آج کی اس پوسٹ میں ہم استعارہ ، ارکان استعارہ اور استعارہ کی اقسام کی وضاحت مثالوں کی مدد سے کریں گے ۔
استعارہ:
اردو لغت میں استعارہ کے معنی “عارضی طور پر مانگ لینا” ، ” مستعار لینا ” ، ” عاریتاً مانگنا ” ، ” اُدھار مانگنا ” اور کسی چیز کا عاریتاً لینا وغیرہ ۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایک شے کو بعینہ( ہو بہو ) دوسری شے قرار دے دیا جائے اور اس دوسری شے کے لوازمات پہلی شے سے منسوب کر دئیے جائیں، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہے جس میں ایک لفظ کو معنوی مناسبت کی وجہ سے دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی لفظ کو مختلف معنی میں استعمال کرنے کے لیے ادھار لینا۔ استعارہ میں حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق پایا جاتا ہے، لیکن اس میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہوتا۔ جیسے’ لبِ لعل‘ اور ’سروقد‘ یہاں لب کو لعل سے اور قد کو سرو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور کبھی مشبہ کہہ کر مشبہ بہ مراد لیا جاتا ہے جیسے:’چاند ‘کہہ کر چہرہ اور’ شیر‘ کہہ کر شجاع مراد لینا۔ لیکن تشبیہ میں واضح الفاظ میں موازنہ موجود ہوتا ہے۔ مثلاً: زید کا لاسد (زید شیر کی طرح ہے)تشبیہ اور زید اسد (زید شیر ہے) استعارہ ہے۔ اسی طر ح اگر ماں اپنے بچے کو یہ کہے کہ میرا چاند آگیا یا کوئی شخص یہ کہے کہ خالد شیر ہے۔ پہلے جملے میں بچے کو چاند سے اور دوسرے میں خالد کو شیر سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن دونوں جملوں میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح چاند اور شیر کو حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ تشبیہ کے اس انداز کو استعارہ کہتے ہیں۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن استعارہ میں مشبہ بہ کو عین مشبہ تصور کرلیا جاتا ہے، اور مشبہ بہ کی تمام صفات کو مشبہ کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔
بعض اوقات استعارہ کا استعمال زبان میں اتنا عام ہو جاتا ہے کہ حقیقی معنی میں اس لفظ کا استعمال ختم یا بہت کم ہو جاتا ہے۔ جیسے لفظ متقی کا معنی ’محتاط شخص‘ ہے، لیکن اسے بطور استعارہ خدا کے معاملے میں محتاط شخص یا ’پرہیزگار‘ کے معنی میں اتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اس کا استعمال اپنے اصل معنی میں بہت کم رہ گیا ہے۔ اسی طرح لفظ ’فاسق‘ کا لغوی معنی ’کاٹنے والا‘ ہے، لیکن یہ ’سرکش اور گناہ گار‘ کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے، کیونکہ گناہ گار خدا سے اپنا رشتہ کاٹتا ہے۔ یہ لفظ اب اپنے لغوی معنی میں بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے۔
سجاد مرزا بیگ استعارہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وہ لفظ جو غیر وضعی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ ہو، نیز مشبہ یا مشبہ بہ کو حذف کر کے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا قرینہ بھی ساتھ ہی ظاہر کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد حقیقی معنوں کی نہیں ہے۔ ‘‘
استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ تشیبہ میں حرف تشبیہ کا ہونا لازمی ہے۔ جسے وہ شیر کی مانند ہے۔ استعارے میں حرف تشبیہ نہیں ہوتا جیسے شیر خدا۔ استعارے کی دو قسمیں ہیں۔ استعارہ بالتصریح جس میں فقط مشبہ بہ کا ذکر کریں۔ مثلاً چاند کہیں اور معشوق مراد لیں۔ دوسرے استعارہ بالکنایہ جس میں صفر مشبہ کا ذکر ہو مثلاً موت کے پنجے سے چھوٹے۔ موت درندے سے استعارہ بالکنایہ ہے اور لفظ پنجہ قرینہ ہے۔
مزید وضاحت کے لیے اس کو بھی پڑھیں ۔
استعارہ: استعارہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ادھار لینا یا عاریتاً لینا وغیرہ ۔ علم بیاں کی رو سے اگر کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہو کہ اس کی حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق موجود ہو تو اسے استعارہ کہتے ہیں ۔
مثلاً
تم چاند ہو ، علی شیر ہے اور ثانیہ پھول ہے وغیرہ ۔ استعارہ کی شعری مثال دیکھیں ۔
کسی شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
وضاحت :
لفظ “چاند” اپنے حقیقی معنوں میں آسمان پر موجود ایک سیارے کا نام ہے جو رات بھر چاندنی بکھیرتا ہے لیکن جب یہ لفظ کسی شخص کے لیے استعمال کیا جائے تو مجازی معنوں میں استعمال ہوگا یعنی اس شخص کو چاند کہہ کر اس کی خوبصورتی کو واضح کرنا مقصود ہوگا۔ بعینہ لفظ “شیر” حقیقی معنوں میں جنگل کا درندہ ہے اور مجازی معنوں میں بہادر شخص تصور کیا جاتا ہے چنا نچہ کسی حسین کو چاند اور کسی بہادر کو شیر کہنا استعارہ ہے۔ استعارہ کی بنیاد بھی تشبیہ پر ہی ہوتی ہے فرق یہ ہے کہ تشبیہ کسی ایک چیز کو دوسری کی مانند قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس استعارے میں ایک چیز کو ہو بہو وہی قرار دے دیا جاتا ہے مثلاً
تم چاند کی طرح خوبصورت ہو( تشبیہ)
تم چاند ہو (استعارہ )
ارکانِ استعارہ :
استعار کے مندرجہ ذیل تین ارکان ہیں : ۔
مستعار لہ ، مستعار منہ اور وجہ جامع
1۔ مستار لہ :
جس شخص یا چیز کے لیے کوئی لفظ مستعار لیا جائے اسے مستعار لہ کہتے ہیں جیسے تم چاند ہو ۔
اس جملے میں تم یعنی کوئی شخص مستعار لہ ہے ۔
2۔ مستعار منہ :
جس سے کوئی لفظ ادھار لیا جائے اسے مستعار منہ کہتے ہیں جیسے کہ اوپر کی مثال میں چاند ۔
نوٹ : مستعار لہ اور مستعار منہ کو طرفین استعارہ بھی کہتے ہیں نیز یہ بات بھی یاد رہنا چاہیے کہ استعارہ میں مستار لہ کا ذکر نہیں ہوتا البتہ قرینے سے معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
3۔ وجہ جامع :
مستار لہ اور مستعار منہ میں پائی جانے والی مشترک خوبی وجہ جامع کہلاتی ہے ۔ وجہ جامع کا بھی استعارے میں ذکر موجود نہیں ہوتا البتہ غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر والی مثال میں تم اور چاند کے بیچ وجہ جامع یعنی مشترک خوبی خوبصورتی ہے ۔
استعارہ کی اقسام :
استعارہ مطلقہ:
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ میں سے کسی کے کسی قسم کے مناسبات کا ذکر نہ کیا جائے۔
استعارہ مجردہ:
جس میں مستعار منہ کے مناسبات کا ذکر ہو۔
استعارہ تخییلیہ:
وہ استعارہ جس میں متکلم ایک چیز کو دوسری شے کے ساتھ دل ہی میں مماثلت طے کرکے سوائے مستعار لہ کے کسی کا ذکر نہ کرے۔
استعارہ وفاقیہ:
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ دونوں کی صفات ایک ہی چیز یا شخص میں جمع ہو جائیں۔ یعنی ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ممکن ہو۔
استعارہ عنادیہ:
وہ استعارہ جس میں مستعارلہ اور مستعار منہ کی صفات کا کسی ایک چیز میں جمع ہونا ممکن نہ ہو۔
استعارہ عامیہ:
وہ استعارہ جس میں وجہ جامع بہت واضح ہو۔ اسے مبتذلہ بھی کہتے ہیں۔
تشبیہ اور استعارے میں فرق:
1۔تشبیہ استعارے کی ابتدائی صورت ہے جبکہ استعارہ تشبیہ کی بلیغ ترین صورت ہے۔
2۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر مبنی ہوتی ہے اور استعارے کی بنیاد مجاز پر ہوتی ہے ۔
3۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر ہوتا ہے جبکہ استعارے میں صرف مستعار منہ کا ذکر آتا ہے ۔
4۔ ارکان تشبیہ پانچ ہیں جن میں سے کبھی چار اور کبھی تین اور کبھی دو کا ذکر ہوتا ہے جبکہ ارکان استعارہ تین ہیں جن میں سے صرف ایک یعنی مستعار منہ کا ذکر ہوتا ہے ۔
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔ شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.