داغ دہلوی سے متعلق مختصر سوالات

آج کی اس پوسٹ میں ہم داغ دہلوی کی شاعری ، سوانح عمری اور تصانیف پر مختصر سوالات کے بارے میں پڑھیں گے ۔

سوال نمبر 1 : داغ دہلوی کب پیدا ہوئے ؟

جواب : داغ دہلوی 25 مئی 1831ء کو پیدا ہوئے۔ سوال نمبر 2 : داغ دہلوی کہاں پیدا ہوئے ؟

جواب : داغ دہلوی دلی میں پیدا ہوئے اسی لیے دہلوی کہلاتے ہیں ۔

سوال نمبر 3 : داغ دہلوی نے کہاں پرورش پائی ؟ جواب :؛ دا دہلوی نے قلعہ معلیٰ میں پرورش پائی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ داغ کے والد کا جب انتقال ہو گیا تو داغ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے میاں فخرو سے شادی کر لی ۔ اس لیے داغ کی ابتدائی زندگی قلعہ معلیٰ میں گزری ۔

سوال نمبر 4 : داغ کے والد کا کیا نام ہے ؟

جواب : داغ کے والد کا نام نواب شمس الدین خان ہے۔

سوال نمبر 5 : داغ کے والد کا انتقال کب ہوا ؟

جواب : داغ کی عمر صرف چھ سال تھی جب داغ کے والد کا انتقال ہوا ۔

سوال نمبر 6 : داغ کے والد کی وفات کے بعد اس کی ماں نے کس سے شادی کی ؟

جواب : داغ کے والد کی وفات کے بعد داغ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کی اور یوں داغ دہلوی کو شاہی محل میں رہنے کا موقع ملا ۔

سوال نمبر 7 : بہادر شاہ ظفر اور ان کا بیٹا مرزا فخرو کس کے شاگرد تھے ؟

جواب : بہادر شاہ ظفر اور ان کا بیٹا مرزا فخرو دونوں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے ۔

سوال نمبر 8 : کیا داغ دہلوی نے بھی استاد ذوق سے استفادہ کیا ؟

جواب : جی ہاں ، داغ دہلوی نے بھی استاد ذوق کی شاگردی اختیار کی ۔

سوال نمبر 9 : داغ کی شاعری کی نمایاں خصوصیات کیا ہیں ؟

جواب :  غالب کی طرح نئی نئی طرح سے الفاظ و تراکیب کو استعمال کرنے کا فن داغ خوب جانتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داغ اردو زبان کے بادشاہ ہیں۔ ان کی کلام میں زبان کا چٹخارا، سلاست بیانی ، صفائی، سحر آفرینی، رنگینی، شوخی اور چلبلاہٹ بلا کی پائی جاتی ہے ۔ اردو زبان کو داغ کے ہاتھوں انتہائی عروج حاصل ہوا داغ کے کلام میں روزمرہ تیکھا پن، محاورے کی چاشنی، شوخی و شرارت ، حلاوت اور نزاکت سبھی کچھ موجود ہے۔ زباں دانیا ور محاورہ تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا ۔ 

سوال نمبر 11 : داغ دہلوی کتنا عرصہ رام پور میں رہے ؟

جواب : داغ تقریباً چوبیس سال رام پور میں قیام پذیر ہوئے ۔

سوال نمبر 12 : داغ رام پور میں کس کے مصائب رہے؟

جواب : غدر کے بعد داغ دہلوی رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا ۔

 سوال نمبر 13 : رام پور میں داغ کو کس سے محبت ہوئی ؟

جواب : رام پور میں ہی داغ کو “منی بائی حجاب” سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی ” فریاد ِ عشق ” اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے ۔

سوال نمبر 14 : کیا داغ نے منی بھائی حجاب سے شادی بھی کی ؟

جواب : اگرچہ شادی نہیں کر سکے مگر داغ کے دل میں حجاب کی محبت آخری دم تک رہی اور آخیر عمر میں انہیں وظیفہ بھی دیتے رہے جو پہلے 60 روپے ماہوار تھا اور پھر بڑھ کر 100 روپے ماہوار ہو گیا ۔

سوال نمبر 15 : حجاب سے شادی پر راضی ہونے پر احباب نے داغ کو کیا کہا اور داغ نے احباب کو کیا جواب دیا ؟

جواب :  دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطم بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انھوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا۔

سوال نمبر 16 : داغ دہلوی کی شاعری میں کس قسم کی زبان اور لب و لہجہ استعمال ہوا ہے وضاحت کریں ؟

جواب : اردو شاعری میں زبان اور اس کی مزاج شناسی کی روایت کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ یہ روایت ذوق کے توسط سے داغ تک پہنچی داغ نے اس روایت کو اتنا آگے بڑھایا کہ انھیں اپنے استاد ذوق اور پیش رو سودا دونوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب داغ نے ہوش سنبھالا تو لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر، استاد ذوق اور ان کے شاگرد زبان کو خراد پر چڑھا کر اس کے حسن کو نکھار رہے تھے۔ اور بہادر شاہ ظفر کے ہاتھوں اردو کو پہلی بار وہ اردو پن نصیب ہو رہا تھا جسے بعد میں داغ کے ہاتھوں انتہائی عروج حاصل ہوا

اس انداز بیاں کی ذرا مثال ملاحظہ فرمائیں ۔

تھے کہاں رات کو آئینہ تو لے کر دیکھو

اور ہوتی ہے خطاوار کی صورت کیسی

نہ ہمت، نہ قسمت، نہ دل ہے، نہ آنکھیں

نہ ڈھونڈا، نہ پایا، نہ سمجھا، نہ دیکھا

سادگی، بانکپن ، اغماض ، شرارت، شوخی

تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سوال نمبر 17 : دا غ کی اہلیہ کا کیا نام تھا اور ان کا انتقال کب ہوا ؟

جواب :  داغ کی اہلیہ کا نام فاطمہ بیگم تھا اور ان کا انتقال دسمبر 1898ء میں ہوا ۔

سوال نمبر 18 : زندگی کے بارے میں داغ کا نظریہ کیا تھا ؟

جواب : داغ کا زندگی کے بارے میں ایک ہی نظریہ تھا کہ زندگی آرزوئے مسلسل، ایک انہماک کامل اور شوق ناتمام کا نام ہے جس میں لذت ہے، عیش ہے اور تنوع ہے مگر اس میں درد و کرب اور سوز و تپش کی آمیزش نہیں ، وہ ’کھاؤ پیو اور مزے اڑاؤ‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے۔انہوں رند ہونے پر تصوف کا پردہ نہیں ڈالا ۔

سوال نمبر 19 : داغ نے کب وفات پائی؟

جواب :  کچھ لوگوں نے مہینہ اور تاریخ 17 مارچ لکھی ہے اور کچھ لوگوں نے 16 فروری مگر سال 1905ء کا تھا جب داغ دہلوی کا انتقال ہوا۔

سوال نمبر 20 : داغ دہلوی کہاں دفن ہے ؟

جواب :  داغ دہلوی حیدراباد دکن میں دفن ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نواب داغ دہلوی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply