برسات کی بہاریں

برسات کی بہاریں 

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” برسات کی بہاریں” از نظیر اکبر آبادی ، پنجاب بورڈ کی تشریح و توضیح کریں گے ۔

بند نمبر 1 : 

ہے اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں

سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں

بوندوں کی جھنجھلاہٹ قطرات کی بہاریں

ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں

کیا کیا مچی ہیں یارو ! برسات کی بہاریں

مشکل الفاظ کے معانی : برسات( بارش کا موسم) ، لہلہاہٹ( کھیت کا ہوا سے ہلنا)  ، سر سبز و شادابی (بہار ، رونق  ، خوشی) ،  جمجھماہٹ (روشنی ، چمک) ،  یارو (دوستو) ،  بوند ( قطرہ ) ، گھات( تاک، داؤ ، موقع )

مفہوم : تیز ہوا میں ہر طرف برسات ہو رہی ہے ۔ سر سبز و شاداب ہر چیز دکھائی دے رہی ہے ۔بوندیں برس رہی ہیں اور ہر جگہ برسات کا تماشا لگا ہوا ہے ۔

تشریحنظیر اکبر آبادی عربی ، فارسی ، ہندی اور ہندوستان کی کئی دوسری زبانوں کے ماہر تھے ۔ قلندرانہ مزاج کے باعث درباروں سے دور رہے ۔ کچھ عرصہ متھرا میں بطور معلم فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ پھر جلد ہی نوکری چھوڑ کر آگرہ چلے آئے اور 17 روپے ماہوار پر لالہ بلاس رام کے بچوں کی اتالیق ہو گئے ۔ عمر کے آخری حصے میں انہیں فالج ہوا اور اسی بیماری میں چل بسے ۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری عوامی ہے ۔ انھوں نے آس پاس کے ماحول، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کو بڑے خوبصورت انداز میں اپنی شاعری میں ڈالا ہے ۔ انھوں نے عوام الناس اور غریب و مفلس طبقے کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے نظم گوئی کو بہت وسعت دی ۔ ان کی نظمیں ان کے غیر معمولی مشاہدے اور زندگی کے گہرے تجربوں کی عکاس ہیں ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس کو آپ اس نظم کے کسی بھی بند کے شروع میں لکھ سکتے ہیں ۔

مذکورہ بند میں شاعر برسات کی بہاروں کی منظر کشی بڑے دلکش انداز میں کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں فضا میں برسات کی عجب بہاریں ہیں ۔ ہر طرف برسات کی بہاروں کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔ بارش کے اس موسم میں چلنے والی ہوا کی وجہ سے ہر طرف سبزہ لہلہا رہا ہے ۔ درختوں کی شاخیں اور پتے جھوم رہے ہیں ۔ اک رونق سی ہے جو باغوں اور کھیتوں میں آ گئی ہے۔ پتوں اور گھاس پر پڑے بارش کے قطرے موتی لگ رہے ہیں اور خوب چمک رہے ہیں گویا ہر طرح کے نظارے اور طرح طرح کی رونقیں ہیں ۔ دوستو دیکھو تو سہی چاروں طرف برسات کی بہاریں دل کو لبھا رہی ہیں ۔ بچے بڑے سب برسات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ نظیر اکبر آبادی نے اس بند میں برسات کی منظر کشی نہایت عمدگی سے کی ہے ۔ ایک اور شاعر برسات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں بقول تاجدار نجیب آبادی :

مینھ  سے بیاباں، رنگ گلستان

پھولوں کی برکھا ، دونوں میں یکساں

کوئل کی کو کو ، باغوں میں رقصاں

جگنوں کی جگ مگ، بن میں چراغاں

برسات آئی ، برسات آئی

بند نمبر 2 : 

بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں

جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں

پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں

گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

مشکل الفاظ کے معانی : مست (نشے میں چور ) ، گلزار (چمن ، باغ ، گلشن) ،  جھڑی (لگاتار بارش ) ، دھوم( شور و غل ، شہرت) ،  سبزہ (ہریالی) ،  ہر جا (ہر طرف)

مفہوم : بادل ہوا پر مستی سے چھا رہے ہیں ۔لگاتا بارش ہو رہی ہے اور ہر طرف جل تھل کا سا سماں ہے ۔ گلزار اور سبزہ زار سب نہا رہے ہیں ۔

تشریح : نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ فضا میں گہرے بادل یوں اڑتے جا رہے ہیں جیسے وہ مدہوش ہوں یعنی بادل مست ہو کر آسمان پر چھا رہے ہیں اور ہوا پر بیٹھ کر ادھر ادھر اڑتے جا رہے ہیں ۔ گویا لگاتار بارش کی مستیوں کی وجہ سے شور و غل پیدا کر رہے ہیں اسی وجہ سے ہر طرف رونقیں ہی رونقیں ہیں ۔ بارش کے پانی کی وجہ سے جگہ جگہ جل تھل ہے ۔ باغات بارش سے بھیگ رہے ہیں اور سبزے نہا کر نکھر رہے ہیں ۔ دوستو !  دیکھو تو سہی ہر طرف برسات کی رونقیں ہیں ۔ یہ منظر کتنا سہانا اور دل کش ہے ۔ یہ بند رومانوی جذبے کی ترجمانی کر رہا ہے جبکہ بندش الفاظ بھی نہایت عمدہ ہے ۔

بقول تاجور نجیب اکبر آبادی :

شب رنگ بادل ، مینھ کے ہراول

تپتی زمینیں ، پانی سے جل تھل

بند نمبر 3 : 

ہر جا بچھا رہا ہے سبزہ ہرے بچھونے

قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے

جنگلوں میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے

بچھوا دیے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے

کیا کیا مچھی ہیں یارو! برسات کی بہاریں

مشکل الفاظ کے معانی : ہر جا (ہر جگہ) ،  بچھونا (بستر ، چٹائی)  ، حق( سچ مراد اللہ تعالیٰ) ،

مفہوم : ہر طرف سبزے کے بچھونے بچھ گئے ہیں ۔قدرت نے سبزے کے بچھونے جنگلوں میں بھی بچھا دئے ہیں ۔ہر طرف برسات کے کیا خوب رنگ جمے ہیں ۔

تشریح : نظیر اکبر آبادی ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ انھوں نے برسات کی بہار کی منظر کشی نہایت خوبصورت انداز میں کی ہے ۔ مذکورہ بند میں ان کے مشاہدے کی دلیل ہے ۔ کہتے ہیں ہر جگہ سبزہ ہرے بچھونے بچھا رہا ہے گویا قدرت سبزے کے بستر لگا رہی ہے۔ برسات کے موسم میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے ۔ یہی سبزہ یوں لگتا ہے جیسے بچھونے ہوں گویا اللہ تعالیٰ نے سبزہ پیدا کر کے ہر طرف ہرے بچھونے بچھا دیے ہیں۔  یہی حال جنگلوں کا ہے وہاں بھی لہلہاتے سبزے سے رونق سی آ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے بچھونے بچھا کر رونق بخش دی ہے۔ دوستو ذرا غور تو کرو اور برسات کی بہاریں تو دیکھو برسات نے خوب دھومیں مچائی ہوئی ہیں۔ جس طرف نظر دوڑاؤ سبزہ اپنی بہار دکھاتا نظر آتا ہے۔

 بقول تاجور نجیب آبادی :

فرش زمرد ، سبزے کی محمل

برسات سے ہے جنگل میں منگل

بند نمبر 4 : 

سبزوں کی لہلہا ہٹ ، کچھ ابر کی سیاہی

اور چھا رہی گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی

سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بہ ماہی

یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الٰہی

کیا کیا مچی ہیں یارو! برسات کی

مشکل الفاظ کے معانی : ابر( بادل) ،  ماہ (چاند) ،  ماہی( مچھلی) ،  سیاہی( کالک  ، تاریکی) ،  سوا( بغیر ) ، رنگ رنگنا (کوئی رنگ چڑھانا) ،  کاہی (ہلکا سبز رنگ  ، مائل بہ سیاہی) ،  الٰہی (اے میرے اللہ) ،   لہلہاہٹ (ہوا سے کھیت ہلنے کی حالت )

مفہوم : سیاہ بادلوں میں سبزے لہلہا رہے ۔ سرخ اور سیاہ گھٹائیں چھا رہی ۔ ایسے خوبصورت نظارے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کون پیدا کر سکتا ہے ۔

تشریحنظیر اکبر آبادی کی شاعری عوامی شاعری ہے۔ انھوں نے مذکورہ بند میں برسات کی بہار کو بڑے خوبصورت انداز میں اپنے شعروں میں ڈھالا ہے ۔ زیر نظر بند میں وہ فرماتے ہیں بادلوں کی سیاہی اور گھٹاؤں کی سرخ و سفید رنگت سے ہر سمت رنگینی چھا رہی ہے ۔ موسم برسات میں لہلہاتا سبزہ اور کالے بادل خوبصورت لگتے ہیں۔ گھٹائیں چھا رہی ہیں اور سرخ و سفید کا ہی بھی پھیل رہی ہے ۔ بارش سے چرند ، پرند ، انسان ، جانور الغرض چاند سے لے کر مچھلی تک سبھی بھیگتے ہیں ۔ اے اللہ تیرے بغیر کون ایسی رونقیں کے لا سکتا ہے ۔ تو ہی ہے جس نے بارش برسائی اور سبزہ پیدا کیا ۔ دوستوں برسات کی وجہ سے طرح طرح کی رونقیں لوٹ آئی ہیں ۔ گویا ” چمن ہے رنگین ، بہار رنگین مناظر ، سبزہ زار رنگین ” ۔ 

بقول شاعر :

دلکش سماں ہے ، دل شادماں ہے

برسات کی رت ، جان جہاں ہے

بند نمبر 5 : 

کیا کیا رکھے ہیں یا رب سامان تیری قدرت

بدلے ہے رنگ کیا کیا ہر آن تیری قدرت

سب مست ہو رہے ہیں پہچان تیری قدرت

تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت

کیا کیا مچی ہیں یارو !  برسات کی بہاریں

مشکل الفاظ کے معانی : سامان (اسباب) ، ہر آن (ہر لمحہ) ،  قدرت( طاقت ،  شان الہی) ،  مست( مسرور مگن ،  مخمور) ،  سبحان( مراد خداوند پاک) ،  تیتر (ایک پالتو پرندے کا نام) 

مفہوم : ہر جانب اللہ تعالیٰ نے کیا کیا خوبصورتی کے ساماں پیدا کر دئے ۔ اس قدرتی نظارے سے سب حیران ہو رہے ۔ ان نظاروں کو دیکھ کر تیتر بھی سبحان تیری قدرت کے نغمے گا رہے ہیں ۔

تشریح : اللہ تعالیٰ کی کیسی عمدہ کرشمہ سازیاں ہر طرف اور ہر آن نظر آتی ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیری قدرت کے کرشمے ہیں کہ تو نے طرح طرح کے اسباب پیدا کر کے دنیا کو رونق بخشی ہے ۔ تیری قدرت برسات کے دوران پل بھر میں دنیا کا رنگ بدل دیتی ہے ۔ انسان ، حیوان، چرند ، پرند ، سبھی تیرے ہی گن گاتے اور تعریف کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ تیتر بھی سبحان تیری قدرت کہتے ہیں ۔ دوستو ! ذرا غور کرو کہ بارش سے کس قدر رونقیں لوٹ آئی ہے یعنی انسانوں کی مستیاں تو ایک طرف برسات کی بہاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تیتر بھی اپنی زبان سے سبحان تیری قدرت کی آوازیں بلند کر رہے ہیں ۔ نظم کا یہ بند ایک طرف تو سلاست اور روانی کی عمدہ مثال ہے دوسری طرف اس میں عوامی جذبات کا بھی بھرپور اظہار کیا گیا ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم برسات کی بہاریں کی تشریح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply