جواب شکوہ از علامہ محمد اقبال
جواب شکوہ ایک تاریخی نظم ہے ۔ جس میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا تذکرہ ہے ۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم علامہ اقبال کی اسی مشہور نظم۔ ” جواب شکوہ ” کے چند بند کی لغت ، اور مفہوم کے ساتھ تشریح کریں گے ۔
بند نمبر 1 :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر سرکش و چالاک میرا
آسماں چیر گیا نالہ بے باک میرا
مشکل الفاظ کے معانی : جواب شکوہ ( شکوہ کا جواب ) ، طاقت پرواز( اڑنے کی طاقت) ، قدسی الاصل( اپنی اصل کے لحاظ سے فرشتہ ، فرشتوں کی طرح پاکیزہ) ، رفعت( بلندی) ، خاک( مٹی مراد زمین) ، گردوں( آسمان ) ،فتنہ گر (ہنگامہ برپا کرنے والا) ، سرکش (نافرمان ، باغی) ، چالاک (عیار ، ہوشیار) ، نالہ( فریاد) ، بے باک( نڈر ، بے خوف )
مفہوم : دل سے نکلی ہوئی بات میں اثر ہوتا ہے اگرچہ اس کے پر نہیں ہوتے لیکن وہ پرواز کی طاقت رکھتی ہے ۔ یہ فرشتوں کی مانند ارفع ہے ۔ زمین سے اٹھ کر آسمان تک جا پہنچتی ہے ۔ میرا عشق بے باک اور تندو تیز تھا ۔ میری فریاد نے آسمان میں ہلچل مچا دی ۔
تشریح : مفکر پاکستان شاعر اسلام علامہ محمد اقبال اسلامی جذبوں کے شاعر ہیں دیگر شعراء کی طرح انھوں نے اپنی شاعرانہ خوبیوں کو محبوب کے لب و رخسار اور ہجر و وصال کو بیان کرنے میں ضائع نہیں کیا بلکہ انھوں نے قوم کو امید ، ہمت ، جدو جہد اور خود شناسی کا درس دیا ۔ مسلمانوں کو ان کا ماضی یاد کرا کر ان کو حال سنوارنے کی ترغیب دی ۔ ان کی شاعری آسمانی صحیفوں کی مانند عالمگیر اور لازوال ہے ۔ “جواب شکوہ ” علامہ اقبال کی شاہکار نظم ہے اس سے پہلے اقبال نے 1911ء میں” نظم شکوہ ” لکھی تھی جس میں انھوں نے بے تکلفانہ انداز میں اللہ تعالٰی سے مسلمانوں کی پستی اور زوال کا شکوہ کیا تھا۔ اس نظم کے خلاف بعض لوگوں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار بھی سامنے آیا ۔ چنانچہ اقبال نے شکوہ کے جواب میں 1913ء میں جواب شکوہ لکھی ۔ اس میں انھوں نے اللہ تعالٰی کی زبانی مسلمانوں کی بے عملی اور زوال کے اسباب کو بیان کیا ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح طلب بند میں اقبال اپنی نظم شکوہ کی اثر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ جو بات دل سے خلوص نیت سے کہی جاتی ہے اس میں تاثیر ہوتی ہے ۔ وہ دور رس اثرات کی حامل ہوتی ہے ۔ جب انسان پورے اخلاص اور درد دل سے کوئی بات بیان کرتا ہے تو وہ سننے والوں کے دل پر اثر کرتی ہے ۔ اس کی تاثیر سے پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں ۔ اگرچہ پرندوں کی مانند پرواز کے لیے اس کے پر نہیں ہوتے لیکن اس میں بلند پروازی کی ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہ فرشتوں کی مانند پاکیزہ اور لطیف ہوتی ہے اس کی نظر رفعت پر ہوتی ہے وہ زمین سے بلند ہوتی ہے اور آسمان تک رسائی رکھتی ہے ۔
ایک اور جگہ اقبال اپنے اشعار کی تاثیر کے بارے میں کہتے ہیں :
سن اے غافل صدا میری ، ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
ایک اور جگہ علامہ اقبال ہی فرماتے ہیں :
میرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہو مجھ کو
میرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
اقبال کہتے ہیں کہ نظم شکوہ کے اشعار بھی میرے دل سے نکلے تھے خلوص نیت کی وجہ سے ان اشعار کی بازگشت آسمان پر سنائی دینے لگی۔ اگرچہ میرا عشق شوخ اور سرکش تھا اس نے آداب کا لحاظ نہ کیا کہ محبوب حقیقی کے روبرو لب سیے جاتے ہیں ۔ وہاں شکوہ شکایت نہیں کی جاتی لیکن میری آہ و فریاد میں ایسی تاثیر تھی کہ اس نے آسمان کو ہلا کر رکھ دیا اور آسمان دنیا پر ایک ہلچل مچ گئی ۔
ایک اور جگہ اقبال فرماتے ہیں :
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
بند نمبر 2 :
پیر گردوں نے کہا سن کے ، کہیں ہے کوئی
بولے سیارے ، سر عرش بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی ، پوشیدہ یہی ہے کوئی
کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انسان سمجھا
مشکل الفاظ کے معانی : پیر (پرانا ،بزرگ) ، گردوں (آسمان ) ، عرش( آسماں ) ، بریں ( عالی ، بلند) ، اہل زمین (زمین پر رہنے والے) ، رضوان( جنت کا دروغہ ، نگران ، محافظ) ، خوشنودی( رضامندی) ، پوشیدہ ( چھپا ہوا) ، کہکشاں (آسمان پر رات کو نظر آنے والے وہ بے شمار ستارے جو ایک راستے یہ سڑک کی مانند نظر آتے ہیں)
مفہوم : میری آہ و فریاد سن کر آسمان ، چاند ، سیارے اور کہکشائیں سب حیران ہوئے اور تلاش کرنے لگے کہ کون ہے اور کہاں سے بول رہا ہے ۔ میری آہ و فریاد کو صرف جنت کا فرشتہ رضوان سمجھا اس نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی انسان ہے جو جنت سے نکالا گیا تھا۔
تشریح : تشریح طلب بند میں اقبال اپنی نظم شکوہ کی اثر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں میرے دل سے نکلے الفاظ اور آہ و فریاد کی بات بازگشت آسمان پر بھی سنائی دینے لگی اور اس نے آسمان دنیا پر ایک ہلچل مچا دی ۔ سب حیران ہوئے کہ ایسا بے باک اور گستاخ کون ہے جو رب تعالٰی کے حضور شکوہ کناں ہے ۔ سب متجسس ہوئے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ۔ بوڑھے آسمان نے کہا کہیں نہ کہیں کوئی موجود ضرور ہے جس کی آواز تو سنائی دے رہی ہے لیکن وہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ وہ قریب ہی کہیں موجود ہے۔ سیارے کہنے لگے عرشِ بریں کے پاس کوئی موجود ہے۔ شاید عرشِ بریں کو تھامنے والا کوئی فرشتہ ہے۔ جس کی یہ آواز ہے ۔ چاند کہنے لگا نہیں یہ آواز عرشِ بریں سے نہیں اور نہ آسمان والوں سے کوئی ہے بلکہ یہ زمین سے آرہی ہے اور اہلِ زمین میں کوئی ہے ۔ کہکشاؤں نے کہا اگرچہ وہ آہ و فریاد کرنے والی ہستی نظر نہیں آرہی لیکن وہ یہیں کہیں پوشیدہ ہے ۔ الغرض سب اس آواز پر حیران ہوئے اور اندازے لگانے لگے کہ کس کی آواز ہے اور کہاں سے آرہی ہے ۔
ایک اور جگہ اقبال فرماتے ہیں :
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید تیرے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ
اقبال کہتے ہیں کہ آسمان پر ایک ہلچل مچی ہے سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے ہیں لیکن کوئی بھی فریاد کو سمجھ نہ سکا ۔ میری آواز کو صرف جنت کے دروغہ رضوان نے پہچانا اور سمجھا اسے فورا معلوم ہو گیا اور وہ کہنے لگا یہ اسی انسان کی آواز ہے جسے جنت سے نکالا گیا تھا۔ ایسا درد انگیز اور پرسوز نالہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے جس کو یہاں سے جلا وطن کیا گیا تھا۔
بقول میر تقی میر :
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
بند نمبر 3 :
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے!
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !
سرِ عرش بھی انسان کی تگ و تاز ہے کیا؟
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟
غافل آداب سے سکان زمین کیسے ہیں !
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!
مشکل الفاظ کے معانی : سر عرش( عرش پر) ، تگ و تاز (پہنچ ، دسترس ، رسائی ) ، خاک کی چٹکی (چٹکی بھر خاک مراد انسان) ، پرواز (اڑان) ، غافل آداب (ادب سے بے خبر ) ، سکان زمین( زمین کے رہنے والے) ، شوخ و گستاخ( بے باک اور بدتمیز) ، مکیں ( رہنے والے)
مفہوم : آسمان پر فرشتوں کو حیرت تھی کہ یہ کیسی آواز ہے ، حاملین عرش پر بھی یہ اسرار نہیں کھلا ۔ انھیں حیرت تھی کہ کیا انسان کی رسائی عرش تک ہے؟ کیا اس چٹکی بھر خاک کو بھی پرواز کرنا آگیا ہے؟ ساکنان زمین آداب محفل سے غافل ہیں اور گستاخ ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں اقبال اپنی نظم شکوہ کی اثر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ میرے اشعار اور درد بھرے نالے کی بازگشت آسمان تک سنائی دی تو فرشتوں کو سن کر حیرت ہوئی کہ کیسی آواز ہے اور یہ کون شخص ہے ۔ جو اتنے پر اثر انداز میں شکوہ کناں ہے ۔ حاملین عرش( عرش کو تھامنے والے فرشتے ) پر بھی یہ راز نہیں کھل سکا۔ وہ بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ آواز کس کی ہے؟ وہ آپس میں کہنے لگے کہ یہ زمین سے بلند ہونے والی آہ و فریاد عرش تک پہنچ رہی ہے ۔ کیا اب انسان کی عظمت اتنی بلند ہوگئی ہے کہ زمین پر رہتے ہوئے عرش تک اس کی رسائی ہے۔ کیا اس خاک کی چٹکی میں بھی اب بلند پروازی کی صلاحیت آگئی ہے یہاں فرشتوں نے طنزیہ انسان کو خاک کی چٹکی کہا ہے دراصل اللہ نے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا تھا اور فرشتے نوری مخلوق ہیں۔ اس لیے فرشتوں کو حیرت تھی کہ مٹی سے بنی مخلوق کی اتنی رسائی کہ اس کے کہے الفاظ عرش تک پہنچ رہے ہیں۔
بقول اقبال:
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
چونکہ فرشتے ہمہ وقت اللہ کی عبادت اور تسبیح میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں عاجزی انکساری اور اطاعت و فرمانبرداری کا عنصر ہے وہ اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتے ۔ انھیں جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اس سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس ارادہ و اختیار کی صلاحیت نہیں جبکہ انسان کے پاس ارادہ و اختیار کی صلاحیت ہے اور بعض اوقات انسان اسی ارادہ و اختیار کی وجہ سے اپنی حدود سے تجاوز بھی کر جاتا ہے ۔ اللہ کا نافرمان اور سرکش ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ فرشتوں کو انسان کا اللہ سے شکوہ کرنا بھی حد سے تجاوز کرنا لگتا ہے ۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ یہ ساکنان زمین بارگاہِ خداوندی کے اداب سے غافل ہے ۔ انھیں معلوم نہیں کہ خدا کے حضور کیسے گفتگو کی جاتی ہے ایسی شوخی اور ایسی جسارت بے ادبی اور گستاخی نہیں تو اور کیا ہے ؟
بقول اقبال :
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
بند نمبر 4 :
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
مشکل الفاظ کے معانی :
شوخ( بے باک) ، برہم( ناراض) ، مسجود ملائک( جسے فرشتوں نے سجدہ کیا ) ، عالم کیف (سرور و مستی کی حالت ) ، دانائے رموز کم( پوشیدہ باتوں کو کم سمجھنے والا) ، عجز کے اسرار (عاجزی کے راز ) ، ناز (غرور ) ، طاقت گفتار (بات کرنے کی طاقت) سلیقہ (طریقہ ) ، نادانوں ( نادان کی جمع بے وقوف)
مفہوم : فرشتے انسان کی جسارت پر حیران تھے کہ وہ اس قدر شوخ ہے کہ اللہ سے بھی نالاں ہے ۔ یہ وہی انسان ہے جسے کبھی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ سر مستی میں آداب سے غافل ہے اور عاجزی کے اسرار نہیں جانتا۔ انسانوں کو طاقت گفتار پر بڑا ناز ہے لیکن بات کرنے کا سلیقہ نہیں ۔
تشریح: تشریح طلب بند میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جب شکوہ کی بازگشت آسمان پر سنائی دینے لگی تو فرشتے انسان کی اس جسارت پر حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ انسان کس قدر شوخ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اور پروردگار سے بھی نالاں ہے ۔ یہ ناشکری اور گستاخی ہے یہی وہ انسان ہے جسے کبھی فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا تھا۔ اقبال نے یہاں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمانے کا ارادہ کیا تو فرشتوں کو بتایا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں جس کے پاس ارادہ اختیار بھی ہوگا اور یہی اس کا امتحان ہوگا ۔ فرشتوں نے تشویش ظاہر کی کہ انسان زمین پر فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا کیا ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے کے لیے کافی نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ اللہ تعالیٰ نے علم کے ذریعے انسان کو فرشتوں پر فضیلت بخشی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں ۔
چنانچہ فرشتے اسی واقعے کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہی وہ انسان ہے جو مسجود ملائکہ تھا یہ درست ہے کہ انسان کے پاس بہت علم ہے اور وہ اپنی عقل و دانش کے ذریعے ہر چیز تک رسائی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کی ان خوبیوں کے باوجود وہ عجز و نیاز کے اسرار سے غافل ہے ۔ وہ انکسار کے خواص سے آگاہ نہیں ۔ وہ نہیں جانتا کہ آقا اور خالق و مالک کے درمیان میں زبان نہیں کھولی جاتی بلکہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ انسان کس قدر شوخ اور گستاخ ہے کہ اپنی سرمستی میں بارگاہِ خداوندی کے آداب سے بھی واقف نہیں ہے انسان کو اپنی طاقت گفتار پر تو بڑا ناز ہے لیکن اسے بت کرنے کا سلیقہ نہیں ۔ وہ یہ بھول گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اسے نطق و بیاں کی صلاحیت عطا فرمائی اور اب اسی کے سامنے وہ شکوہ و شکایت کرتا ہے ! اسے یہ تک معلوم نہیں کہ کون سی بات کہاں اور کیسے کہی جاتی ہے ۔ اسے معلوم نہیں کہ بڑوں کے سامنے کیسے بات کی جاتی ہے اور بادشاہ کے دربار میں کیسے حاضری دی جاتی ہے ۔ یہ شوخی اور گستاخی میں خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو فراموش کر دیتا ہے اور ناشکری پر اتر آتا ہے ۔ یہ گفتار ک آغازی بنا لیکن کردار کا غازی نہیں بن سکا ۔
بقول اقبال:
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
بند نمبر 5 :
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تیرا
اشک بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ تیرا
آسماں گیر ہوا نغمہ مستانہ تیرا
کس قدر شوخ زبان ہے دل دیوانہ تیرا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
مشکل الفاظ کے معانی : غم انگیز (دردناک افسانہ، کہانی) ، اشک بے تاب( چھلکنے کے لیے بے چین آنسو ، نہ تھمنے والے آنسو ) ، لبریز (بھرا ہوا ) ، پیمانہ( پیالہ، جام) آسماں گیر ہوا( آسمان پر چھا گیا ، آسمان کی بلندی پر پہنچا) ، نغمہ مستانہ( دیوانگی کا نعرہ ، پرجوش نعرہ) ، شوخ زبان ( تیز زبان ، گستاخ) ، حسن ادا (خوبصورت انداز) ، ہم سخن( ہم کلام)
مفہوم : اللہ تعالیٰ کی جانب سے آواز آئی کہ تمہاری کہانی بہت درد انگیز ہے ۔ تیری آنکھوں سے چھلکنے والے آنسوؤں میں بھی سچائی ہے ۔ تیری پرجوش آواز آسمان پر چھا گئی ہے ۔ اگرچہ تیرا دل شوخ ہے لیکن تو نے بہت ہی خوش اسلوبی سے شکوہ پیش کیا ہے ۔ اس کے ذریعے تو نے بندوں کو خدا سے ہم کلام کر دیا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ شکوہ کی بازگشت آسمان پر سنائی دینے لگی اور فرشتے انسان کی اس جسارت پر حیران ہو کر چہ مگوئیاں کرنے لگے ۔ فرشتوں کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ عرش سے ایک آواز بلند ہوئی ۔ یہ اللہ تعالٰی کی آواز تھی۔ اس آواز نے اقبال کو مخاطب کر کے کہا تمہاری کہانی بڑی ہی المناک ہے۔ تمہاری فریاد غم سے لبریز ہے۔ تمہاری آنکھوں کے کٹورے آنسوں سے لبالب بھرے ہوئے ہیں ۔ تمہاری آنکھوں سے چھلکنے والے آنسوؤں کی بے تابی سے تمہاری سچائی ، اخلاص اور درد دل کا اظہار ہوتا ہے ۔ تمہاری فریاد دل سے نکلی ہے ۔ دراصل یہ بند نظم “شکوہ” کے درج ذیل بند کا جواب ہے :
بقول اقبال :
ہے بجا شیوا تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا شکوہِ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
شاعر مزید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہاری آہوں بھری پرجوش فریاد آسمان دنیا پر چھا گئی ہے۔ ہر طرف اسی کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے ۔ تمہاری زبان کس قدر شوخ ہے اور تمہارا دل دیوانگی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے ۔ اگرچہ تمہاری زبان شوخ ہے لیکن تم نے انتہائی خوش اسلوبی سے شکوہ پیش کیا ہے اور شکایت کو بھی شکر کے کالم میں ڈال کر پیش کیا ہے ۔ گویا شکوے کو شکر بنا دیا ہے لہذا یہ خالق کے حضور بندے کی گستاخی نہیں بلکہ ایک بے بس اور مجبور انسان کی درد انگیز فریاد ہے ۔ آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو نے اس شکوہ کی بدولت بندوں کو خدا سے ہم کلام کر دیا ۔ خدا اور بندوں کے مابین مکالمے کا ذریعہ بنا دیا۔
بند نمبر 6 :
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ؟ رہرو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : مائل بہ کرم (مہربانی کے لیے تیار ) ، سائل (سوال کرنے وال ،ا سوالی) ، رہرو (منزل کی طرف جانے والا ، مسافر) ، جوہر( قابلیت رکھنے والا) ، گل (مٹی) ، شان کئی ( ” کے “ایران کے ایک مشہور خاندان یعنی کیانی خاندان کے بادشاہوں کی شان اس خاندان نے سو سال تک حکومت کی۔ ان کے بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ ” کے ” لکھا جاتا ہے جیسے کیقباد ، کیکاؤس اور کیخسرو وغیرہ ) ، نئی دنیا( نیا جہان یہاں مراد امریکہ ہے جسے کولمبس نے دریافت کیا )
مفہوم : ہم مہربانی فرمانے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی سوالی ہی نہیں۔ راستہ کسے دکھائیں کوئی راہ چلنے والا ہی نہیں۔ تعلیم و تربیت تو عام ہے لیکن کسی میں قابلیت اور اہلیت ہی نہیں۔ یہ وہ مٹی نہیں ہے جس سے انسانیت کی تعمیر ہوئی ۔ اگر کوئی قابل ہو تو ہم بے مثال عظمتیں عطا کرتے ہیں اور ڈھونڈنے والوں کو نئی دنیا بھی دکھاتے ہیں۔
تشریح : تشریح طلب بند میں علامہ اقبال اللہ تعالیٰ کی زبانی شکوہ کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو ہمیشہ اس سے مائل بہ کرم ہیں اپنے فضل و کرم سے ان بندوں کو نوازنا چاہتے ہیں لیکن جب کوئی سائل ہی نہ ہو تو لطف و عنایت کس پر ہوں۔ تم میں کوئی ان مہربانیوں اور رحمتوں کا طالب اور امیدوار ہی نہیں ہم راہ دکھانے کے لیے آمادہ ہیں لیکن کوئی راہ چلنے والا مسافر ہی نہیں تو کسے راستہ دکھائیں ۔ راستہ تو اسے دکھایا جاتا ہے جس کے دل میں منزل پر پہنچنے کی طلب ہو ۔ ہماری جانب سے تربیت کا سامان اب بھی عام ہے۔ قران و سنت کی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا دستور موجود ہے ۔ لیکن تم میں وہ قابلیت اور صلاحیت ہی نہیں کہ اس نسخے کیمیا سے استفادہ کر سکو ۔ جس مٹی سے آدم کی تعمیر کی گئی تھی وہ کہیں نظر ہی نہیں آرہی ۔ تو انسانیت کی تعمیر کا فن کسے سمجھائیں؟ تم میں وہ مادہ ہی نہیں جس سے قوموں کی تعمیر ہو سکے۔ رہنمائی اس کی کی جاتی ہے جس کے دل میں طلب اور چاہت ہو اگر کوئی سچے دل سے طلبگار ہو تو ہم اسے ایران کے شاہان کئی جیسی شان و شوکت عطا کرتے ہیں اور اگر کوئی تم میں سے مسمم ارادہ لئے جستجو کے لیے نکل پڑے تو ہم اسے نئی دنیا دکھاتے ہیں ۔ امت مسلمہ علم و عمل سے محروم ہے اور بے عملی کا شکار ہے۔ اگر تم میں کوئی صلاحیت اور قابلیت ہو تو ہم تمہیں بھی وہی عظمتیں عطا کریں گے ۔
سورۃ نجم آیت نمبر 39
ترجمہ: ” انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے” ۔
اور بقول ظفر علی خان :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آخری شعر میں اقبال نے شان کئی اور دنیا نئی کی تلمیحات استعمال کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسان پر امید ہو کر ثابت قدمی سے مسلسل محنت اور جستجو کرتا ہے تو وہ ایرانی بادشاہوں جیسی شان پاتا ہے اور کولمبس کی طرح نئی دنیا دریافت کر لیتا ہے ۔ شان کئی سے مراد ایران کے دوسرے بڑے حکمران خاندان یعنی کیانی خاندان کے شاہان ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ” کے ” بمعنی بادشاہ استعمال کرتے تھے۔ جیسا کہ کیقباد باد ، کیکاؤس ، کے تحاسب اور کے خسرو وغیرہ ۔ انھیں شاہان کئی کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں ان کی شان و شوکت اور نمایاں کارنامے بہت مشہور ہیں۔ نئی دنیا سے مراد امریکہ ہے جسے کولمبس نے دریافت کیا تھا کرسٹوفر کولمبس اٹلی سے تعلق رکھنے والا جہاز ران اور سیاح تھا۔ 1942ء میں وہ امید کا دامن تھام کر سمندری سفر پر نکلا اور پرخطر راستوں اور بپھری موجوں کے درمیان سے ہوتا ہوا امریکہ میں جا نکلا ۔ جسے اس نے نئی دنیا کہا۔ کولمبس کی اس دریافت نے مہم جوئی اور نو آبادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھول دیا اور تاریخ کے دائرے کو یکسر بدل دیا ۔ اسی طرح کیپٹن کک نے 1772ء میں اسٹریلیا دریافت کیا اور فرائیڈرک کک نے 1908ء میں قطب شمالی پہنچ کر اس حقیقت پر مہر ثبت کی کہ کوئی ڈھونڈنے والا ہو تو اسے نئی دنیائیں بھی ملتی ہیں ۔
بقول سلیم اللہ :
جو یقین کی راہ پہ چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی
جنھیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے
بند نمبر 7 :
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.