آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور افسانہ نگار انتظار حسین کی افسانہ نگاری اور افسانے میں علامت نگاری پر بحث کریں گے ۔
انتظار حسین کا مختصر تعارف : انتظار حسین 21 دسمبر 1925ءکو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔میرٹھ کالج سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے جہاں وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے “ 1952ءمیں شائع ہوا۔ روز نامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب ، بدلتے لہجوں اور کرافٹ نگاری کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا ، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتا ہے۔ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو
بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت ،ماضی پرستی ، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدار کے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار ، بہت جگہ پر انداز اور لہجہ بہت شدید ہو جاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اور حسن ہے۔
انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس،آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہر زاد کے نام، زمیں اور فلک اور، چراغوں کا دھواں،دلی تھا جس کا نام،جستجو کیا ہے ، قطرے میں دریا جنم کہانیاں، قصے کہانیاں،شکستہ ستون پر دھوپ ،سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔
انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
انتظار حسین کی علامت نگاری:انتظار حسین اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں میں علامتی اسلوب کو منفرد اور مؤثر انداز میں استعمال کیا۔ ان کے افسانے سماجی، تہذیبی اور سیاسی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، اور علامتوں کے ذریعے گہری معنویت اور کئی سطحوں پر تفہیم پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں علامتوں کا استعمال نہ صرف کہانی کو فنی گہرائی دیتا ہے بلکہ قارئین کو غور و فکر پر بھی مجبور کرتا ہے۔
1. تہذیبی زوال کی علامتیں
انتظار حسین کے کئی افسانے تہذیب کے زوال اور ماضی کی یادوں پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کے مشہور افسانے “دھوپ” اور “آخری آدمی” میں زوال پذیر تہذیب کی عکاسی کے لیے پرانے گھروں، بگڑتے ماحول، اور اجنبی پن کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کے کردار اکثر ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ماضی کی خوبصورتی اور حال کی بدصورتی کے درمیان تضاد دکھایا گیا ہے۔
2. ہجرت اور بے وطنی کی علامتیں
ہجرت، تقسیمِ ہند، اور بے وطنی ان کے افسانوں کے مرکزی موضوعات میں شامل ہیں۔ “گلی کوچے” اور “کتبہ” جیسے افسانوں میں ہجرت کے بعد کی بے چینی، جڑوں سے کٹنے کا دکھ، اور شناخت کے بحران کو علامتوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ پرندے، درخت، اور بستیاں ان کے افسانوں میں ہجرت کی علامتوں کے طور پر نمایاں ہیں۔
3. مابعد الطبعیاتی علامتیں
انتظار حسین کے افسانوں میں اکثر مابعد الطبعیاتی موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں زندگی، موت، اور وجود کے سوالات شامل ہیں۔ ان کے افسانے “زرد کتا” اور “شب گزیدہ” میں جانوروں، خوابوں، اور پراسرار واقعات کے ذریعے وجودی مسائل کو علامتی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
4. فطرت کی علامتیں
فطرت، درخت، اور جانور ان کے افسانوں میں اہم علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔ “درختوں کی کہانی” میں درخت انسانی رشتوں اور زندگی کی استقامت کی علامت ہیں۔ پرندے ان کے افسانوں میں آزادی، ہجرت، اور بے یقینی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
5. ماضی اور حال کا تصادم
انتظار حسین کے افسانے ماضی اور حال کے درمیان کشمکش کو علامتی طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں پرانی عمارتیں، ویرانے، اور کھنڈرات ماضی کی یاد اور اس کے زوال کی علامتیں ہیں، جو قارئین کو اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وقت کی تبدیلی کس طرح انسانی زندگی اور تہذیب کو متاثر کرتی ہے۔
نتیجہ :
انتظار حسین کی علامتی تحریریں ان کے افسانوں کو کئی جہات فراہم کرتی ہیں اور قارئین کو ظاہری کہانی سے آگے دیکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کی علامتیں نہ صرف اردو ادب میں ایک انفرادیت رکھتی ہیں بلکہ وہ انسانی نفسیات، سماج، اور تاریخ کے گہرے پہلوؤں کو بھی سامنے لاتی ہیں۔ ان کے افسانے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ علامتوں کے ذریعے ادب کو کس طرح ایک عالمی اور ابدی حیثیت دی جا سکتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ انتظار حسین کا مختصر تعارف اور ان کی افسانہ نگاری بالخصوص ان کے افسانوں میں علامتی پہلوؤں کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.