آج ہم خواجہ حیدر علی آتش کی زندگی ، شاعری ، ان کا عہد ، لکھنؤ کا نمائندہ شاعر کون آتش یا ناسخ اور ان کی تصانیف پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
ابتدائی زندگی کا تعارف : خواجہ حیدر علی آتشؔ کے والد محترم کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلی کے باشندے تھے۔ ان کے اسلاف تلاشِ معاش میں بغداد سے دہلی آئے اور پرانے قلعے میں آباد ہوگئے۔ ان کا سلسلہ نسب خواجہ عبداللہ احرار سے ملتا ہے جو سلسلہ نقشبندیہ کے ایک مشہور بزرگ تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب دلّی اجڑ رہی تھی اور ساتھ ذرائع معاش تیزی سے معدوم ہو رہے تھے۔ خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے ۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہ جہان آباد چلے آئے ۔ خواجہ علی بخش کی اولادوں کے بارے میں ابھی تک صرف یہی معلوم ہو سکا ہے کہ ان کے ایک صاحب زادے کا نام خواجہ حیدر علی آتش تھا۔ آتش کی تاریخ ولادت یقینی طور سے نہیں ملتی ۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے تذکرہ ریاض الفصحا میں پہلی مرتبہ آتش کی عمر متعین کی گئی ہے۔ چوں کہ آتش مصحفی کے شاگرد ِ خاص اور چہیتے تھے اور مصحفی نے ۷۷ اشعار پر مشتمل آتش کے کلام کا انتخاب اپنے تذکرہ میں اندراج کیا ہے ۔ اس حوالے سے مصحفی آتش کی ولادت کے براہ راست راوی ہیں جن کا بیان دیگر بیان سے قوی اور معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ مصحفی لکھتے ہیں:
” حالاکہ سن ِ عمرش بہ است ونُہ سالگی رسیدہ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت 1764ء کو یہیں ہوئی ۔
ابتدائی تعلیم و تربیت : خواجہ حیدر علی آتش گورے،چٹے، خوب رو اور جوانِ رعنا تھے۔ مصحفی نے انھیں “وجیہ و مہذب الااخلاق” لکھا ہے ۔ ابھی جوان بھی نہ ہونے پائے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ تعلیم کا سلسلہ معقول حد تک چلتا رہا۔ ابتدائے موزونی طبع سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے۔ مولانا محمد حسین آزاد آتش کے بارے میں لکھتے ہیں : ” ابتدائی عمر اور استعداد علمی تکمیل کو نہ پہنچی تھی کہ طبیعت مشاعروں میں جوش دکھانے لگی۔ اس وقت دوستوں کی تائید سے درسی کتابیں دیکھیں ، باوجود اس کے کافیہ کو کافی سمجھ کر آگے پڑھنا فضول سمجھا ” ۔ ابتدا میں آتش اردو شاعری سے زیادہ فارسی گوئی کی طرف مائل تھے لیکن جب اُردو کی طرف آئے تو ایسے آئے کہ پھر فارسی گوئی بالکل ہی ترک کر دی۔ کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فوج میں بھی کچھ عرصہ ملازم رہے مگر اپنی آزاد طبع فطرت کے باعث جلد ترک کر دیا مگر ان کی فطرت اور شاعری میں سپاہانہ رنگ تا دم مرگ رہا ۔
دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر آتش یا ناسخ: آتش اور ناسخ کا زمانہ ایک ہی ہے ۔ دونوں اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ رقابت بھی رکھتے تھے ۔ برسوں اکٹھے نوکری بھی کی اور مزاج میں بھی کسی حد تک مماثلت پائی جاتی تھی مگر آخیر عمر میں آتش درویشی اور قناعت کی زندگی کی طرف مائل ہوئے اور ناسخ آمیر زادوں کے استاد ہوئے تو دونوں کی مزاجی مماثلت جدا ہو گئی مگر پھر بھی ان دونوں کی شاعری پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ لکھنؤ کا نمائندہ شاعر کسے کہیں اور دلی کا نمائندہ شاعر کسے کہیں ۔ تو آئیے چند ایک مفکرین کی آرا اس معاملے میں پڑھتے ہیں تا کہ یہ مشکل آسانی سے دور کر سکیں ۔
دبستان لکھنؤ کی صحیح نمائندگی کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں امام بخش ناسخ اور آتش کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ محاکمہ کرتے ہوئے آتش کوترجیح دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: ” میں تو یہ کہوں گا کہ لکھنوی ادب اور شاعری کا صحیح نمائندہ آتش ہی تھا ناسخ نہ تھا۔ کیونکہ آتش کے کلام میں اسی زندگی کی لطافتوں کی روح کھچ کر اس طرح جلوہ گر ہو گئی ہے جس طرح شراب کے جوہر میں شراب روح کی طرح کشید ہو کر سراپا لطافت بن جاتی ہے اور اگر غور کیا جائے تو آتش کی شاعری لکھنوی شاعری کی ہی روح ِ لطیف ہے۔ آتش ہی لکھنؤ کا وہ بڑا شاعر تھا جس نے لکھنؤ کے مشاعروں کے لیے بھی لکھا اور اپنے لیے بھی شاعری کی اور اس کی یہی شاعری ہے جس میں لکھنؤ کا وہ ادب پیدا ہو گیا ہے جس کی حیثیت مستقل ہے۔ “
بقول ڈاکٹر سید عبداللہ آتش لکھنوی شاعری کا نمائندہ شاعر ہے مزید آگے چلتے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمیٰ نے بھی اپنی تصنیف “مقدمہ کلا م آتش” میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ” آتش ہی لکھنوی دبستان کی نمائندگی کا حق رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ناسخ کے پاس صرف کرتب تھا استادی اور زبان دانی کا دعویٰ تھا۔ لیکن آتش اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ وہ وجدان اور احساس جمال کے مالک تھے ۔ آتش کا کلام سونے پر سہاگہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ناسخ تخلیقی قوت کے فقدان کی وجہ سے ذہنی ورزش کی طرف مائل رہے۔ اس لیے ان کا کلام زندگی سے دور جا پڑا اور اس میں کوئی رس باقی نہ رہا۔ “
بقول رام بابو سکسینہ “میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہے ۔”
ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ آتش کو ناسخ پر فوقیت حاصل ہے۔ کلیم الدین احمد اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں: ” ہر ذی فہم واقف ہے کہ آتش شاعر تھے اور ناسخ شاعری کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے ۔ “
آل احمد سرور نے لکھنؤ کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے آتش و ناسخ پر بھی رائے زنی کی ہے کہتے ہیں کہ ” ناسخ کی شاعری میں نشتریت سرے ہی سے نہیں وہ جس طرح باقاعدہ ورزش کرتے ہیں اسی طرح ڈھلے ڈھلائے شعر کہتے ہیں۔ ناسخ خودار انسان تھے انھوں نے کبھی اپنے آپ کو ذلیل نہ کیا مگر شاعر وہ بہت معمولی تھے۔ آتش کے یہاں جذبہ بھی ہے۔ گرمی بھی ہے اور گداز بھی وہ دربار سے متعلق نہیں تھے۔ “
مندرجہ بالا پانچ معتبر محققین کی آرا کا موازنہ کرنے کے بعد گویا یہ بات طے ہو گئی ہے کہ آتش ہی ایسے سخنور ہیں جو ہر معاملے میں اور ہر معرکے کے مطابق دبستان لکھنؤ کے نمائندہ شاعر کے طور پر تسلیم کیے جا سکتے ہیں اور اردو شاعری کے ہر بڑے نقاد کی رائے بھی یہی ہے۔
اسلوب بیاں ، شاعری کی نمایاں خصوصیات : آتش کو عبوری دور کا شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس واسطے کہ ان کے کلام میں دونوں دبستانوں( دلی اور لکھنؤ) کی شعری روایات اور خصوصیات بالعموم ملتی ہیں ۔ آتش کے ہاں لکھنویت عام لکھنؤی شاعروں سے بہت مختلف ہے ۔ اس میں وہ عریانی اور فحاشی نہیں ہے جو لکھنؤ شعراء کا وصف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ایک سنبھلا سنبھلا سا انداز ہے ۔ آتش مصحفی کے شاگرد تھے ۔ اس لیے ان کی طرح عام لکھنؤی طرز سے دامن بچا لیتے ہیں ۔ آتش کی زبان صاف اور شستہ ہے ۔ حسن تغزل ، صنائع بدائع کا ماہرانہ استعمال ، صوفیانہ رنگ ، آتش بیانی اور تشبیہات و استعارات آتش کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔
آتش کی شاعری میں وہ خصوصیات بھی شامل ہیں جو اس معاشرے کو محبوب تھیں اور وہ خوبیاں بھی جو حقیقی شاعری کی جان ہیں جن کی وجہ سے اُردو کے چند بڑے شاعروں کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے ۔ امام بخش ناسخ نے صرف لکھنو کے تہذیبی ماحول کی تصویر کھینچی ہے لیکن آتش نے اس پوری تہذیب کی بھرپور ترجمانی بھی کی اور اس دور کے محبوب شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آتش اپنے کلام کے ایک حصے میں ناسخ جیسے نظر آنے کے باوجود، ان سے مختلف اور الگ بھی نظر آتے ہیں۔ناسخ صرف اپنے دور کے ہو کر رہ گئے جبکہ آتش میرؔ، سوداؔ ، درد اور غالب کی طرح اپنے دور کے ساتھ ہر دور کے شاعر قرار پائے ہیں۔ سب سے اہم بات ان کا پر امید لہجہ ہے جس میں عیش کوشی کی جگہ عمل اور جدو جہد کا پیغام ہے ۔ وہ خوشی اور غم دونوں میں تحمل مزاجی سے کام لے کر عمل اور حرکت کے پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں انسان کی عظمت اور زندگی کا والہانہ پیار کا اظہار ہے ۔خواجہ حیدر علی آتش کی شاعری میں مردانہ پن ، تونائی، قوت اور حرکت ہے وہ لکھنوی تہذیب کے اسی مثبت پہلو کا نتیجہ ہے جس پر ہمارے اہل علم و فکر نقادوں نے پوری توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے ۔
آتش کی شاعری کا مجموعی تاثر:
تذکرہ نگاروں اور جدید نقادوں
نے آتش کے کلام کی تعریف کی ہے۔ استاد مصحفی نے اپنے شاگرد کو عظیم شاعر کہا ہے۔ آزاد اور عبد السلام ندوی نے آتش کی شاعری میں سادگی، روانی اور ترنم کا ذکر خاص طور پر کیا ہے ۔
تاریخ ادب اردو میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں،
”میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہیں۔“
مزید لکھتے ہیں کہ:۔ ” آتش کے ہاں صفائی اور محاورات کا بہترین تصرف ہے۔“
بقول فراق: ”آتش کے یہاں دو طرح کے اشعار ہیں ایک وہ جن میں آتش کی انفرادی گرما گرمی اور کڑک اور دوسرے وہ جن میں آتش نے مصحفی کے رنگ کو چمکایا ہے۔“
آخر میں ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کی رائے بھی سنتے ہیں،
” آتش کے یہاں عام لکھنوی رنگ کے اشعار کافی ہیں لیکن اکثر اشعار میں درد و تاثر ہے۔“
وفات :خواجہ صاحب ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے کہ یکا یک ایسا موت کا جھونکا آیا کہ خواجہ صاحب کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ان کے گھر میں فاقہ اور قناعت پسندی کے سوا اور کیا تھا۔ خواجہ صاحب کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ ان کے دیرنہ دوست میر علی خلیل نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور تما م رسوم کی ادائیگی بڑے اہتمام سے ادا کیں۔ اب نہ کہیں قبر ہے اور نہ وہ گھر ، بس ان کا کلام رہ گیا ہے جو ہمیشہ رہے گا ۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا ۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔
تصانیف: آتش نے دو دیوان اردو زبان کو دیے ۔ ایک دیوان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا اور دوسرا ان کی موت کے بعد ان کے ایک دوست ” میر دوست خلیل علی ” نے شائع کروا کر دوسرے دیوان کے ساتھ ملا دیا ۔
چند اشعار آتش کی یادگار:
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
عجب قسمت عطا کی ہے خدا نے اہل غیرت کو
عجب یہ لوگ ہیں غم کھا کے دل کو شاد کرتے ہیں
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
بت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے
آتش کے بارے میں جو کچھ اب تک لکھا ہے اس سے آتش کو سمجھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آتش کی شخصیت جن عناصر سے مل کر بنی تھی ان میں بانکپن، آوارہ منشی، سپاہیانہ وضع قطع نے خوب گل کھلائے ، آتش وجہیہ و خوش شکل ، آزاد طبع ، حسن دوست ، مرد قلندر اور رند مشرب انسان تھے ۔
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.