آج کی اس پوسٹ میں ہم تابش دہلوی کی سوانح حیات ، شاعری ، فکر و فن اور تصانیف کے بارے میں مختصر سوالات لکھیں گے ۔
سوال نمبر 1 : تابش کا اصل نام کیا ہے ؟
جواب : تابش کا اصل نام مسعود الحسن تابش تخلص اور دلی میں رہنے کی وجہ سے تابش دہلوی کہلوائے ۔
سوال نمبر 2 : تابش کب پیدا ہوئے ؟
جواب : تابش 9 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے ۔
سوال نمبر 3 : تابش کہاں پیدا ہوئے ؟
جواب : تابش دہلوی دلی میں پیدا ہوئے ۔
سوال نمبر 4 : تابش کے والد اور دادا کا کیا نام تھا ؟ جواب : تابش کے والد کا نام سید ثناء الحسن اور دادا کا نام مولوی عنایت اللہ تھا۔
سوال نمبر 5 : تابش کی ابتدائی تعلیم و تربیت پر نوٹ لکھیں۔
جواب : تابش کی ابتدائی تعلیم اس دور کے عام رواج کے مطابق گھر میں ہی ہوئی ۔ ان کی والدہ پڑھیں لکھی خاتون تھیں ۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے ہی حاصل کی ۔ قرآن مجید اور عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم دہلی ہی سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عُمر میں انہیں مولوی عنایت اللہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیجا گیا۔ اس کے بعد تابش کو لکھنو ٔکے سینٹ فرانسز کانونٹ اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ 1919ء میںاُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں اپنے پاس دار الترجمہ حیدر آباد دکن بلوا لیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول نمبر1 سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اسی دوران دوسری جنگ عظیم ِچھڑ جانے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور لاہور میں تین برس قیام کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔اسی دوران رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر1958ء میں کراچی یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا ۔
سوال نمبر 6 : تابش نے شادی کب کی ؟
جواب : تابش گیارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انھوں نے شادی کر لی ۔ وہ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں داخل ہوئے 1958ء میں کراچی سے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔
سوال نمبر 7 : تابش کی عملی زندگی پر نوٹ لکھیں ۔
جواب : پاکستان ہجرت سے قبل، ہندوستان میں قیام کے دوران انھوں نے پہلی ملازمت 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں کی۔ کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں اُن کا کام خبریں پڑھنا اور ادبی پروگرامز کی کمپئیرنگ کرنا تھا۔ 1949ءمیں کراچی منتقل ہوئے، تو یہاں بھی 1963ء تک ریڈیو پر خبریں پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یوں 1941ءتا1963ء لگ بھگ 23برس تک شعبۂ خبر میں خدمات سر انجام دیں۔ پھر 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔
سوال نمبر 8 : تابش نے کتنی شادیاں کی ؟
جواب : تابش دہلوی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی اہلیہ کا تعلق میرٹھ کے معزّز گھرانے سے تھا، جن سے اُن کی ایک بیٹی زرینہ ہے۔ پہلی اہلیہ کی رفاقت زیادہ دیر نہیں رہی، وہ 1946ءمیں دَمے کے مُوذی مرض کے باعث چل بسیں ۔ دوسری شادی1946ء میں دہلی کے نواب افضل خان یار ابنِ نواب طالع یار خان کی دختر، محمودہ بیگم سے ہوئی، جو رشتے میں غالب کی بھانجی تھیں۔ اُن سے تابش دہلوی کی تین صاحب زادیوں شاہانہ، دردانہ، رشیقہ کے علاؤہ ایک صاحب زادہ سعود تابش ہیدا ہوئے ۔
سوال نمبر 9 : ڈاکٹر اسلم فرخی نے تابش کا ظاہری حلیہ کیسے بیان کیا ہے ؟
جواب : بقول ڈاکٹر اسلم فرخی تابش کا لمبا قد، بڑی بڑی روشن آنکھیں ، ستواں ناک، چوڑی پیشانی، مُسکراتا کتابی چہرہ، چال ڈھال میں وقار، جامہ زیب لباس، غیر معمولی نفاست،کپڑے عارفِ کامل کے دل کی طرح بے داغ،کوئی سلوٹ، نہ شکن ۔
سوال نمبر 10 : ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے تابش کے بارے میں کیا لکھا ہے ؟
جواب : ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے تابش کے بارے میں لکھا کہ ، “تابش صاحب زبان کی صحت سے متعلق نہایت سخت گیر اور روایت پرست ہیں۔ وہ اُن دو تین آدمیوں میں سے ہیں، جنہیں میں ” دلّی کا لہجہ ” قرار دیتا ہوں “۔
سوال 11 : تابش کی شاعری کی نمایاں خصوصیات کیا ہیں ؟
جواب : شاعری میں فانی بدایونی سے اصلاح لی ۔ تابش نے ایک غزل گو کی حیثیت سے ایک ایسے دور میں نام پیدا کیا ۔ جب فانی ، فراق ، یگانہ ، اصغر اور جگر جیسی قد اور شخصیات کی غزل گوئی کا طوطی بول رہا تھا ۔ تابش دہلوی نے پہلا شعر تیرہ برس کی عُمر میں کہا تھا، جب کہ اُن کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے “ساقی” میں شائع ہوئی۔ 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے ہیں اس کے علاوہ تابش نے ہائیکو ، آزاد نظمیں، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔ابتدا غزلوں سے کی، پھر نظموں میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ حکومت پاکستان سے انہیں ” نشان پاکستان ” عطا کیا گیا ۔
سوال نمبر 12 : تابش کی زبان و بیان میں کیسے نکھار پیدا ہوا ؟
جواب : سن بلوغت سے قبل ہی اردو زبان و لہجے سے آشنا ہوچکے تھے کہ اُن کے لسانی شعور کو ارتقا و تہذیب سے آشنا و آراستہ کرنے میں اُن کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔ وہ فصاحت و بلاغت سے آشنا ، ادبی مزاج و معلومات رکھنے والی خاتون تھیں، جنھیں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ ضرب الامثال، محاورے، فارسی کے فقرے ان کے نوکِ زبان پر ہوتے۔ ان ہی کی سخت تربیت کے زیرِ اثر تابش زبان کی صحت اور طریقِ استعمال کے سلسلے میں خاصے سخت گیر واقع ہوئے ۔
سوال نمبر 13 : تابش کی چند ایک تصنیف کا نام لکھیں ۔
جواب : تابش دہلوی کے متعدد شعری مجموعے نیم روز ، چراغِ سحر ، غبار انجم ، تقدیس ، ماہ شکستہ اور دھوپ چھاؤں وغیرہ شائع ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح مضامین اور یاد داشتوں پر مشتمل تصانیف دیدہ باز دیدہ منظر عام پر آ چکی ہیں ۔
سوال نمبر 14 : تابش نے کس صنف سخن میں طبع آزمائی کی ؟
جواب : دہلوی نے نظم ، حمد، نعت، ملّی نغمے، قصیدے، مرثیے، ہائیکو وغیرہ پر اچھی خاصی طبع آزمائی کی، لیکن اُن کے یہاں غزلیات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے پیشِ نظر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اُن کا بنیادی میلان اور میدان غزل ہی ہے ۔ تا ہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُن کا میدانِ فن محض غزل ہے۔ اُن کی نعتیں، نظمیں اور نثرنگاری اس بات کی کھلی گواہی ہیں کہ وہ نعت، منقبت، نظم اور نثر لکھنے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ غزل کو انہوں نے شاعری کی اعلیٰ ترین صنف قرار دیتے ہوئے لکھا، ” صرف غزل ہی میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی غرض ان تمام شعبہ ہائے حیات کو جن کا تعلق انسان اور کائنات کے رشتوں سے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور پھر ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور احساسات کو لبِ اظہار بخشتی ہے ۔
سوال نمبر 15 : تابش ابتدا میں کون سا تخلص استعمال کرتے تھے ؟
جواب : تابش ابتدا میں مسعود تخلص استعمال کرتے تھے ۔
سوال نمبر 16 : تابش نے اپنا پہلا شعر کب کہا ؟
جواب : تابش کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا انہوں نے اپنا پہلا شعر میٹرک میں کہا ۔
سوال نمبر 17 : تابش نے کب وفات پائی ؟
جواب : 23 ستمبر 2004ء کو تابش نے وفات پائی۔ سوال نمبر 18 : تابش کہاں دفن ہے ؟
جواب : تابش کراچی کے سخی حسن قبرستان میں دفن ہے ۔
سوال نمبر 19 : تابش نے کل کتنے سال عمر پائی ؟ جواب : تابش نے تقریبا 91 سال عمر پائی ۔
سوال نمبر 20 : تابش دہلوی کے چند ایک مشہور اشعار لکھیں۔
جواب :
ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی
کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا
تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم
آئینہ جب بھی رو بہ رو آیا
اپنا چہرہ چھپا لیا ہم نے
ذرے میں گم ہزار صحرا
قطرے میں محیط لاکھ قلزم
نوٹ : امید ہے کہ آپ تابش دہلوی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.