دائم پڑا ہُوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
آج کی اس پوسٹ میں ہم مرزا غالب کی غزل ” دائم پڑا ہُوا ہوں تیرے در پر نہیں ہوں میں” کی تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : دائم (ہمیشہ ) ، در (دروازہ) ، خاک (مٹی ، دھول مراد افسوس )
مفہوم : اے محبوب میں ہمیشہ سے تیرے در پر پڑا ہوا پتھر نہیں ہوں ایسی زندگی پر افسوس ہے کہ میں پتھر بھی نہیں ہوں ۔
تشریح: اپنی شعر گوئی کے پہلے دور میں غالب نے مشکل پسندی اختیار کی لیکن پھر وہ سادہ طرز اپنایا ۔ خیال کی لطافت ، بلندی ، روز مرہ اور محاورات کا لطف طرزِ ادا کی شوخی اور موضوعات کی رنگارنگی نے ان کے کلام کو منفرد اور دلکش بنا دیا۔ زندگی کے غموں اور دکھوں کے باوجود وہ خوش طبعی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ ان کی شاعری کی ایک اہم خوبی محاکات نگاری ہے ۔ وہ لفظوں سے تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کا انتخاب دیوان غالب کی شکل میں کیا اور ان کی شاعرانہ عظمت میں اس انتخاب کو بڑا دخل ہے ۔ اردو کا یہ عظیم شاعر دلی میں انتقال کر گیا ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس مرزا غالب کی کسی بھی غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
پہلے زمانے میں جب سادہ مکان بنائے جاتے تھے مکان کے دروازے کے سامنے عموماً پتھر رکھ دیا جاتا تھا تاکہ اترنے چڑھنے میں دقت نہ ہو ۔ مکان میں داخل ہونے اور باہر نکلنے والا شخص اس پتھر پر پاؤں رکھ کر آگے جاتا تھا ۔ شاعری میں اس پتھر کو ٫٫سنگ در ٬٬ یعنی محبوب کی چوکھٹ کا پتھر کہا جاتا ہے ۔ عاشق کی بڑی تمنا ہوتی ہے کہ وہ محبوب کا سنگ در یعنی محبوب کے دروازے کا پتھر بن جائے تاکہ جب بھی محبوب کا وہاں سے گزر ہو محبوب کے قدم اس پر پڑیں ۔ عاشق کے لیے اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ اسے محبوب کی قدم بوسی کا موقع ملے ۔
بقول واصف علی واصف :
نہ فراق کی مجھے ہے خبر نہ خیال عرضِ وصال ہے
میں جبین شوق ضرور ہوں تیرے سنگ در کی تلاش ہے
چنانچہ تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ وہ پتھر جو تمہارے دروازے پر ہمیشہ پڑا رہتا ہے جس پر تم پاؤں رکھ کر گزرتے ہو ایک معمولی سا پتھر تمہارے قرب سے لطف اندوز ہوتا ہے ، نہ صرف تمہارا دیدار کرتا ہے بلکہ تمہارے قدم بھی چومتا ہے جبکہ میں تمہاری جدائی میں بے قرار رہتا ہوں اور تمہارے دیدار کے لیے مارا مارا پھرتا ہوں ۔ میرا نصیب ایک معمولی پتھر جیسا بھی نہیں کہ تمہارے دروازے پر ہمیشہ پڑا رہتا ۔ ایسی زندگی پر افسوس ہے کہ جس میں ایک پتھر جیسا مقام بھی مجھے حاصل نہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے در پر دائم پڑا ہوا نہیں ہوں یعنی تمہارے در پر میرا قیام مستقل نہیں ہے ۔ میں تھوڑی دیر کے لیے اتا ہوں جبہ سائی کر کے واپس چلا جاتا ہوں ۔ اے کاش میں پتھر ہوتا تھا کہ تمہارے در پر دائم پڑا رہتا ۔ اس طرح میرا مقصدِ حیات حاصل ہو جاتا ۔ تمہارے در پر پڑے رہنا اور تمہارے در کا پتھر ہونا ہی میری زندگی کا مقصد ہے ۔ تمہارے در سے دوری میرے لیے موت کی مانند ہے ۔ چنانچہ ایسی زندگی سے پتھر ہونا بہتر ہے ۔
بقول واصف علی واصف :
میں وہی ہوں واصف بے ہنر تیری یاد میں ہوا دربدر
کہ فنا بقا کی نہیں خبر تیری راہ گزر کی تلاش ہے
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر محبوب سے استفہامیہ انداز میں کہتا ہے کہ کیا میں تمہارے دروازے پر پتھر کی طرح پڑا ہوا نہیں ہوں لیکن پھر بھی میری امید بر نہیں آتی ۔ مجھے تمہاری وفا حاصل نہیں ہوتی اور تمہارا دیدار نصیب نہیں ہوتا ۔ چنانچہ امید بر نہ آنے کی وجہ سے شاعر اکتا کر کہتا ہے کہ ایسی بے حیائی کی زندگی کس کام کی کہ لوگ مجھ پر آوازیں کسیں اور طعنے دیں اور میں برابر سنتا رہوں ۔ میں انسان ہوں پتھر تو نہیں ہوں کہ پتھر میں ہلنے جلنے کی طاقت نہیں ہوتی اور تکلیف پر وہ اظہار کی قدرت نہیں رکھتا لیکن میں انسان اور احساسات و جذبات رکھتا ہوں ۔ ایسی زندگی پر خاک ہے ، میں پتھر نہیں کہ اس طرح بے حس ہو کر تمہارے دروازے پر پڑا رہوں ۔
بقول داغ دہلوی :
تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی ، اور نہیں اور سہی
شعر نمبر 2 :
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: گردش مدام ( ہمیشہ کی گردش ) ، ساغر (جام)
مفہوم : زمانے کی گردش سے میرا دل کیسے نہ گھبرائے آخر میں انسان ہوں بے جان مٹی کا پیالہ نہیں۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں غالب نے اپنا موازنہ مٹی کے پیالے سے کیا ہے اور کہا ہے کہ میں مٹی کے پیالے کی ماند نہیں ہوں کہ مسلسل روز و شب کی گردش سے نہ گھبراؤں ۔ پیالے یا ساغر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ شراب خانے میں مسلسل گردش میں رہتا ہے۔ شراب کی محفل میں شرابی ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اور ساقی صراحی سے پیالے میں شراب انڈیل کر ایک شخص کو دیتا ہے۔ جب وہ شراب پی لیتا ہے تو پیالہ دوسرے شخص کے پاس لایا جاتا ہے۔ اس طرح باری باری ہر شخص کے پاس پیالہ پہنچتا ہے۔ جب دائرے میں موجود سب لوگ شراب پی لیتے ہیں تو شراب کا ایک دور مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا دور اسی ترتیب سے شروع کیا جاتا ہے اور مٹی کا پیالہ اسی دائرے میں گردش کرتا ہے۔ لیکن پیالہ اس گردش سے تنگ نہیں آتا اور نہ وہ تھکتا ہے کیوں کہ وہ دل نہیں رکھتا، وہ احساسات اور جذبات سے عاری ہوتا ہے۔ اس لیے مے خانے میں شراب کے جتنے بھی دور چلیں پیالہ گھبراتا ہے اور نہ واویلا کرتا ہے بلکہ خاموشی سے تمام دور مکمل کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس انسان انتہائی حساس دل رکھتا ہے اور جذبات اور احساسات کا مالک ہے۔ وہ زمانے کی مسلسل گردش سے بعض اوقات اکتا جاتا ہے، زمانے کی مشکلات، حالات کا بدلا ؤ اور زندگی کے نشیب و فراز اسے ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور وہ تکلیف سے چلا اٹھتا ہے۔ بقول شاعر:
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گھلائیں گی
پتلا ہوں خاک کا کوئی پتھر نہیں ہوں میں
چنانچہ تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ میں مٹی کا پیالہ نہیں ہوں جو حالات کی گردش سے نہ گھبرائے، بلکہ میں انسان ہوں، میں احساسات اور جذبات رکھتا ہوں اس لیے حالات کی گردش سے میرا دل گھبرا اٹھتا ہے۔ پیالہ و ساغر بے جان ہیں ۔ اگر وہ ہمیشہ گردش میں رہیں تو انھیں تکلیف نہیں ہوتی ۔ لیکن میں ایک حساس انسان ہوں، میں پیالہ و ساغر کی طرح شب و روز کی گردش برداشت نہیں کر سکتا۔ اس دائمی گردش دوراں سے میرا دل پریشان ہو جاتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ اگر اسے کسی جگہ چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہو تو وہ گھبرا جاتا ہے۔ چناں شاعر کہتا ہے کہ میں اپنی بے سرو پا زندگی سے تنگ آگیا ہوں کیوں کہ میں جام نہیں ہوں جو مسلسل گردش کو برداشت کر سکوں ۔ پیالہ و ساغر تو ۔ بے جان چیزیں ہیں، وہ شراب کی تقسیم میں اگر برابر گردش کرتے رہتے ہیں تو انھیں تکلیف نہیں ہوتی لیکن میں انسان ہوں مجھے کیوں ہمیشہ کی گردش میں رہنا پڑ رہا ہے۔ یہ میرے لیے گھبراہٹ کا باعث ہے۔ شاعر کی پریشانی کا باعث غم جاناں یعنی محبوب کا غم بھی ہو سکتا ہے اور غم دوراں یعنی زمانے کا غم بھی ہو سکتا ہے۔ غم جاناں کی صورت میں وہ محبوب سے شکوہ کناں ہے اور غم دوراں کی صورت میں اس کا شکوہ اللہ تعالٰی سے ہے ۔
بقول مرزا غالب:
دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار ، کوئی ہمیں رلائے کیوں
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر اپنی زندگی کی مشکلات سے پریشان ہے اور کہتا ہے کہ اس پریشان کن زندگی سے دل کیوں نہ گھبرائے؟ افسوس کہ میں انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں ۔ کاش میں بھی پیالہ و ساغر کی طرح بے زبان اور بے حس ہوتا تا کہ زمانے کی اس گردش مدام سے مجھے گھبرانا نہ پڑتا اور یہ میرے لیے تکلیف کا باعث نہ ہوتی ۔
بقول میر ورد:
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
شعر نمبر 3 :
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: لوحِ جہاں( دنیا کی تختی، صفحہ ہستی) ، حرفِ مکرّر ( دوبارہ لکھا ہوا حرف غلطی سے لکھا ہوا حرف )
مفہوم: اے اللہ زمانہ مجھے مٹانے پر کیوں تلا ہے، میں دنیا میں حرفِ مکرّر نہیں ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر زمانے کے ظلم وستم پر اللہ تعالٰی سے شکوہ کناں ہے اور کہتاہے کہ اے اللہ میری ہستی لوحِ جہاں پر حرف مکرر نہیں ہے کہ جسے زائد کچھ سمجھ کر زمانہ مٹا دے ۔ آخر مجھے مٹانے کی کیا وجہ ہے؟ دنیا مجھے کیوں تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ؟ تو نے مجھے دنیا میں بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا تو پھر دنیا مجھے کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟ اصول یہ ہے کہ تختی پر اگر کوئی لفظ غلطی سے دوبار لکھا جائے تو زائد لکھے جانے والے لفظ کو مٹا دیا جاتا ہے یا کاٹ دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ تحریر میں ایک ہی لفظ کا بار بار استعمال عیب شمار ہوتا ہے ۔ تکرار لفظی پڑھنے والے پر بھی گراں گزرتی ہے۔ اچھی تحریر کا قاعدہ یہی ہے کہ کم الفاظ میں زیادہ مفہوم سمو دیا جائے ۔ جامعیت اور اختصار تحریر کا حسن ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ خوب صورت کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قلیل ہو اور پر دلیل ہو۔ چنانچہ تحریر کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے زائد الفاظ یا سہوا لکھے گئے لفظ کو مٹا دیا جاتا ہے تا کہ تکرار لفظی کی وجہ سے تحریر کا حسن اور روانی متاثر نہ ہو۔ چنانچہ اسی اصول کے پیشِ نظر غالب کہتے ہیں کہ اے خدا زمانہ مجھے مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے ؟ میں لوحِ جہاں پر حرف مکرر تو نہیں ہوں ۔ تو نے مجھے اس دنیا میں بے کار تو پیدا نہیں کیا۔ میں اس دنیا میں صرف ایک بار ہی آیا ہوں ، دوسری بار نہیں آیا ، پھر مجھے مٹانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ مجھے آرام و سکون سے کیوں نہیں زندگی گزار نے دی جاتی ؟
بقول شاعر :
زندگی زہر ہے، پینے نہیں دیتے مجھ کو
لوگ اب چین سے جینے نہیں دیتے مجھ کو
زخم پر زخم دیے جاتے ہیں احباب مرے
اور کسی زخم کو سینے نہیں دیتے مجھ کو
اس شعر میں غالب نے اپنی اہمیت کو بیان کیا ہے کہ میں اعلیٰ درجے کا شاعر ہوں، میرے کلام میں جو جدت اور رعنائی پائی جاتی ہے وہ دیگر شعرا کے ہاں موقوف ہے۔ میں نے زندگی کے ہر پہلو کو جس اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے وہ کسی شاعر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ اس کے باجود زمانے کے لوگ میری قدر نہیں کرتے بلکہ میرے مخالف اور حاسد مجھے ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غالب کو ان کی زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل سکا جس کے وہ حق دار اور خواہش مند تھے۔ چنانچہ غالب اپنے مخالفوں اور حاسدین کے ظلم وستم اور رویوں سے تنگ آ کر اللہ تعالٰی سے شکوہ کناں ہیں کہ اے اللہ ! میں حرف مکرر نہیں ہوں اور کوئی وجہ میرے مٹانے کی نہیں ہے، لیکن پھر بھی زمانہ مجھے مٹا رہا ہے ۔
بقول میر تقی میر:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اس شعر سے انسانی عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، یہاں ہر شخص صرف ایک بار ہی کی زندگی لے کر آتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ وہ اس دنیا میں نہیں آتا۔ اللہ تعالٰی نے دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کی۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے پھر کسی انسان کا دنیا میں آنا ہے کار اور بے فائدہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس انسان کو اللہ تعالٰی نے اپنا خلیفہ کہا اور فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا، وہ انسان بھلا کیسے بے فائدہ ہوسکتا ہے؟ لہذا کس کو یہ حق نہں کہ وہ اللہ کی تخلیق میں عیب نکالے اور اسے بے کار و بے فائدہ سمجھ کر مٹانے کی کوشش کرے ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
شعر نمبر 4 :
حد چاہیے سزا میں، عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: عقوبت (سزاء عذاب ، تکلیف)، گنہگار ( گناہ کرنے والا)، کافر (خدا کا منکر )
مفہوم :
میرے گناہوں پر ملنے والی سزا کی ایک حد ہونی چاہیے کیوں کہ میں گناہ گار ضرور ہوں لیکن کافر نہیں ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر گناہ کی سزا کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس لیے میرے گناہ کی سزا کی بھی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ آخر میں گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں کہ جس کی سزا کی کوئی حد ہی نہیں ۔ کافر خدا کے منکر اور توحید کے انکاری شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے مقابل اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مجسموں یا مظاہر فطرت کی پرستش کرتا ہے یا بالکل ملحد ہو جاتا ہے۔ جب کہ گناہ گار وہ ہوتا ہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے لیکن انسان ہونے کی
وجہ سے اس سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ : ٫٫ میں ہر گناہ معاف کر دوں گا لیکن کفر و شرک کو کبھی معاف نہیں کروں گا ٬٬ سورہ نساء آیت 48
چناں چہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ روز قیامت کافر عذابِ الٰہی میں دائمی مبتلا رہیں گے لیکن مسلمان گناہ گاروں کے گناہوں کی سزا کی مدت مقرر ، ہوگی ، جب وہ مدت پوری ہو جائے گی تو ان کو سزا سے نجات مل جائے گی۔ یعنی گناہ گار مسلمان ایمان سلامت ہونے کی وجہ سے ایک نہ ایک دن جنت میں
ضرور چلا جائے گا۔
بقول شاعر:
مانا کہ گنہگار ہوں لیکن میری بخشش ہوگی
مہر ہو باقی تو پھٹا نوٹ بھی چل جاتا ہے
اس کے پیشِ نظر غالب کہتے ہیں کہ میں کافر نہیں ہوں جو ہمیشہ کی سزادی جارہی ہے۔ اگر چہ میں گناہ کار ہوں لیکن بہر حال مسلمان ہوں اس لیے میری سزا کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ دنیا کی عدالت کا بھی اصول ہے کہ جج مجرم کے حالات اور جرم کی نوعیت کے پیش نظر سزا میں تخفیف یا زیادتی کرتا ہے۔ بڑے جرم کی معمولی سزا اور چھوٹے جرم کی بڑی سزا ہرگز نہیں دیتا۔ اسی طرح ایک عادی مجرم اور ایک عام خطاکار دونوں کی سزا میں بھی فرق کیا جاتا ہے۔
٫٫سزا،، سے مراد زندگی کی پریشانیاں اور مصائب ہیں اور ” عقوبت” سے مراد تکالیف ہیں۔ چناں چہ شاعر کہتا ہے میں ہر وقت مصائب میں گرفتار خطا کار انسان ہوں کوئی کافر اور منکر خدا نہیں ہوں کہ جسے ہمیشہ کی سزادی جائے ۔
بقول جون ایلیا :
جرم میں ہم کی کریں بھی تو کیوں؟
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے
شعر نمبر 5 :
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے
لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: عزیز ( پیارا) ، لعل ( سرخ قیمتی پتھر ) ، زمرد (سبز قیمتی پتھر ) ، زر (دولت، سونا ) ، گوہر (موتی )
مفہوم : تم مجھے عزیز کیوں نہیں سمجھتے ؟ اس لیے کہ میں جواہرات میں سے نہیں ہوں۔
تشریح : غالب اعلیٰ پائے ک شاعر تھے اور نہی اپنی شاعری پر ناز تھا۔ غالب کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ایک خاص مقام حاصل کریں ۔ بادشاہ نے غالب کی بجائے ابراہیم ذوق کو دربار میں خاص مقام دیا ہوا تھا۔ ان کی موجودگی میں غالب کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔
انسانی فطرت ہے کہ اس کے پاس جس چیز کی بہتات اور فراوانی ہو، اسے اس کی قدر نہیں ہوتی، ایک غریب شخص کے لیے مال و دولت اور زر و جواہرات بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ اس کے پاس ان چیزوں کی کمی ہوتی ہے جب کہ ایک امیر شخص یا بادشاہ کے لیے زر و جواہرات اتنی اہمیت نہیں رکھتے کیوں کہ بادشاہ کے پاس زر و جواہرات کی کثرت ہوتی ہے، اس کے خزانے میں اور اس کے تاج و تخت اور لباس میں بے شمار قیمتی جواہرات موجود ہوتے ہیں۔
چناں چہ تشریح طلب شعر میں غالب بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے بادشاہ سلامت ! آپ مجھے کیوں عزیز نہیں رکھتے ؟ اور اپنے درباریوں میں کیوں نہیں شامل کرتے؟ میں لعل و زمرد تو نہیں ہوں کہ جن کی قدر آپ کی نگاہ میں زیادہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ آپ کے خزانے میں بہ کثرت موجود ہیں۔ میں تو غالب ہوں اور سب جانتے ہیں کہ آج میرا ثانی سارے زمانے میں نہیں۔ ایک اور جگہ غالب بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گو و خوش گفتار
علم ہے گر نہ دو سخن کی داد
ظلم ہے ھر نہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ سے پیار
میرے جیسا نکتہ آفرین اور جدت پسند شاعر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ میری صلاحیتیوں کی قدر کریں اور مجھے اپنے دربار میں جگہ دیں اور عزیز رکھیں ۔ اس شعر میں شاعرانہ تعلی کی جھلک نظر آتی ہے۔
اور شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ غزل کے روایتی انداز میں غالب محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے محبوب ! تم مجھے عزیز کیوں نہیں سمجھتے اور اپنا قرب کیوں نہیں عطا کرتے ؟ شاید اس لیے کہ میں لعل و زمرد جیسے جواہرات میں سے نہیں ہوں بلکہ ایک عام سا انسان ہوں جس کی قدر و قیمت تمھارے نزدیک کچھ نہیں ۔ جذبات و احساسات ، زر و جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہوتے ہیں۔ یہ سراسر نا انصافی کی بات ہے کہ تم بے جان پتھروں کی قدر و قیمت پہچانتے ہو لیکن ایک شاعر کی نہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم دل و جان سے قدر کرتے اور میرے جزبات واحساسات کو پہچانتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اللہ کی شاہ کار تخلیق اشرف المخلوقات انسان کی قدر نہیں پہچانتے ۔
بقول میر تقی میر :
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
شعر نمبر 6 :
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: آنکھوں پر قدم رکھنا (محاورہ عزیز رکھنا، شوق سے آنا ) ، دریغ ( روکنا، بچانا، پہلو تہی کرنا ) ، رتبے (مرتبے) ، مہر ( سورج)، ماہ (چاند)، کمتر (حقیر)
مفہوم : تم میری آنکھوں پر اپنے قدم رکھتے ہوئے کیوں دریغ کرتے ہو، میں مرتبے میں چاند سورج سے کم تر نہیں ہوں ۔
تشریح : طلب شعر میں شاعر بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر سے مخاطب ہیں اور انھیں اپنی ہے توقیری اور بے وقعتی کا احساس دلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے بادشاہ سلامت ! آپ میری آنکھوں پر قدم رکھنے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ حضور میری آنکھوں پر قدم رکھیے، میں رہتے میں مہر ماہ سے کم تر نہیں ہوں ۔ از راہ کرم مجھے بھی اپنا قرب عطا فرمائیں ۔
بقول شاعر:
تاروں سے اور چاند سے کم تر نہیں ہوں میں
جگنو ہوں اس لیے بھی فلک پر نہیں ہوں میں
آنکھوں پر قدم رکھنا محاورہ ہے جس کا مطلب عزیز رکھنا اور شوق سے تشریف لانا ہے۔ اس لحاظ سے شعر کا مطلب یہ ہوا کہ اسے بادشاہ سلامت آپ مجھے عزیز کیوں نہیں رکھتے؟ مجھے عزیز رکھنے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ میں مقام و مرتبے میں چاند ، سورج کی مانند ہوں۔ آپ چاند سورج کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں تو میں بھی مرتبے میں چاند سورج سے کم نہیں ہوں۔ جس طرح چاند سورج آسمان دنیا پر روشن ہیں اسی طرح میں بھی آسمان سخن پر روشن ہوں۔ میری شاعری بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ بقول فاطمہ حسن :
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
سو رنگ مضامین ہیں جب لکھنے پر آؤں
گلدستہ معنی مرے اشعار میں دیکھیں
غزل کے روایتی انداز میں شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور محبوب کے سامنے اپنی ہے توقیری پر شکوہ کناں ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ! تم میرے سامنے آنے سے کیوں گریزاں ہو اور مجھے عزیز رکھنے سے کیوں گھبراتے ہو؟ کیا میں مرتبے میں بلند نہیں ہوں، اور کیا میرے جذبات کی کوئی حیثیت نہیں ؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ چاند سورج بہت بلندی پر ہیں اور ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے لیکن میں بھی آسمان سخن کا روشن ستارہ ہوں جو بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔ لہٰذا تمھیں مجھے کم تر و حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور میرے سامنے آنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
بقول شاعر:
تنہا جو آئیے میری آنکھوں پر آئیے
ساتھ اپنے غیر کو کبھی نہ لائیے
شعر نمبر 7 :
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: منع کرنا ( روکنا ) ، قدم بوسی ( قدم چومنا، بلند مرتبہ شخصیت کی خدمت میں تشریف لے جانا )
مفہوم: مجھے اپنے قدم چومنے سے کیوں روکتے ہو؟ کیا میں مرتبے میں آسمان کے برابر نہیں ہوں؟
تشریح: یہ شعر بھی پچھلے شعر کا تسلسل ہے اس میں بھی غالب بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر سے مخاطب ہیں اور اپنی ہے تو قیری اور بے وقعتی کا شکوہ کرتے ہیں چناں چہ غالب کہتے ہیں اے بادشاہ سلامت ! جب آپ نے مہر و ماہ کو قدم بوسی بخشنے میں دریغ نہیں فرمایا تو پھر حضور مجھے قدم بوسی سے کیوں انکار فرماتے ہیں ؟ کیا میں آسمان کے برابر بھی رتبہ نہیں رکھتا؟ مجھے بھی اپنے قدم چومنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ قدم چومنا عقیدت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ لوگ اپنے بزرگوں اور مرید اپنے پیروں کے پاؤں چوم کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور اسے سعادت کا باعث سمجھتے ہیں۔ چناں چہ غالب کہتے ہیں کہ بادشاہ سلامت مجھے بھی قدم چومنے کی اجازت عنایت فرمائیں ۔ میں بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
٫٫ قدم بوسی“ کا لفظ کنایہ کسی بڑی ہستی سے ملاقات کے لیے تشریف لے جانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے شعر کا مطلب یہ ہوا کہ اے بادشاہ سلامت آپ بڑے بڑے امراء اور رئیسوں کو اجازت دیتے ہیں لیکن مجھے ملاقات کی اجازت کیوں نہیں مرحمت فرماتے؟ میری ہے توقیری کیوں فرماتے ہیں ؟ کیا میں مرتبے میں کسی سے کم تر ہوں؟ میرا مرتبہ بھی شعر و ادب میں بہت بلند ہے۔ جس طرح آسمان بلند ہے اسی طرح شعرا میں میرا مقام بھی ارفع و اعلیٰ ہے۔ بطور استعارہ “آسمان” سے مراد مشہور شاعر ابراہیم ذوق بھی ہو سکتے ہیں جو بہادر شاہ ظفر کے دربار سے منسلک تھے۔ غالب اور ابراہیم ذوق کی آپس میں شاعرانہ رقابت تھی۔ غالب بھی بادشاہ کے دربار سے منسلک ہونا چاہتے تھے لیکن ابراہیم ذوق جب تک زندہ رہے غالب کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اس پس منظر میں غالب بادشاہ سے استفسار کر رہے ہیں کہ کیا میں ابراہیم ذوق کے برابر کا شاعر نہیں ہوں؟ مجھے ملاقات کا شرف کیوں نہیں دیا جا رہا۔
بقول شاعر:
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
سو رنگ مضامین ہیں جب لکھنے پر آؤں
گلدستہ معنی مرے اشعار میں دیکھیں
غزل کے روایتی انداز میں شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر محبوب سے ملاقات کا شرف چاہتا ہے لیکن محبوب ہر بار اسے انکار کر دیتا ہے۔ چناں چہ شاعر اس انکار کی وجہ دریافت کرتا ہے کہ کیا تمھاری نظر میں، میں کم تر اور بے وقعت ہوں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے میں بھی مقام و مرتبے میں آسمان کی مانند ہوں۔ جس طرح آسمان اپنے چاند کی قدم بوسی کرتا ہے میں بھی آپ کی قدم بوسی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک اور شاعر محبوب کی قدم بوسی کی حسرت یوں بیان کرتے ہیں :
بقول مبارک عظیم آبادی:
اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو
اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے
شعر نمبر : 8
غالب وظیفہ خوار ہو ، دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے ، جو کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: وظیفہ خوار ( وظیفہ لینے والا ) ، شاہ ( بادشاہ)
مفہوم : اے غالب تم بادشاہ سے وظیفہ پاتے ہو اس لیے بادشاہ کو دعا دو، اب وہ دن نہیں رہے جب تم کہتے تھے کہ میں نو کر نہیں ہوں ۔
تشریح : ابراہیم ذوق کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر نے غالب کو اپنا استاد مقرر کر لیا اوران کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ اس سے پہلے غالب کی زندگی تنگ دستی اور غربت کی زندگی تھی یوں کہ غالب کا کوئ مستقل ذریعہ روزگار نہیں تھا ۔ چناں چہ غالب تشریح طلب شعر میں کہتے ہیں کہ اے غالب اب تم بادشاہ کے وظیفہ خوار ہوگئے ہو ۔ اس لیے بادشاہ کو دعائیں دو ۔ شکر کرو تم نوکر ہو گئے اور غم روزگار سے آزاد ہو گئے ہو ۔ اب وہ دن چلے گئے جب ہر شخص پوچھتا تھا کہ ہے؟ تمھارا ذریعہ آمدن کیا ہے اور تمھارا گزارا کیسے ہوتا ہے ؟ ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں:
تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمی بازار
شام ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشاہ کا غلام کار گزار
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر
نسبتیں ہو گئیں مشخص چار
اس بات کا بھی امکان ہے کہ غالب نے خود کو وظیفہ خوار اور نوکر کہ کر اپنی انا خودی اور خود داری پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ دن گئے جب تم بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں کسی کا نوکر نہیں ہوں ۔ ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں :
ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
ورنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
نوٹ : امید ہے کہ آپ غالب کی غزل ٫٫ دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہوں میں ،، کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.