بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
آج کی اس پوسٹ میں ہم حسرت موہانی کی غزل ” بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں ” جو کہ پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب کا حصہ ہے کا مفہوم ،لغت اور تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : برابر (مسلسل) ، الفت (پیار ، محبت)
مفہوم : الٰہی وہ لوگ جن سے ترک تعلق کر لیا اور ان کو بھلانے کے جتن بھی ہو رہے ، وہ لوگ کیونکر یاد آتے ہیں ؟
تشریح : تشریح طلب شعر میں حسرت موہانی نے یاد کا مضمون بھرپور انداز سے باندھا ہے ۔ حسرت موہانی کے بقول محبت و الفت بڑا مشکل امر ہے ۔ شاعر جب محبوب کی جفاؤں اور بے اعتنائیوں سے تنگ آ جاتا ہے تو محبوب سے ترک محبت کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ اس ترک تعلق کے پیچھے کبھی ذاتی مجبوریاں ہوتی ہیں تو کبھی سماجی مسائل آڑے آتے ہیں اور پھر لمبی جدائی مقدر ٹھہرتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
اب کسی اور کا ہوں اتنا بتا کر رویا
وہ مجھے مہندی لگے ہاتھ دکھا کر رویا
ایک عاشق صادق زبان سے تو اقرار کرتا رہتا ہے کہ میں اسے بھول چکا ہوں مگر اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ہوتا کیونکہ دل میں بس جانے والے لوگوں کو بلایا نہیں جا سکتا جبکہ شاعر بھولنا بھی چاہتا ہے مگر محبوب کی یاد اسے مسلسل ستاتی رہتی ہے ۔
بقول خورشید رضوی :
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
عاشق کوشش کے باوجود محبوب کو دل سے نکال نہیں سکا ۔ محبوب کی یادیں اور باتیں اس کو ایک ناگن کی طرح ڈس رہی ہیں ۔ محبوب سے ترک تعلق کے بعد پھر ایک ایسا مرحلہ آیا ہے کہ محبوب کی یاد عاشق کو شدت سے آنے لگی اور وہ اس بے اختیاری پر اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ یا الٰہی میرا محبوب اب مجھے کیوں یاد آتا ہے جبکہ اس سوال کا جواب خود شاعر کے دل میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر محبوب کو دل سے خارج ہی نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی یہ معاملہ اس کے اختیار میں ہے بلکہ جن سے نگاہیں اور دل ملتے ہیں ان کے نقش ہمیشہ گہرے رہتے ہیں اور مٹانے سے نہیں مٹتے ۔
بقول شاعر :
نقش اس گوہر قلم کا مٹایا نہ گیا
ہم نے بھولنا بھی چاہا مگر بھلایا نہ گیا
یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ دل میں رہنے والوں کو جس قدر بھی بھولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی یاد رگوں میں خون کی طرح گردش کرنے لگتی ہے کیونکہ دلوں کے سلسلے بہت عجیب ہوتے ہیں ۔قربتیں اور فاصلے راہ محبت کی آتی جاتی منزلیں ہیں مگر فاصلے جتنے بڑھیں گے یادوں کے ایوانوں میں تب تک مزید محبوب کی ادائیں اور فرمائشیں یاد آئیں گی ۔
بقول شاعر :
یادوں کی چندن پرا تری بھولی بسری بات
اک چہرہ اب ساتھ رہے گا پورے چاند کی رات
شعر نمبر 2 :
نہ چھیڑ اے ہم نشیں ! کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : ہم نشین( دوست) ، کیفیت (حالت) ، صہبا ( اچھی شراب) ، شراب بے خودی (مستی کی شراب ) ، ساغر( پیالہ)
مفہوم : اے میرے دوست! وہ ماضی کے قصے مت چھیڑو ۔ مجھے ماضی کی یادیں بہت ستاتی رہتی ہیں ۔
تشریح : حسرت موہانی موہانی تشریح طلب شعر میں اپنے دوست سے مخاطب ہو کے کہتے ہیں کہ اے میرے دوست مجھے گزرے ہوئے دنوں کی یاد مت دلا کیونکہ میں جب اپنے ماضی کے ایوانوں میں جھانکتا ہوں مجھے وہ سب گزرے ہوئے لمحے یاد آ جاتے ہیں ۔ اے میرے دوست تم صبح کا ذکر مت چھیڑو ۔ یہ ذکر میرے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور مجھے گزرے ہوئے ماضی میں پہنچا دیتا ہے ۔ میں بہت زیادہ رنجیدہ ہو جاتا ہوں یعنی بے خود ہو جاتا ہوں اور اپنے آپ میں نہیں رہتا جب کہ میں اپنے تلخ ماضی کے لمحات سے جان چھڑانا چاہتا ہوں ۔
بقول شاعر :
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
حسرت موہانی تحریکِ آزادی کے سرگرم رہنما تھے ۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ایک وقت میں پورے بر صغیر پر ہماری حکومت تھی اور آج ہم غلام ہیں ۔ اس لیے اپنے شاندار ماضی کو آج اگر ذہن میں لائیں تو جی کڑتا ہے اور زخم تازہ ہو جاتے ہیں ۔
بقول ناصر کاظمی :
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
شاعر اپنے دوست کو سختی سے ان پرانے گزرے ہوئے لمحات اور بیتی ہوئی زندگی کی داستانوں کے ذکر سے منع کرتا ہے ۔ جس طرح راکھ کو کریدا جائے تو کوئی چنگاری نکل آتی ہے اور آگ سلگانے میں مدد دیتی ہے ۔
شاعر کے لیے یہ چنگاری دل دکھانے کا سبب ہے کیونکہ شاعر کو جب پرانے ساغر یاد آتے ہیں اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ یاد آتا ہے جس سے شاعر مدہوشی کسی کیفیت میں چلا جاتا ہے اور یہ کیفیت اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے ۔
شعر نمبر 3 :
نہیں آتی تو یاد ان کی، مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : اکثر یاد آنا ( بہت زیادہ یاد آنا)
مفہوم : محبوب کی یاد نہیں آتی تو کئی کئی مہینے نہیں آتی مگر جب آتی ہے تو اکثر آتی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی یاد نہ آئے تو بعض اوقات مہینے گزر جاتے ہیں مگر جب یاد آنے لگتی ہے تو مسلسل یاد آتی رہتی ہے ۔ یہاں تضاد ہے مگر دونوں حالتوں میں حقیقت ہے۔ عاشق صادق پر جب غم دوراں غالب آتا ہے تو غم جاناں کو بھول جاتا ہے ۔ دنیا کے دھندے کتنے عجیب ہوتے ہیں کہ عاشق کے دل میں محبوب کی یاد تک محو ہو جاتی ہے اور دنیا کے دیگر مسائل اور الجھنیں عاشق سے اس کا محبوب چھین لیتی ہیں لیکن جب فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں تو شاعر کو پھر محبوب کی یاد آتی ہے ۔
بقول پروین شاکر :
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ ، اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
محبوب کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو بھی بھلانا عاشق کے بس کی بات نہیں ۔ گویا غم دوراں اور غم جاناں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ عاشق جب دنیا اور اس کے گرد و پیش کے مسائل سے دوچار ہوتا ہے تو محبوب کی یاد کم ہو جاتی ہے ۔
بقول فیض احمد :
فیض دنیا نے تیری یاد سے بیگا نہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
اسی طرح جب دنیا کے مسائل ختم ہو جاتے ہیں تو غم جاناں زور پکڑ لیتا ہے اور یادوں کے خوبصورت جزیرے میں بس محبوب کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔ اس کی باتیں ، اس کی یادیں ، اس کی مسکراہٹیں ، اس کی ادائیں اور وفائیں یادوں کے اس جزیرے سے نکلنے ہی نہیں دیتی اور ہر لمحے میں محبوب کی یادوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا ہے ۔
بقول شاعر :
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
شعر نمبر 4 :
حقیقت کھل گئی حسرت ، تیرے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : حقیقت کھل جانا ( سچ سامنے آ جانا ) ، ترک محبت ( محبوب چھوڑ دینا
مفہوم : حسرت تیرے ترک تعلق کا پتہ چل گیا ۔ ترک تعلق سے محبت کی یاد پہلے سے بھی بڑھ کر آتی ہے ۔
تشریح : جب محبوب کا ظلم و ستم حد سے بڑھا تو عاشق صادق نے تنگ آ کر ترک محبت کا اعلان کر دیا۔ محبوب سے اپنے تمام رسم و راہ توڑ ڈالے اور دل میں ارادہ کیا کہ میں اب اپنے محبوب سے نہیں ملوں گا ۔
بقول مومن خان مومن :
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں ہو گئے نا چار جی سے ہم
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دلوں میں بس جانے والے لوگ کبھی بھی بھلائے نہیں جا سکتے ۔ ان کی یادوں سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا ۔ یادوں کی یہ حسین دولت ساری عمر عاشقوں کے مقدر میں آتی ہے اور کبھی وہ یہ دعویٰ کریں کہ ہم نے محبوب کی یادوں کو دل سے نکال دیا ہے تو یہ ان کے زبانی نعرے ہوتے ہیں جبکہ دل کچھ اور ہی کہہ رہا ہوتا ہے ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
شاعر نے جب محبوب کو بھلانے کی بات کی تو اس سے اصل حقیقت سامنے آگئی کہ شاعر خود بھولنا ہی نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ کام اس کے بس کا ہے ۔ وہ خود بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہے اور محبوب سے جدا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ عاشق کے دعوےٰ سے اس کا راز پوری طرح کھل گیا اور محبوب کی یاد اور زیادہ شدت اختیار کر گئی ۔ ایک طرف عزم کیا کہ بھول جاؤں گا تمام مراسم ختم کر ڈالوں گا اور ہوا کیا کہ غم جاناں اور زیادہ ہو گیا اور محبوب کو بھلانے کا عہد ناکام ہو گیا کیونکہ اس طرح کے کیے ہوئے فیصلے ریت کے محلوں کی طرح ہوتے ہیں جو گرتے دیر نہیں لگاتے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
میں تیری یاد کی تحویل سے نہیں نکلا
تم سے دور مگر رابطے سلامت ہیں
نوٹ : امید ہے کہ آپ مولانا حسرت موہانی کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.