جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، پنجاب بورڈ کی غزل ” جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح پر تفصیلی گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
مشکل الفاظ کے معانی : تاج وری (بادشاہت، حکمرانی ) ، نوحہ گری (ماتم کرنا ، آہ و زاری کرنا) مفہوم : جس کو آج بادشاہت کا غرور ہے کل اس پر نوحہ گری ہو رہی ہو گی ۔
تشریح : میر تقی میر کی غزل کا مطلع ہے جس میں میر نے انسان کی زندگی کی ایک عالمگیری سچائی سے ہمیں روشناس کرایا ہے ۔
انسان کی ہمیشہ سے یہ کمزوری رہی ہے کہ جب اسے اقتدار و حکومت اور طاقت و قوت مل جاتی ہے تو وہ اس کے نشے میں سرشار ہو کر فرعون بن جاتا ہے۔ کتنے ہی ایسے سرکش فرعون تھے جنھوں نے اپنے مرنے کے بعد ہمالیہ کی اشک فشانی کے بلند بانگ دعوے کیے تھے مگر دنیا نے دیکھا کہ ان کی موت پر نہ ہمالیہ رویا نہ آسمان گرا اور نہ ہی دنیا کے معاملات میں کوئی رخنہ آیا بلکہ اب تو ایسے لوگوں کی یادیں بھی بھول چکی ہیں ۔
میر کا یہ شعر اسی سنگلاخ حقیقت کا غماز ہے میر کہتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی اور ناپائیدار ہے جو شخص آج صاحب تخت و تاج ہے اور اس بات پر اتراتا ہے کہ اسے اقتدار حاصل ہے اور لوگ اس کا حکم مانتے ہیں ۔ اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ عہدہ اقتدار اور دولت و قوت سب عارضی اور فانی ہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب اس کا تخت و تاج اس سے چھین لیا جائے گا اور موت اس کو بے بس کر دے گی ۔ وہ سر جس پر تاج شاہی جگمگاتا تھا اس پر خاک ڈال دی جائے گی ۔ تاج و تخت لے لیا جائے گا ۔ تاج و تخت اور جاہ و جلال ایسی چیزیں نہیں ہیں جن پر فخر کیا جائے ۔ تکبر اور رعونت کے مقدر میں رسوائی ہوا کرتی ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اے حب جاہ والو ! جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھو تم ، نے تاج نہ سر ہے
جبین کج کلاہی خاک پر خم ہم بھی دیکھیں گے
تمہیں بھی دیکھنا ہوگا یہ عالم ہم بھی دیکھیں گے
شعر نمبر 2 :
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
مشکل الفاظ کے معانی : آفاق (دنیا ، جہان ) ، سلامت (محفوظ) ، سفری( مسافر )
مفہوم :اس حیات فانی میں انسان جو کچھ بھی مال و متاع اکٹھا کرتا ہے سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے ۔
تشریح : حیات انسانی کی حقیقت یہی ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے کچھ عرصہ اس عالم رنگ و بو میں بسر کرتا ہے پھر وہاں چلا جاتا ہے جہاں سے آج تک کوئی لوٹ کر نہیں آیا ۔ وقت مرگ انسان سے اس کی ہر قیمتی متاع چھن جاتی ہے ۔ موت کی تلوار سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“
میر نے اس شعر میں دنیا اور حیات انسانی کی بے ثباتی کا مضمون باندھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی اس منزل سے کوئی مسافر بھی سلامتی کے ساتھ نہیں گزرا ۔ ہر مسافر کو اسباب و سامان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ مراد یہ ہے کہ یہ دنیا منزل فنا ہے ۔ اس میں آنے والا ہر شخص ملک عدم کا مسافر ہے ۔ اس کی زندگی بہت مختصر ہے ۔ اس لیے دنیا میں انسان جتنا مال دوست جمع کر لے وہ کسی کام کا نہیں کیونکہ اسے تو اپنے ساتھ کوئی چیز لے جانے کی اجازت ہی نہیں ہوگی ۔ وقت مرگ سب کچھ یہیں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ گویا ازل سے ابد تک کے اس سفر میں انسان کا سارا مال و متاع سب کچھ یہیں راہ میں لٹ جاتا ہے ۔
یہ اشعار بھی دنیا کی اسی بے ثباتی کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
چلتے ہوئے ہرگز کچھ کام آ نہ سکے گا
ہمراہ اسباب جہاں جا نہ سکے گا
گر لاکھ برس جیے تو پھر بھی مرنا ہے
پیمانہ عمر اک دن بھرنا ہے
یاں تو شہ آخرت مہیا کر لے
غافل ! تجھے دنیا سے سفر کرنا ہے
شعر نمبر 3 :
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تیری بے داد گری کا
مشکل الفاظ کے معانی : زخم جگر (جگر کا زخم) ، داور محشر (قیامت کا منصف مراد اللہ تعالیٰ ) ، انصاف طلب( انصاف چاہنے والا ) ، بے داد گری( ظلم ، ا انصافی )
مفہوم: دنیا میں ہم پہ جو ظلم و ستم ہوا اس کا بدلہ ہمیں نہیں مل سکا مگر روز محشر ہمارا ایک ایک زخم اللہ تعالیٰ سے محبوب کے ظلم کی شکایت کرے گا ۔
تشریح : اردو شاعری کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ شاعروں اور عاشقوں کو محبوب ایسا ملا جو انتہائی ظالم جفا جور اور بیداد گر ہے ۔ وہ عاشقوں پر بے انتہا ظلم توڑتا ہے نہ کوئی اسے روکنے والا ہے نہ کوئی پوچھنے والا ہے ۔ سینہ عشاق میں لگے ہوئے گھاؤ خود ہی زبان حال سے محبوب کی ستم کاریوں کا پول کھول دیں تو شاید وگرنہ اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جا سکتی ۔ میر نے اس شعر میں محبوب کے ظلم و ستم کے ساتھ ساتھ عاشق کی بے بسی اور لاپرواہی کا احترام بھی کیا ہے اور محبوب کے ستم کے خلاف اس طرح آواز بلند کی ہے کہ شکایت کا اندازہ بھی پیدا نہیں ہوا ۔
میر کہتے ہیں کہ اے محبوب ! ہم خود تو تیرے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتے مگر قیامت کے دن ہمارے جگر کے وہ تمام زخم اور سینے کے وہ تمام داغ جو تیرے ظلم کی منہ بولتی تصویریں ہیں خود زبان حال سے پکار پکار کر خدا سے انصاف طلب کریں گے ۔ دنیا میں تو تیرے اس ظلم کی داد نہ ملی اور تجھ سے اس سفاکانہ رویے کا بدلہ کسی نے نہ لیا لیکن قیامت کو ضرور بدلہ لیا جائے گا ۔ کیونکہ اس روز داور محشر یعنی اللہ تعالیٰ سے ہر مظلوم کو عدل و انصاف ملے گا ۔ ہمارے جگر کے زخم خدا کی عدالت میں تمہارے خلاف فریاد کریں گے ۔
کس شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا
شعر نمبر 4 :
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق اس کار گہ شیشہ گری کا
مشکل الفاظ کے معانی : آفاق (دنیا ، جہان ) ، کارگہ (کارخانہ) ، شیشہ گری( شیشہ سازی ، شیشہ بنانا) مفہوم : دنیا آزمائش کی جگہ ہے یہاں ہر قدم پھونک پھونک کر اور احتیاط سے رکھنا پڑتا ہے ۔
تشریح : اس دنیا میں انسان کا وجود ایک ذمہ دار اور جواب دہ مخلوق کا وجود ہے ۔ ہر قدم پر آزمائشیں اور ابتلائیں انسان کے درپے رہتی ہیں ۔ یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے ۔ ہر قدم اٹھانے سے اور اسے دوبارہ رکھنے سے پہلے یہ سوچنا بڑا ضروری ہے کہ یہ اٹھا ہوا قدم کسی غلط سمت تو نہیں جا رہا ۔ بعض اوقات ذرا سی غلطی اور غفلت سے انسانی تعلقات میں بڑا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور دلوں کے آئینے بھی چور چور ہو جاتے ہیں ۔
بقول عدم :
سانس لینے سے ٹوٹ جاتے ہیں
دل کے رشتے عجیب ہوتے ہیں
میر نے امور دنیا کی نزاکت کو واضح کرنے کے لیے دنیا کو کارگہ شیشہ گری کہا ہے ۔ شیشے کے کارخانے میں قدم بڑی احتیاط ، جانچ ، پرکھ اور ناپ تول کے بعد ہی رکھنا پڑتا ہے ۔ مبادہ ہلکی سی ٹھیس نازک آبگینوں کو توڑ دے۔ اسی طرح دنیا میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ دنیا ایک آزمائش کی جگہ ہے اور انسان زندگی بھر انھیں آزمائشوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں بڑی دشوار گزار منزلیں آتی ہیں ۔ لہٰذا انسان کو ہر گام پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔
شعر نمبر 5 :
ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا
مشکل الفاظ کے معانی : ٹک( ذرا ، ابھی ) ، جگر سوختہ (جلے ہوئے جگر والا ) ، چراغِ سحری( صبح کا چراغ مراد مرنے کے قریب ہونا ہے)
مفہوم : دوستو ! میر کی جلدی سے کوئی خیر خبر لو وہ مرنے کے قریب ہے کسی وقت بھی موت کا فرشتہ اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے ۔
تشریح : اردو شاعری کا محبوب بے پرواہ اور بے نیاز ہے ۔ اپنے چاہنے والوں کی طرف توجہ نہ دینا اس کی ادا ہے اور بعض اوقات اس کے یہی دیر آشنائی کی صفت عاشق کو گور کنارے لے جاتی ہے ۔ مگر پھر بھی عاشق کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ چراغِ حیات کے گل ہونے سے پہلے پہلے آخری مرتبہ ہی سہی اپنے محبوب کا دیدار نصیب ہو جائے ۔ میر بھی اس شعر میں محبوب کی غفلت اور بے نیازی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے محبوب ! تو نے ہمیں عمر بھر ستایا ، ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ۔ ہمیشہ بے اعتنائی اور عدم توجہی کا سلوک روا رکھا ۔ اب ہم غم و آلام سے گور کنارے پہنچ گئے ہیں۔ کسی وقت بھی موت کا فرشتہ ہمیں زندگی سے محروم کر سکتا ہے اور ہم چراغِ سحری کی مانند بجھ سکتے ہیں۔ بقول شاعر :
نہ جانے کب کوئی جھونکا بجھا دے زندگی کی لو
چراغِ آخرِ شب ہوں اگر آنا ہے آ جاؤ
اے محبوب اب تو ہمیں شرف دیدار بخش دے تاکہ ہم سکون سے موت کی آغوش میں اتر سکیں اور حسرت دیدار کو دل میں لے کر نہ مریں۔
بقول علامہ اقبال :
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی غزل کی تشریح و توضیح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.