آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو ادب کی اولین تحریک “دبستان لکھنو” کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں گے ۔
دبستان لکھنو کا پس منظر اور تعارف: دبستان لکھنؤ سے مراد شعر و ادب کا وہ رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنؤ مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم و ادب کے دو بڑے مرکز دہلی اور دکن شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔
سال 1707ء اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لیے خود لڑنے لگے۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں، جاٹوں اور نادر شاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔
سال 1722ء میں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوش حالی کے لیے بھر پور جدو جہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی۔
صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اِضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کیں۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباء و شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنؤ میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میر تقی میر بھی شامل تھے۔
دولت کی فروانی، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہو گئے۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بنا پر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امرا نے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آباؤ اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔
سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لیے بھیجا جانے لگا۔
تحریک کے اغراض و مقاصد : دبستان لکھنو کے اغراض و مقاصد اس کے ادبی، تہذیبی، اور ثقافتی پس منظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ دبستان انیسویں صدی میں لکھنو کی مخصوص تہذیب اور ماحول کے زیر اثر پروان چڑھا اور اس کے مقاصد اردو زبان و ادب کی ترقی اور معاشرتی اقدار کے تحفظ سے جڑے ہوئے تھے۔
1. زبان کی لطافت اور نزاکت کو فروغ دینا
زبان کو شائستہ، لطیف، اور دلکش بنانا دبستان لکھنو کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔
اس دبستان نے اردو زبان میں نفاست، آداب، اور تہذیبی پہلوؤں کو نمایاں کرنے پر زور دیا ۔
2. ادب میں حسن اور جمالیات کا فروغ
شاعری اور نثر میں جمالیاتی پہلو کو ابھارنا ایک اہم مقصد تھا۔
ادب کے ذریعے جذبات، محبت، اور حسن کو ایک دلکش انداز میں پیش کرنا دبستان لکھنو کا امتیاز تھا۔
3. تہذیب و ثقافت کی عکاسی
لکھنو کی مخصوص تہذیب اور معاشرتی روایات کو ادب کے ذریعے محفوظ کرنا دبستان لکھنو کا ایک بڑا مقصد تھا۔
ادب کو ایسی زبان اور موضوعات کا آئینہ دار بنایا گیا جو لکھنو کی شائستہ اور نفیس تہذیب کی نمائندگی کریں۔
4. مرثیہ نگاری کی ترویج
دبستان لکھنو نے مرثیہ کو ایک ادبی صنف کے طور پر فروغ دینے کا مقصد اپنایا۔
واقعہ کربلا کی منظر کشی اور اس کے فلسفیانہ پہلوؤں کو شاعری کے ذریعے پیش کرنا ان کے اغراض کا حصہ تھا۔
5. اردو ادب کو معیاری بنانا
ادب میں معیار، خوبصورتی، اور تخیل کی بلند سطح کو برقرار رکھنا دبستان لکھنو کا مقصد تھا۔
زبان کے استعمال میں نفاست اور ترتیب پر خصوصی توجہ دی گئی۔
6. ادبی محفلوں اور مشاعروں کا فروغ
لکھنو کی ادبی فضا کو مشاعروں اور محفلوں کے ذریعے زندہ رکھنا دبستان لکھنو کا اہم ہدف تھا۔
ان محفلوں کے ذریعے شعرا اور ادیبوں کی صلاحیتوں کو ابھارا گیا اور ادب کو عوامی سطح پر مقبول بنایا گیا۔
7. غزل کی ترویج اور ترقی
غزل کو نئے موضوعات اور اسلوب سے آراستہ کرنا دبستان لکھنو کے مقاصد میں شامل تھا۔
عشق، محبت، اور جذبات کو نفیس اور تخلیقی انداز میں پیش کرنا ان کا خاصہ تھا۔
8. اردو زبان کی وسعت اور ترقی
اردو زبان کو ادب اور معاشرتی زندگی میں ایک مضبوط حیثیت دینا دبستان لکھنو کا اہم مقصد تھا۔
زبان کو شائستگی اور وقار کے ساتھ استعمال کرنے کی روایت قائم کی گئی۔
کو ایک نفیس اور شائستہ شکل میں پیش کیا، جو آج بھی اردو ادب کی بنیادوں میں شامل ہے۔
تحریک لکھنؤ کی اہم شخصیات اور ان کے کارہائے نمایاں: دبستان لکھنو کی ترقی اور شہرت میں کئی ممتاز شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ ان شعرا اور ادیبوں نے اردو ادب کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اس دبستان کو تاریخ میں امر کر دیا۔ یہاں دبستان لکھنو کی چند اہم شخصیات اور ان کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
1. میر انیس
خدمات:
میر انیس کو اردو مرثیہ نگاری کا امام کہا جاتا ہے۔
ان کے مرثیے جذبات، زبان کی خوبصورتی، اور منظر نگاری کا شاہکار ہیں۔
انہوں نے کربلا کے واقعات کو اس انداز میں بیان کیا کہ سننے والے خود کو میدانِ کربلا میں محسوس کرتے تھے۔
انیس کے مرثیے صرف مذہبی ادب ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی لطافت اور بلاغت کا بھی نمونہ ہیں۔
2. میرزا دبیر
خدمات:
میرزا دبیر مرثیہ نگاری میں میر انیس کے ہم عصر تھے اور ان کے ساتھ ان کا ادبی مقابلہ مشہور ہے۔
دبیر نے مرثیے میں تخیل اور تشبیہوں کا استعمال بڑھایا۔
ان کے کلام میں واقعہ کربلا کے ساتھ انسانی جذبات کی گہری تصویر کشی ملتی ہے۔
3. امیر مینائی
خدمات:
امیر مینائی اردو غزل کے معروف شاعر تھے۔
ان کی شاعری میں نزاکت، لطافت اور دلکشی نمایاں ہے۔
انہوں نے زبان کو شائستگی کے ساتھ پیش کیا اور اردو ادب میں ایک نفیس رنگ شامل کیا۔
ان کی نثر اور شاعری دونوں دبستان لکھنو کے معیار کی عکاس ہیں۔
4. نسیم لکھنوی
خدمات:
نسیم لکھنوی مرثیہ نگاری کے میدان میں ایک معتبر نام ہیں۔
انہوں نے فلسفہ، جذبات، اور تخیل کو اپنے کلام میں خاص طور پر شامل کیا۔
ان کا انداز بیان دبستان لکھنو کی نزاکت اور زبان کی چاشنی کی بہترین مثال ہے۔
5. مصطفیٰ خان شیفتہ
خدمات:
مصطفیٰ خان شیفتہ اردو ادب کے معروف نقاد اور شاعر تھے۔
انہوں نے لکھنو کی ادبی محفلوں کو فروغ دیا اور شاعری میں روایت اور جدت کا امتزاج پیدا کیا۔
6. خواجہ حیدر علی آتش
خدمات:
آتش لکھنو کی غزل گوئی میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
ان کی شاعری میں زبان کی خوبصورتی اور روزمرہ کے الفاظ کا دلکش استعمال نمایاں ہے۔
آتش نے دبستان لکھنو کی غزل کو مزید وسعت دی اور اسے عوامی رنگ دیا۔
دبستان لکھنو کی خدمات کا خلاصہ:
اردو مرثیہ نگاری کو فروغ دیا اور اس صنف کو کمال تک پہنچایا۔
غزل کی صنف کو نئے موضوعات اور انداز بخشے۔
زبان کی لطافت، نزاکت، اور محاورات کو ادبی قالب میں ڈھالا۔
ادبی محفلوں اور مشاعروں کو فروغ دے کر اردو ادب کے لیے زرخیز زمین فراہم کی
یہ شخصیات دبستان لکھنو کی پہچان ہیں، جنہوں نے اپنے کلام اور خدمات سے اردو ادب کو لازوال بنایا۔
دبستانِ لکھنؤ کی اہم خصوصیات :
دبستانِ لکھنؤ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کی شاعری میں نشاطیہ عنصر غالب نظر آتا ہے۔ یہ لکھنؤ کی پُرامن زندگی اور خوش حالی کا عطیہ ہے۔ لکھنؤ کی شاعری میں عورت کے حسن کا بھرپور بیان ملتا ہے۔ اس کے زیور اور لباس کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ لکھنوی شاعری میں تصوّف کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں کے رنگین ماحول میں نہ صوفیوں کا گذر تھا، نہ صبر و قناعت کی تعلیم کی ضرورت۔ دبستانِ لکھنؤ کی شاعری زبان کے نقطۂ نظر سے زیادہ دلکش اور پرکشش ہے۔ زبان کے سلسلے میں لکھنؤ والوں نے اہل دہلی سے اپنا راستہ الگ نکالا۔ شعرائے لکھنؤ نے جذبات سے زیادہ الفاظ کی نوک پلک سنوارنے اور زبان میں لطافت پیدا کرنے پر زور دیا۔ اس سے دبستانِ لکھنؤ کی زبان زیادہ دلآویز ہو گئی
تحریک کے شعر و ادب پر اثرات:
عیش و نشاط، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بے امنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اور خاص کر لکھنؤ میں اکھٹا ہونا شروع ہو گئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کی بجائے لکھنؤ میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے۔ امرا، رؤساء اور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ ابتدا میں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی۔ مصحفی اور انشاء کے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنؤ کی خارجیت اور رعایتِ لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنؤ کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔
دبستان لکھنو نے اردو ادب کی تاریخ میں گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے۔ یہ دبستان نہ صرف زبان کی لطافت اور نزاکت کا مظہر تھا بلکہ اس نے اردو شاعری اور نثر میں نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ یہاں دبستان لکھنو کے اردو ادب پر اثرات کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے:
1. زبان کی لطافت اور نزاکت
دبستان لکھنو نے اردو زبان کو شائستگی اور نزاکت سے آراستہ کیا۔
الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی ساخت میں خوبصورتی اور تہذیب نمایاں ہے۔
زبان کی یہ نزاکت شاعری اور نثر دونوں میں جھلکتی ہے، جس سے اردو ادب کی جمالیاتی اہمیت میں اضافہ ہوا۔
2. شاعری میں آرائش اور تزئین
شاعری میں تشبیہوں، استعارات، اور صنائع و بدائع کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
اشعار کو جذباتی، رنگین، اور پراثر بنانے کے لیے زبان کی آرائش کو خاص اہمیت دی گئی۔
دبستان لکھنو کی یہ خصوصیت اردو غزل، قصیدہ، اور مرثیہ میں ایک معیار بن گئی۔
3. مرثیہ نگاری کی ترقی
دبستان لکھنو نے مرثیہ کو ایک عظیم صنف ادب کے طور پر متعارف کروایا۔
میر انیس اور میرزا دبیر نے واقعہ کربلا کی منظر کشی اور جذبات کو اس قدر مؤثر انداز میں پیش کیا کہ یہ صنف اردو ادب کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔
مرثیے کے ذریعے اردو زبان کو نئی لفظیات اور موضوعات ملے۔
4. غزل کی نئی جہتیں
غزل کو محض عشق و محبت تک محدود رکھنے کے بجائے زندگی کے مختلف پہلوؤں کا عکاس بنایا گیا۔
دبستان لکھنو کی غزلوں میں زبان کی نزاکت، دلکشی، اور جمالیاتی پہلو نمایاں ہیں۔
امیر مینائی اور خواجہ حیدر علی آتش نے اس صنف کو مزید وسعت دی۔
5. محاورات اور روزمرہ زبان کا فروغ
دبستان لکھنو نے اردو شاعری اور نثر میں ایسے محاورات اور روزمرہ زبان کا استعمال کیا جو نہایت شائستہ اور دلنشین تھے۔
ان محاورات نے اردو زبان کو عوام کے قریب کر دیا اور اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
6. تہذیب و ثقافت کا عکس
دبستان لکھنو کی تخلیقات میں اس وقت کی تہذیب، ثقافت، اور سماجی روایات کا عکس واضح ہے۔
زبان اور ادب کے ذریعے لکھنو کی تہذیب کو محفوظ کیا گیا، جو آج بھی اردو ادب کی وراثت کا حصہ ہے۔
7. ادبی معیارات کا قیام
دبستان لکھنو نے ادب میں خوبصورتی، شائستگی، اور معیار قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس دبستان کے شعرا اور ادیبوں کے کام کو ایک معیار سمجھا گیا، جس پر بعد کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کی بنیاد رکھی۔
8. اردو ادب میں رومانی اور جذباتی رنگ
دبستان لکھنو نے اردو ادب کو رومانی اور جذباتی رنگ دیا۔
شاعری میں محبت، حسن، اور جذبات کی عکاسی کو نہایت لطیف انداز میں پیش کیا گیا۔
اختتامیہ
دبستان لکھنو نے اردو ادب کو ایک نئی پہچان دی اور اسے ادبی، جمالیاتی، اور تہذیبی طور پر ترقی دی۔ اگرچہ بعد میں اس پر “زبان کی حد سے زیادہ
آرائش” کی تنقید بھی ہوئی، لیکن اس کے اثرات آج تک اردو ادب کی ہر صنف میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ تحریک لکھنؤ کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.