ادا جعفری

آج کی اس پوسٹ میں ہم ادا جعفری کی سوانح حیات ، شاعری ، فکر و فن اور تصانیف پر سیر حاصل بحث کریں گے ۔

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا

یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

ابتدائی تعارف : ادا جعفری کا تعلق شمالی ہند کی مردم خیز سر زمین بدایوں سے ہے ۔ بدایوں ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ بدایوں شہر علم پسندوں کی ایک پرکشش بستی رہی ہے ۔ یہ شہر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی جائے پیدائش اور بہت سے صوفیائے کرام اور روحانی ہستیوں کی آخری آرام گاہ ہے ۔ ادا جعفری اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ ادا جعفری کی پیدائش 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولوی بدر الحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری کبھی سکول یا کالج نہیں گئی بلکہ انھیں گھر پر ہی تعلیم دی گئی ۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانا اور کوئی باقاعدہ سکول و کالج میں تعلیم حاصل نہ کر سکنا ادا جعفری کا بہت بڑا خسارا تھا ۔ جس کی انھیں بڑی حسرت رہی ۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ۔ ادا جعفری کی شخصیت میں کتابوں بچوں اور مظاہر فطرت سے محبت اور قربت کا احساس بچپن ہی سے شامل رہا ہے۔ زندگی کی انہیں خوشیوں کو ترتیب دے کر وہ اپنے اداس دل کے بہلاوے کی صورتیں پیدا کر لیتی تھیں۔ ابتدا میں انھوں نے کاغذ اور قلم تھام کر ہر گزرنے والے لمحے کا حساب درج کرنا شروع کر دیا ۔ وہ بڑی باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتی تھیں۔ اپنی ڈائری میں اپنے روز و شب کا احوال لکھتے ہوئے وہ اپنے جذبوں کی کہانیاں رقم کیا کرتی تھیں۔ کاش یہ ڈائری اگر آج دستیاب ہوتی تو اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ ابتدائی زندگی میں وہ کن کن جذبات و احساسات سے دو چار رہی تھیں۔ وہ ابتدا میں ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت حسرت موہانی کے ادبی رسالے” رومان ” میں ان کا کلام تواتر سے شائع ہوتا تھا ۔ رومان کے علاوہ اور ادبی رسالوں میں بھی ان کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں اعلیٰ آفیسر نور الحسن جعفری سے انجام پائی۔  شادی کے بعد ادا  جعفری کے نام سے لکھنے لگی ۔

ادا جعفری کی شاعری کی خصوصیات : ادا جعفری کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا شعور حیات اور دل آویزیٔ فن کے سائے میں کہا۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کی بدولت ان کا ہر شعر ان کی شناخت کراتا ہے ۔ اردو شاعری میں خواتین قلمکاروں کا بہت اہم رول رہا ہے۔ سخن ترازی اور نثر نگاری کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں خواتین قلمکار اپنے جلوے بکھیرنے کے لئے موجود نہ ہوں۔ اردو شاعرات میں ادا جعفری ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ اردو ادب کے ناقدین نے انہیں  ” اردو شاعری کی خاتون اول”  قرار دیا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے بھی صاحب طرز شاعرات گزری ہیں اور ان کے بعد بھی شاعرات نے اپنی نگارشات کے جوہر دکھائے ہیں، لیکن ادا جعفری اردو شاعری کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ ادا جعفری نے اس دور میں روایتی نسائی شاعری سے انحراف کیا جب خواتین کی شاعری روایت پسندی کے ارد گرد ہی گھوما کرتی تھی۔ ادا جعفری شاعرہ بھی تھیں اور مصنفہ بھی۔ انہوں نےافسانے بھی لکھے اور خود نوشت بھی۔ خود نوشت بہت مقبول ہوئی، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ ادا جعفری کی قلمی سرگزشت پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لینا بر محل محسوس ہوتا ہے۔

ادا جعفری کا تعلق شمالی ہند کی مردم خیز سر زمین بدایوں سے تھا۔ بدایوں ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ وہ 22 اگست 1924 میں بدایوں کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئیں لیکن محض تین برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کا بچپن ننہال میں گزرا۔ انہیں کبھی اسکول کالج جانے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی تعلیم گھر پر ٹیوٹر رکھ کر کرائی گئی۔ انھوں نے اردو فارسی اور انگریزی میں مہارت حاصل کی۔ دو صدمے وہ زندگی بھر فراموش نہ کر سکیں۔ ایک تو نہایت کم عمری میں داغ یتیمی کا ملنا اور دوسرا باقاعدہ کالج میں جا کر تعلیم حاصل نہ کر پانے کا ملال۔ ان کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ شعر و ادب کے مطالعہ کا شوق ہی ان کے شعر گوئی کی جانب مائل ہونے کا سبب بنا۔ انہوں نے محض نو سال کی عمر میں ہی شعر موزوں کرنا شروع کر دیئے تھے۔ ان کی شاعری کے ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کی ماں کا بہت اہم رول رہا۔ عزیز جہاں کی شاعری کی شہرت اس دور کے معیاری رسائل کی بدولت بہت جلد دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ان کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940 کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ “رومان” کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں ” شاہکار ” اور  ” ادب لطیف ” وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھی۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ” میں ساز ڈھونڈتی رہی”  1947ء میں ہی تیار ہو گیا تھا لیکن تقسیم وطن کے ہنگاموں اور ان کی پاکستان ہجرت کے سبب اس کی اشاعت 1950ء میں ممکن ہو سکی ۔

وہ جدید اردو شاعری کے معماروں میں شمار ہوتی ہیں۔ ادا جعفری نے یکساں مہارت کے ساتھ غزلیں اور نظمیں کہیں۔ ادا جعفری کی شاعری زندگی کے فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت سے عبارت بھی ہے اور روایتی نسائی شاعری سے یکسر انحراف بھی۔ جو عوامل اور عناصر ادا جعفری کی شعری اور تخلیقی جوہر کو منفرد اور ممتاز بناتے ہیں وہ ان کے لہجے کی شائستگی، دلآویزی اور صدا آفرینی ہے۔

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

انھوں نے ایک خاتون قلمکار کی حیثیت سے انسان کی ایسی نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو بیان کیا ہے جو نہ کسی مرد شاعر سے ممکن ہے اور نہ ان کی ہم عصر اور ان سے قبل کی شاعرات کی رسائی ان موضوعات و کیفیات تک تھی۔

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت انساں

میں جنت انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں

 

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا

یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

ادا جعفری نے ذات کے خول سے باہر نکل کر کائنات کے عام لوگوں کے احساسات، جذبات اور مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ادا جعفری کے یہاں عشق کا برملا اظہار نہیں ہے بلکہ عشق و محبت اور وارفتگی کی تپش ان کے لہجے میں محسوس کی جا سکتی ہے ۔  اردو شاعری میں خواتین قلمکاروں کا بہت اہم رول رہا ہے۔ سخن ترازی اور نثر نگاری کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں خواتین قلمکار اپنی شاعری کے جلوے بکھیرنے کے لئے موجود نہ ہوں۔ اردو شاعرات میں ادا جعفری ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ اردو ادب کے ناقدین نے انہیں “اردو شاعری کی خاتون اول” قرار دیا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے بھی صاحب طرز شاعرات گزری ہیں اور ان کے بعد بھی شاعرات نے اپنی نگارشات کے جوہر دکھائے ہیں، لیکن ادا جعفری اردو شاعری کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ ادا جعفری نے اس دور میں روایتی نسائی شاعری سے انحراف کیا جب خواتین کی شاعری روایت پسندی کے ارد گرد ہی گھوما کرتی تھی۔ ادا جعفری شاعرہ بھی تھیں اور مصنفہ بھی۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے اور خود نوشت بھی۔ خود نوشت بہت مقبول ہوئی، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

ادبی خدمات : ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ پروین شاکر اور ادا جعفری دو ایسی شاعرات ہیں جن کی غزلیں اور نظمیں نصاب کا حصہ بن چکی ہیں ۔ شاعری کے علاوہ ادا جعفری ایک اچھی نثر نگار اور افسانہ نگار بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ ادا جعفری نے جاپانی صنف ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ ” ساز سخن بہانہ ہے ” مجموعہ ہائیکو پر ہی مشتمل ہے ۔مگر ان کا اصل میدان شاعری ہے وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں جس سے شعر و ادب کے میدان میں ان کے کلام کو سراہا جا رہا ہے ۔ وہ جو کچھ کہ رہی ہیں حرف و صوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکر و جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج وہ ہمارے نصاب کا بھی حصہ ہیں ۔

خاتون اول : مشہور شاعر اور نقاد فرمان فتح پوری نے ادا جعفری کو ” اردو شاعری کی خاتون اول ” کا نام دیا ۔ اگرچہ اس وجہ سے ادبی حلقوں میں بڑی تنقید بھی ہوئی جس کا فرمان فتح پوری نے دفاع بھی کیا ۔ اسی طرح میری بھی ناقص رائے کے مطابق وہ اس تعریف کی حقدار بھی تھیں ۔

تصانیف: میں ساز ڈھونڈتی رہی ، شہر درد ، غزالاں تم تو واقف ہو ، حرف شناسائی ، ساز سخن بہانہ ہے ، موسم موسم اور جو رہی سو بے خبر رہی ۔

وفات : ادا جعفری مختصر علالت کے بعد 12 مارچ،2015ء کو کراچی میں انتقال فرما گئیں ۔  

 : ادا جعفری کے چند مشہور اشعار 

اک راہ رک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ

آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی

 

وہ اور ہوں گے کنارے سے دیکھنے والے

مری نہ پوچھ کہ طوفاں کے ناز اٹھائے ہیں

 

افق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں سے

فسوں بدوش نظارے بلا رہے ہیں مجھے

 

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply