بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، فیڈرل بورڈ کے نصاب میں شامل غزل ” بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : بادباں : وہ پردہ جو بحری جہاز کا رخ بدلنے یا اسے ہوا کے زور پر چلانے کے لیے لگایا جاتا ہے ۔
مفہوم : آغاز سفر کے وقت بادبان کھلنے سے پہلے اشارہ دیکھتے رہنا میں سمندر پر نظر رکھتی ہوں اور تم ساحل پر نظر رکھو ۔
تشریح : پروین شاکر جدید لب و لہجے کی شاعرہ کہا جاتا ہے ۔ جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے جذبات و احساسات کو لطیف پیرائے میں بیان کیا۔ جذبات و احساسات کی شدت اور سادہ انداز بیاں پروین شاکر کی شاعری کی خاص خوبی ہے ۔ تشریح طلب شیر میں شاعرہ کہتی ہے کہ اے محبوب ! سفر کے آغاز میں تم قدرت کے اشاروں کو سمجھنا میں زمانے کی مشکلات اور مصائب پر نظر رکھتی ہوں ۔ تم منزل کو دھیان میں رکھنا ۔ ایک عقلمند ملاح بحری سفر کے آغاز کے وقت ہوا کے رخ کی سمت دیکھتے ہوئے بادباں کھولتا ہے اور اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے ۔ اس کی نظر سمندر کی لہروں پر بھی ہوتی ہے کہ کہیں کوئی طوفانی موج بحری جہاز کو نقصان نہ پہنچا دے ۔ ایک تجربے کار ملاح ہی جہاز کو طوفانی لہروں اور بھنور سے نکال سکتا ہے ورنہ جہاز مسافروں سمیت ڈوب جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملاح کی نظر ساحل پر بھی ہوتی ہے جہاں اس کی منزل ہوتی ہے ۔
بقول عرفان صدیقی :
کشتیوں کا تو نام ہوتا ہے
شوق کو بادبان ملتے ہیں
اسی طرح شاعرہ بھی محبت کے سفر کے آغاز سے پہلے اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ ہے۔ اس لیے وہ محبوب سے کہتی ہے کہ اس سفر کی ابتدا سے پہلے قدرت کے اشارات کو مدنظر رکھنا زمانے کی اونچ نیچ کا لحاظ رکھنا ۔ میں زمانے کی مشکلات اور مصائب کو برداشت کروں گی تم منزل پر دھیان رکھنا ۔
بقول شاعر :
پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
دیکھو ہوا کا نقش کبھی باد بان پر
شعر نمبر 2 :
یوں بچھڑنا بھی بہت آسان نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی :
بچھڑنا : جدا ہونا
مفہوم : اگرچہ محبوب سے جدا ہونا ہی میرے لیے آسان نہیں تھا لیکن وقت رخصت اس کا پلٹ کر دیکھنا مزید جان لیوا تھا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ محبوب سے جدا ہونا میرے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ مجھے محبوب سے بچھڑنے کی اذیت معلوم ہے ۔ اس کی جدائی میں تڑپ اور بے قراری کی شدت سے میں آگاہ ہوں لیکن اس بار جب محبوب مجھ سے قطع تعلقی کر کے جانے لگا تو اس کا بار بار پلٹ کر دیکھنا میرے لیے مزید جان لیوا ثابت ہوا ۔
بقول لطیف ہارونی :
جاتے جاتے ان کا رکنا اور مڑ کر دیکھنا
جاگ اٹھا اہ میرا درد تنہائی بہت
وقتِ رخصت محبوب کے پلٹ کر دیکھنے کی خواہش اردو شعری روایات میں بہت عام ہے ۔ عاشق کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش محبوب جدا ہوتے وقت ایک بار پلٹ کر دیکھ لے ۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے محبوب کے دل میں عاشق کے لیے محبت کا ثبوت ہوتا ہے مگر محبوب پلٹ کر نہیں دیکھتا اور عاشق کی یہ خواہش دل ہی دل میں رہ جاتی ہے ۔
بقول شاعر :
عشق کی حدت سے میرے دل کو گرمانے کے بعد
تو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کر کبھی جانے کے بعد
مگر یہاں شاعر نے عجیب مضمون بیان کیا ہے کہ وقتِ رخصت محبوب کا پلٹ کر دیکھنا اسے مزید بے قرار کر گیا کہ محبوب کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ ہے لیکن پھر بھی محبوب اس سے جدائی اختیار کرنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔
بقول شاعر :
نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں
کہ تو نے مڑ کے فقط ایک مجھے کو دیکھا کیوں
بقول وسیم بریلوی :
وسیم دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اس کی طرف
کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا
شعر نمبر 3 :
کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں ذرا اپنا ستارہ دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : شباہت( ہم شکل ، مشابہت) ، شب ہجراں( تنہائی کی رات )
مفہوم : چاند محبوب کی شکل و صورت کا عکس لیے دروازے پر آ گیا ہے ۔ لگتا ہے جدائی کی طویل رات اب ختم ہونے والی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ محبوب سے جدائی کے لمحات میرے لیے بہت اذیت ناک تھے ۔ میں محبوب کی یاد میں دن رات بے قرار رہتی تھی ۔ رات کو بے مقصد آسمان کو تکتی رہتی تھی ۔ جدائی کی یہ راتیں میرے لیے بہت طویل ہو گئی تھی لیکن پھر ایسا ہوا کہ چاند میرے گھر کی دہلیز پر محبوب کی شکل و شبہات اختیار کیے ہوئے نمودار ہوا ۔ اس طرح ہجر کی طویل رات اپنے اختتام پر آگئی ۔
بقول فیض احمد :
فیض بزم خیال میں تیرے حسن کی شمع جل گئی درد کا چاند بجھ گیا ہجر کی رات ڈھل گئی
شاعرہ نے یہاں محبوب سے جدائی میں اس کی یاد کی شدت کو بیان کیا ہے ۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ جس ہستی کو شدت سے یاد کرتا ہے اور ہر لمحہ اس کی یاد میں مستغرق رہتا ہے اسے ہر شے میں وہی چہرہ دکھائی دینے لگتا ہے گویا اس کے خیالات اور اس کی یاد مجسم ہو کر اس کے سامنے آ موجود ہوتی ہے ۔ اس طرح تنہائی اور ہجر کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور خیالوں ہی خیالوں میں ملاقات ہو جاتی ہے اور گھنٹوں گفتگو ہوتی ہے ۔
بقول فرحت ندیم :
تیرا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں
سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہیے
شاعرہ اس شعر میں کہتی ہیں کہ چاند محبوب کا عکس لیے میرے روبرو آگیا ہے ۔ اب ہجر کی رات تم ذرا اپنا ستارہ دیکھو ۔ ستارہ دیکھنا رات کے اختتام کی علامت ہے اور رات کے اختتام پر ستارے ڈوبنے لگتے ہیں چنانچہ شاعرہ کہتی ہے ہجر کی طویل رات اب ختم ہونے کو ہے ۔
شعر نمبر 4 :
کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : قیامت ہے( مراد تباہی ہے) ، پسپا ہونا( شکست کھانا ، ہار جانا) ، مقابل( آمنے سامنے ، مقابلے میں مخالف سمت میں) ، صف آرا (جنگ کے لیے آمادہ )
مفہوم : جن کی خاطر شکست کھائی ہو ان ہی کو اپنے مقابل صف اراء دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ زمانے کی منافقت کا تذکرہ کرتی ہے ۔ شاعرہ کہتی ہے کہ وہ لوگ جن کی خاطر ہم نے ہر میدان میں جان بوجھ کر اپنی شکست قبول کی اور حق پر ہوتے ہوئے بھی اپنے حق سے دستبردار ہوئے وہی لوگ جب ہماری مخالفت پر اتر آئے تو یہ بہت اذیت ناک مرحلہ تھا ۔ جن لوگوں پر احسان کیا تھا انہی کو مقابل میں صف آرا دیکھنا بہت تکلیف دہ امر ہے ۔
بقول یامین غوری :
انداز جسے زیست کے میں نے ہی سکھائے
دیکھو کہ میرے آج مقابل بھی وہی ہے
ایک اور شاعر کے بقول :
وہ آج میرا نام مٹانے پر تلا ہے
جو شخص جواں میری دعاؤں سے ہوا تھا
دوسرا شعر کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعرہ کو محبوب کے منافقانہ رویے کا شکوہ ہے ۔ محبوب کی خاطر اس نے جیتی ہوئی بازی میں بھی اپنی شکست کو قبول کیا لیکن محبوب نے احسان فراموشی کرتے ہوئے شاعرہ ہی کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اس کے مد مقابل صف آرائی کی ۔ رقیب سے یارانہ بڑھایا اور اس کے ساتھ مل کر شاعرہ کو مزید تکالیف سے دوچار کیا ۔
بقول شاعر :
انا مد مقابل ہو تو ہم پسپا نہیں ہوتے
محبت روبرو ہو تو ہم سب کچھ ہار جاتے ہیں
انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے محسن کے سامنے سر جھکاتا ہے لیکن بعض احسان فراموش اور منافقت پسند لوگ فطرت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے محسن ہی کے خلاف چلے جاتے ہیں اور اس کا احسان ماننے کی بجائے اس کے مد مقابل دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یہ منظر ایک حساس دل کے حامل شخص کے لیے بہت دل شکن ہوتا ہے ۔
شعر نمبر 5 :
جب بنام دل گواہی سر کی مانگی جائے گی
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : بنام دل (دل کے نام پر) ، سر کی گواہی( مراد جان قربان کرنا)
مفہوم : جب محبت کے ثبوت میں جان کی قربانی طلب کی جائے گی تو ہم ہی جان قربان کرنے والوں میں پیش پیش ہوں گے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ محبت قربانی کا نام ہے ایک عاشق صادق محبت میں دل کے ساتھ ساتھ جان بھی قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے جبکہ جھوٹا اور ریاکار شخص راہ محبت کی تکالیف دیکھ کر واپس پلٹ آتا ہے چنانچہ شاعرہ اپنے صداقت اور بلند ہمتی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ابھی تو ہم نے محبوب کو دل ہی دیا ہے لیکن جب دل کی صداقت کے ثبوت میں سر کی گواہی طلب کی جائے گی اور جان کی قربانی کا تقاضا کیا جائے گا تو ہم جان قربان کرنے سے بھی دلیر نہیں کریں گے بلکہ ہم جان قربان کرنے والوں میں سب سے اگے ہوں گے ۔ ہمارا پرچم خون میں ڈوبا ہوا ہوگا ۔ ہمیں معلوم ہے یہ قربانی ہمیں محبوب کی نگاہوں میں سرخرو کر دے گی ۔
بقول شاعر :
ہم وہ نہیں کہ جو حالات سے ڈر جاتے ہیں
بات کرتے ہیں تو پھر بات پہ مر جاتے ہیں
شعر نمبر 6 :
جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : جی( دل ) ، خواہش زیان (نقصان ) ، بازی (کھیل) ، خسارہ( گھاٹا, نقصان) مفہوم : جس کھیل کی جیت میں بھی دل کا نقصان ہوتا ہو ایسی بازی ہارنا کوئی گھاٹا نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ عشق کا کھیل ایسا کھیل ہے جہاں جیت بھی جاؤ تو دل کا نقصان پہلے ہوتا ہے یعنی محبوب حاصل کرنے سے پہلے محبوب کی محبت اختیار کرتے وقت دل کی خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اپنے دل سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں چنانچہ شاعرہ کہتی ہے کہ ایسی بازی ہارنے میں بھی کوئی نقصان نہیں ہے یعنی اس کھیل میں تمہاری جان بھی چلی گئی یا تم نے جان قربان کر دی تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ اس سے محبوب کی نظروں میں تمہاری قیمت بڑھ جائے گی اور تمہاری وفاداری پر مہر ثبت ہو جائے گی ۔
ایک اور جگہ پروین شاکر کہتی ہیں :
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
عموماً لوگ کوئی بھی کھیل اس لیے کھیلتے ہیں کہ وہ بازی جیت سکیں عمومی رجحان یہ ہے کہ جیتنے والے کی عزت افزائی ہوتی ہے اور ہارنے والا بے عزتی محسوس کرتا ہے لیکن شاعرہ کہتی ہے کہ عشق کی بازی ایسی بازی ہے جس میں ہار جیت دونوں صورتوں میں عاشق کا فائدہ ہے ۔ اسے نقصان کا نہیں سوچنا چاہیے ۔
بقول فیض احمد فیض :
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
شاعرہ کہتی ہے کہ اگر عشق کی بازی میں میں ہار ہی رہی ہوں تو مجھے اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ یہ ایسی بازی ہے کہ اس میں جیتنے کی صورت میں بھی دل کا نقصان تو گوارا کرنا ہی پڑتا ہے چنانچہ اس بازی میں خسارہ نہیں دیکھنا چاہیے ۔
بقول شاعر :
نقصان ہوا کیا مجھے اس کار وفا میں
میں عشق میں کھویا میرا حاصل بھی وہی ہے
شعر نمبر 7 :
آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لیے
جانے اب کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : آئینہ (منہ دیکھنے کا شیشہ) ، کیا دکھائے گا( مراد کون سی انوکھی بات ہوگی)
مفہوم : میرے لیے آئینے کا سامنا کرنا ہی مشکل تھا تمہارا یوں مسلسل مجھے دیکھنا معلوم نہیں کیا کرے گا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ جب میں آئینے میں اپنے حسن و جمال دیکھتی ہوں اور خود کو سنوارتی ہوں تو آئینہ مجھے مسلسل دیکھتا رہتا ہے ۔ آئینے کا یوں دیکھنا مجھے اس طرح دیکھنا مجھے اضطراب مبتلا کر دیتا ہے لیکن اب اس سے بڑھ کر مزید اس طرح یہ ہے کہ محبوب کا دیکھنا آئینے سے بھی بڑھ کر ہے چنانچہ شاعرہ کہتی ہے کہ اے محبوب پہلے آئینے کی آنکھ کیا کم تھی جو مجھے گھورتی رہتی تھی اب تمہارا یوں مسلسل دیکھنا مجھے مزید بے چین کر دیتا ہے ۔
بقول ابن مفتی :
ہم نے دیکھا ہے روبرو ان کے
آئینہ آئینہ نہیں ہوتا
اردو شاعری میں حسن کا خود کو آئینے کے سامنے سنوارنے اور گھنٹوں اپنے حسن و جمال کو دیکھتے رہنے کا مضمون تو بہت کثرت سے ملتا ہے ۔ آئینے کا محبوب کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہونا ایک عام سی بات ہے ۔
بقول نظام رام پوری :
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
اسی طرح بقول فنا بلند شہری :
کر کے سنگھار آئے وہ ایسی ادا کے ساتھ
آئینہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا
لیکن حسن کا آئینے سے شرما جانا اور اس سے گریز کرنا بہت کم پایا جاتا ہے ۔ حسن اپنے ہی عکس سے شرماتا ہے کہ کوئی ایسے دیکھ رہا ہے یہ نزاکت اور شرم و حیا کی انتہا ہے اس پر مستزاد یہ ہے کہ محبوب کو دیکھنا اسے مزید بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
شعر نمبر 8 :
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
مشکل الفاظ کے معانی : مشت خاک( مٹھی بھر خاک مراد انسان ) ، زد میں( مقابل ، سامنے ) ، بے بسی( بے اختیاری ، مجبوری) ، استعارہ( علامت)
مفہوم : میری بے بسی ملاحظہ کیجیے کہ میں ایک مٹھی بھر خاک کی مانند بے حیثیت ہوں اور ہوا کے مقابل کھڑی ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ میری زندگی کی بے اختیاری اور بے بسی دیکھیے کہ میں ایک مٹھی بھر خاک کی مانند بے اختیار ، بے حیثیت اور بے مایا انسان ہوں ۔ زندگی کی مشکلات اور مصائب کے درمیان گھری ہوئی ہوں ۔ مشت خاک سے مراد انسان ہے اور ہوا مشکلات اور مصائب کی علامت ہے ۔ جس طرح مٹھی بھر خاک کو تیز ہوا کا جھونکا ایک لمحے میں اڑا کر بکھیر دیتا ہے اور خاک کے ذرات ہوا میں دور دور تک بکھر جاتے ہیں ۔ اسی طرح شاعرہ کی زندگی خاک کی مانند بے حیثیت اور بے مایا ہے جو زندگی کے مسائل مشکلات اور مصائب کے درمیان گھری ہوئی ہے ۔ مصائب کی تند و تیز آندھیاں اس کی ہستی کو بکھیرنا چاہتی ہیں لیکن شاعرہ عزم و حوصلے کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے اور مردانہ وار ان کا مقابلہ کر رہی ہے لیکن اسے امید نہیں ہے کہ وہ ان تند و تیز آندھیوں کا مقابلہ کر پائے گی ۔ وہ اپنی بے بسی ، بے اختیاری اور مجبوری کا گلا کرتی ہے ۔
بقول خواجہ میر درد :
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
نوٹ : امید ہے کہ آپ اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.