا بلد ہے مگر وہ اس سے وفا کی توقع رکھتا ہے۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ ہمیں ان سے وفا کی خواہش ہے جو وفا کے خوگر ہی نہیں۔ یہ شعر سادگی کی عمدہ مثال ہے ۔

بقول شاعر :

وفا کے نام پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے

تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

ایک اور شاعر محبوب کی بے وفائی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں :

کہنا یہ چاہتا تھا کہ بے وفا ہے دنیا

شرمندہ ہوں کہ لب پہ تیرا نام آ گیا

شعر نمبر 5 :

ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا

اور درویش کی صدا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : بھلا کرنا (نیکی کرنا) ،  صدا( آواز ) ، درویش( فقیر ، خدا رسیدہ )

مفہوم :  بھلا کرنے والوں سے بھی اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے اور درویش کی صدا بھی یہی ہے۔ ہاں بھلا کر تیرا بجی بھلا ہوگا ۔

تشریح :  غالب کو اردو شاعری میں بلند مقام حاصل ہے ۔ ان کی فنی عظمت کو ہر ایک نے سراہا ہے۔ اس شعر میں وہ اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے انسان ! تجھے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ دوسروں کے کام آئے ۔ دوسروں کے دکھ درد میں کام آئے ۔ ان کی مشکلیں آسان کرے ۔ جب کوئی انسان کسی سے بھلا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی پریشانی دور کر دیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بھلا کرو تمہارے ساتھ بھی بھلا کیا جائے گا۔ خدا رسیدہ بندے کی دلی تمنا بھی یہی ہے کہ دوسروں سے بھلائی کی جائے ۔ بس درویش کی دوسروں سے ہمدردی سے پیش آنے ہی کی صدا ہے۔ شاعر اس  شعر میں درحقیقت یہ کہنا چاہتا ہے کہ اگر محبوب اس کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرے تو اس کا یہ فعل نیکی شمار کیا جائے گا ۔ قران مجید میں ہے جس کا مفہوم ہے:

” تم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو تاکہ اللہ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے ” ۔

مشہور مثل ہے ”  کر بھلا سو ہو بھلا

بقول شاعر :

رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ

وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے

ایک اور شاعر بھلائی کا درس دیتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں :

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان

شعر نمبر 6 : 

جان تم پر نثار کرتا ہوں

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : جان (زندگی) ،  نثار کرنا (قربان کرنا ) ، دعا( خدا سے مانگنا) ،  التماس ( استدعا ، التجا )

مفہوم : میں جان تم پر قربان کرتا ہوں۔ میں صرف دعا کرنا نہیں جانتا ۔

تشریح : مذکورہ شعر شاعر کے سچے جذبات کا ترجمان ہے ۔ وہ محبوب کی خاطر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ محض جھوٹے عاشقوں کی طرح زبانی جمع خرچ پر یقین نہیں رکھتا ۔ وہ جان دے کر محبوب کے وقار کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں اے محبوب میں چاہتا ہوں کہ تمہاری خوشی کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں ۔ تمہیں حاصل کرنے کے لیے رات دن دعائیں مانگتا رہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری خوشی کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں۔ تمہیں حاصل کرنے کے لیے رات دن دعائیں مانگتا ہوں۔ میں دعا کی اہمیت سے ناواقف ہوں لیکن مجھے پوری امید ہے کہ میری دعا ضائع نہیں کی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور میرا محبوب مجھے ایک نہ ایک دن ضرور ملے گا ۔ جس طرح ہر محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لیے تن ، من اور دھن کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتا بالکل   اسی طرح اس شعر میں بھی شاعر اپنے محبوب پہ اپنی جان قربان کرنے کا اعلان کرتا ہے اور اپنی دعا میں بھی فقط اپنے محبوب کی خوشیاں ہی مانگتا ہے تاکہ اپنے محبوب کو خوش و خرم دیکھ کر اسے بھی خوشی و مسرت کی دولت حاصل ہو ۔

شاعر محبوب کے لیے جان تک قربان کرنے پر آمادہ ہے۔ صرف دعا دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا ۔

بقول شاعر :

یہ سچ ہے کہ تم میری زندگی ہو

زندگی کا مگر بھروسہ کیا

ایک اور شاعر محبوب کی ذات کی اہمیت اس طرح بیان کرتے ہیں :

زندگی جس کے دم سے ناصر

یاد اس کی عذاب جاں بھی ہے

ایک اور شاعر محبوب کو زندگی سے بھی پیارا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :

سب کو پیاری ہے زندگی لیکن

تم ہمیں زندگی سے پیارے ہو

شعر نمبر 7 : 

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : مانا( تسلیم کیا ) ، کچھ نہیں( بالکل نہیں) ، برا کیا ہے (کیا نقصان ہے)

مفہوم : میں مانتا ہوں کہ غالب کی کوئی حیثیت نہیں لیکن کوئی چیز مفت ہاتھ آئے تو اس میں کوئی نقصان نہیں ۔

تشریح : زیر نظر شعر میں غالب نے نہایت عاجزانہ انداز اختیار کیا ہے۔ وہ محبوب سے کہہ رہے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ میری کوئی قدر و قیمت اور حیثیت و وقت نہیں۔ میں تجھے چاہنے والا ہوں۔ میری دلی خواہش تمنا اور آرزو یہی ہے کہ تجھے حاصل کر لوں مگر تمہارے نزدیک میری کوئی وقعت نہیں ۔ میں پھر بھی تجھ سے امید رکھتا ہوں کہ تو مجھ پر ضرور مہربان ہوگا ۔ ویسے بھی اگر کوئی چیز مفت ملے تو اسے حاصل کر لینے میں کیا نقصان ہے ۔ اس لیے مجھے بھی قبول کر لو ۔

دراصل شاعر کہہ رہا ہے کہ اے محبوب اگرچہ میں بے مول ہوں مگر بے وقعت چیز بھی اگر مفت ہاتھ آ جائے تو برا سودا نہیں ہوتا ۔ اس لیے میری ذات کو قبول کر لو ۔ شاعر اپنی ذات کو اپنے محبوب کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہے ۔ غالب اپنے آپ کو مفت محبوب کے حوالے کرنے کا احسان جتانا چاہتے ہیں۔ جو عاشق کے لیے بلند ترین مقام ہوتا ہے ۔

بقول شاعر :

دل تجھ کو دیتا ہوں حفاظت کرنا

مفت میں ہاتھ لگی ہے یہ نایاب چیز

نوٹ : امید ہے کہ آپ  غالب کی اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply