اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم

اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم 

آج کی اس پوسٹ میں ہم حفیظ جالندھری کی نظم ” حمد ”  کے بارے میں پڑھیں گے ۔ حمد کے مشکل الفاظ کے معانی ، مفہوم اور تشریح پر روشنی ڈالی جائے گی ۔

شعر نمبر 1 :

اسی نے ایک حرف کن سے پیدا کر دیا عالم

کشاکش کی صدائے ہاؤ ہو سے بھر دیا عالم

مشکل الفاظ کے معانی : حرفِ کن ( ہو جا ) ، پیدا کرنا ( بنانا ) ، عالم ( دنیا ) ، کشاکش ( کھینچا تانی ) ، صدا ( آواز)

مفہوم : اک حرفِ کن سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا اور ہر طرف گہما گہمی( رونق) کی سی صورت حال پیدا فرما دی ۔

 تشریح زبان کی صفائی اور سادگی سوز و گداز اور موسیقیت حفیظ جالندھری کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ ان کی ایک انتہائی قابل فخر تخلیق ہے ۔ انھوں نے دیگر بہت سی قومی نظمیں بھی لکھیں۔ حفیظ جالندھری ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس کو اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں حفیظ جالندھری نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے کا ارادہ کیا اور کن کہا تو کائنات وجود میں آگئی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور دنیا میں بھیجا ۔ اس دنیا میں بے شمار چیزیں پیدا کیں۔ دنیا بنانے کے بعد مخلوق کو پیدا کیا گیا ۔ دنیا میں انسان کی بہت سی ضروریات بھی ہیں ۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان کو فکر معاش کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان ایک کھینچا تانی یعنی کشاکش کی اسی صورتحال ہے۔ زندگی دکھ اور تکالیف سے عبارت ہے ۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر طرف گہما گہمی کی صورت پیدا کر رکھی ہے ۔ ہر طرف سے طرح طرح کی سرگرمیاں اور ہنگاموں کی آوازیں آرہی ہیں۔

شعر نمبر 2 : 

نظامِ آسمانی ہے اسی کی حکمرانی سے

بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی سے

مشکل الفاظ کے معانی : نظام آسمانی ( آسمان کا نظام) ، حکمرانی ( بادشاہی) ، جاودانی ( ہمیشہ کی زندگی) ، باغبانی ( باغ کی رکھوالی)

مفہوم : یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا رکھوالا ہے ۔ اسی سے یہ دنیا کی رونقیں قائم ہیں ۔

تشریح : دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ چاند ، سورج ، ستارے ، آبشاریں ، سمندر ، پہاڑ اور اس میں موجود ذرہ ذرہ ان سب کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ یہ ہمیشہ کا نظم و ضبط اور بہار اسی وجہ سے ہے۔ اس کو سنبھالنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ کائنات کی ہر شے سے اللہ تعالیٰ کی جھلک نظر آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر شے پر محیط ہے ۔ کائنات کے ذرے ذرے سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت نظر آتی ہے ۔ کائنات کی یہ بہاریں قیامت تک قائم رہیں گی کیونکہ اس کا رکھوالا اللہ تعالیٰ ہے ۔

شعر نمبر 3 : 

زمین پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے

بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے

مشکل الفاظ کے معانی : جلوہ آرا ( دیکھائی دیتے ہیں) ، مظاہر ( ظاہر ہونا ، دکھائی دینا )  ،قدرت ( طاقت ) ، داتا ( رزق دینے والا ) 

مفہوم : زمیں پر ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے ہیں ۔ وہ ہر کسی کو رزق عطا کرتا ہے ۔ 

تشریح :  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر زمین پر پوری آب و تاب سے جلوہ آرا ہیں ۔ مخلوقات کے لیے اس داتا کے بچھائے ہوئے دسترخوان اس کی نعمتوں کا مظہر ہے ۔ زمین کی گہرائی ، پہاڑوں کی بلندی، میدانوں کی ہریالی ، وادیوں کی خوشحالی ، صحراؤں کی وسعت ، فضاؤں کے نظارے ، سبزے کی تراوت ، پھولوں کی نزاکت ، پرندوں کی چہچہاہٹ  اور فضاؤں کی سرسراہٹ اسی کی قدرت بے مثال کے نادر نمونے ہیں ۔ واللہ خیر الرازقین نے انسان ، حیوان ، چرند اور پرند یہاں تک کہ حشرات الارض کے رزق کا بھی انتظام کر رکھا ہے ۔ تمام مخلوقات کے لیے زمین پر رزق کی انواع و اقسام کے دسترخوان بچھا رکھے ہیں ۔

شعر نمبر 4  :

یہ سرد و گرم ، خشک و تر ، اجالا اور تاریکی

نظر آتی ہے ان سب میں شان اسی کی ذات باری کی

مشکل الفاظ کے معانی : سرد ( ٹھنڈا) ، اجالا ( روشنی) ، تاریکی ( اندھیرا) ، ذاتِ باری ( اللہ تعالیٰ) 

مفہوم : یہ سرد اور گرم ، خشک اور تر ، اجالا اور تاریکی ، یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی کوئی ذات ضرور موجود ہے ۔ 

تشریح :  کائنات میں جو نظم و ضبط نظر آتا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بہت بڑی طاقت ہے جو اس کائنات کو چلا رہی ہے ۔ جو کائنات کو اتنے نظم و ضبط سے چلا رہی ہے کہ سردی ، گرمی ، موسموں کا وقت پر آنا ، جانا ، سورج ، چاند اور ستاروں کا اپنے وقت پر طلوع و غروب ہونا یہ سب بڑی طاقت کا پتہ دیتے ہیں ۔ روشنی ، اجالا اور تاریکی یہ سب کیا بتا رہے ہیں کہ کائنات میں اللہ واحد کی ذات کار فرما ہے۔ کیا کائنات میں موجود کسی انسان یا کسی دوسری مخلوق میں اتنی صلاحیت ہے کہ جو یہ سب کر سکے ۔ کائنات کی ہر شے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ کوئی بہت بڑی طاقت ہے جو وسیع اختیارات کی مالک ہے ۔ جو ہر شے پر چھائی ہوئی ہے ۔ رات  سے دن کو نکالنا اور دن میں سے رات کو نکالنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی شان ہے ۔

شعر نمبر 5 : 

وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق

نباتات و جمادات اور حیوانات کا خالق

مشکل الفاظ کے معانی : کائنات ( دنیا) ، خالق ( پیدا کرنے والا) ، نباتات ( پودے اور جڑی بوٹیاں) ، جمادات ( پتھر اور پہاڑ وغیرہ) 

مفہوم : یہ دنیا ، جڑی بوٹیاں، پودے، سبزیاں، ترکاریاں اور پہاڑ ان سب چیزوں کا مالک و خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ 

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ ہر شے کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اس کائنات میں موجود مخلوق کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان میں انسان ، حیوان ، پرندے ، پودے ، درخت ، آبشاریں ، پہاڑ ، سمندر اور سمندری مخلوقات شامل ہیں۔ جاندار اور بے جان ہر شے اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے ۔ وہی مردہ زمین سے پودے ، درخت ، پھل ، سبزیاں اور اناج اگاتا ہے ۔ یہ اسی کی شان ہے کہ ایک بیچ کیسے تناور درخت بن جاتا ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے سے خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان سب میں اس کا عکس نظر آتا ہے ۔

شعر نمبر 6 :

وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا

وہی مالک ہمارا اور ہمارے باپ دادوں کا

مشکل الفاظ کے معانی : خالق ( پیدا کرنے والا ) 

مفہوم  ہمارے دل اور ہمارے دل میں پیدا ہونے والے نیک ارادے ، ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ 

تشریح :  اس شعر میں شاعر نے خالق کون و مکاں کے احاطہ قدرت کی وسعت کو بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ صرف انسان کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود میں موجود قلب و نظر سب کا خالق ہے ۔ انسان کے دل میں پیدا ہونے والے تمام نیک ارادوں ، خواہشات اور نیتوں کا بھی خالق ہے ۔ ہر ایک نیک عمل اور صالح فعل کی تحریک انسانی دل میں قدرت خداوندی کی جانب سے ہی ہوتی ہے ۔ وہ نہ صرف ہمارا خالق و مالک ہے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جتنے انسان پیدا ہو چکے ہیں اور قیامت تک جو مخلوقات کرہ ارض پر تخلیق ہوں گی اللہ تعالیٰ ان سب کا خالق و مالک ہے ۔ وہی خالق کون و مکاں اور مالک دو جہاں ہے ۔

شعر نمبر 7 : 

بشر کو فطرت اسلام پر پیدا کیا جس نے

محمد مصطفٰی کے نام پر شیدا کیا جس نے

مشکل الفاظ کے معانی : بشر ( انسان ) ، شیدا ( قربان) 

مفہوم : انسان کو اللہ تعالیٰ نے فطرت اسلام پر پیدا کیا اور اسی طرح سب انسانوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کرنے والا بنایا ۔

تشریح : شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو دین اسلام کے اصولوں پر چلنا سکھایا ۔ دین اسلام کے احکامات پر عمل کر کے انسان ایک پر سکون اور اچھی زندگی گزار سکتا ہے ۔ اسلام کے احکامات میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے جو کہ انسانیت کے لیے بہت مفید ہے اور اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تخلیق کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور وہ انسانوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے میں ہی ہماری نجات اور دونوں جہانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ حفیظ جالندھری کی نظم ” حمد”  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply