برسات کی بہاریں
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت نہم پنجاب بورڈ کی نظم ” برسات کی بہاریں” از نظیر اکبر آبادی کا خلاصہ پڑھیں گے ۔
خلاصہ کیا ہوتا ؟ خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔
خلاصہ: شاعر نظیر اکبر آبادی اپنی نظم” برسات کی بہاریں ” میں کہتے ہیں کہ برسات کی وجہ سے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ لہلہا رہا ہے ۔ باغات میں بہار آ گئی ہے ۔ بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے درختوں کے پتوں پر جم جانے سے موتی لگنے لگے ہیں ۔ بادل مست ہو کر ہوا کے اوپر گھوم رہے ہیں۔ لگاتار بارش کی وجہ سے گر چمک سے خوب شور برپا ہو رہا ہے ۔ ہر جگہ جل تھل ہو گیا ہے ۔ باغات بھیگ رہے ہیں اور سبزے نہا رہے ہیں ۔ بارش کی وجہ سے ہر جگہ سبزہ یوں لگتا ہے جیسے سبز سی چادر بچھی ہوئی ہو گویا یہ قدرت کے بچھونے ہیں۔ جنگلوں میں یہی بچھونے نظر آتے ہیں۔ ہر طرف گھٹائیں چھا رہی ہیں اور سرخ و سفید کاہی بھی ہے ۔ بارش سے چاند اور مچھلی تک سبھی بھیگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے سامان پیدا کر رکھے ہیں ۔ برسات سے سب مست ہو رہے ہیں اور تیتر بھی سبحان تیری قدرت کے گیت الاپ رہے ہیں۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” برسات کی بہاریں” کے خلاصہ کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.