دبستان دہلی

آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو ادب کی اولین تحریک ” دبستان دہلی” کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔

دبستان دہلی کا تعارف: دبستان دہلی اردو ادب کا اولین اور مخصوص دبستان ہے جو دہلی شہر اور خصوصاً قلعہ معلی کی زبان و ادب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر“ نے سید برادران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید برادران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ء سے لے کر 1719ء تک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا کی عیاشی کے دور میں نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کر دیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی۔ دوسری طرف مرہٹے، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں دبستان دہلی کا ادب پروان چڑھا۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی، انتشار اور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ اس حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری پروان چڑھی۔  

 دبستان دہلی تحریک کی نمایاں خصوصیات :

فارسی آمیز زباندبستانِ دہلی کے شعرا کے ہاں فارسیت کا بہت غلبہ تھا کیونکہ شعرائے دہلی فارسی کی شعری روایت سے متاثر تھے اور ان پر فارسی شعراء کا گہرا اثر تھا۔ ایران سے جو شعراء آتے تھے ان میں سے اکثر یہاں ہی رہ جاتے تھے۔ چنانچہ، خسرو، حسن، عرفی ،نظیری، طالب، صائب اور بیدل وغیرہ مختلف ادوار میں یہاں رہے۔ اس کے علاوہ یہاں فارسی شعراء کی زبان تھی۔ نیز یہاں کے شعرا ء اردو اور فارسی زبانوں میں دسترس رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے۔ اس طرح بہت سے شعرا نے فارسی شعراء سعدی، وحافظ کا ترجمہ کیا۔ اور خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ ہے۔

جذبات عشق کا اظہار:

دبستان دہلی کے شعراء کے ہاں جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ زور ہے۔ دبستان دہلی کے شعراءنے عشق کے جذبے کو اولیت دی۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن شعرائے دہلی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور طرز ادا خوب تر ہو بلکہ ان کی کوشش تھی کہ شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے۔ اس لیے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہے۔ دہلی کے کچھ شعراء عشق مجازی سے گذر کر عشق حقیقی سے سرشار ہوئے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالٰیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے۔ جبکہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے۔ چنانچہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز اور تڑ پ موجود ہے۔ جبکہ کچھ لوگ نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابوالہوس یہ میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں مدارج موجود ہیں۔ مثلاً درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ۔

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیم روز

آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

عشق مجازی : عشق کا دوسرا انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہو گئے۔ یہ رنگ میر تقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور گہرائی تھی جس نے ان کی شاعری کو حیات جاوداں عطا کی۔ عشق کا یہ تیکھا انداز دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں دہلی کے تمام شعراءنے بڑی خوبصورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔

پاس ناموس عشق تھا ورنہ

کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

لوگ کہتے ہیں عاشقی جس کو

میں جو دیکھا بڑی مصیبت ہے

پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا

تیرے کچھ دل میں گذر کر گیا

حزن و یاس : دبستان دہلی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان ہے۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و ناامیدی کے جذبات بکثرت موجود ہیں۔ شاعر خواہ کسی موضوع پر بات کرے رنج و الم کا ذکر ضرور آجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سارے دور میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔ زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظر آتا ہے۔ خارج میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے ہیں۔ چنانچہ فنا کا احساس بہت تیز ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر، لٹے ہوئے نگر اور ویران گذر گاہیں جا بجا موجود ہیں۔ خصوصاً میر و سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چنانچہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

دل کی ویرانی کا کیا مذکور

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن

جب آنکھ گل کی کھلی تو موسم تھا خزاں کا

دل گنوانا تھا اس طرح قائم

کیا کیا تو نے ہائے خانہ خراب

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

اس حزن و یاس کی فضاء کے بارے میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ” ظاہر ہے دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و گفتگو ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مہجوری و ناکامی سے ہے۔“

تصوف : واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراء کا دوسرا محبوب ترین موضوع تصوف ہے۔ چونکہ ابتداءمیں اردو شاعری پر فارسی شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے اردو شعراءنے غیر شعوری طور پر فارسی شاعری کے اسالیب، سانچے اور موضوعات قبول کر لیے۔ دوسری طرف اس موضوع کو اس لیے بھی مقبولیت ملی کہ کہ تصوف میں بھی قناعت، صبر و توکل اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا کیونکہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے جن کی بناءپر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل ہو رہتے تھے۔ اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ۔

ان میں کچھ تو صوفی شعراء تھے لیکن زیادہ تر شعراءنے محض رسمی طور پر تصوف کے مضامین کو نظم کیا۔ چنانچہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تصوف کے مضامین نظرآتے ہیں۔ تصوف کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تصورات و اقدار تھے جو ہندوستان کی فضاءمیں رچے بسے ہوئے تھے۔ جن کی بدولت انھوں نے تصوف کو موضوع بنایا۔

مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل

بجے ہیں کوچ کا ہر دم نقارہ شاہ حاتم

غافل قدم کو اپنے رکھیو سنبھال کر یاں

ہر سنگ راہ گذر کا دکاں شیشہ گر کا ہے

ہے جلوہ گاہ تیرا، کیا غیب کیا شہادت

یاں بھی شہود تیرا، واں بھی شہود تیرا

اس ہستی خراب سے کیا کام تھا ہمیں

اے نشہ ظہور یہ تیری ترنگ تھی

سرسری تم جہاں سے گذرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

اس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہے

بے خود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے

اسے کو ن دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

راز پوشیدہ پوچھے کس سے

بے خبر ہے، جو باخبر ہے

رمزیت اور اشاریت : تصوف کی بدولت اردو شاعری میں بڑی وسعت پیدا ہوئی چنانچہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ، ” دہلی میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور گہرائی پیدا کی اور اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھا۔ تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجہ دیا اور ابتذال سے دور رکھا۔ “

مسائل تصوف نے اردو غزل کو رمز و کنایہ کی زبان دی، پیر مغاں، گل، بلبل، چمن، شمع، پروانہ، میکدہ، اسی طرح کی اور بہت سی علامتیں تصوف کے راستے اردو شاعری میں داخل ہوئیں۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے شعراءنے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔ ذیل کے اشعار دیکھیے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔

ساقی ہے اک تبسم گل، فرصت بہار

ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

وہ بادہ و شبانہ کی سرمستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

دبستان دہلی اردو ادب میں ایک اہم تحریک تھی جس نے اردو شاعری اور نثر کے ابتدائی دور میں ایک مضبوط بنیاد رکھی۔ اس دبستان سے وابستہ شخصیات نے اردو زبان و ادب کو نکھارنے اور بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

دبستان دہلی کی اہم شخصیات اور ان کی ادبی خدمات:

1. میر تقی میر (1723-1810)

لقب: خدائے سخن

ادبی خدمات:

اردو غزل کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ان کی شاعری میں سادگی، جذبات کی گہرائی، اور انسانی دکھ درد کی عکاسی ملتی ہے۔

عشق، ہجر، اور دنیا کی ناپائیداری ان کے بنیادی موضوعات ہیں۔

ان کی مشہور کتاب “کلیاتِ میر” اردو شاعری کا قیمتی خزانہ ہے۔

نمونہ کلام:

پہونچا جو اُن کے ہجر میں مجھ پر برا، سو ہے

دشمن کے بھی نہ ہو وہ جو دل کا حال ہے

2. مرزا غالب (1797-1869)

ادبی خدمات:

اردو اور فارسی شاعری میں انقلاب برپا کیا۔

ان کی شاعری میں فلسفیانہ گہرائی، عشق، اور زندگی کی حقیقتوں کا بیان ملتا ہے۔

خطوط نویسی میں سادگی اور برجستگی کو رواج دیا۔

ان کی مشہور تصنیف “دیوانِ غالب” اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔

نمونہ کلام :

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

3. خواجہ میر درد (1721-1785)

ادبی خدمات:

تصوف کے موضوعات کو اردو شاعری میں متعارف کروایا۔

ان کی شاعری عشق حقیقی، روحانیت، اور دنیا کی ناپائیداری پر مبنی ہے۔

ان کی نثر اور شاعری دونوں میں اخلاقی اور روحانی پہلو نمایاں ہیں۔

نمونہ کلام:

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

4. سودا (محمد رضا سودا) (1713-1781)

ادبی خدمات:

اردو قصیدے کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔

طنز و مزاح پر مبنی شاعری کی اور اپنی زبان میں شگفتگی پیدا کی۔

ان کے قصیدے اور مرثیے اردو شاعری میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔

نمونہ کلام:

اب جس طرف سے دیکھوں، ہستی دھواں دھواں ہے

آئینہ خانہ تھا جو، تصویر خانہ نکلا

5. انشاء اللہ خان انشاء (1756-1817)

ادبی خدمات:

اردو میں نثر نگاری کو فروغ دیا۔

اپنی تخلیقات میں زبان کی سادگی اور برجستگی کو رواج دیا۔

مزاحیہ اور تخلیقی شاعری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔

مشہور تصنیف: “رانی کیتکی کی کہانی” اردو کی ابتدائی نثری کہانیوں میں شامل ہے۔

6. مولوی عبد القادر بلگرامی

ادبی خدمات:

اردو زبان کو نکھارنے اور اس میں قواعد و اصول متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

دبستان دہلی کی خصوصیات:

کلاسیکی رنگ: شعری زبان میں سادگی اور گہرائی۔

غزل کا فروغ: غزل کو ادب کی مرکزی صنف کے طور پر پیش کیا۔

تصوف اور فلسفہ: شاعری میں روحانی اور فلسفیانہ موضوعات کو اجاگر کیا۔

زبان کی ترقی: اردو زبان کو معیاری بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ شخصیات اردو ادب کی بنیاد رکھنے والے ستون ہیں، جن کی تخلیقات آج بھی ادب کے طلبہ اور شائقین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

تحریک کا مجموعی جائزہ  : دہلویت ایک خاص افتاد ذہنی یا مزاج شعری کا نام نہیں ہے جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دہلی کا شاعر غم ِ روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہواہے۔ اسی لیے اس کے کلام میں دونوں کی کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصور عطا کیا ۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں۔(نور الحسن ہاشمی ،دلی کا دبستان

شاعری ،ص:13)

 


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply