تابشِ دہلوی کی شاعری اور فکر و فن

سوال: تابش دہلوی کے فکر و فن پر نوٹ لکھیں ۔

آج کی اس پوسٹ میں ہم مسعود الحسن تابش دہلوی کی سوانح حیات ، شاعری ، فکر و فن ، علمی و تحقیقی خدمات اور تصانیف پر سیر حاصل بحث کریں گے ۔

آئینہ جب بھی رو بہ رو آیا

اپنا چہرہ چھپا لیا ہم نے

ابتدائی زندگی کا تعارف: تابش دہلوی نو نومبر 1913ء کو دلی میں پیدا ہوئے ۔ مسعود الحسن نام اور تابش تخلص تھا ۔ ان کے والد کا نام سیّد ثناء الحسن اور دادا کا نام  مولوی عنایت اللہ تھا ۔ تابش دہلوی مولوی ذکاءاللہ کے نواسے تھے۔ اُن کے پردادا نظام الدین نظامی شعرو ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ معروف تذکرہ نگار، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ سے نظام الدین نظامی ؔکے قریبی مراسم تھے ۔

ابتدائی تعلیم و تربیت: تابش کی ابتدائی تعلیم اس دور کے عام رواج کے مطابق گھر میں ہی ہوئی ۔ ان کی والدہ پڑھیں لکھی خاتون تھیں ۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے ہی حاصل کی ۔ قرآن مجید اور عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم دہلی ہی سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عُمر میں انہیں مولوی عنایت اللہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیجا گیا۔ اس کے بعد تابش کو لکھنو ٔکے سینٹ فرانسز کانونٹ اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ 1919ء میںاُن کے رشتے کے نانا مولوی عنایت اللہ نے انھیں اپنے پاس دار الترجمہ حیدر آباد دکن بلوا لیا۔ وہاں ایک قدیم اسکول سے آٹھویں  جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد رام جپسی اسکول  نمبر1 سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اسی دوران دوسری جنگ عظیم ِچھڑ جانے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور لاہور میں تین برس قیام کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ 1954ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔اسی دوران رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شادی کے بعد ایف اے اور پھر1958ء میں کراچی یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا  ۔ سید مسعود الحسن تابش دہلوی دبستان دہلی کے آخری چراغ اور اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، دانشور اور براڈکاسٹر تھے۔ تابش دہلوی اپنے مخصوص لب و لہجے کے باعث مشہور تھے ۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ اچھے نثر نگار بھی تھے ۔ انھیں شاعری کی تمام اصناف پر دسترس کے ساتھ نثری ادب پر بھی کمال مہارت حاصل تھی۔ اُن کی روایتی شاعری کے اثرات کو تاریخ ادب میں فراموش کیا جانا ناممکن ہے۔ اگرچہ ان کے بے شمار شاگرد تھے، مگر افسوس، غالب کی طرح حالی جیسا ایک شاگرد بھی انہیں میسّر آ جاتا، تو اُن کی شعری قدرو قیمت اور شہرت فزوں تر ہوتی۔ وہ وسیع حلقۂ احباب رکھتے تھے، مزاج کا یہ عالم تھا کہ جہاں کسی نے کچھ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، فوراً لکھ کر اس کے حوالے کر دیتے، لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک طویل تعداد پر اُن کا حق واجب ہے۔

عملی زندگی کا تعارف : پاکستان ہجرت سے قبل، ہندوستان میں قیام کے دوران انھوں نے پہلی ملازمت 1932ء میں ٹیلی گراف کے محکمے میں کی۔ کچھ عرصہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے، جہاں اُن کا کام خبریں پڑھنا اور ادبی پروگرامز کی کمپئیرنگ کرنا تھا۔ 1949ءمیں کراچی منتقل ہوئے، تو یہاں بھی 1963ء تک ریڈیو پر خبریں پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یوں 1941ءتا1963ء لگ بھگ 23برس تک شعبۂ خبر میں خدمات سر انجام دیں۔ پھر 1963ء میں اسکول براڈ کاسٹ کے شعبے سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے اور 1980ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔1998ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کی علمی خدمات کے صلے میں انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ تابش دہلوی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی اہلیہ کا تعلق میرٹھ کے معزّز گھرانے سے تھا، جن سے اُن کی ایک بیٹی زرینہ ہے۔ پہلی اہلیہ کی رفاقت زیادہ دیر نہیں رہی، وہ 1946ءمیں دَمے کے مُوذی مرض کے باعث چل بسیں ۔ دوسری شادی1946ء میں دہلی کے نواب افضل خان یار ابنِ نواب طالع یار خان کی دختر، محمودہ بیگم سے ہوئی، جو رشتے میں غالب کی بھانجی تھیں۔ اُن سے تابش دہلوی کی تین صاحب زادیوں شاہانہ، دردانہ، رشیقہ کے علاؤہ ایک صاحب زادہ سعود تابش ہیدا ہوئے۔ پہلے محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کی پھر 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے ۔ پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور اور بعد میں ریڈیو کراچی سے منسلک رہے ۔

شعراء و ادباء کا تابش کو خراجِ تحسین : ڈاکٹر اسلم فرخی نے تابش ؔ دہلوی کا خاکہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے ، ” لمبا قد، بڑی بڑی روشن آنکھیں ، ستواں ناک، چوڑی پیشانی، مُسکراتا کتابی چہرہ، چال ڈھال میں وقار، جامہ زیب لباس، غیر معمولی نفاست،کپڑے عارفِ کامل کے دل کی طرح بے داغ،کوئی سلوٹ، نہ شکن۔ممتاز افسانہ نگار،صادق الخیری مرحوم کہا کرتے،  ” تابش! کیا تم کپڑے پہننے کے بعد استری کرواتے ہو؟ ”  تابش ؔ دہلوی، غزل کا اوّلین شعر میٹرک سے قبل کہہ چکے تھے اور ابتدا میں اُن کا تخلّص مسعود تھا ۔ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے لکھا،  “تابش صاحب زبان کی صحت سے متعلق نہایت سخت گیر اور روایت پرست ہیں۔ وہ اُن دو تین آدمیوں میں سے ہیں، جنہیں میں ” دلّی کا لہجہ ”  قرار دیتا ہوں “۔

شاعری کی نمایاں خصوصیات: شاعری میں فانی بدایونی سے اصلاح لی ۔ تابش نے ایک غزل گو کی حیثیت سے ایک ایسے دور میں نام پیدا کیا ۔ جب فانی ، فراق ، یگانہ ، اصغر اور جگر جیسی قد اور شخصیات کی غزل گوئی کا طوطی بول رہا تھا ۔ تابش دہلوی نے پہلا شعر تیرہ برس کی عُمر میں کہا تھا، جب کہ اُن کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے “ساقی” میں شائع ہوئی۔ 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، مگر غزل کی صنف کے ساتھ نعت گوئی، مرثیہ گوئی میں بھی کمال رکھتے ہیں اس کے علاوہ تابش نے ہائیکو ، آزاد  نظمیں، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔ابتدا غزلوں سے کی، پھر نظموں میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ حکومت پاکستان سے انہیں ” نشان پاکستان ” عطا کیا گیا ۔

تابش ؔدہلوی نے نظم ، حمد، نعت، ملّی نغمے، قصیدے، مرثیے، ہائیکو وغیرہ پر اچھی خاصی طبع آزمائی کی، لیکن اُن کے یہاں غزلیات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے پیشِ نظر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اُن کا بنیادی میلان اور میدان غزل ہی ہے ۔  تا ہم  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُن کا میدانِ فن محض غزل ہے۔ اُن کی نعتیں، نظمیں اور نثرنگاری اس بات کی کھلی گواہی ہیں کہ وہ نعت، منقبت، نظم اور نثر لکھنے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ غزل کو انہوں نے شاعری کی اعلیٰ ترین صنف قرار دیتے ہوئے لکھا، ” صرف غزل ہی میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی غرض ان تمام شعبہ ہائے حیات کو جن کا تعلق انسان اور کائنات کے رشتوں سے  اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور پھر ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور احساسات کو لبِ اظہار بخشتی ہے۔

سنِ بلوغت سے قبل ہی اردو زبان و لہجے سے آشنا ہوچکے تھے کہ اُن کے لسانی شعور کو ارتقا و تہذیب سے آشنا و آراستہ کرنے میں اُن کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔ وہ فصاحت و بلاغت سے آشنا ، ادبی مزاج و معلومات رکھنے والی خاتون تھیں، جنھیں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ ضرب الامثال، محاورے، فارسی کے فقرے ان کے نوکِ زبان پر ہوتے۔ ان ہی کی سخت تربیت کے زیرِ اثر تابش زبان کی صحت اور طریقِ استعمال کے سلسلے میں خاصے سخت گیر واقع ہوئے ہیں۔

تصانیف :

ان کے متعدد شعری مجموعے نیم روز ، چراغِ سحر ، غبار انجم ، تقدیس ، ماہ شکستہ اور دھوپ چھاؤں وغیرہ شائع ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح مضامین اور یاد داشتوں پر مشتمل تصانیف دیدہ باز دیدہ منظر عام پر آ چکی ہے ۔

وفات : تابش دہلوی نے 23 ستمبر 2004 کو وفات پائی اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا ۔ تابش کے اس دار فانی سے کوچ کے بعد ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایک انجمن سُونی ہوگئی اور ایک مثالی شاعر، ایک محبت کرنے والے انسان سے دنیا محروم ہوگئی۔ سچ تو یہ ہے کہ آج ان صفات کی حامل شخصیات خال خال ہی نظر آتی ہیں ۔

نمونہ کلام جناب تابش دہلوی:

ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی

کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے

 

شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا

تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم

 

آئینہ جب بھی رو بہ رو آیا

اپنا چہرہ چھپا لیا ہم نے

 

چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر

پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے

 

ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی

کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے

نوٹ : امید ہے کہ آپ جناب تابش دہلوی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply