آج کی اس پوسٹ میں ہم علی گڑھ تحریک کا پس منظر ، تعارف ، اغراض و مقاصد ، اس تحریک کی مشہور شخصیات اور اردو ادب پر اس تحریک کے اثرات کا جائزہ لیں گے ۔
تحریک علی کا تعارف اور پس منظر : برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سر سید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انھی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سر سید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
ابتدا میں سر سید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سر سید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھا اور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبودگی میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
1869 میں سر سید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سر سید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سر سید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔
علی گڑھ تحریک کے اغراض و مقاصد : اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے کئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقل سے تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب، اردو ہندو مسلم تعلقات، انگریز اور انگریزی حکومت، انگریزی زبان، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں۔ ان آرا ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں علی گڑھ تحریک سر سید احمد خان کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی، اور سیاسی شعور کو بیدار کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اس کے اہم اغراض و مقاصد درج ذیل تھے :-
1. تعلیمی ترقی
مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا۔
مسلمانوں کو مغربی علوم و فنون سیکھنے کی ترغیب دینا تاکہ وہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق ترقی کر سکیں۔
انگریزی زبان اور سائنسی تعلیم کو فروغ دینا۔
2. سماجی اصلاح
مسلمانوں کی قدامت پسندی کو ختم کر کے ان میں نئی سوچ پیدا کرنا۔
جہالت، توہم پرستی، اور غیر ضروری رسوم و رواج کو ختم کرنا۔
مسلمانوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنا۔
3. سیاسی شعور
مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی تلقین۔
مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ان میں سیاسی شعور بیدار کرنا۔
ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینا تاکہ دونوں قومیں مل کر ترقی کر سکیں۔
4. معاشی ترقی
مسلمانوں کو جدید پیشہ ورانہ تعلیم کے ذریعے معاشی طور پر مضبوط بنانا۔
تجارت، صنعت، اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی شمولیت کو بڑھانا۔
5. اداروں کا قیام
ایک ایسے تعلیمی ادارے کا قیام جو جدید اور مذہبی تعلیم کا امتزاج پیش کرے۔ اس مقصد کے تحت 1875 میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا گیا، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی۔
6. اسلامی شناخت کا تحفظ
مسلمانوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت سے روشناس کرانا۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرنا اور انہیں جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنا ۔
سیاسی زاویہ: جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحلال کا شکار ہو چکی تھی۔ جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت انجام دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی اجارہ دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی۔ کالج اور تہذیب اخلاق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اور انھیں سیاسی طور پرایک علاحدہ قوم کا درجہ دیا۔
مذہبی زاویہ :
مذہبی حوالے سے سر سید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کی بجائے فعال بنانے کی کوشش کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ سر سید احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسلام کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی توضیح کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
علی گڑھ تحریک کا تیسرا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ سر سید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا۔ طبعی علوم، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سر سید کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی۔ اگرچہ سر سید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی سلیس افسانوی نثر، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔ سر سید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پیدا ہوئی۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سر سید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔
تحریک گڑھ تحریک میں یہ ایک بہت بڑی کمی تھی کہ اس میں سماجی اصلاح کا پہلو بہت کم تھا۔ سر سید احمد کا صرف ایک شادی پر اصرار تھا اور شاید وہ بھی اس لیے کہ انگریزوں کو ایک سے زائد شادیاں پسند نہیں تھیں بلکہ ان کے یہاں کثیر الازدواجی جرم تھا۔
خواتین کی تعلیم کے معاملے میں کہیں کہیں سر سید نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عورتوں کو صرف اس حد تک خواندہ بنا دیا جائے کہ وہ خط پڑھ سکیں، اس سے زیادہ کی انھیں ضرورت نہ تھی۔
لیکن ہندوستان میں اس سے قبل خواتین کی تعلیم کی جو ہوا چل رہی تھی اور کی شب چندر اور ان سے قبل ودیا ساگر وغیرہ نے اس کے لیے جو تحریک چلا رکھی تھی اس کے اثرات علی گڑھ پر بھی پڑے اور سر سید کی موت کے بعد شیخ عبداللہ نے یہ تحریک شروع کر دی کہ یہاں بھی لڑکیوں کا سکول اور کالج ہونا چاہیے جو بعد میں قائم ہوا اور بی اے تک ان کی تعلیم ہونے لگی لیکن آزادی سے پہلے تک ایم اے متعارف نہیں کرایا جا سکا تھا۔
اول اول طلبہ اور طالبات کے درمیان ایک پردہ حائل ہوا کرتا تھا جو رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ برقع بہت کم لڑکیاں اوڑھتی تھیں جب کہ آج کل یہ رواج بڑھ گیا ہے۔ یعنی حجاب کا کوئی نظام نہیں تھا۔ بہر حال اس تحریک کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں جدید تعلیم عام ہوئی۔
علی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔
اگر آپ سر سید کے طرز تخیل کو دیکھیں تو آپ یہی پائیں گے کہ ان پر جدید تہذیب کا دو طرح سے اثر ہوا۔
ایک یہ کہ جب انگریزی تعلیم اور تصانیف سے ان کی واقفیت ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ تعلیم اور سائنس کی ایک بالکل نئی دنیا کھلتی ہے۔
تاریخ جیسے روایتی مضامین بھی بالکل نئی طرح سے ان کے سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ اس سے متاثر ہو کر انھوں نے ’آثار الصنادید‘ لکھی۔ ان سے پہلے فارسی اور اردو میں تاریخی عمارتوں پر ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی
تحریک علی گڑھ پر تنقید :
تحریک علی گڑھ نے برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، اور سیاسی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اس تحریک کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس تنقید کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. دینی تعلیم سے غفلت
علما اور مذہبی حلقے تحریک علی گڑھ پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ صرف جدید مغربی تعلیم پر زور دیتی ہے اور دینی علوم و تعلیمات کو نظر انداز کرتی ہے۔
سر سید احمد خان پر الزام لگایا گیا کہ وہ مسلمانوں کو ان کی مذہبی اور روحانی بنیادوں سے دور لے جا رہے ہیں۔
2. انگریز دوستی کا الزام
سر سید احمد خان نے برطانوی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے اور مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جذبات رکھنے سے روکا۔
تحریک پر الزام لگایا گیا کہ یہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے وفادار بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بعض ناقدین نے اسے مسلمانوں کی آزادی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
3. ہندو مسلم اتحاد کی مخالفت
سر سید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، لیکن کچھ مسلمانوں نے اس بات پر تنقید کی کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں ہو سکتے۔
تحریک علی گڑھ کو ان افراد نے مسلمانوں کے جدا گانہ تشخص کے لیے خطرہ سمجھا۔
4. مذہبی علما کی مخالفت
مذہبی علما نے سر سید احمد خان کے بعض عقائد کو اسلام کے خلاف قرار دیا، جیسے ان کا معجزات، جہنم اور جنت کے بارے میں خیالات۔
دیوبندی مکتب فکر اور دیگر مذہبی جماعتوں نے سر سید احمد خان کو “نیچری” قرار دیا اور ان کے نظریات کو کفر سے تعبیر کیا۔
5. مغربی ثقافت کا فروغ
تحریک پر الزام لگایا گیا کہ یہ مسلمانوں میں مغربی ثقافت، لباس، اور طرز زندگی کو فروغ دے رہی ہے، جو ان کے اسلامی تشخص کو متاثر کر سکتا ہے۔
بعض افراد نے کہا کہ تحریک مغرب کی تقلید کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی روایات سے دور کر رہی ہے۔
6. ہر طبقے کی نمائندگی کا فقدان
تحریک پر تنقید کی گئی کہ یہ زیادہ تر اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کے لیے کام کر رہی ہے، جبکہ نچلے طبقے کے مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا۔
7. مسلمانوں کی سیاسی کمزوری
کچھ ناقدین نے کہا کہ تحریک نے مسلمانوں کو صرف تعلیم تک محدود کر دیا اور انہیں سیاسی طور پر غیر فعال بنا دیا۔
سر سید احمد خان کا کانگریس کی مخالفت اور مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ بھی تنقید کا نشانہ بنا۔
علی گڑھ تحریک کی اہم شخصیات اور ان کے کارنامے :
علی گڑھ تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔ اس تحریک میں کئی ایسے لوگ تھے جنہوں نے اسے نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ آئیے ان شخصیات اور ان کے کارناموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1. سر سید احمد خان
* بنیاد گذار: سر سید احمد خان کو علی گڑھ تحریک کا بانی مانا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں میں مغربی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور محمدن انگلو اورینٹل کالج (بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کی بنیاد رکھی۔
* تہذیب الاخلاق: انہوں نے تہذیب الاخلاق نامی ایک رسالہ جاری کیا جس میں جدید علوم اور افکار کو عام کیا گیا۔
* سائنٹفک سوسائٹی: سائنسی معلومات کو عام کرنے کے لیے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔
2. مولانا حالی
* شاعر اور مفکر: مولانا حالی ایک عظیم شاعر اور مفکر تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ان کی تاریخی عظمت اور موجودہ زوال پر آمادہ کیا۔
* مسدس مظاہر اسلام: ان کی مشہور تصنیف مسدس مظاہر اسلام میں اسلام کی تاریخ اور تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔
3. محسن الملک
* علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر: محسن الملک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک عالمی سطح کا ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
* تعلیمی اصلاحات: انہوں نے یونیورسٹی میں تعلیمی اصلاحات کیں اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا۔
4. مولوی نذیر احمد
* ناول نگار: مولوی نذیر احمد ایک مشہور ناول نگار تھے۔ انہوں نے سماجی اصلاحات کے لیے ناول کا استعمال کیا۔
* آئینہ: ان کا ناول آئینہ سماجی برائیوں کے خلاف ایک طنز ہے۔
5. مولانا محمد علی جوہر
* سیاسی رہنما: مولانا محمد علی جوہر ایک سیاسی رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
* کامریڈ اور ہمدرد: انہوں نے کامریڈ اور ہمدرد نامی اخبارات جاری کرکے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔
6. مولانا ابوالکلام آزاد
* قومی رہنما: مولانا ابوالکلام آزاد ایک قومی رہنما تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔
* تعلیم کے حامی: وہ تعلیم کے بڑے حامی تھے اور انہوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے۔
یہ صرف چند اہم شخصیات ہیں جنہوں نے علی گڑھ تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کیا آپ کسی خاص شخصیت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں؟
اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو علی گڑھ تحریک سے متعلق مزید معلومات بھی فراہم کر سکتا ہوں۔
تحریک علی گڑھ کے اثرات :
تحریک علی گڑھ نے برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس تحریک نے نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر کی بلکہ ان کی سماجی، سیاسی، اور معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کے اہم اثرات درج ذیل ہیں:
1. تعلیمی اثرات
جدید تعلیم کے حصول کو فروغ ملا، جس نے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور مغربی علوم سے روشناس کرایا۔
محمدن اینگلو اورینٹل کالج (بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا قیام مسلمانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بنا۔
دینی اور جدید تعلیم کے امتزاج نے مسلمانوں کو دنیاوی اور مذہبی دونوں میدانوں میں ترقی کے قابل بنایا۔
2. سماجی اثرات
مسلمانوں میں قدامت پسندی، توہم پرستی، اور غیر ضروری رسوم و رواج کے خلاف شعور پیدا ہوا۔
تحریک نے مسلمانوں میں اتحاد، تنظیم، اور جدو جہد کا جذبہ پیدا کیا۔
ایک جدید، تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ پیدا ہوا جو معاشرے کی رہنمائی کے قابل تھا۔
3. سیاسی اثرات
تحریک نے مسلمانوں کو سیاسی شعور عطا کیا، جس کے نتیجے میں بعد میں مسلم لیگ جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔
مسلمانوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد کرنے کا تصور پیدا ہوا۔
سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگریس کی سیاست سے دور رکھا، جس نے مسلمانوں کی جدا گانہ شناخت کو محفوظ رکھنے میں مدد دی۔
4. معاشی اثرات
جدید تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کو پیشہ ورانہ اور صنعتی میدانوں میں ترقی کے مواقع ملے۔
تعلیم یافتہ مسلمانوں نے تجارت، زراعت، اور سرکاری نوکریوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کی بنیاد رکھی۔
5. اسلامی تشخص کا تحفظ
تحریک نے مسلمانوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت سے جوڑے رکھا۔
سر سید احمد خان نے اسلام کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی تعلیمات کو معقولیت کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ مسلمان جدید علوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب سے بھی جڑے رہیں۔
6. علی گڑھ تحریک سے مسلم قوم پرستی کا آغاز
مسلمانوں کے سیاسی اور تعلیمی شعور نے انہیں ایک علیحدہ قوم ہونے کا احساس دلایا۔
اسی سوچ نے آگے چل کر دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی، جو قیام پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
7. مسلم خواتین کی تعلیم
علی گڑھ تحریک نے بالواسطہ طور پر مسلم خواتین کی تعلیم کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
خواتین کے لیے تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جس سے مسلم معاشرے میں خواتین کا کردار مزید مضبوط ہوا۔
تحریک علی گڑھ کا مجموعی جائزہ : علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سر سید احمد خان اور اُن کے رفقاء سے ہوتا ہے۔ سوانح نگار، سیرت نگاری، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سر سید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔
علی گڑھ مسلم طلبہ کا سب سے بڑا مرکز تھا اور قومی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتا تھا۔ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو بہت سے طلبہ جو برصغیر کے مختلف حصوں سے آئے تھے شامل ہونے لگے۔ جلد ہی علی گڑھ میں مسلمان طلبہ کا ایک کیمپ منعقد ہوا جس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر راجا صاحب محمود آباد بھی شریک ہوئے۔ وہیں پر مولانا محسن علی عمرانی (ڈیرہ اسماعیل خان) کی ملاقات علامہ راغب احسن سے ہوئی۔ دونوں کی ملاقاتوں اور ایک جیسی فکر و سوچ کی بدولت جلد ہی یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ بتاتا چلوں کہ علامہ راغب احسن وہ عہد ساز شخصیت تھیں کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلی کی سر زمین پر تین اہم شخصیتوں محمد علی جناح، علامہ اقبال اور علامہ راغب احسن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار اور عالمی حالات و واقعات پر باتیں کیں۔ 1940 میں تعلیم مکمل کرنے بعد جب ڈیرہ اسماعیل خان واپس آئے تو لکھنؤ اور علی گڑھ میں تحریک پاکستان اور مختلف شخصیات خصوصا علامہ راغب احسن سے متاثر ہو کر مقامی نوجوانوں کو جمع کر کے علامہ راغب احسن کے حکم پر اور شہزادہ فضل داد خان جو بحیثیت صدر مسلم لیگ، محمد نواز خان اور جنرل سیکریٹری مولا داد خان بلوچ کام کر رہے تھے کہ مکمل تعاون اور سرپرستی کے نوجوانان ِمسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور سب سے پہلے جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور جوانوں کو یکجا کر کے بزرگوں کے ہاتھ مضبوط کیے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ سر سید اور ان کی تحریک ” تحریک علی گڑھ” کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.