دائم پڑا ہُوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
آج کی اس پوسٹ میں ہم مرزا غالب کی غزل ” دائم پڑا ہُوا ہوں تیرے در پر نہیں ہوں میں” کی تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : دائم (ہمیشہ ) ، در (دروازہ) ، خاک (مٹی ، دھول مراد افسوس )
مفہوم : اے محبوب میں ہمیشہ سے تیرے در پر پڑا ہوا پتھر نہیں ہوں ایسی زندگی پر افسوس ہے کہ میں پتھر بھی نہیں ہوں ۔
تشریح: اپنی شعر گوئی کے پہلے دور میں غالب نے مشکل پسندی اختیار کی لیکن پھر وہ سادہ طرز اپنایا ۔ خیال کی لطافت ، بلندی ، روز مرہ اور محاورات کا لطف طرزِ ادا کی شوخی اور موضوعات کی رنگارنگی نے ان کے کلام کو منفرد اور دلکش بنا دیا۔ زندگی کے غموں اور دکھوں کے باوجود وہ خوش طبعی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ ان کی شاعری کی ایک اہم خوبی محاکات نگاری ہے ۔ وہ لفظوں سے تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کا انتخاب دیوان غالب کی شکل میں کیا اور ان کی شاعرانہ عظمت میں اس انتخاب کو بڑا دخل ہے ۔ اردو کا یہ عظیم شاعر دلی میں انتقال کر گیا ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس مرزا غالب کی کسی بھی غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
پہلے زمانے میں جب سادہ مکان بنائے جاتے تھے مکان کے دروازے کے سامنے عموماً پتھر رکھ دیا جاتا تھا تاکہ اترنے چڑھنے میں دقت نہ ہو ۔ مکان میں داخل ہونے اور باہر نکلنے والا شخص اس پتھر پر پاؤں رکھ کر آگے جاتا تھا ۔ شاعری میں اس پتھر کو ٫٫سنگ در ٬٬ یعنی محبوب کی چوکھٹ کا پتھر کہا جاتا ہے ۔ عاشق کی بڑی تمنا ہوتی ہے کہ وہ محبوب کا سنگ در یعنی محبوب کے دروازے کا پتھر بن جائے تاکہ جب بھی محبوب کا وہاں سے گزر ہو محبوب کے قدم اس پر پڑیں ۔ عاشق کے لیے اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ اسے محبوب کی قدم بوسی کا موقع ملے ۔
بقول واصف علی واصف :
نہ فراق کی مجھے ہے خبر نہ خیال عرضِ وصال ہے
میں جبین شوق ضرور ہوں تیرے سنگ در کی تلاش ہے
چنانچہ تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ وہ پتھر جو تمہارے دروازے پر ہمیشہ پڑا رہتا ہے جس پر تم پاؤں رکھ کر گزرتے ہو ایک معمولی سا پتھر تمہارے قرب سے لطف اندوز ہوتا ہے ، نہ صرف تمہارا دیدار کرتا ہے بلکہ تمہارے قدم بھی چومتا ہے جبکہ میں تمہاری جدائی میں بے قرار رہتا ہوں اور تمہارے دیدار کے لیے مارا مارا پھرتا ہوں ۔ میرا نصیب ایک معمولی پتھر جیسا بھی نہیں کہ تمہارے دروازے پر ہمیشہ پڑا رہتا ۔ ایسی زندگی پر افسوس ہے کہ جس میں ایک پتھر جیسا مقام بھی مجھے حاصل نہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے در پر دائم پڑا ہوا نہیں ہوں یعنی تمہارے در پر میرا قیام مستقل نہیں ہے ۔ میں تھوڑی دیر کے لیے اتا ہوں جبہ سائی کر کے واپس چلا جاتا ہوں ۔ اے کاش میں پتھر ہوتا تھا کہ تمہارے در پر دائم پڑا رہتا ۔ اس طرح میرا مقصدِ حیات حاصل ہو جاتا ۔ تمہارے در پر پڑے رہنا اور تمہارے در کا پتھر ہونا ہی میری زندگی کا مقصد ہے ۔ تمہارے در سے دوری میرے لیے موت کی مانند ہے ۔ چنانچہ ایسی زندگی سے پتھر ہونا بہتر ہے ۔
بقول واصف علی واصف :
میں وہی ہوں واصف بے ہنر تیری یاد میں ہوا دربدر
کہ فنا بقا کی نہیں خبر تیری راہ گزر کی تلاش ہے
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر محبوب سے استفہامیہ انداز میں کہتا ہے کہ کیا میں تمہارے دروازے پر پتھر کی طرح پڑا ہوا نہیں ہوں لیکن پھر بھی میری امید بر نہیں آتی ۔ مجھے تمہاری وفا حاصل نہیں ہوتی اور تمہارا دیدار نصیب نہیں ہوتا ۔ چنانچہ امید بر نہ آنے کی وجہ سے شاعر اکتا کر کہتا ہے کہ ایسی بے حیائی کی زندگی کس کام کی کہ لوگ مجھ پر آوازیں کسیں اور طعنے دیں اور میں برابر سنتا رہوں ۔ میں انسان ہوں پتھر تو نہیں ہوں کہ پتھر میں ہلنے جلنے کی طاقت نہیں ہوتی اور تکلیف پر وہ اظہار کی قدرت نہیں رکھتا لیکن میں انسان اور احساسات و جذبات رکھتا ہوں ۔ ایسی زندگی پر خاک ہے ، میں پتھر نہیں کہ اس طرح بے حس ہو کر تمہارے دروازے پر پڑا رہوں ۔
بقول داغ دہلوی :
تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی ، اور نہیں اور سہی
شعر نمبر 2 :
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: گردش مدام ( ہمیشہ کی گردش ) ، ساغر (جام)
مفہوم : زمانے کی گردش سے میرا دل کیسے نہ گھبرائے آخر میں انسان ہوں بے جان مٹی کا پیالہ نہیں۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں غالب نے اپنا موازنہ مٹی کے پیالے سے کیا ہے اور کہا ہے کہ میں مٹی کے پیالے کی ماند نہیں ہوں کہ مسلسل روز و شب کی گردش سے نہ گھبراؤں ۔ پیالے یا ساغر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ شراب خانے میں مسلسل گردش میں رہتا ہے۔ شراب کی محفل میں شرابی ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اور ساقی صراحی سے پیالے میں شراب انڈیل کر ایک شخص کو دیتا ہے۔ جب وہ شراب پی لیتا ہے تو پیالہ دوسرے شخص کے پاس لایا جاتا ہے۔ اس طرح باری باری ہر شخص کے پاس پیالہ پہنچتا ہے۔ جب دائرے میں موجود سب لوگ شراب پی لیتے ہیں تو شراب کا ایک دور مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا دور اسی ترتیب سے شروع کیا جاتا ہے اور مٹی کا پیالہ اسی دائرے میں گردش کرتا ہے۔ لیکن پیالہ اس گردش سے تنگ نہیں آتا اور نہ وہ تھکتا ہے کیوں کہ وہ دل نہیں رکھتا، وہ احساسات اور جذبات سے عاری ہوتا ہے۔ اس لیے مے خانے میں شراب کے جتنے بھی دور چلیں پیالہ گھبراتا ہے اور نہ واویلا کرتا ہے بلکہ خاموشی سے تمام دور مکمل کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس انسان انتہائی حساس دل رکھتا ہے اور جذبات اور احساسات کا مالک ہے۔ وہ زمانے کی مسلسل گردش سے بعض اوقات اکتا جاتا ہے، زمانے کی مشکلات، حالات کا بدلا ؤ اور زندگی کے نشیب و فراز اسے ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور وہ تکلیف سے چلا اٹھتا ہے۔ بقول شاعر:
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گھلائیں گی
پتلا ہوں خاک کا کوئی پتھر نہیں ہوں میں
چنانچہ تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ میں مٹی کا پیالہ نہیں ہوں جو حالات کی گردش سے نہ گھبرائے، بلکہ میں انسان ہوں، میں احساسات اور جذبات رکھتا ہوں اس لیے حالات کی گردش سے میرا دل گھبرا اٹھتا ہے۔ پیالہ و ساغر بے جان ہیں ۔ اگر وہ ہمیشہ گردش میں رہیں تو انھیں تکلیف نہیں ہوتی ۔ لیکن میں ایک حساس انسان ہوں، میں پیالہ و ساغر کی طرح شب و روز کی گردش برداشت نہیں کر سکتا۔ اس دائمی گردش دوراں سے میرا دل پریشان ہو جاتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ اگر اسے کسی جگہ چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہو تو وہ گھبرا جاتا ہے۔ چناں شاعر کہتا ہے کہ میں اپنی بے سرو پا زندگی سے تنگ آگیا ہوں کیوں کہ میں جام نہیں ہوں جو مسلسل گردش کو برداشت کر سکوں ۔ پیالہ و ساغر تو ۔ بے جان چیزیں ہیں، وہ شراب کی تقسیم میں اگر برابر گردش کرتے رہتے ہیں تو انھیں تکلیف نہیں ہوتی لیکن میں انسان ہوں مجھے کیوں ہمیشہ کی گردش میں رہنا پڑ رہا ہے۔ یہ میرے لیے گھبراہٹ کا باعث ہے۔ شاعر کی پریشانی کا باعث غم جاناں یعنی محبوب کا غم بھی ہو سکتا ہے اور غم دوراں یعنی زمانے کا غم بھی ہو سکتا ہے۔ غم جاناں کی صورت میں وہ محبوب سے شکوہ کناں ہے اور غم دوراں کی صورت میں اس کا شکوہ اللہ تعالٰی سے ہے ۔
بقول مرزا غالب:
دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار ، کوئی ہمیں رلائے کیوں
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر اپنی زندگی کی مشکلات سے پریشان ہے اور کہتا ہے کہ اس پریشان کن زندگی سے دل کیوں نہ گھبرائے؟ افسوس کہ میں انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں ۔ کاش میں بھی پیالہ و ساغر کی طرح بے زبان اور بے حس ہوتا تا کہ زمانے کی اس گردش مدام سے مجھے گھبرانا نہ پڑتا اور یہ میرے لیے تکلیف کا باعث نہ ہوتی ۔
بقول میر ورد:
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
شعر نمبر 3 :
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: لوحِ جہاں( دنیا کی تختی، صفحہ ہستی) ، حرفِ مکرّر ( دوبارہ لکھا ہوا حرف غلطی سے لکھا ہوا حرف )
مفہوم: اے اللہ زمانہ مجھے مٹانے پر کیوں تلا ہے، میں دنیا میں حرفِ مکرّر نہیں ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر زمانے کے ظلم وستم پر اللہ تعالٰی سے شکوہ کناں ہے اور کہتاہے کہ اے اللہ میری ہستی لوحِ جہاں پر حرف مکرر نہیں ہے کہ جسے زائد کچھ سمجھ کر زمانہ مٹا دے ۔ آخر مجھے مٹانے کی کیا وجہ ہے؟ دنیا مجھے کیوں تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ؟ تو نے مجھے دنیا میں بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا تو پھر دنیا مجھے کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟ اصول یہ ہے کہ تختی پر اگر کوئی لفظ غلطی سے دوبار لکھا جائے تو زائد لکھے جانے والے لفظ کو مٹا دیا جاتا ہے یا کاٹ دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ تحریر میں ایک ہی لفظ کا بار بار استعمال عیب شمار ہوتا ہے ۔ تکرار لفظی پڑھنے والے پر بھی گراں گزرتی ہے۔ اچھی تحریر کا قاعدہ یہی ہے کہ کم الفاظ میں زیادہ مفہوم سمو دیا جائے ۔ جامعیت اور اختصار تحریر کا حسن ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ خوب صورت کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قلیل ہو اور پر دلیل ہو۔ چنانچہ تحریر کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے زائد الفاظ یا سہوا لکھے گئے لفظ کو مٹا دیا جاتا ہے تا کہ تکرار لفظی کی وجہ سے تحریر کا حسن اور روانی متاثر نہ ہو۔ چنانچہ اسی اصول کے پیشِ نظر غالب کہتے ہیں کہ اے خدا زمانہ مجھے مٹانے پر کیوں تلا ہوا ہے ؟ میں لوحِ جہاں پر حرف مکرر تو نہیں ہوں ۔ تو نے مجھے اس دنیا میں بے کار تو پیدا نہیں کیا۔ میں اس دنیا میں صرف ایک بار ہی آیا ہوں ، دوسری بار نہیں آیا ، پھر مجھے مٹانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ مجھے آرام و سکون سے کیوں نہیں زندگی گزار نے دی جاتی ؟
بقول شاعر :
زندگی زہر ہے، پینے نہیں دیتے مجھ کو
لوگ اب چین سے جینے نہیں دیتے مجھ کو
زخم پر زخم دیے جاتے ہیں احباب مرے
اور کسی زخم کو سینے نہیں دیتے مجھ کو
اس شعر میں غالب نے اپنی اہمیت کو بیان کیا ہے کہ میں اعلیٰ درجے کا شاعر ہوں، میرے کلام میں جو جدت اور رعنائی پائی جاتی ہے وہ دیگر شعرا کے ہاں موقوف ہے۔ میں نے زندگی کے ہر پہلو کو جس اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے وہ کسی شاعر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ اس کے باجود زمانے کے لوگ میری قدر نہیں کرتے بلکہ میرے مخالف اور حاسد مجھے ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غالب کو ان کی زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل سکا جس کے وہ حق دار اور خواہش مند تھے۔ چنانچہ غالب اپنے مخالفوں اور حاسدین کے ظلم وستم اور رویوں سے تنگ آ کر اللہ تعالٰی سے شکوہ کناں ہیں کہ اے اللہ ! میں حرف مکرر نہیں ہوں اور کوئی وجہ میرے مٹانے کی نہیں ہے، لیکن پھر بھی زمانہ مجھے مٹا رہا ہے ۔
بقول میر تقی میر:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اس شعر سے انسانی عظمت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، یہاں ہر شخص صرف ایک بار ہی کی زندگی لے کر آتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ وہ اس دنیا میں نہیں آتا۔ اللہ تعالٰی نے دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کی۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے پھر کسی انسان کا دنیا میں آنا ہے کار اور بے فائدہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس انسان کو اللہ تعالٰی نے اپنا خلیفہ کہا اور فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا، وہ انسان بھلا کیسے بے فائدہ ہوسکتا ہے؟ لہذا کس کو یہ حق نہں کہ وہ اللہ کی تخلیق میں عیب نکالے اور اسے بے کار و بے فائدہ سمجھ کر مٹانے کی کوشش کرے ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
شعر نمبر 4 :
حد چاہیے سزا میں، عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
مشکل الفاظ کے معانی: عقوبت (سزاء عذاب ، تکلیف)، گنہگار ( گناہ کرنے والا)، کافر (خدا کا منکر )
مفہوم :
میرے گناہوں پر ملنے والی سزا کی ایک حد ہونی چاہیے کیوں کہ میں گناہ گار ضرور ہوں لیکن کافر نہیں ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہر گناہ کی سزا کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس لیے میرے گناہ کی سزا کی بھی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ آخر میں گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں کہ جس کی سزا کی کوئی حد ہی نہیں ۔ کافر خدا کے منکر اور توحید کے انکاری شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے مقابل اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مجسموں یا مظاہر فطرت کی پرستش کرتا ہے یا بالکل ملحد ہو جاتا ہے۔ جب کہ گناہ گار وہ ہوتا ہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے لیکن انسان ہونے کی
وجہ سے اس سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ : ٫٫ میں ہر گناہ معاف کر دوں گا لیکن کفر و شرک کو کبھی معاف نہیں کروں گا ٬٬ سورہ نساء آیت 48
چناں چہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ روز قیامت کافر عذابِ الٰہی میں دائمی مبتلا رہیں گے لیکن مسلمان گناہ گاروں کے گناہوں کی سزا کی مدت مقرر ، ہوگی ، جب وہ مدت پوری ہو جائے گی تو ان کو سزا سے نجات مل جائے گی۔ یعنی گناہ گار مسلمان ایمان سلامت ہونے کی وجہ سے ایک نہ ایک دن جنت میں
ضرور چلا جائے گا۔
بقول شاعر:
مانا کہ گنہگار ہوں لیکن میری بخشش ہوگی
مہر ہو باقی تو پھٹا نوٹ بھی چل جاتا ہے
اس کے پیشِ نظر غالب کہتے ہیں کہ میں کافر نہیں ہوں جو ہمیشہ کی سزادی جارہی ہے۔ اگر چہ میں گناہ کار ہوں لیکن بہر حال مسلمان ہوں اس لیے میری سزا کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ دنیا کی عدالت کا بھی اصول ہے کہ جج مجرم کے حالات اور جرم کی نوعیت کے پیش نظر سزا میں تخفیف یا زیادتی کرتا ہے۔ بڑے جرم کی معمولی سزا اور چھوٹے جرم کی بڑی سزا ہرگز نہیں دیتا۔ اسی طرح ایک عادی مجرم اور ایک عام خطاکار دونوں کی سزا میں بھی فرق کیا جاتا ہے۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.