آج کی اس پوسٹ میں ہم شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی نظم ” ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام خطاب” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔
مرکزی خیال کیا ہوتا ؟ وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
جوش ملیح آبادی کی نظم “ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام خطاب” ایک حب الوطنی اور استعمار مخالف نظم ہے جس میں شاعر برطانوی سامراج کی سازشوں، استحصال اور ظلم و ستم کو بے نقاب کرتا ہے۔
نظم کا مرکزی خیال :
یہ نظم برطانوی استعمار کی تاریخ، اس کے جبر و استحصال، اور ہندوستان پر اس کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔ شاعر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارتی بہانے سے ہندوستان میں قدم رکھا، لیکن آہستہ آہستہ پورے ملک پر قبضہ جما لیا۔
جوش ملیح آبادی سامراجی قوتوں کے خلاف شدید غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انگریز حکمرانوں کو براہ راست للکارتے ہیں اور ان کے مظالم پر سوال اٹھاتے ہیں۔ نظم میں شاعر ہندوستان کی دولت کی لوٹ مار، مقامی ثقافت کی تباہی، اور ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے سامراج کی اصلیت کو بے نقاب کرتا ہے۔
یہ نظم غلامی کے خلاف ایک جذباتی احتجاج ہے جو ہندوستانیوں میں آزادی کا جوش اور جذبہ بیدار کرتی ہے۔ جوش ملیح آبادی اپنے زبردست الفاظ اور پُراثر لہجے سے سامراج کی بدنیتی اور استحصالی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور آزادی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ جوش ملیح آبادی کی نظم ” ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام خطاب” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.