بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
آج کی اس پوسٹ میں ہم منیر نیازی کی غزل ” بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا ” کی تشریح کریں گے ۔ جو کہ فیڈرل بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل ہے ۔
شعر نمبر 1 :
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک اگ سے جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
مشکل الفاظ کے معانی : بے چین( بے قرار ، سکون نہ ہونا ) ، دہکانا (بھڑکانا ، روشن کرنا)
مفہوم : میں ہر وقت بہت بے چین اور گھبرایا ہوا رہتا ہوں میرے دل میں جذبات کا ایک الاؤ روشن رہتا ہے ۔
تشریح : منیر نیازی دور جدید کے اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر ہیں۔ منفرد لب و لہجے اور اسلوب کے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں تحیر اور سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے قلبی احساس کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں ہر وقت بہت بے چین اور بے سکون رہتا ہوں۔ ہر وقت میرے دل میں ایک گھبراہٹ کی سی کیفیت رہتی ہے ۔ میں اپنے دل میں ہمہ وقت جذبات کی آگ کا ایک الاؤ سا روشن رکھتا ہوں ۔ جذبات کی یہ آگ مجھے ہر وقت بے چین رکھتی ہے ۔ دھڑکتے دلوں میں جذبات و احساسات کا پیدا ہونا بالکل فطری امر ہے ۔ صرف مردہ دل ہی جذبات و احساسات سے عاری ہوتے ہیں جو بھی شخص دل رکھتا ہے اور عقل و شعور رکھتا ہے اس کے دل میں بہت سی خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ ہر زندہ انسان کے دل میں ہزاروں امنگیں پیدا ہوتی ہیں ۔ وہ کھلی آنکھوں سے ہزاروں خواب دیکھتا ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت اور تگ و دو کرتا ہے ۔ انسان کے جذبات اور اس کی خواہشات ہی اسے مسلسل عمل پر اکساتی ہے ۔ جب تک اسے وہ چیزیں یا اس کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا وہ مسلسل ایک بے چینی اور اضطراب کسی سی کیفیت میں رہتا ہے ۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب ارد گرد کے لوگ انسان کے جذبات اور احساسات کو نہ سمجھیں اور انسان کے جذبات کو کسی بھی سطح پر اہمیت نہ ملے تو اس کا دل بے چین اور مضطرب ہو جاتا ہے ۔ اس کا دل بہت سے کام کرنے کو چاہتا ہے اس کے دل میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو زبان تک آنا چاہتی ہیں لیکن باہر کوئی اسے سننے والا نہیں ہوتا ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں
شاعر ایک حساس انسان ہے جس کے دل میں جذبات اور احساسات کا الاؤ روشن ہے ان جذبات نے اس کے دل کو ایک عجیب اضطراب اور بے قراری میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس کا محبوب ان جذبات اور احساسات کو سمجھنے سے قاصر ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا جس کی وجہ سے شاعر کا دل ہر وقت بے چین رہتا ہے ۔
بقول شاعر :
بہت امید رکھنا اور پھر بے بس ہونا بھی
بشر کو مار دیتا ہے بہت حساس ہونا بھی
شعر نمبر 2 :
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
مشکل الفاظ کے معانی: چھلکائے( لبالب بھر کر ، کسی چیز کو اتنا بھرنا کہ مایا لبریز ہو کر گرنے لگے) ، لب لعلیں (سرخ ہونٹ) ، مہکانا (خوشبو بکھیرنا) مفہوم : محبوب اپنے ہونٹوں سے خوشبو بکھیرتے ہوئے چلتا ہے گویا وہ ہر وقت ایک باغ اپنے ساتھ مہکائے ہوئے رکھتا ہے ۔
تشریح: منیر نیازی دور جدید کے اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر ہیں وہ منفرد لب و لہجے اور اسلوب کے شاعر ہیں ان کی شاعری میں تحیر اور سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کے سرخ ہونٹوں اور اس کی دل نشینگی گفت گو کی تعریف کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے سرخ ہونٹ جو لعل کی مانند ہیں ان سے خوشبو چھلکتی رہتی ہے یعنی ایک تو محبوب کے ہونٹ لعل کی مانند خوبصورت ہیں دوسرا محبوب کے ہونٹوں سے نکلنے والی گفتگو بہت دل نشین ہے ۔ جب وہ بولتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خوشبو بکھیر رہا ہے ۔ ہونٹوں سے الفاظ کی بجائے پھول جھڑ رہے ہیں ۔
بقول احمد فراز :
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
محبوب کا انداز گفتگو ہر لفظ اور ہر جملہ دل میں گھر کر لیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محبوب اپنے ساتھ پھولوں کا ایک باغ مہکائے ہوئے چلتا ہے جس سے خوشبو نکل نکل کر ماحول کو معطر کر رہی ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے اپنا محبوب دنیا کا سب سے حسین شخص معلوم ہوتا ہے ۔ اس کی ہر ادا اسے دل نشیں معلوم ہوتی ہے ۔ شعرا محبوب کے اعضا اور اداؤں کو مختلف اشیاء سے تشبیہ دیتے ہیں کبھی وہ محبوب کے ہونٹوں کو پھول سے تشبیہ دیتے ہیں تو کبھی اس کے چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتے ہیں کبھی اس کی گفتگو کو خوشبو سے تشبیہ دیتے ہیں تو کبھی اس کی نزاکت کو شیشے سے تشبیہ دیتے ہیں یہاں شاعر نے محبوب کے ہونٹوں کو لب لعلیں کہا ہے اور محبوب کی گفتگو کو خوشبو اور باغ سے تشبیہ دی ہے ۔
شعر نمبر 3 :
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
مشکل الفاظ کے معانی : شیوہ (عادت )
مفہوم : محبوب کی عادت ہے کہ عاشق کو دیکھ کر وہ شرماتے ہوئے پردے میں چلا جاتا ہے ۔
تشریح : منیر نیازی دور جدید کے اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر ہیں وہ منفرد لب و لہجے اور اسلوب کے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں تحیر اور سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کی حیا داری کی تعریف کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب اتنا حیادار اور شرمیلا ہے کہ اس کی عادت ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہو تو وہ شرم و حیا کے مارے پردے میں چلا جاتا ہے ۔ وہ عاشق کے سامنے شرمائے ہوئے رہتا ہے ۔ محبوب کا اس طرح شرمانا اور گریز کرنا اس کے حسن میں مزید اضافہ کرتا ہے ۔ اس طرح عاشق کی تڑپ مزید بڑھ جاتی ہے ۔
بقول مصحفی :
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر
اور بقول داخ دہلوی :
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
شاعر کہتا ہے کہ محبوب کا ہمیشہ سے یہی شیوہ ہے کہ عاشق کو دیکھتے ہی پردے میں چلا جاتا ہے اور شرمائے ہوئے رہتا ہے ۔ یہ عاشق کو عشق میں مزید تڑپانے اور بے قرار کرنے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے اور محبوب کی ادا بھی ہو سکتی ہے ۔
بقول اکبر الہ آبادی :
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
شعر نمبر 4 :
ایک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
مشکل الفاظ کے معانی : کاجل (سرمہ) ، کرشمہ (معجزہ ، انوکھی بات) ، چمکانا (روشن کرنا )
مفہوم : محبوب کاجل کے کرشمے سے ایک شام طاری کر دیتا ہے اور اپنی آنکھوں میں چاند روشن رکھتا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کے کاجل اور اس کی آنکھوں کی تعریف کر رہا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی عادت ہے کہ آنکھوں میں کاجل لگا کر شام کا سا ماحول بنا لیتا ہے گویا محبوب کے کاجل کے کرشمے سے شام کی تاریخی چھا جاتی ہے ۔ محبوب کی آنکھوں میں سیاہ کاجل کی خوبصورتی کے سامنے دنیا کی سب رونقیں اور تمام نظارے ماد پڑ جاتے ہیں ۔ ہر چیز پر تاریکی چھا جاتی ہے گویا رات کے سماں بندھ جاتا ہے ۔ یہ سب محبوب کی آنکھوں میں لگے خوبصورت کاجل کا کرشمہ ہے ۔
بقول شاعر :
چھپ گئے سارے نظارے کیا بات ہو گئی
تو نے کاجل لگایا دن میں رات ہو گئی
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی آنکھیں اس قدر روشن اور چمکدار ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے محبوب اپنی آنکھوں میں ہمہ وقت چاند چمکائے رکھتا ہے جس طرح چاند رات کی تاریکی میں چمکتا ہے اسی طرح محبوب کی آنکھوں کے کاجل سے بیرونی ماحول پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے اور اس تاریکی میں محبوب کی روشن آنکھوں کی پتلیوں میں چاند چمکتا محسوس ہوتا ہے۔
بقول خالد ندیم :
تمہارا کام اتنا ہے فقط کا کاجل لگا لینا
تمہاری آنکھ کی خاطر نظارے میں بنا دوں گا
شعر نمبر 5 :
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
مشکل الفاظ کے معانی : اکتائے ہوئے رہنا( بے زار رہنا ، کسی چیز سے دل بھر جانا)
مفہوم : اے منیر تم نے عادت ہی بنا لی ہے کہ جس شہر میں بھی رہتے ہو بیزار رہتے ہو ۔
تشریح : تشریح طلب شعر غزل کا مقطع ہے اس میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے منیر تم نے تو اب یہی عادت اپنا لی ہے کہ جس بھی شہر میں رہتے ہو اکتائے اکتائے اور بیزار بیزار سے رہتے ہو کسی بھی شہر میں خوش نہیں رہتے ۔ شاعر نے یہاں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی بیزاری اور اکتاہٹ کی وجہ بیان نہیں کی ۔ شاعر کی بیزاری کی وجہ اس کے قلبی جذبات اور احساسات بھی ہو سکتے ہیں جب انسان کے دل میں جذبات کا الاؤ روشن ہوتا ہے تو اس کی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جب اس جب اس کے ان جذبات و احساسات کو کسی بھی سطح پر اہمیت نہیں ملتی تو یہ بات اس کی مایوسی میں اضافہ کر دیتی ہے جو رفتہ رفتہ مستقل اکتاہٹ اور بیزاری کا باعث بن جاتی ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کا دل اداس ہوتا ہے تو باہر کی خوشیاں ، رونقیں اور نظارے اسے مزید اداس کر دیتے ہیں اسے دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر اکتاہٹ ہونے لگتی ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
ہو لاکھ کوئی شور مچاتا ہوا موسم
دل چپ ہو تو باہر کی فضا کچھ نہیں کہتی
دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ :
شہر کے لوگ شاعر کے مزاج کے مطابق نہیں ہیں وہ بے حس خود غرض اور مفاد پرست لوگ ہیں ۔ اس لیے شاعر ان کے درمیان میں رہتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔ اسے اس کے ہم مزاج لوگ نہیں مل رہے جس کی وجہ سے اس کی مایوسی اور بیزاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
بقول ناصر کاظمی :
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
نوٹ : امید ہے کہ آپ منیر نیازی کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
ماشاءاللہ .
بہت زبردست.