آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور افسانہ نگار غلام عباس کا مختصر تعارف اور اس کے ایک مشہور افسانے” حج اکبر” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔
غلام عباس کا مختصر تعارف : غلام عباس اردو کے مشہور افسانہ نگار اور ادیب تھے، جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو ادب میں گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ 17 نومبر 1909 کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے۔ غلام عباس کی تحریریں مختصر افسانے کی صنف میں انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں۔
ان کے افسانے سادہ، پُراثر اور حقیقت پسندی کے بہترین نمونے ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں میں معاشرتی مسائل، انسانی نفسیات، اور تہذیبی کشمکش کو گہرائی سے پیش کرتے تھے۔ ان کے مشہور افسانوں میں “آنندی”، “اوورکوٹ”، “کانپتا ہوا آدمی” اور “کتبہ” شامل ہیں۔
غلام عباس کے افسانے صرف کہانی نہیں ہوتے بلکہ ایک گہرا پیغام دیتے ہیں، جو قارئین کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان کا افسانہ “آنندی” خاص طور پر مشہور ہے، جو معاشرتی اقدار اور رویوں پر گہری تنقید کرتا ہے۔
غلام عباس 1982 میں لاہور میں وفات پا گئے لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی اردو ادب کا اہم حصہ ہے ۔
حج اکبر افسانہ کا مختصر تعارف: حج اکبر افسانہ اردو ادب کی ایک منفرد کہانی ہے، جسے ممتاز افسانہ نگار غلام عباس نے تحریر کیا۔ اس کہانی میں مصنف نے انسانی نفسیات، سماجی مسائل، اور مذہبی رویوں کو نہایت گہرائی اور باریکی سے بیان کیا ہے۔ “حج اکبر” میں خاص طور پر ایک دایہ (دائی) اور ایک معصوم بچے نصیر کی کہانی کو مرکز بنایا گیا ہے، جو کہانی کو جذباتی اور فلسفیانہ رنگ دیتی ہے۔
افسانہ حج اکبر کا خلاصہ :
کہانی کا آغاز ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہوتا ہے، جہاں دایہ ایک مشہور کردار ہے۔ دایہ اپنے پیشے میں ماہر ہے اور گاؤں کی اکثر عورتوں کے زچگی کے معاملات میں مدد کرتی ہے۔ دایہ کی زندگی عام لوگوں جیسی ہے، لیکن وہ ایک مضبوط اور پختہ کردار کی مالک ہے۔
نصیر کی پیدائش:
دایہ کی کہانی اس وقت ایک نیا موڑ لیتی ہے جب وہ نصیر کو دنیا میں لانے میں مدد دیتی ہے۔ نصیر ایک یتیم بچہ ہے، جس کی والدہ زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہے۔ دایہ اس بچے کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر پالتی ہے۔ نصیر کے ساتھ دایہ کا تعلق ماں اور بچے جیسا ہوتا ہے، اور وہ اس کی تربیت اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتی ہے۔
دایہ کا خواب اور حج اکبر:
دایہ کا ایک خواب ہے کہ وہ حج پر جائے اور حج اکبر ادا کرے، جو اسلامی روایات کے مطابق ایک بہت بڑا عملِ عبادت ہے۔ لیکن اس کا یہ خواب غربت، نصیر کی پرورش، اور سماجی دباؤ کے باعث ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
نصیر کی معصومیت اور قربانی:
نصیر ایک ذہین اور معصوم بچہ ہے، لیکن وہ دنیا کے تلخ حقائق کو کم عمری میں سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی دایہ کی مشکلات دیکھتا ہے اور اپنی خوشیوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تاکہ دایہ اپنے خواب کو پورا کر سکے۔
کہانی کا اختتام:
کہانی ایک جذباتی موڑ پر اختتام پذیر ہوتی ہے، جب دایہ کو احساس ہوتا ہے کہ نصیر کی پرورش اور اس کی خوشیاں ہی اس کے لیے حقیقی حج اکبر ہیں۔ یہ احساس کہ خدمتِ خلق اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا بھی عبادت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے، کہانی کو ایک خوبصورت فلسفیانہ پیغام دیتا ہے۔
کہانی کا پیغام :
غلام عباس نے “حج اکبر” کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی عبادت انسانیت کی خدمت اور قربانی کے جذبات میں پوشیدہ ہے۔ یہ کہانی ایک طرف مذہبی عقیدے اور روحانیت کا بیان ہے، تو دوسری طرف سماجی حقیقتوں اور انسانی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ غلام عباس کے افسانہ ” حج اکبر” کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.