بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

شعر نمبر 1 : 

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: بازیچہ اطفال ( بچوں کا کھیل ) ، شب و روز ( دن اور رات )

مفہوم : یہ دنیا محض کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ۔ میرے نزدیک یہ محض بچوں کا کھیل ہے ۔

تشریح: مرزا غالب کا یہ مطلع ان کی مشہور غزل سے ہے جو ان کے منفرد فلسفیانہ انداز اور دنیا کے بارے میں گہرے تصور کو ظاہر کرتا ہے ۔ ”  

   – غالب یہاں دنیا کو “بازیچۂ اطفال” (بچوں کا کھیل) قرار دے رہے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی تمام سرگرمیاں، جدوجہد اور دکھ سکھ بچوں کے کھیل کی طرح بے معنی اور عارضی ہیں۔

   – ان کے نزدیک دنیا کی تمام تر عظمت اور شان ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے”

   – یہاں “شب و روز” سے مراد وقت کی گذر ہے، جو ایک مسلسل تماشے کی طرح ہے۔

   – غالب خود کو ایک تماشائی کی طرح پیش کرتے ہیں جو دنیا کے ہنگامے کو بے حسی اور بے نیازی سے دیکھ رہا ہے۔

فلسفہ اور مفہوم:

غالب کے نزدیک دنیا کی تمام تر مصروفیات اور واقعات ایک کھیل کی مانند ہیں، جس میں انسان بچوں کی طرح الجھا ہوا ہے۔ وہ اس دنیا کو ایک “تماشا” سمجھتے ہیں، جس میں وہ خود کو ایک غیر جانبدار ناظر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ یہ ان کے فلسفۂ زندگی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں وہ دنیاوی دکھوں اور خوشیوں کو بے معنی سمجھتے ہیں۔

حوالہ کے اشعار (اسی غزل سے):

اس غزل کے دیگر اشعار بھی اسی فلسفے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ چند اشعار درج ذیل ہیں:

 “ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

   ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا”

 “ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن**

   *دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”

“نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا**

 کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

یہ تمام اشعار غالب کے اس تصور کو واضح کرتے ہیں کہ دنیا ایک فریب، ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، جس میں حقیقت کا کوئی ٹھوس وجود نہیں۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply