آج کی اس پوسٹ میں ہم خواجہ میر درد کی سوانح حیات ، شاعری ، علمی و ادبی خدمات اور تصانیف کے بارے میں سیر حاصل بحث کریں گے ۔
تعارف: اصل نام سید میر اور درد تخلص تھا ۔ ان کے والد ناصر اندلیب درویش منش ، صوفی اور صاحبِ دیوان شاعر تھے ۔ خواجہ میر درد ایک معروف اردو شاعر اور صوفی کلام کے شاعر تھے۔ ان کا عصر 18ویں صدی کا ہے اور وہ دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری میں اپنی خاص طرز تحریر اور روحانی مضامین کی وجہ سے شہرت پائی۔ ان کی شاعری میں محبت، مذہب، انسانیت اور علمی معارف کے مضامین پائے جاتے ہیں۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہیں ۔ درد نے قران ، حدیث ، فقہ ، تصوف اور منطق و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی ۔ والد چونکہ شاہی منصب دار تھے اس لیے صاحب والد کی وفات کے بعد 28 سال کی عمر میں سجادہ نشینی اختیار کی اور باقی زندگی خودداری اور قناعت و استغنا میں بسر کی ۔ وہ بدترین حالات میں بھی دلی میں قیام پذیر رہے ۔
میر درد ایک متوکل انسان تھے تسلیم و رضا اور تحمل و استقلال ان کے مزاج کا حصہ تھا ۔ ان کے کلام میں دنیا کی بے ثباتی ، سوز و گداز ، درد غم اور اخلاقی مضامین ملتے ہیں ۔ درد کی عشقیہ شاعری میں عشق حقیقی کا عنصر غالب ہے ۔ انہوں نے تصوف کو بھی شاعری کا موضوع بنایا ۔ ان کی غزلوں میں مشاہدہ ، حق اور معرفت و حکمت کے مضامین بکثرت موجود ہیں ۔ ان کی زبان بیان سادہ اور سلیس ہے مگر ان کی غزلوں میں غنایت اور تغزل بھی موجود ہے ۔ ان کے دیوان کا مختصر حصہ ہے مگر ” بقامت کہتر و بقیمت بہتر ” کی عمدہ مثال یعنی مقدار میں کم مگر معیار میں اونچا ہے ۔
درد کی شاعری کا اسلوب بیاں :
خواجہ میر درد کا اسلوب بیان بہت ہی روان اور روحانی ہے۔ ان کی شاعری میں عموماً عرفانی، روحانی، اور محبت بھرے مضامین آتے ہیں۔ ان کا اسلوب بہت ہی سادہ اور ہمدرد ہے جو قارئین کے دلوں میں جلد ہی گھر کر جاتا ہے۔ درد کے اسلوب بیان کی چند خوبیاں درج ذیل ہیں:
1. سادگی و روانی : خواجہ میر درد کی تحریر ایک بہت ہی سادہ اور آسان اسلوب میں ہوتی ہے جسے سمجھنا اور محسوس کرنا آسان ہوتا ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں بہت ماہر تھے جو ان کے شاعری کو بہت پسندیدہ بناتا ہے۔
2. محبت انسانی: ان کی شاعری میں محبت ، انسانیت کا درد، اور دوسروں کی خدمت کے پیغامات بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار میں ان موضوعات کو بہترین طریقے سے ظاہر کرتے ہیں جو قارئین کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔
3. عرفانی زاوے : ان کی شاعری میں عرفانی اور روحانی مضامین بھی بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ وہ عالمی مسائل، مذہبی اصولوں اور علمی معارف کو بھی اپنی شاعری میں شامل کرتے ہیں۔
4. تعلیماتی پسندیدگی : وہ انسانیت کی تعلیمی کارکردگی پر بھی نوحہ کناں دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں تعلیماتی پسندیدگی بھی واضح ہوتی ہے جہاں وہ علمی موضوعات کو اپنے اشعار کے ذریعے بیان کرتے ہیں اور قارئین کو علم و فہم کی روشنی فراہم کرتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ خواجہ میر درد کا اسلوبِ بیان ان کی شاعری کی خاصیت ہے جس نے انہیں اردو ادب میں ایک عظیم شاعر بنا دیا۔
- خواجہ میر درد کی علمی و ادبی خدمات :
- خواجہ میر درد کی شاعری علم و فن اور ادب کا بہترین شاہکار ہے جو قارئین کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔خواجہ میر درد نے علمی اور ادبی عالم میں اپنی ممتاز خدمات دی ہیں۔ ان کی زندگی اور شاعری نے اردو ادب میں بہت بڑے مقام کو حاصل کیا ہے۔ یہاں کچھ اہم علمی اور ادبی خدمات شامل ہیں:1 ۔ شاعری: خواجہ میر درد ایک عظیم شاعر ہیں جن کی غزلیں اور نظمیں اردو ادب میں عظیم سرمایہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری میں عرفانی، روحانی، محبت، انسانیت، اور علمی موضوعات کے پیغامات بھرپور ہیں۔
2 ۔ عرفانیات : ان کی شاعری میں عرفانیاتی مضامین بھی بہت زیادہ ہیں جہاں وہ مختلف دینی اصولوں، اسلوبِ ادب کی باتوں اور مذہبی مفاہیم کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔
3 ۔ فلسفہ : خواجہ میر درد کی شاعری میں فلسفیانہ اور علمی موضوعات بھی موجود ہیں جہاں وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر علمی حقائق اور ذہنی تجربات کو بیان کرتے ہیں۔
4 تعلیماتی پسندیدگی : فلسفیانہ طریقے سے وہ تعلیم و۔ تربیت کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں علمی تعلیمات اور پسندیدگی بھی واضح ہوتی ہے جہاں وہ قارئین کو علم و فہم کی روشنی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری نے انسانی تجربات اور علمی معارف کو ایک جملہ بندی میں متبادل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مختصراً یہ کہ درد کی علمی اور ادبی خدمات نے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا اور ان کے اشعار نے قارئین کے دلوں میں کما حقہ کی جگہ بنائی۔
- تصانیف : درد نے اردو و فارسی میں شاعری کی جو تک لوگوں کے دلوں کی دھڑکن میں اُترنے والی ہے ۔ خواجہ میر درد کی تصانیف میں ان کی شاعری کے مختلف جوہری پہلوؤں اور مضامین کو شامل کیا گیا ۔ ان کے کلام میں عشق، محبت، انسانی درد ، انتہائی عرفانیاتی مضامین اور روحانیت کو زندگی کے مختلف پہلو سے ظاہر کیا گیا ہے۔ ان کی تصانیف میں فلسفیانہ باتیں، حکمت آموز باتیں اور دینی اصولوں کے بارے میں علم و فہم کا اظہار کیا گیا ہے۔
- خواجہ میر درد کی کچھ معروف تصانیف درج ذیل ہیں:
- دیوانِ درد : اس میں ان کی مختلف غزلیں اور نظمیں شامل ہیں جو محبت، خدمت، اور روحانیت کے موضوعات پر ہیں۔*
- بہارِ اجمال : یہ ان کی اردو تصنیف ہے جس میں عرفانی اور مذہبی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔
- نقشِ فریادی : اس کتاب میں ان کی شاعری کے عظیم الشان اشعار شامل ہیں جو ان کی تعلیماتی پسندیدگی اور عرفانی پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے ۔
- ان کی تصانیف نے اردو ادب میں ان کے مقام کو ثابت کیا ہے اور ان کی شاعری نے انھیں عظیم الشان شعرا کے درجے پر لا کھڑا کیا ہے ۔
- خواجہ میر درد کے چند مشہور اشعار :
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیک
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
- نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
- شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.