آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو ادب کی ایک مشہور تحریک ” حلقہ اربابِ ذوق” کا پس منظر ، اغراض و مقاصد ، ادوار ، مشہور شخصیات اور اردو ادب پر اس تحریک کے اثرات کا جائزہ لیں گے ۔
حلقہ اربابِ ذوق کا پس منظر : ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر آتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بنا پر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کیا، ایک کا عمل بلا واسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلا واسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔ حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:
” حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کا سب سے پرانا ادبی ادارہ ہے یہ مسلسل کئی برسوں سے اپنی ہفتہ وار مٹینگیں باقاعدگی سے کرتا رہا ہے۔ جنگ کا زمانہ ہویا امن کا دور اس کی کارکردگی میں کبھی فرق نہیں آیا “
ایک اور جگہ یونس جاوید لکھتے ہیں:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔ “
بقول سجاد باقر رضوی:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔ “
29 اپریل 1939ء کو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔ نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ”مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ رکھ دیا گیا۔
حلقہ اربابِ ذوق کے اغراض و مقاصد:
حلقۂ اربابِ ذوق کے قیام کے بنیادی اغراض و مقاصد درج ذیل ہیں:
1. ادبی تخلیقات کا فروغ
حلقہ کا بنیادی مقصد ادبی تخلیقات کو فروغ دینا تھا۔ یہ ادیبوں اور شاعروں کو آزادانہ ماحول فراہم کرتا تھا جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔
2. ادب کو سیاست سے آزاد رکھنا
حلقہ نے ادب کو خالص ادبی مقاصد کے لیے مختص کیا اور اسے سیاسی اور سماجی نظریات سے آزاد رکھنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ادب کی اپنی اہمیت ہے اور اسے کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔
3. جدت پسندی کا فروغ
حلقہ کا مقصد اردو ادب میں جدت کو متعارف کروانا تھا۔ انہوں نے نئے موضوعات، جدید اسلوب اور علامتی انداز کو فروغ دیا جو اُس وقت کے روایتی ادب سے مختلف تھے۔
4. مباحثے اور تنقید کی حوصلہ افزائی
حلقہ کے اجلاسوں میں تخلیقات پر تنقیدی مباحثے کیے جاتے تھے تاکہ ادیبوں کو اپنی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہو سکے اور وہ اپنے کام میں مزید بہتری لا سکیں۔
5. ادبی آزادی کی حمایت
حلقہ نے ادیبوں اور شاعروں کو اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کی مکمل آزادی دی۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں ہر شخص اپنی تخلیقات کو بغیر کسی دباؤ یا تنقید کے خوف کے پیش کر سکتا تھا۔
6. ادب کو معاصر زندگی سے جوڑنا
حلقہ کے مقاصد میں یہ شامل تھا کہ ادب کو معاصر زندگی کے مسائل اور موضوعات سے جوڑا جائے، تاکہ ادب قارئین کی زندگی کا عکاس ہو۔
7. معیارِ ادب کی بہتری
حلقہ نے ادبی معیار کو بلند کرنے کے لیے کام کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ادب کو نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہونا چاہیے بلکہ اس میں فکری اور تخلیقی گہرائی بھی ہونی چاہیے۔
8. نئے لکھنے والوں کی تربیت
حلقہ نے نئے اور نوآموز ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں تربیت فراہم کی تاکہ وہ اردو ادب میں اپنا مقام بنا سکیں۔
9. ادبی تجربات کی حوصلہ افزائی
حلقہ نے ادیبوں کو نئے ادبی تجربات کرنے کی آزادی دی، جس نے اردو ادب میں نئے رجحانات اور اصناف کو جنم دیا۔
10. غیر جانبدارانہ تنقید کا فروغ
حلقہ کی ایک اہم خصوصیت غیر جانبدارانہ تنقید تھی، جہاں تخلیقات کو کسی نظریاتی یا ذاتی تعصب کے بغیر پرکھا جاتا تھا۔
تحریک حلقہ اربابِ ذوق کی اہم شخصیات: حلقۂ اربابِ ذوق نے اردو ادب کی کئی ممتاز شخصیات کو تخلیقی اظہار کا موقع فراہم کیا، جنہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنی انفرادیت قائم کی۔ یہاں حلقہ سے وابستہ چند مشہور شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے:
1. ن م راشد
جدید اردو شاعری کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کی نظموں میں انفرادیت، جدت اور فکری گہرائی نمایاں ہیں۔
مشہور کتابیں: ماورا، ایران میں اجنبی، لا انسان۔
2. میرا جی
اردو نظم میں علامت نگاری اور تخیل کے منفرد شاعر۔
ان کی شاعری میں داخلی کرب، محبت اور فلسفیانہ پہلو نمایاں ہیں۔
مشہور کتاب: سہ حرفی۔
3. فیض احمد فیض
ترقی پسند خیالات کے شاعر مگر حلقہ کے اجلاسوں میں بھی فعال رہے۔
ان کی شاعری میں رومانوی اور انقلابی جذبات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
مشہور کتابیں: نقشِ فریادی، دستِ صبا، زنداں نامہ۔
4. غلام عباس
اردو افسانے کے اہم ستون۔
ان کے افسانے سماجی حقیقت پسندی اور نفسیاتی گہرائی کا نمونہ ہیں۔
مشہور کہانیاں: آنندی، اوور کوٹ، کانواں والا تانگہ۔
5. خواجہ منظور حسین
حلقہ کے بانی اراکین میں سے ایک۔
تنقید اور ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
6. انتظار حسین
جدید اردو افسانے کے نمایاں لکھاری۔
ان کے افسانے ماضی، حال، اور روایات کے امتزاج کا نمونہ ہیں۔
مشہور کتابیں: بستی ، دنیا گویا خواب ہے، آگے سمندر ہے۔
7. جمیل جالبی
اردو ادب کے نقاد، محقق اور تاریخ نویس۔
حلقہ میں تنقیدی رجحانات کو فروغ دیا۔
مشہور کتاب: تاریخِ ادبِ اردو۔
8. قیوم نظر
حلقہ کے بانی رکن اور ممتاز شاعر۔
ان کی شاعری میں سادگی اور گہرائی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
9. وزیر آغا
اردو شاعری اور تنقید کے ممتاز لکھاری۔
جدید نظم اور تنقیدی ادب میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
مشہور کتابیں: شعرِ جدید کی کروٹیں، نگاہِ نکتہ داں۔
10. منیر نیازی
منفرد لب و لہجے کے شاعر۔
ان کی شاعری میں رومانویت اور داخلی کرب نمایاں ہیں۔
مشہور کتابیں: تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک۔
یہ شخصیات حلقۂ اربابِ ذوق کی فکری اور تخلیقی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہیں۔ ان کی کاوشوں نے اردو ادب میں نئے رجحانات اور تخلیقی تجربات کو فروغ دیا۔
تحریک حلقہ اربابِ ذوق کے مختلف ادوار:
ابتدا سے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ء
سے اگست 1940ء تک)
* میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجرا تک (اگست 1940ء سے دسمبر 1940ء تک)
* دسمبر 1940ء سے 1947ءمیں قیام پاکستان تک
* 1947 سے مارچ 1967ء میں حلقے کی تقسیم تک
*5 مارچ 1967ء سے 1976ء
پہلا دور : پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے ۔
دوسرا دور : دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا ۔
تیسرا دور : تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی۔ حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہرا تاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی۔ اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی۔ حلقے نے زندگی کے ساتھ بالواسطہ تعلق قائم کیا۔ اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب“ اور ”ادب برائے زندگی“ کی بحث تھی۔ اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت، علامت نگاری، وجودیت، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادبا نے ہی اردو سے روشناس کرایا، تنقید کو اہمیت دی اور نئی نظم کی تحریک کو پروان چڑھایا ۔
چوتھا دور : چوتھا دور 1947ء سے 1967ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادبا کے احتساب، جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلا واسطہ طور پر متاثر ہونے لگی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادبا کی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادبا کا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا اور پھر ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہو گیا اور اس کی بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی“ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی“ کہلانے لگا ۔
تحریک حلقہ اربابِ ذوق کا مجموعی جائزہ:حلقے نے اپنے عہد کی مضبوط ترقی پسند تحریک کے خلاف نظریاتی محاربے کی شدید فضا بھی پیدا کی تاہم حلقے نے سیاست گری کی بجائے سیاست کے اثرات کو ادب کا موضوع بنایا۔ اور کئی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کی پیش قدمی مستقبل کی طرف تھی اور ان میں اپنے عہد کا سماجی شعور بھی موجود تھا۔ ان زاویوں سے دیکھیے تو حلقہ اربابِ ذوق کی تخلیقی جہت نیم کلاسیکی اور نیم رومانی ہے اور یہ اتنی لچک دار ہے کہ اس میں مختلف نظریات باآسانی سما جاتے ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق تاحال ایک زندہ تحریک ہے اس کی تقسیم نے اس کے مرکزی کردار مزاج اور تخلیقی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ تاہم ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجوگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ فیصلے کرنا ممکن نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
: بقول احمد ندیم قاسمی
” حلقہ ارباب ذوق آغاز میں تو صرف ایک شہر اور وہاں کے چند اہل فہم تک محدود تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔“
بقول ڈاکٹر تاثیر :
”حلقہ اربابِ ذوق نے برسوں مسلسل انتھک کام سے ثابت کر دیا ہے کہ ادبی دائرہ میں ادبی اقدار کا احترام یہیں کیا جاتا ہے۔“
بقول قیوم نظر:
” ابتدا میں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں باقاعدہ ”نقد و نظر“ کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا۔“
نوٹ : امید ہے کہ آپ حلقہ اربابِ ذوق تحریک کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.