جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
آج کی اس پوسٹ میں ہم علامہ اقبال کی ایک غزل ” جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : ظلمت خانہ دل (دل کا تاریک گھر ، مراد دل کی گہرائی) ، مکینوں( مکان کی جمع رہنے والے )
مفہوم : جس ہستی کو میں زمین اور آسمان میں ڈھونڈ رہا تھا وہ تو میرے دل میں ہی موجود تھی ۔
تشریح : مفکر پاکستان ، شاعر اسلام ، علامہ محمد اقبال اسلامی جذبوں کے شاعر ہیں دیگر شاعروں کی طرح انھوں نے اپنی شاعرانہ خوبیوں کو محبوب کے لب و رخسار اور ہجر و وصال کو بیان کرنے میں ضائع نہیں کیا بلکہ انہوں نے قوم کو امید ہمت جدوجہد اور خود شناسی کا درس دیا ۔ فلسفہ و تصوف کے مضامین بھی ان کے اشعار میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کی شاعری آسمانی صحیفوں کی مانند عالمگیر اور لازوال ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی شعر کی بھی تشریح کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح طلب شعر تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جس ہستی کو میں زمین و آسمان کی وسعتوں میں تلاش کر رہا تھا ۔ جس کی تلاش میں ، میں نے دن رات ایک کر دیے تھے ۔ اس کا مجھے سراغ نہیں مل رہا تھا۔ جب میں نے اپنے دل میں نگاہ ڈالی تو وہ ذات میرے نہاں خانہ دل میں موجود تھی ۔
بقول یامین غوری :
تجھے ڈھونڈتا تھا یہاں وہاں ، تو مجھے ملا بھی تو کس جگہ
میرے خانہ دل زار میں ، کہ ازل سے تھا تو چھپا ہوا
شاعر کی مراد یہاں محبوب حقیقی اللہ تعالی ہے ۔ جو انسان کے دل میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ وہ کائنات کی وسعتوں اور آسمان کی بلندیوں اور پہنائیوں میں نہیں سماتا بلکہ ایک بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہے ۔ مومن کا دل اللہ کا گھر ہے ۔
بقول میر درد :
ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
جس طرح ایک دنیا دار عاشق اپنے مجازی محبوب کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اس کے دیدار اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار بے تاب رہتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے عاشق اور صوفیا اس کے جلوہ حسن کو دیکھنے کے لیے جنگلوں ، وادیوں اور پہاڑوں صحراؤں میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ تاریک الدنیا ہو جاتے ہیں ۔ ہزارہا ریاضت و مشقت کے باوجود بھی ان کی کوشش نا تمام رہتی ہے ۔ چنانچہ شاعر بھی اسی طرح اللہ کی تلاش میں تھا ۔ وہ اسے زمین کی وسعتوں اور آسمان کی پہنائیوں میں ڈھونڈ رہا تھا لیکن شاعر کہتا ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود بھی مجھے اللہ کا سراغ نہیں ملا ۔ لیکن جب میرے باطن کی آنکھ روشن ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو میرے ظلمت خانہ دل میں موجود ہے ۔ جہاں میں نے کبھی جھانکنا گوارا ہی نہیں کیا ۔
بقول علامہ اقبال :
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقامِ دل کہاں ہے
اور اسی طرح مولانا ظفر علی خان بھی کچھ اس طرح کا مضامین یوں بیان کرتے ہیں :
میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
میرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا
دراصل شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات انسان کے بہت قریب ہے اور اس تک رسائی بہت آسان ہے بشرط کہ انسان خود شناس ہو ۔ جب انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو اسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے ۔ خدا شناسی کا پہلا مرحلہ خود شناسی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان مبارک ہے :
” جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا ” خدا تک پہنچنے کا راستہ اندر سے جاتا ہے باہر سے نہیں ۔ صوفیا کی اصطلاح میں اسے سیر باطن کہتے ہیں ۔ ان کے بقول حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ سیر باطن ہے یعنی انسان اپنے باطن پر غور کرے ۔ اسے دنیا کی آلائشوں ، کثافتوں اور دنیاوی خواہشوں کے غبار سے پاک کرے ۔ اس مقصد کے لیے صوفیا مراقبہ کی مشق کرتے ہیں ۔
جس طرح اللہ کی ذات کائنات کی وسعتوں میں نہیں سماتی اسی طرح وہ ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھوں سے نظر آتی ہے ۔
اقبال ایک اور جگہ اسی حقیقت کو یوں عیاں کرتے ہیں :
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
شعر نمبر 2 :
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : نظارہ( نظر ڈالنا ، دیکھنا) ، مجنوں ( لفظی معنی دیوانہ ، پاگل مراد قبیلہ بنو عامر کا مشہور شخص قیس بن ملوح جو لیلی کے عشق میں دیوانہ ہو گیا تھا، شاعری میں مجنوں کا کردار عاشق صادق کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ) ، لیلی ( مجنوں کی محبوبہ اور چچا زاد شاعری میں لیلی کا کردار محبوب کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے) ، محمل نشینوں( اونٹ کے کجاوے یا پالکی میں بیٹھنے والوں )
مفہوم : اے مجنوں کبھی تو نے اپنے گریبان میں بھی جھانکا ہے تو خود بھی لیلی کی طرح محمل میں چھپا بیٹھا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ جس میں شاعر انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے کا درس دیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے مجنوں اگرچہ تو عشق کی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور ہمہ وقت لیلیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن کبھی تو نے اپنے گریبان میں جھانکا ہے تو خود بھی لیلیٰ کی طرح محمل نشیں ہے ۔ شاعر نے یہاں لیلیٰ اور مجنوں کی تلمیح استعمال کی ہے ۔ لیلیٰ مجنوں عرب کے مشہور عشقیہ کردار ہیں ۔ مجنوں کا اصل نام قیس بن ملوح تھا اور اس کا تعلق قبیلہ بنو عامر سے تھا لیلیٰ مجنوں دونوں چچا زاد تھے۔ لیلیٰ کے گھر والے خاصے دولت مند اور مرف الحال الحال تھے جبکہ مجنوں غریب تھا ۔ چنانچہ دولت کے تفاوت اور خاندانی چپقلش کی وجہ سے شادی نہ ہو سکی ۔ مجنوں لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو گیا اور نجد کے صحرا میں خاک چھاننے لگا ۔ لیلیٰ کے دیدار اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مارا مارا پھرتا ۔ لیلیٰ سفر کے لیے نکلتی اور اونٹ کے محمل (کجاوے) میں بیٹھتی تو محمل کے پردوں سے لیلیٰ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار رہتا اور محمل کے گرد چکر کاٹتا رہتا ۔ کہا جاتا ہے کہ لیلیٰ کا رنگ سیاہ تھا ۔ لیل عربی میں سیاہ رات کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح قیس عربی میں عقلمند کو کہتے ہیں۔ جب قیس لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو گیا اور صحراؤں میں مارا مارا پھرنے لگا تو لوگوں نے اسے مجنوں( پاگل ) کہنا شروع کر دیا ۔
تشریح طلب شعر میں مجنوں سے مراد بے عمل مسلمان ہے جبکہ لیلیٰ سے مراد محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالی ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ مسلمان تو محبوبِ حقیقی کے فراق میں بے قرار ہو کر سرگرداں رہتا ہے تاکہ اس کے محمل کا نظارہ کر سکے لیکن اگر تو غور و خوض کرے تو تجھے معلوم ہو کہ تو خود بھی اپنی ذات کے محمل میں چھپا ہوا ہے ۔ تجھے اپنی اصلیت اور حقیقت پر غور کرنا چاہیے اگر تو اپنے آپ کو پہچان لے تو محبوبِ حقیقی کا جلوہ دیکھ سکتا ہے ۔
ایک اور جگہ اقبال اسی طرح کا مضمون بیان کرتے ہیں :
دیکھ آ کر کوچہ چاک گریباں میں کبھی
قیس تو ، لیلیٰ بھی تو ،صحرا بھی تو ، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو ، مینا بھی تو ، ساقی بھی تو ، محفل بھی تو
شاعر دراصل یہاں خودی اور خود شناسی کی دعوت دے رہا ہے ۔ اے مسلمان تجھ میں بے شمار خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں ۔ تجھے خود کو پہچاننے اور دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ اے مسلمان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو پہچان کر انہیں پروان چڑھا ۔ محمل نشین لیلیٰ کی طرح تیری صلاحیتیں بھی تجھ سے پوشیدہ ہیں ۔ کبھی تو ان کا بھی نظارہ کر ، ان کو بھی پہچان تو لیلیٰ کے لیے ہر مشکل اور آزمائش کے لیے مستعد ہے لیکن اے عاشق صادق کبھی تو نے اپنی طرف بھی دیکھا ہے تو بھی قابل قدر اور قابل عزت ہے ۔ خود شناس ہے تیری ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ تو اپنی اہمیت اور حیثیت سے آگاہی حاصل کر لے ۔ تو زمین پر اللہ کا نائب ہے ۔ کائنات کی ہر چیز تیرے لیے مسخر کی گئی ہے۔
بقول شاعر :
منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی
اتنا عظیم ہو جا کہ منزل تجھے پکارے
ایک اور جگہ اقبال فرماتے ہیں :
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
شعر نمبر 3 :
مہینے وصل کی گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : وصل( ملاقات گھڑیوں کی صورت مراد بہت جلد لمحوں میں) اڑتے جاتے ہیں (گزرتے جاتے ہیں) ، گھڑیاں( لمحات) ، جدائی( ہجر ، تنہائی)
مفہوم : محبوب سے طویل ملاقات بھی ایک لمحہ میں گزر جاتی ہے لیکن محبوب سے جدائی کے مختصر لمحات بھی طویل ہو جاتے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے انسانی نفسیات کا یہ پہلو بیان کیا ہے کہ اسے خوشی اور مسرت کے لمحات مختصر لگتے ہیں ۔ جو ایک پل میں گزر جاتے ہیں جبکہ مصیبت اور غم کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں ۔ مصیبت اور غم کے لمحات طویل محسوس ہوتے ہیں اور وہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وقت کے گزرنے کی رفتار میں کوئی تبدیلی اور فرق واقع نہیں ہوتا ۔ دراصل خوشی کے وقت انسان بے خودی اور سرشاری کی کیفیت میں ہوتا ہے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا لیکن غم اور مشکلات کے وقت تکلیف اور پریشانی کی وجہ سے اسے لگتا ہے کہ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو ۔ جو گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
بقول کرامت علی شہیدی:
ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
دن عیش کی گھڑیوں میں گزر جاتے ہیں کیسے
ایک اور شاعر کہتا ہے :
کتنی گریز پا ہیں مسرت کی ساعتیں
اے دوست ان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دے
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ جب میں محبوب سے ملاقات کرتا ہوں محبوب کے روبرو ہوتا ہوں اور اس کے حسن و جمال میں محو ہو جاتا ہوں تو وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وقت کو پر لگ گئے ہیں اور وہ تیزی سے اڑتا جا رہا ہو ۔ طویل وقت بھی ایک پل میں گزر گزرتا محسوس ہوتا ہے ۔ چاہے وہ مہینوں پر مشتمل ہی کیوں نہ ہو۔
بقول بشیر بدر :
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
اور اسی طرح احمد فراز بھی اسی طرح کا مضمون بیان کرتے ہیں :
تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
لیکن اس کے برعکس ہجر کے مختصر لمحات بھی بہت طویل محسوس ہوتے ہیں اور وہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ عاشق کی نفسیات عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ اسے محبوب سے جدائی کے چند لمحے بھی اس قدر طویل لگتے ہیں جیسے کئی مہینے ہوں ۔ جدائی کے لمحات میں ہمہ وقت محبوب سے ملاقات کا انتظار رہتا ہے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ جان لیوا ہوتا ہے ۔ اسے ہر وقت بے قراری اور بے تابی رہتی ہے لیکن محبوب کی قربت میں بے خودی اور سرشاری کی وجہ سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے ۔ محبوب سے ملاقات کے مہینے بھی اسے اس طرح تیزی سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ جیسے چند مختصر لمحات ہوں ۔
بقول امیر مینائی :
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
شعر نمبر 4 :
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوب نہ ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : نا خدا (ملاح، کشتی چلانے والا) ، غرق ہونا( پانی میں ڈوبنا) ، سفینہ (کشتی ،ناؤ )
مفہوم : اے نا خدا تو مجھے ڈوبنے سے کس طرح روک سکتا ہے ۔ جن کی قسمت میں ڈوبنا ہو وہ تو کشتیوں میں ہی ڈوب جاتے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے فلسفہ جبر و قدر بیان کیا ہے ۔ انسان اپنی زندگی اور موت پر قادر نہیں ۔ اللہ نے اس کے مقدر میں جو لکھ دیا ہے اسے انھی حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ اپنی عقل اور تدبیر سے ہونی کو نہیں ٹال سکتا ۔
بقول ارشاد لکھنوی :
عقل آرائی و تدبیر سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے ملاح تو مجھے ڈوبنے سے بچانا چاہتا ہے لیکن مجھے ڈوبنے سے نہیں روک سکتا ۔ جن کی قسمت میں ڈوبنا لکھا ہو ، وہ بڑی بڑی کشتیوں میں ہوں تب بھی ڈوب جاتے ہیں۔ جب قسمت میں بربادی لکھی ہو تو لاکھوں جتن اور تدبیروں سے بھی خود کو بربادی سے نہیں بچایا جا سکتا ۔ وہی ہوتا ہے جو مقدر میں لکھا ہوتا ہے ۔
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر دور حاضر کے مسلمانوں کی حالت زار کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ دور حاضر کے مسلمان اپنی تباہی اور غرقابی کے سامان خود ہی کیے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی قوم اپنے زوال کے اسباب خود مہیا کر لے تو اسے تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ شعر میں” نا خدا” سے مراد قوم کے رہنما اور رہبر ہیں ۔ شاعر قوم کے نا خداؤں یعنی رہبروں اور رہنماؤں سے کہتا ہے تم اپنی قوم کو تباہی و بربادی اور زوال سے نہیں بچا سکتے کیونکہ جنہوں نے ڈوبنا ہو وہ کشتی میں ہوتے ہوئے بھی ڈوب جاتے ہیں ۔ وسائل کے ہوتے ہوئے تم انھیں زوال سے نہیں بچا سکتے۔ مسلمان قوم اپنے اسلاف کو بھلا چکی ہے ۔ دین سے دور ہو گئی ہے اور اپنے اطوار اور اپنی اقدار کو کھو چکی ہے ۔ سستی اور کاہلی اور بے عملی ان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلا تجھ سے یورپ سے نہیں
اے نا خدا تیری صلاحیت پر مجھے بھروسا ہے کہ تم اپنی مہارت کے بل پر ڈوبتی ہوئی کشتی بھی بچا سکتے ہو لیکن جنھوں نے خود ہی ڈوبنے کا ارادہ کر لیا ہو جنھوں نے اپنی تباہی و بربادی کا سامان خود ہی مہیا کر لیا ہو ۔ انھیں تم ڈوبنے سے نہیں بچا سکتے ۔
بقول زاہد آفاق :
ہزاروں ڈوبنے والے بچا لیے ، لیکن
اسے میں کیسے بچاؤں جو ڈوبنا چاہے
بقول علامہ اقبال :
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند
عشق حقیقی کے تناظر میں شعر کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جو اللہ کے عشق میں ڈوبنا چاہتا ہو یعنی فنا ہونا چاہتا ہو اسے فنا فی اللہ ہون چاہتا ہے اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔ کوئی شے اس کے لیے مانع رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ وہ بادشاہت کے تخت پر ہوتے ہوئے بھی اللہ سے غافل نہیں ہوتا اور بوری نشین ہوتے ہوئے بھی اللہ سے لو لگا اور بوری نشین ہوتے ہوئے بھی اسے پا لیتا ہے ۔ چنانچہ فنا فی الہیات کے لیے ظاہری وضع قطع ، عہدہ ، منصب کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اصل چیز طبیعت کا میلان اور رجحان ہے جو اللہ سے لو لگا لیتا ہے اور اس کے عشق کو پا لیتا ہے اس کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔
شیر نمبر 5 :
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موج نفس ان کی
الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : جلانا( روشن کرنا) ، شمع کشتہ( بجھی ہوئی شمع) ، موج نفس( سانس کی لہر مراد پھونک) ، اہل دل( پاک باطن لوگ عاشق اللہ کے نیک بندے درویش)
مفہوم : الٰہی تیرے نیک بندوں کے سینوں میں ایسی کون سی طاقت چھپی ہوتی ہے کہ وہ بجھی ہوئی شمع کو بھی پھونک سے جلا سکتے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے شاعر اللہ کے نیک بندوں اور صوفیاء کی روحانی طاقت اور ان کے عشق کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یا الٰہی تیرے عاشقوں اور نیک بندوں کے سینوں میں ایسی کون سی قوت چھپی ہوتی ہے کہ وہ پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو بھی روشن کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ پھونک مارنے سے تو جلتی ہوئی شمع بھی بجھ جاتی ہے چہ جائے کہ بجھی ہوئی شمع جلنے لگے ۔ شمع کشتہ بجھی ہوئی شمع کو کہا جاتا ہے عموماً مشاہدہ ہے کہ شمع جل رہی ہو تو پھونک مارنے سے بجھ جاتی ہے اور دیا سلائی دکھانے سے شمع جل اٹھتی ہے ۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ اہلِ دل اور اللہ کے عشاق عام لوگ نہیں ہوتے ۔ وہ ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتے ہیں ۔ ان کے عشق میں اتنی حرارت اور تپش ہوتی ہے کہ وہ بجھی ہوئی شمع پر بھی اگر پھونک ماریں تو وہ جل اٹھتی ہے۔ اللہ کے نیک بندے روحانی اعتبار سے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ بعض محیر العقول کام انجام دیتے ہیں جسے لگ کرامت کہتے ہیں ۔ بجھی شمع کو پھونک سے روشن کرنا بھی ایک کرامت ہی ہے ۔ جو اللہ کے عشق کی بدولت حاصل ہوتی ہے ۔
مولانا رومی کہتے ہیں :
عشق کے لیے ہمارا ناممکن بھی ممکن ہے ” ۔”
بقول علامہ اقبال :
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شمع کی علامت یہاں ایمان کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان کی شمع بجھ چکی ہو اور ان کے دل مردہ ہو چکے ہوں۔ جب وہ اللہ کے نیک بندوں کی محفل میں جاتے ہیں تو اللہ والوں کے اثر صحبت اور ان کے وعظ و نصیحت کی تاثیر سے لوگوں میں ایمان کی بجھی ہوئی شمع پھر سے روشن ہو جاتی ہے اور ان کے مردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے لوٹتے ہیں اور سچے مومن بن جاتے ہیں ۔ گناہوں کے اثر سے دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں ۔ دنیا داری دنیا کی محبت اور دنیاوی خواہشات سے دل مردہ ہو جاتا ہے ۔ اللہ کے ولیوں کے سینے اللہ کی محبت سے منور ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگو کی تاثیر سے دلوں کا زنگ اتر جاتا ہے یہاں تک کہ مردہ دل بھی روشن ہو جاتے ہیں ۔ تاریک شاہد ہے کہ برصغیر میں صوفیائے کرام کی تبلیغ سے لاکھوں گمراہ اور بھٹکے ہوئے سیدھی راہ پر آئے اور لاکھوں مسلمان ہوئے ۔
بقول علامہ اقبال :
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
شعر نمبر 6 :
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : خرقہ پوش (پیوند لگے لباس پہننے والے درویشانہ لباس والے) ، ارادت( عقیدت ، یقین) ، ید بیضا( لفظی معنی چمکتا ہوا ہاتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی طرف اشارہ وہ اپنا ہاتھ بغل میں ڈال کر نکالتے تو ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن اور چمکتا ہوا دکھائی دیتا ، آستین (کرتے یا شیروانی کا وہ حصہ جس میں بازو رہتا ہے)
مفہوم : ان بوسیدہ لباس درویشوں کی بابت مت پوچھو اگر یقین ہو تو دیکھو وہ اپنی آستینوں میں ید بیضا لیے بیٹھے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں بھی تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ شاعر اللہ کے عشاق اور ولیوں کے روحانی طاقت ان کا تعلق اور مقام و مرتبہ بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ بظاہر پیوند لگے ہوئے لباس میں درویش دکھائی دینے والے لوگ حقیقت میں اللہ کے بہت مقررب بندے ہوتے ہیں ۔ تم ان کا حال نہ پوچھو اگرچہ وہ خستہ حال دکھائی دیتے ہیں ۔ پیوند لگے کپڑوں میں ہوتے ہیں اور سادہ لو نظر آتے ہیں لیکن اگر تم ان سے عقیدت رکھو تو تمہیں ان کی آستینوں میں ید بیضا نظر آئے گا ۔ اللہ کے درویش اور ولی ظاہری شان و شوکت نہیں رکھتے اس لیے تم ان کی ظاہری درویشی نہ دیکھو ۔ ان کی محفل میں بیٹھو اور ان کی صحبت میں رہو تو تمہیں ان کا مقام و مرتبہ معلوم ہو جائے گا ۔ اللہ نے انہیں غیر معمولی روحانی قوتوں سے نوازا ہے ۔
حضور اکرم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :
“بہت سے پراگندہ بال اور خستہ حال ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے ” ۔ (حدیث )
کہا جاتا ہے کہ لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بلند مرتبے کے حامل افراد اعلیٰ اور قیمتی لباس پہنتے ہیں ۔ لوگ ان کے ظاہری لباس ہی سے ان کا مقام و مرتبہ بھانپ لیتے ہیں لیکن بعض حالتوں کو سمجھنے کے لیے صرف ظاہری مشاہدہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس میں شامل ہو کر تجربہ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اللہ کے یہ درویش جو اپنے ظاہری لباس اور بودوباش کے لحاظ سے کم تر نظر آتے ہیں۔ جب تم ان کے اثر صحبت میں رہو گے تو معلوم ہوگا وہ باطنی لحاظ سے کتنے بلند مرتبے پر فائض ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
تمنا درد دل کی ہو تو خدمت کر فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
شاعر نے ید بیضا کی تلمیح استعمال کی ہے۔ ید بیضا کا لفظی معنی چمکتا ہوا روشن ہاتھ ہے ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا ۔ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ سورج کی طرح روشن ہو جاتا اور اس سے روشنی پھوٹنے لگتی ۔اقبال نے ید بیدا کی تلمیح اللہ کے درویشوں کی روحانی قوتوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی ہے ۔ اللہ کے درویش اپنے عشق اور پاک باطن کی بدولت غیر معمولی روحانی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہوتا ہے ۔
بقول مولانا روم :
“عشق عقل و دانش کو روشن کر دیتا ہے اور پتھر کو آئینہ بنا دیتا ہے ۔ اہل دل کو طور سینا جیسا سینہ دیتا ہے اور ہنر مندوں کو ید بیضا عطا کرتا ہے ” ۔اقبال اللہ کے عشاق اور پاک باطن ہستیوں کے لیے اپنی شاعری میں درویش، قلندر اور مرد حق وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اقبال کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کے بغیر خودی ترقی کے مراحل سے نہیں گزر سکتی ۔ خودی کا استحکام اطاعت الٰہی ، نیابت الہی اور ضبط نفس کے عمل سے ہوتا ہے ۔ خودی کی تربیت کے لیے اقبال نے چار بنیادی چیزیں بتائی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
اول : توحید پر کامل ایمان رکھنا ۔
دوم : حضور اکرم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ۔
سوم : قران مجید کا عمیق مطالعہ اور اس کی تعلیمات کی پیروی۔
چہارم : رجائیت یعنی مایوسی کی بجائے امید ، ہمت اور جرات کی راہ اختیار کرنا ۔
جب انسان خودی کو پا لیتا ہے اور عشق کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے تو اسے بے مثال اور لازوال قوت عطا ہو جاتی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جن کے لباس میں 17 پیوند ہوتے تھے ۔ ان کی روحانی قوت ایسی تھی کہ دریائے نیل کو حکم دیں تو بہنا شروع کر دے ، بھونچال سے لرزتی زمین پر اپنا کوڑا ماریں تو زمین کا زلزلہ تھم جائے اور ہوا کو حکم دیں تو ہزار میل دور سپہ سالار ساریہ تک ان کا پیغام پہنچا پہنچ جائے ۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جو اہل فکر کے امام ہیں مرحب کو پچھاڑتے ہیں اور خیبر کو اکھاڑ پھینکتے ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی
ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
شعر نمبر 7 :
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : ٹوٹنے والا دل( شکستہ خاطر دل ) ، مے (شراب ،مراد محبت کا جذبہ ) ، نازک (لطیف ، نفیس جو جلد ٹوٹ جائے) ، آبگینوں (شیشوں یا کانچ کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں)
مفہوم : محبت کے لیے نرم و نازک اور حساس دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ایسی شراب ہے جسے کانچ کے پیالوں میں رکھتے ہیں۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبت کرنے والے کی صفت بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جس طرح شراب کو نازک کانچ کی پیالیوں میں رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح محبت کرنے والے بھی نرم و نازک اور حساس دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ وہ معمولی سی ٹھیس اور خلش سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ محبت نرم و نازک جذبہ ہے جو سخت اور پتھر دلوں میں پروان نہیں چڑھتا۔ صراحی سرنگوں ہو کر ہی پیمانہ بھرا کرتی ہے ، دانہ خاک میں مل کر ہی گل و گلزار ہوتا ہے جھکی ٹہنی پر ہی پھل لگتا ہے اور نرم زمین ہی میں کھیتیاں اگتی ہیں ۔ سخت اور چٹیل زمین میں بیج نہیں پھوٹتے اور کھیتیاں نہیں اگتی ۔ اسی طرح سنگ دل اور متکبر لوگ محبت کے جذبے سے آشنا نہیں ہو سکتے۔ وہاں محبت پروان نہیں چڑھ سکتی وہی لوگ محبت کر سکتے ہیں جو نرم و نازک حساس دل کے مالک ہوں ۔
بقول مخمور دہلوی :
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
شاعر نے محبت کو مے یعنی شراب سے تشبیہ دی ہے جس طرح شراب میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح محبت میں بھی بے خودی اور سرشاری کی کیفیت ہوتی ہے ۔ شراب کو شیشے کے نازک برتنوں میں رکھا جاتا ہے جو ذرا سی ٹھیس سے چھلک اٹھتے ہیں ۔ اسی طرح محبت کا جذبہ بھی نرم و نازک اور حساس دلوں میں پروان چڑھتا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اگر تجھے عشق اور محبت کی طلب ہے تو پہلے اپنے دل کو گداز کر ۔ دل میں سوزو گداز پیدا کر اور ایک سچے عاشق کی صفات پیدا کر ۔ ہر چیز کی اصلیت کے موافق اس سے برتاؤ کیا جانا چاہیے ۔ اس کی فطرت کے خلاف کیا جائے تو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
محبت کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے انسان انس سے ہے جس کا مطلب محبت ، ہمدردی اور لگاؤ ہے ۔ چنانچہ محبت کا لفظ انسانیت، ہمدردی خلوص شفقت اور ادب و احترام کے جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس انسان کے دل سے محبت، ہمدردی اور انسانیت کے جذبات ختم ہو جائیں اس میں اور ایک درندے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ محبت محبت سے ملتی ہے یعنی محبت بانٹنے سے ہی ملتی ہے ۔ محبت ایثار و قربانی کا نام ہے جو دوسروں کے لیے ہمدردی اور ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتا ہے اسے ہی دوسروں سے محبت و ہمدردی ملتی ہے ۔ اگر انسان کا دل محبت کے جذبے سے سرشار ہو اور وہ اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کر دے۔ تو اس کے دل میں پگھلنے اور گھلنے کی خوبی پیدا ہو جاتی ہے ۔ دوسروں کے پاؤں میں چبھنے والے کانٹے کی خلش اسے اپنے دل میں محسوس ہو تو ہی یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔
بقول شاعر :
محبت کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
حقیقی معنوں میں شعر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی محبت ٹوٹے ہوئے دلوں میں بستی ہے۔ جو دل ٹوٹ جاتا ہے وہ اللہ کا گھر بن جاتا ہے۔ جسے کبھی کوئی غم نہ پہنچا ہو کسی تکلیف اور مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اللہ کی محبت اور اس کے قرب سے آشنا نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی محبت کے حصول کے لیے ٹوٹنے والا دل تلاش کر ۔
ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
شعر نمبر 8 :
نمایاں ہو کر دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں تیرے باریک بینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : نمایاں( ظاہر ،واضح ) ،دکھلا دے( نظر آ جا ) ، جمال( حسن ،خوبصورتی) ، مدت سے( کافی عرصے سے) ، چرچے (شہرت، تذکرے) ، باریک بینوں (نقطہ شناس ، تیز نگاہ رکھنے والے، تیز فہم ، سمجھدار)
مفہوم : اے محبوب کبھی سامنے آ کر انہیں اپنا حسن و جمال دکھا دے ۔ ایک مدت سے دانشوروں میں تیرے حسن کا بہت چرچا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ دانشور ، فلسفی ، صوفیا اور نکتہ ور اللہ کے بارے میں ہمیشہ سے بحث کرتے آئے ہیں کہ اللہ کی ذات کیسی ہے ؟ کائنات کا خدا ہے یا یہ کائنات ہی خدا ہے ۔ کوئی وحدت الوجود کا فلسفہ بیان کرتا ہے تو کوئی وحدت الشہود کا ۔ کوئی اسے فورس اور قوت کا نام دیتا ہے تو کوئی اسے حسن مطلق کہتا ہے ۔ چنانچہ شاعر محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے اللہ کبھی سامنے آ کر انھیں اپنا جلوہ دکھا دے ۔ ایک عرصہ سے یہ دانشور تیرے متعلق اور تیری ذات کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں ۔ دانشوروں سے یہ گتھی نہیں سلجھ رہی تو خود سب کے سامنے عیاں ہو کر اسے حل کر دے۔ ایک اور جگہ اقبال فرماتے ہیں :
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہ ساز میں
طرب آشنائے خروش ہو ، تو نوائے محرمِ گوش ہو
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ اہلِ دانش میں تیری خوبیوں کا بہت چرچہ ہے ۔ کوئی تیرے رعب و جلال کا ذکر کرتا ہے ، تو کوئی حسن و جمال کا ذکر کرتا ہے ، کوئی تیری قدرت و کمال کی مثال دیتا ہے ، تو کوئی تیرے فضل و کرم اور رحمتوں کا چرچا کرتا ہے ۔ الغرض ان سب کے سامنے نمایاں ہو کر اپنا جلوہ دکھا دے تاکہ وہ تیری حقیقت جان سکیں ۔ اگرچہ اللہ تعالی کی ہزاروں نشانیاں زمین و آسمان میں موجود ہیں ۔ ہر ذرے اور ہر جھونکے میں اسی کا پیغام ہے ۔ ہر شے اس کے ہونے پر گواہ ہے لیکن چونکہ کسی نے اللہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لیے کوئی بھی اللہ کی حقیقت نہیں جان سکتا۔
بقول اکبر الہ آبادی :
بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
مجازی معنوں میں شعر کا مفہوم یہ ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب تو نے خود کو چھپایا ہوا ہے ۔ لوگوں نے تجھے نہیں دیکھا لیکن تیرے بارے میں سنا ہے اس لیے لوگوں میں تیرے حسن و جمال کا بہت چرچہ ہے۔ ہر کوئی تیرے حسن پر فریفتہ اور گرویدہ ہے ۔ ہو کوئی تیرے حسن کے متعلق باتیں کرتا ہے۔ کوئی اسے چاند سے تشبیہ دیتا ہے کوئی گلاب کہتا ہے تو کوئی حور و پری سے تشبیہ دیتا ہے ۔ تیری زلفوں کو رات کی سیاہی اور سانپ کی کنڈلی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ تیرے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی ابروں کو کمان اور آنکھوں کو جھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ الغرض باریک بین تیرے حسن و جمال کے متعلق طرح طرح کے نقطے بیان کرتے ہیں۔
بقول ابن انشا :
کل چودویں کی رات تھی شب بر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
چنانچہ جو تیرے حسن و جمال کے شیدائی ہیں جنھوں نے تیرے حسن کے بارے میں سنا اور تجھے دیکھا نہیں ہے تو ایک بار سامنے آ کر انہیں اپنا حسن و جمال دکھا دے تاکہ وہ جان سکیں کہ تو کتنا حسین ہے ۔
شعر نمبر 9 :
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : خموش( شعری ضرورت کے تحت شاعر نے خاموش کو خموش لکھا ہے مطلب چپ )، چلانا (رونا ،چیخنا ، شور مچانا) ، قرینہ (طریقہ ، ڈنگ ، انداز )
مفہوم : اے دل خاموش ہو جا سب کے سامنے فریاد کرنا مناسب نہیں۔ محبت کے اصولوں میں پہلا اصول ادب سیکھنا ہے۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر عشاق کو دستورِ عشق بتاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبت کا پہلا اصول یہ ہے کہ محبوب کے سامنے خاموشی اختیار کی جائے۔ محبت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ جن کی پاسداری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انسان کے دل میں محبت معجزن ہوتی ہے اور وہ اس کے اظہار کے لیے بے قرار بھی ہوتا ہے لیکن ایک سچا عاشق محبت کے آداب پیش نظر رکھتا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار سرعام نہیں کرتا ۔ اپنے دل کی بات زبان تک نہیں لاتا چنانچہ شاعر اپنے دل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے دل خاموش ہو جا ۔ محبت کا اظہار برملا بھری محفل میں کرنا بے ادبی کی بات ہے ۔ محبت کے اصولوں میں پہلا اصول ادب و احترام ہے۔
بقول شاعر :
یہ بزمِ حسن ہے لازم رہے خیال ادب
جو بے ادب ہیں یہاں سے اٹھائے جاتے ہیں
ایک فارسی شاعر عزت بخاری عشق رسول میں ادب کو یوں بیان کرتے ہیں :
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید د جنید و بایزید ایں جا
ترجمہ : آسمان کے نیچے ایک ایسی ادب گاہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو عرش سے بھی زیادہ نازک ہے ۔ یہاں جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے اولیاء بھی ادب کی وجہ سے سانس روک کر آتے ہیں ۔
محبت میں بہت سی آزمائشیں اور مشکلات آتی ہیں انہیں صبر و تحمل سے برداشت کرنا عاشق صادق کی پہچان ہے اور محبت کی اولین شرط ہے ۔ اہل عشق کے نزدیک ہمیشہ یہ امر پسندیدہ رہا ہے کہ عاشق محبوب کے عشق میں پیش آنے والے دکھ درد اور مصائب کو صبر و تحمل اور حوصلے سے برداشت کرے ۔ اگر کوئی عاشق آہ و فریاد کرے تو یہ محبت کے قرینے کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ اگر عاشق آہ و فریاد کرتا ہے ۔ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا دعویٰ عشق جھوٹ پر مبنی ہے ۔ آہ و فریاد تو دور کی بات ہے سچا عاشق تو آنسوؤں کو پلکوں تک نہیں آنے دیتا کہ یہ توہینِ محبت ہے ۔
بقول میر تقی میر :
پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے
کتنے آنسو پلک تلک آئے
بقول شاعر :
وہ جن کا عشق صادق ہو ، وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پر مہر خاموشی دلوں میں یاد کرتے ہیں
چنانچہ عاشق کے لیے لازم ہے یہ اپنا دل محبت کو محبوب کو دینے کے بعد یہ وہ تسلیم و رضا اختیار کر لے اور اس راہ میں جس قدر مصائب اور امتحان آئیں سب کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرے اپنی بے قراری اور بے تابی کا اظہار کرنا کم ظرفی ہے ۔ محبت میں ادب اور وقار کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے ۔ زبان پر حرفِ شکایت لانا آہ و فغاں کرنا آئین عشق کے خلاف ہے ۔
بقول احسان دانش :
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
اور اقبال بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں :
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں
شعر کا حقیقی مفہوم یہ ہوگا کہ ایک بندہ مومن کے پیشِ نظر محبوب حقیقی یعنی اللہ تبارک و تعالی کی رضا ہونی چاہیے۔ اسے راہ حق پر چلتے ہوئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں پر گلا شکوہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ تاریخ ایسے عاشقان با صفا سے مالا مال ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ عشق الٰہی میں صبر اور تسلیم و رضا کا پیکر تھے ۔ جنھوں نے اپنا تمام خاندان راہ خدا میں قربان کر دیا لیکن زبان پر ایک حرفِ شکایت نہ آیا ۔
بقول مجید امجد :
سلام ان پر تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم ، جو تیری رضا، جو تو چاہے
شعر نمبر 10:
برا سمجھوں انھیں ، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
مشکل الفاظ کے معانی : نکتہ چینوں( تنقید یا اعتراض کرنے والے ، عیب ڈھونڈنے والے)
مفہوم : میں کسی کو برا کیوں کہوں میں تو خود اپنے عیب ڈھونڈتا رہتا ہوں۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جو لوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں اور میری نکتہ چینی کرتے ہیں میں انھیں برا بھلا کیسے کہوں کیونکہ میں تو خود اپنی نقطہ چینی کرتا رہتا ہوں ۔ لہذا ایک لحاظ سے نقطہ چینی کرنے والے میرے عیب تلاش کرنے میں میری مدد کرتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے :
” تمہارا بہترین دوست وہ ہے جو تمہیں تمہارے عیب سے آگاہ کرے ”
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کسی پر تنقید کرتے ہیں ہر کام میں عیب ڈھونڈتے ہیں اور ہر بات میں نکتہ چینی کرتے ہیں اسے ایک غیر اخلاقی حرکت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے عموماً لوگ نقطہ چینی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے لیکن اقبال کہتے ہیں کہ نقطہ چینی کرنے والے بھی میرے خیر خواہ ہیں۔ اگر لوگ میری نکتہ چینی کرتے ہیں اور مجھ پر تنقید کرتے ہیں تو میں انہیں برا نہیں سمجھتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے اندر بہت سی خامیاں ہیں ۔ جنھیں دور کرنے کے لیے میں کوشش کرتا رہتا ہوں ۔ جب ایک خامی دور ہو جاتی ہے تو دوسری کو تلاش کر کے اس کی اصلاح میں لگ جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں خود بھی اپنے عیب تلاش کرتا رہتا ہوں۔ دوسروں کے توجہ دلانے سے مجھے اپنے عیبوں کی خبر ہو جاتی ہے اور اپنی اصلاح کا موقع ملتا رہتا ہے لہذا میں کسی کو برا کیسے سمجھ سکتا ہوں ۔ جب انسان اپنے آپ کو کامل اور بے عیب سمجھنا شروع کر دے تو اس کی اصلاح کا عمل رک جاتا ہے تب اسے دوسروں میں عیب نظر آتے ہیں لیکن اگر وہ خود احتسابی کرے اور اپنے عیوب پر نگاہ کرے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ عیب تو خود مجھ میں موجود ہیں ۔
بقول بہادر شاہ ظفر :
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
نوٹ : امید ہے کہ آپ اقبال کی غزل ” جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.