بڑھے چلو
آج کی اس پوسٹ میں ہم اختر شیرانی کی ایک نظم ” بڑھے چلو ” جو کہ وطن کی محبت کے بارے میں لکھی گئی ہے ، کے بارے میں پڑھیں گے ۔ مشکل الفاظ کے معانی ، مفہوم اور تشریح پر سیر حاصل بحث کریں گے ۔
بند نمبر 1 :
رکو نہیں ، جو دشت و ریگزار آئیں سامنے
بچو نہیں ، جو سیل و جوئے بار آئیں سامنے
ہٹو نہیں ، جو بحر و کہسار آئیں سامنے
ہو راہ کتنی ہی کٹھن بڑھے ، چلو بڑھے چلو
دلاوران تیغ زن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
بہادران صف شکن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
مشکل الفاظ کے معانی : دشت (صحرا، ریگستان) ، ریگزار (ریت کے میدان) ، سیل( سیلاب ، طوفان) ، جوئے بار( بڑی نہر ، بڑی ندی ) ، بحر ( سمندر) ، کوہسار (پہاڑ ) ، کٹھن (مشکل) ، دلاوران تیغ زن ( تلوار کے دھنی بہادر) ، بہادران صف شکن (دشمنوں کی صفیں چیرنے والے)
مفہوم : اے وطن کے بہاد ر سپاہیو ! تمہارے راستے میں صحرا ، طوفان ، دریا ، سمندر اور پہاڑ بھی آ جائیں تو بھی تم ان سے ڈر کر رکو نہیں ۔ راستہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو تم اگے بڑھتے جاؤ ۔ اے تیغ زن اور صف شکن بہادر آگے بڑھتے رہو۔
تشریح: اختر شیرانی نے کم عمری سے ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے ۔ ان کی طبیعت میں شوخی اور رنگینی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انھیں مناظر فطرت سے گہری دلچسپی تھی ۔ وہ اپنے دور کے ایک اہم رومانی شاعر تھے ۔ لیکن ان کی رومانیت سے جذبات کو منہا نہیں کیا جا سکتا ۔ اچھی شاعری میں جس طرح کی تہ داری ہوتی ہے ۔ وہ ان کے ہاں نظر نہیں آتی لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت شاعر ہیں کہ ان کے اشعار زبان زد عام ہیں ۔ ان کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہاں عورت کوئی ماورائی چیز نہیں بلکہ عام انسان ہے۔ اس کے رویوں میں کوئی غیر فطرتی عناصر نہیں ہیں ۔ ان کے نزدیک شاعر ایک ایسا جذبہ ہے جو عاشقانہ تنہائیوں کی پیداوار ہے ۔ اختر ایک باشعور فنکار ہیں ۔ انھوں نے مروجہ اسالیب سے گریز کرتے ہوئے ہیئت کے مختلف تجزیے کیے۔ شاعر شباب ، شاعر رومان محمد داؤد خان المعروف اختر شیرانی صنف نظم کے مشہور شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں ترنم اور موسیقیت حد درجہ پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری رنگ اور حسن کی شاعری ہے۔ ان کا جمالیاتی احساس بہت گہرا ہے ۔ جمالیاتی احساس کی شدت کے باعث انہیں اردو کا جان کیٹس بھی کہا جاتا ہے ۔ نظم ” بڑھے چلو ” رزمیہ انداز میں لکھی گئی ہے ۔ جس میں شاعر وطن کے بہادر سپاہیوں کو دشمن کے خلاف میدان جنگ میں آگے بڑھنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ اختر شیرانی نے یہ نظم جس وقت لکھی تب برّصغیر کے مسلمان حصولِ پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس وقت مسلمان خصوصاً نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانا اور انھیں ہمت دلانا بہت ضروری تھا تاکہ حصولِ پاکستان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو وہ خاطر میں نہ لائیں اور اپنی منزل کی جانب بڑھتے چلیں ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی بند کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح طلب بند میں شاعر وطن کے بہادر سپاہیوں اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ وطن کی حفاظت اور دفاع میں تمہیں کسی بھی چیز سے ڈرنا نہیں ہے۔ تمہیں ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے ۔ اگر تمہارے راستے میں تپتے صحرا لق و دق میدان آ جائیں تو بھی تمہیں رکنا نہیں چاہیے۔ اگر تمہارے راستے میں سیلاب اور طوفان رکاوٹیں بنیں یا وسیع و عریض دریا بھی حائل ہو جائیں تو ان سے بچ کر نکلنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اگے بڑھ کر انہیں پار کرو ۔ اگر بے کراں سمندر اور بلند و بالا پہاڑ راستے میں حائل ہو جائیں تو تمہارے قدم رکنے نہیں چاہیے۔ انہیں خاطر میں لائے بغیر تم آگے بڑھتے چلو اور راستہ کتنا ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو تم آگے بڑھتے رہو۔
بقول سیف الدین سیف :
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراؤں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
ہم سے واقف ہیں یہ دریا ، یہ سمندر ، یہ پہاڑ
ہم نئے رنگ سے تاریخ کو دہراتے ہیں
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں مسلمان مجاہدوں نے مٹھی بھر تعداد میں ہونے کے باوجود عالمی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوائے تھے ۔ اپنے مقصد کے اصول کے لیے ایک بار جب وہ نکل پڑے تو دشت و دریا آندھی، طوفان ، جنگل اور صحرا کوئی چیز ان کا راستہ نہیں روک سکی ۔
آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے تیغ زن بہادروں تم تلوار کے دھنی ہو اپنی تلواریں سنبھالو اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھو ۔ اے دشمن کی صفیں چیرنے والے بہادر دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھو کسی بھی طاقت اور رکاوٹ سے نہ ڈرو ۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے آگے ہی بڑھتے رہو ۔ رکنا اور قیام کرنا تمہارے لیے موت کے مترادف ہے ۔ اگر تم ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہو گے تو منزل کو پا لو گے ۔
بقول علامہ اقبال :
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
اس راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
بند نمبر 2 :
تمہاری تیغ تیز پر وطن کو افتخار ہے
وطن کی مرگ و زیست کا تمہیں پر انحصار ہے
تمھیں ہو جن کے دل میں اس کا عشق بے قرار ہے
لگائے دل میں اک لگن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
دلاوران تیغ زن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
بہادران صف شکن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
مشکل الفاظ کے معانی : تیغ تیز( تیز تلوار ) ، افتخار (فخر ، ناز) ، مرگ زیست( زندگی اور موت ) ، انحصار (دارومدار) ، لگن( چاہت ، شوق)
مفہوم : اے وطن کے بہادر سپاہیو ! تمہاری تیز تلواروں پر وطن کو فخر ہے۔ تم ہی پر وطن کی زندگی اور موت کا دارومدار ہے۔ تم ہی ہو جن کے دل میں وطن کی محبت موجزن ہے ۔ دل میں وطن کی چاہت لیے آگے بڑھتے رہو۔ اے تیغ زن اور صف شکن بہادروں آگے بڑھتے رہو۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر وطن کے بہادر جانبازوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کی شجاعت اور بہادری کی تعریف کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے بہادر مجاہدو ! تمہاری تلوار کی تیزی ، تلوار چلانے کے فن اور تلوار کے قبضہ پر تمہارے ہاتھوں کی مضبوطی پر وطن کو ناز ہے ۔ تلوار بازی کی مہارت اور جوہر ہی سے تم وطن کے دشمنوں کے سر قلم کرتے ہو اور جان پر کھیل کر وطن کی حفاظت کرتے ہو ۔ جب تک تمہارے ہاتھ تلوار چلانے کے فن سے آشنا ہیں۔ وطن پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی ۔ وہ دشمن کی یلغار سے محفوظ ہے۔ وطن کی زندگی و موت اور بقا و سلامتی کے انحصار تمہاری بہادری پر موقوف ہے۔ اگر تم نے وطن کے سامنے ہتھیار پھینک دیے تو دشمن وطن کو نیست و نابود کر دے گا۔ لیکن اگر تم بہادری سے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہے تو دشمن وطن کا بال بھی بیگا نہ کر سکے گا ۔
بقول احمد فراز :
جب ساز سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
یہ ریت اب یہ ریت ابھی تک باقی ہے۔ یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہل ستم ، کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
شاعر مزید کہتا ہے کہ اے وطن کے بہادر سپاہیو ! تم ہی ہو جن کے دل حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہیں ۔ تمہارا دل وطن کی محبت میں بے قرار ہے اور وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے ۔ اے وطن کے مجاہدو ! اپنے دل میں وطن کی چاہت اور محبت کا جذبہ بسائے آگے بڑھتے رہو ۔ حب الوطنی کے اس جذبے کو مزید تیز کرتے چلو ۔ بلاشبہ کسی وطن کی بقا و سلامتی کا انحصار اس کی سپاہ پر ہوتا ہے ۔ اگر وطن کے سپاہی حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہوں اور وطن کی خاطر ہمہ وقت جان کی بازی لگانے کو تیار ہوں تو وطن دشمنوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ لیکن اگر وطن کے سپاہیوں میں جان نثاری اور حب الوطنی کا جذبہ مفقود ہو تو دشمن غالب آ جاتا ہے اور وطن نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر وطن کے سپاہیوں کی جانثاری اور حب الوطنی کی تعریف کرتے ہوئے ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے ۔
آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے تیغ زن بہادرو ! تم تلوار کے دھنی ہو اپنی تلواریں سنبھالو اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھو ۔ اے دشمن کی صفوں کو چیرنے والے بہادرو ! دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھو۔ کسی بھی طاقت اور رکاوٹ سے نہ ڈرو ۔ مقصد کے حصول کے لیے آگے ہی بڑھتے رہو ۔ رکنا اور قیام کرنا تمہارے لیے موت کے مترادف ہے تو ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہو تو منزل کو پا لو گے۔
بند نمبر 3 :
اٹھاؤ تیغ بے اماں ، وطن کے پاک نام پر
لٹا دو عمر نوجواں ، وطن کے پاک نام پر
نثار کر دو اپنی جان ، وطن کے پاک نام پر
صدائیں دیتا ہے وطن ، بڑھے چلو ، بڑھے چلو
دلاوران تیغ زن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
بہادران صف شکن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
مشکل الفاظ کے معانی : تیغ بے اماں (ایسی تلوار جس سے کوئی بچ نہ سکے) ، لٹا دو (قربان کر دو) ، عمرے نوجوان( جوانی کی عمر) ، نثار کر دو (قربان کر دو ) ، صدائیں( آوازیں )
مفہوم : اے وطن کے بہادر سپاہیوں وطن کی خاطر اپنی تلواریں اٹھاؤ جن سے کوئی بچ نہیں سکتا اپنی جوانی اور جان وطن کی خاطر قربان کر دو۔ وطن تمہیں پکار رہا ہے آگے بڑھتے رہو ۔ اے تیغ زن اور صف شکن بہادروں آگے بڑھتے رہو ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر وطن کے بہادر سپاہیوں کو وطن کی خاطر جان قربان کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے بہادر مجاہدو ! وطن کے پاک نام کی عزت و ناموس کی خاطر اپنی وہ تلواریں اٹھاؤ جن کی ضرب کاری ہے، جن کی کاٹ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ جن کی تیزی اور چمک دیکھ کر دشمن پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور جن کے غضب سے دشمنوں کو کہیں جائے امان نہیں ملتی۔ اے مجاہدینِ ملت اپنی عمر وطن کی حفاظت میں لٹا دو اور اپنی جوانی وطن کی عزت و ناموس کی خاطر قربان کر دو وطن تمہیں پکار رہا ہے۔ اے بہادر سپاہیو ! آگے بڑھتے چلو ۔ وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ مشکل وقت میں وطن پر اپنا مال و جان سب قربان کر دیا جائے۔ بلاشبہ وطن پر جب بھی کڑا وقت آیا ہے اور وطن نے قربانی مانگی ہے ہمارے بہادر سپاہیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ وطن کی مٹی کو خون سے سیراب کیا ہے۔ اس کے برگ و بار کی جان پر کھیل کر حفاظت کی ہے۔
بقول سیف الدین سیف :
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہم جو ریشم و کمخواب سے نازک تر ہیں
ہم ہیں جو آہن و فولاد سے ٹکراتے ہیں
ہم ہیں جو غیرت و ناموس پہ کٹ سکتے ہیں
ہم ہیں جو اپنی شرافت کی قسم کھاتے ہیں
آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے تیغ زن بہادرو ! تم تلوار کے دھنی ہو۔ اپنی تلواریں سنبھالو اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھو ۔ اے دشمن کی صفیں چیرنے والے بہادروں دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھو ۔ کسی بھی طاقت اور رکاوٹ سے نہ ڈرو ۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے آگے ہی بڑھتے رہو ۔ رکنا اور قیام کرنا تمہارے لیے موت کے مترادف ہے ۔ اگر تم ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہو گے تو منزل کو پا لو گے ۔
بند نمبر 4 :
سپاہیانہ زندگی جو قسمت سعید ہے
تو رزم گہ کی موت بھی سپاہیانہ عید ہے
جیا تو فخر قوم ہے مرا تو وہ شہید ہے
سروں سے باندھ کر کفن بڑھے چلو ، بڑھے چلو
دلاوران تیغ زن بڑھے چلو بڑھے چلو
دلاوران صف شکن بڑے چلو ، بڑھے چلو
مشکل الفاظ کے معانی : سپاہیانہ زندگی (سپاہیوں کی زندگی) ، قسمت سعید (مبارک قسمت ،خوش قسمتی ) ، رزم گاہ( لڑائی کی جگہ ، میدان جنگ) سپاہیانہ عید (سپاہیوں کی طرح عید) ، فخر قوم (قوم کا ناز) ، کفن سر ہر باندھنا ( جان پر کھیلنا، جان قربان کرنے کے لیے تیار رہنا )
مفہوم : اے وطن کے بہادر سپاہیوں وطن کی خاطر اپنی وہ تلواریں اٹھاؤ جن سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اپنی جوانی اور اپنی جان وطن کی خاطر قربان کر دو۔ وطن تمہیں پکار رہا ہے ۔ آگے بڑھتے رہو ۔ اے تیغ زن اور صف شکن بہادروں آگے بڑھتے رہو۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر وطن کے بہادر سپاہیوں کو وطن کی خاطر جان قربان کرنے کی ترغیب دلاتا ہ ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے بہادر سپاہیوں تمھاری زندگی خوش نصیب ہے۔ یہ بخت والوں کو ملتی ہے۔ وطن پر قربان ہونے کی سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ وطن کے سپاہی کو جب میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے موت آتی ہے تو یہ موت بھی عید جیسی خوشی والی ہے۔ جس طرح ایک عاشق کے لیے محبوب کی خاطر تکلیف برداشت کرنا خوشی کا باعث ہوتا ہے اور محبوب کے لیے جان قربان کرنا اس کے عشق کی صداقت سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح وطن کی خاطر تکلیف برداشت کرنا ، وطن کے سپاہیوں کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ وطن کی خاطر اس کے جسم پر لگے زخموں کے نشان اس کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور تمغے ہوتے ہیں ۔ وطن پر جان قربان کرنا اور اس کی وطن سے بے لوث محبت اور وفاداری کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ چنانچہ میدان جنگ میں ایک سپاہی مسکراتے چہرے کے ساتھ موت کو قبول کرتا ہے۔
بقول فیض احمد فیض :
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی پرواہ نہیں
شاعر مزید کہتا ہے کہ اے وطن کے مجاہدو اگر تم میدان جنگ میں دشمن کو شکست دے کر کامیاب لوٹتے ہو تو بھی ملک و قوم کے لیے فخر کا باعث ہو ، تمہیں غازی کہا جائے گا لیکن اگر تم میدان جنگ میں شہید ہو جاتے ہو تو بھی سعادت مندی کی بات ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں شہید کا درجہ بہت بلند ہے۔ شہادت سے تم ابدی حیات پا لو گے ۔ چنانچہ زندگی ہو یا موت اس راہ میں خسارہ نہیں بقول۔
فیض احمد فیض :
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے جاں بازو سروں سے کفن باندھ لو اور آگے بڑھتے چلو۔ وطن کی خاطر جانیں قربان کرو یہ عزم کرو کہ یا تو ہم مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے یا ہم اپنی جان قربان کر دیں گے ۔ اگر آج تم جان قربان کرو گے تو کل تمہارے جیسے مجاہد اور بہادر مزید پیدا ہو جائیں گے ۔ اس لیے تم کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو ۔
بقول فیض احمد فیض :
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت سر بھی بہت
بڑھتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
آخر میں شاعر کہتا ہے کہ وطن کے تیغ زن بہادروں تم تلوار کے دھنی ہو اپنی تلوار سنبھالو اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھو ۔ اے وطن کے دشمن کی صفیں چیرنے والے بہادروں دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھو۔ کسی بھی طاقت اور رکاوٹ سے نہ ڈرو۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے آگے ہی بڑھتے رہو ۔ رکنا اور قیام کرنا تمہارے لیے موت کے مترادف ہے ۔ اگر تم ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہو گے تو منزل کو پا لو گے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ اختر شیرانی کی نظم ” بڑھے چلو” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.