خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر

آج ہم اس پوسٹ میں خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کے حالات زندگی ، ان کی علمی و ادبی خدمات ، شاعری اور تصانیف پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔

خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

ابتدائی حالاتِ زندگی :

 پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ اور خوشبوؤں کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل وطن بہار کے ضلع دربھنگہ میں لہریا سراے تھا۔ ان کے والد شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔ اسی طرح پروین شاکر کے نانا بھی ادبی ذوق کے حامل انسان تھے ۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ پروین شاکر کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ہی بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیا اور بعد میں انھیں مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں اور پروین شاکر کی خوش قسمتی یہ تھی کہ شاعری میں ان کو اپنے والد کی مکمل حوصلہ افزائی حاصل تھی ۔

ادبی زندگی: پروین شاکر نے جب ادبی اور عملی زندگی میں قدم رکھا تو ان کا زیادہ تر وقت تنہائی میں گزرنے لگا ۔ ادبی لوگوں سے خط و کتابت ہوتی ۔ جن میں احمد ندیم قاسمی نام زیادہ اہم ہے ، جن کو وہ چچا ( عمو ) کہا کرتی تھیں ان کے رسالے ” فنون” میں ” بینا ” کے نام سے کالم لکھا کرتی تھیں ۔ اپنے ایک خط میں صدیقی صاحب کو لکھتی ہیں ” مجھے تو روشنی کی بس ایک ہی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے فن۔ مثلاً میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ نے میری تخلیق اس لیے کی ہے کہ میں شعر کہوں۔ بعض لوگ ساری عمر اپنے آپ کو نہیں شناخت کرسکتے۔ اب مجھے ایک مقصد مل گیا ۔ سو اب میں یہ چاہوں گی کہ شعر مجھ سے زیادہ عمر پائیں۔ میری مجبوری تو طبعی ہے ۔ عناصر میں اعتدال کب تک رہ سکتا ہے مگر یہ اشعار ایسی کسی مجبوری سے دو چار نہیں ہونے چاہیے ” ۔

یہ حقیقت ہے کہ پروین شاکر آج ہم میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے اشعار آج بھی اس کے ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔

پروین شاکر کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے ۔ اسی لیے انھیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں مثلاً کشور ناہید، پروین فنا سید اور فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔ اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی مسائل کو انھوں نے بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں قلمبند کیا ہے۔

پروین کی شاعری میں نسوانی حسن: مرد و زن سب اپنی اپنی شاعری میں اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح پروین شاکر نے بھی طبقہ نسواں کی اپنی شاعری میں بخوبی نمائندگی کی ہے ۔ ان کی شاعری میں جابجا نسواں رنگ بڑی خوبصورتی سے برتا گیا ہے ۔ اردو ادب میں سچے نسائی محسوسات اور جذبات کی شاعری بہت کم ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو شاعرات نے آنکھیں بند کر کے اردو زبان میں شاعری کے مروجہ آہنگ کو اپنا لیا۔ نسائیت سے متعلق پروین کے بارے میں ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے، یہ اقتباس ” اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک ” کتاب سے ماخوذ ہے:  ” غزل کی دنیا میں پروین شاکر ایک عہد آفریں شاعرہ بن کر آئیں اور اپنی نسائی آواز ، چونکا دینے والے اسلوب سے اردو شاعرات میں ہلچل مچا دی۔ پروین شاکر کی شاعری میں صنف نازک کی بے چارگی اور بے بسی کا ایسا درد بھرا ہوا ہے جو اس ہرنی کے انداز سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو چاروں طرف سے شکاریوں سے گھر چکی اور بے چارگی اور بے بسی سے نتھنے کو رگڑ رہی ہو۔ چونکہ غزالہ کے معنی ہرنی ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں اس صنف سخن کو غزل کہا جانے لگا ” ۔

اسی طرح خلیق الزماں نصرت نے بھی پروین شاکر کی شاعری میں نسوانی رنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ ” پروین شاکر کی غزلوں میں نسوانیت کی وہ چیخ چھپی ہوئی ہے جو ایک غیر مطمئن روح سے ابھری ہے۔ جو ایک طرف شاخ گل ہے تو دوسری طرف تلوار بھی ہے۔ انسانی سماج کی ایک عام عورت جو رشتوں میں بندھی ہوئی ہے۔ ایک ایسی شاخ گل ہے جس پر مرجھائے ہوئے باسی پھول لٹکے ہوئے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی ناخوشی اور عدم توازن کے سبب ان غزلوں میں نسوانی جذبات کی حقیق عکاسی تو ملتی ہے لیکن ایسی عکاسی جو ایک با اختیار صاحب وسیلہ نسائیت کا عکس ہو۔ اس کے عہدے پر فائز ایک ایسی با اختیار تلوار کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے جس میں رزمیے کی نہیں مرثیے کی لے پائی جاتی ہے، جنس کی نا آسودہ تڑپ کا اظہار پایا جاتا ہے ” ۔

(کتاب : اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک )

 پروین شاکر کی شاعری میں فکر و فن : اپنے تخیل کمال سے پروین شاکر نے شاعری کو نئے فکر و فن سے روشناس کروایا ۔ انھوں نے جب شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت کچھ خواتین شاعرات اپنی تخلیقی جلوے بکھیر چکی تھیں اور عوام میں مقبول عام تھیں۔ ایسے وقت میں پروین کیلئے قدم جمانا بہت ہی مشکل تھا مگر پروین نے ان سب کے درمیان نہ صرف اپنی انفرادیت دکھائی بلکہ ان سے ممتاز شاعرہ کی صف میں نام کمایا۔ انھوں نے اپنے  منفرد اسلوب اور منفرد لب و لہجے کو مختلف طرز دی جس کی وجہ سے انہیں ہم عصر شاعرات میں منفرد سمجھا گیا۔ ان کے اسی منفرد لہجے کی مثالیں ملاحظہ فرمایئے ۔

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے ہیں

لڑکیاں بیٹھی ہیں پاؤں ڈال کے

روشنی ہونے لگی تالاب میں

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خوبصورت اور نازک خیالات کو شاعری کے ذریعے ادا کر کے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا اور اس میں نئی جہت کا اِضافہ بھی کیا۔ کہتی ہیں ۔

وہ میرے پائوں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے

جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی

شاعری کیلئے فکر و جذبات میں توازن قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پیشتر شاعرات فکر سے زیادہ جذبات کو ترجیح دیتی ہیں۔ پروین کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے یہاں بھی اسی طرح کے فکر و فن ملتے ہیں۔ موضوعات کے اعتبار سے ان کی شاعری میں کوئی نئی بات نہیں ، مگر جذبات کی شدت ، اسلوب بیان کا نیاز انداز انہیں اوروں سے مختلف کرتا ہے اور یہی انداز بیان قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ہجر، وصال، صبح و شام ، بے وفائی کے کرتب ، شک و شبہات جیسی باتیں زیادہ تر شاعرات کے یہاں مل جاتی ہیں، مرد کا وجود ہی عورت کو اپنی ذات کا وہ خاص اور اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر عورت ایک قدم بھی نہیں چلتی ۔ عورت اپنی خواہشات اور دوسرے سبھی رشتوں کی وضاحت اسی سیاق میں کرتی ہیں۔ عورتوں کے نزدیک مرد کی ذات ستم گر اور بے وفا سے زیادہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروین کا شعری تجربہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ مرد کے بغیر ایک قدم بھی چلنا ان کیلئے مشکل ہے۔ خواہ وہ مرد ان کا محبوب ہو یا شوہر یا پھر سرپرست۔

تصانیف: خوشبو ،صد برگ ،خود کلامی ،انکار ، کف آئینہ اور ماہ تمام وغیرہ ۔

وفات : پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پائی ۔تفصیل کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہو گئیں اور جلد ہی انھیں قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ پروین شاکر کو اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان ایچ ایٹ میں دفن کیا گیا ۔  ان کی قبر کے کتبے پر ان کی ہی ایک غزل درج ہے ملاحظہ فرمائیں ۔

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

لوگ تھرا گئے جس وقت منادی آئی

آج پیغام نیا ظل الٰہی دیں گے

جھونکے کچھ ایسے تھپکتے ہیں گلوں کے رخسار

جیسے اس بار تو پت جھڑ سے بچا ہی دیں گے

ہم وہ شب زاد کہ سورج کی عنایات میں بھی

اپنے بچوں کو فقط کور نگاہی دیں گے

آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا

اہل کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے

شہر کی چابیاں اعدا کے حوالے کر کے

تحفتاً پھر انہیں مقتول سپاہی دیں گے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply