آج کی اس پوسٹ میں ہم عصمت چغتائی کا مختصر تعارف اور ان کے افسانہ ” آپا” کے سماجی و معاشرتی کرداروں اور خلاصے کے بارے میں پڑھیں گے ۔
عصمت چغتائی کا تعارف اور افسانوی خدمات : اردو ادب میں جن دو ادیبوں نے سب سے زیادہ عورتوں کے جنسی مسائل کو بے خوف اور بے باک انداز میں تحریر کیا، ان میں عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ ان دونوں میں اگر موازنہ کیا جائے تو عصمت کا نمبر پہلا آئے گا، کیونکہ ایک عورت ہو کر عورتوں کے مسائل اتنی بے باکی اور نڈرتا کے ساتھ لکھنا بڑے جگر گردے کا کام ہے۔
پیدائش : عصمت کی پیدائش 21 اگست 1915ء کو بدایوں میں ہوئی۔ آپ کا آبائی وطن بھوپال اور جائے سکونت ممبئی تھا۔
والد : عظیم بیگ چغتائی جو انگریزی حکومت میں کسی سرکاری عہدے پر فائز تھے۔
والدہ: نصرت خانم۔
بھائی، بہن: عصمت دس بھائی، بہنوں( تین بہن اور سات بھائی)میں سب سے چھوٹی تھیں۔
ازدواجی زندگی :
عصمت چغتائی نے 1942ء میں مشہور افسانہ نگار شاہد لطیف سے شادی کی ۔ شاہد لطیف کا 1967ء میں انتقال ہوگیا۔
اولادیں :عصمت کی صرف دو بیٹیاں ہیں،بڑی سیما اور چھوٹی سبرینہ۔
تعلیم: عصمت کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ پھر آگرہ کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کیا اس کے بعد مسلم گرلز ہائی اسکول علی گڑھ سے ہائی اسکول پاس کیا۔ بعد ازاں،بی -اے لکھنؤ سے اور بی ـ ایڈ کی سندِ فراغت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کیا۔
تدریسی خدمات:
عصمت نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز 1937ء میں اسلامیہ گرلز ہائی اسکول بریلی میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے سے کیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ راج محل دربار ہائی اسکول، سپرٹنڈنٹ آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئیں اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے اپنی تدریسی سفر کا خاتمہ کیا۔
وفات:
24 اکتوبر 1991ء کو 76 سال کی عمر میں برصغیر کی یہ عظیم افسانہ نگار اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملی۔ عصمت کو ان کی وصیت کے مطابق کہ ” مجھے نظر آتش کر دیا جائے کیونکہ مجھے قبر سے وحشت ہوتی ہے” ممبئی میں ہی چندن واڑی شمشان گھاٹ پر نظر آتش کر دیا گیا۔
عصمت چغتائی کا افسانہ ” آپا” کا تعارف اور کردار: افسانہ “آپا” مشہور اردو ادیب عصمت چغتائی کا ایک شاہکار ہے، جس میں وہ سماج کے روایتی اور تنگ نظر رویوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ یہ افسانہ خاندان، عورت کی حیثیت، قربانی، اور غیر متوازن رشتوں کے موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے۔
افسانہ” آپا” کا خلاصہ:
افسانہ “آپا” کی مرکزی کردار آپا ہیں، جو ایک روایت پسند، قربانی دینے والی اور ذمہ دار خاتون ہیں۔ وہ اپنے والدین کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے اپنی خواہشات اور جوانی قربان کر دیتی ہیں۔ آپا اپنے آپ کو خاندان کے لیے وقف کر دیتی ہیں اور اپنی شادی تک کا خیال ترک کر دیتی ہیں تاکہ ان کے بہن بھائی خوشحال زندگی گزار سکیں۔
کہانی میں، آپا کی زندگی کا تضاد سامنے آتا ہے: وہ دوسروں کی خوشی کے لیے قربانی دیتی ہیں، لیکن خود تنہائی اور اداسی کا شکار رہتی ہیں۔ بہن بھائی جب بڑے ہو کر اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، تو آپا پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو بھلا دیا جاتا ہے، اور ان کے لیے کوئی خاص جذبات یا قدردانی ظاہر نہیں کی جاتی۔
موضوعات:
عورت کی قربانی: آپا کی زندگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ایک عورت اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر خاندان کی ضروریات کو ترجیح دیتی ہے۔
سماجی دباؤ: کہانی اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ سماج عورت سے کس قسم کی توقعات رکھتا ہے اور اس کے نتائج کس طرح اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تنہائی: آپا کی قربانیوں کے باوجود، ان کی زندگی آخرکار تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے۔
اختتام:
افسانہ ایک افسوسناک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اکثر قربانی دینے والوں کی اہمیت اس وقت سمجھی جاتی ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپا کی زندگی کے ذریعے عصمت چغتائی نے روایتی سماجی ڈھانچے کی سخت تنقید کی ہے اور اس میں موجود عدم توازن کو نمایاں کیا ہے۔
عصمت چغتائی بحیثیت افسانہ نگار :
عصمت کا گھرانہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ تھا۔ باپ کسی سرکاری بڑے عہدے پر فائز تھے، بڑے بھائی مرزا عظیم بیگ چغتائی ایک بڑے اور نامور ادیب و مزاح نگار تھے۔ عصمت نے ان کی صحبت سے کسب فیض کیا اور کم عمری میں ہی ادب اور ادیبوں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اچھی گرفت بنا لی۔ ملکی اور غیر ملکی ادباء اور ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ۔ غیر ملکی ادیبوں میں دوستو سکی، چیخوف، سمرسٹ ماہم اور برناڈشا وغیرہ کی تحریروں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ عصمت برناڈشا کی تحریروں سے کافی متاثر ہوئیں جس کے بنا پر ان کی سہیلیاں ان کو برناڈشا کے لقب سے پکارتی تھیں
نوٹ : امید ہے کہ آپ افسانہ نگار عصمت چغتائی ، ان کی افسانوی خدمات اور ان کا مشہور افسانہ ” آپا” کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.