احمد ندیم قاسمی کا فکر و فن

احمد ندیم قاسمی کے فکر و فن پر نوٹ لکھیں ۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور غزل گو شاعر احمد ندیم قاسمی کے فکر و فن ، شاعری اور تصانیف کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

 میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

ابتدائی تعارف : احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا ۔ ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں 20 نومبر1916ء کو پیدا ہوئے۔ احمد ندیم قاسمی اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔  ندیم ان کا تخلص تھا۔اپنے پردادا محمد قاسم کی رعایت سے ” قاسمی ” کہلائے ۔ ان کے والد کا نام پیر غلام نبی تھا۔ ان کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد اور تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے اور والدہ غلام بی بی بھی ایک نیک صفت خاتون تھیں ۔

ابتدائی تعلیم : احمد ندیم  کی تعلیم کا سلسلہ گاؤں سے ہی شروع ہوا ۔ 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ 1921ء – 1925ء میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا ۔

عملی زندگی کا آغاز : احمد ندیم قاسمی کی عملی زندگی کا آغاز 1935ء میں ہوا ۔ انھوں نے 1931ء میں  صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخلہ لیا جہاں سے 1935ء میں بی۔اے کیا ۔1939ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937ء تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939ء  1941ء کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی ۔

قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات سے بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گذر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات  اختر شیرانی سے ہوئی۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے اب ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔

اسی دوران احمد ندیم قاسمی کی ملاقات سید امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے قاسمی صاحب کو  اپنے ماہ نامہ رسالے  ” پھول ” کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ ماہ نامہ رسالہ ” پھول ” بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی دلچسپ اور سبق آموز نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں ۔

ترقی پسند تحریک سے وابستگی: 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کا قیام عمل میں لایا گیا تو جہاں اور بہت سے شعراء اور ادباء اس تحریک کا حصہ بنے وہاں احمد ندیم قاسمی بھی اس تحریک سے وابستہ ہوئے ۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب یہ تحریک نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے معزرت کر لی ۔

 شاعری کی نمایاں خصوصیات: احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔  وہ ایک بلند پایا شاعر ، منفرد افسانہ نگار ،ممتاز صحافی اور عمدہ نقاد تھے ۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت پر ان کے چچا بہادر حیدر شاہ کا گہرا اثر تھا ۔ ان کے چچا علامہ اقبال کے ہم سبق تھے ۔ اس طرح احمد ندیم قاسمی کو شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔

صحافتی خدمات : احمد ندیم قاسمی شاعر ،ادیب ، مفکر ، مدبر اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے صحافی بھی تھے ۔ احمد ندیم قاسمی نے صحافت میں بھی دلچسپی لی انھوں نے کئی ادبی رسائل شائع کیے جن میں پھول ، تعلیم نسواں ، نقوش ، سویرا ، ماہنامہ جنگ ، ادب لطیف ، تہزیب نسواں ، سحر ، فنون اور روز نامہ امروز شامل ہیں ۔ بلکہ  رسالہ” فنون ” تو ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا ۔ جس میں وہ “حرف و حکایت” کے نام سے اخبارات میں فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے ۔

بطور افسانہ نگار : احمد ندیم کا پہلا افسانہ ” بد نصیب بت تراش ” ہے ۔ احمد ندیم کی تحریر سادہ اور رواں ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع دیہات کے رہنے والے عام لوگوں کے مسائل اور جذبات ہیں ۔ محبت کا جذبہ ایک فطری حقیقت ہے ۔ دیہات کے لوگ محنتی ، جفاکش اور زندگی کی بہت سی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں لیکن محبت کا جذبہ ان کے ہاں بھی کار فرما ہوتا ہے ، اور یہی حقیقت احمد ندیم قاسمی کا موضوع ہے ۔ ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کا عکس ملتا ہے اگرچہ احمد ندیم قاسمی کی زیادہ تر توجہ افسانہ نگاری پر رہی اور انہوں نے افسانے مسلسل لکھے لیکن ان سے ان کے شاعرانہ عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔

بطور شاعر : کہا جاتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی نے 1926ء-27ء میں پہلا شعر کہا۔ پہلی نظم 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی جو روز نامہ ” سیاست” لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942ء میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939ء میں شائع ہوا ۔ وہ نہ صرف اچھا افسانہ لکھتے تھے بلکہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔ ان کی شاعری میں ایک طرف کلاسیکی سج دھج ہے تو دوسری طرف جدید انداز و آہنگ بھی موجود ہے ۔ ان کی شاعری میں عصری آگاہی کا شعور ملتا ہے ۔ ان کی بعض نظمیں موسیقیت کے حوالے سے بڑی پر اثر ہیں ۔ انھوں نے نظم ، غزل ، صحافت اور افسانہ سب پہ کام کیا اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ، تاہم ان کی پہچان شاعری اور شاعری میں بھی غزل کے حوالے سے ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام ” دشت وفا ” پر انہیں آدم جی ایوارڈ بھی ملا ہے ۔

مجموعہ ہائے کلام :

 نثری تصانیف : چوپال ، بگولے ، طلوع و غروب ، گرداب ، آنچل ، سیلاب ، آس پاس ، سیلاب و گرداب ، آبلے ، در و دیوار ، سناٹا ، بازار حیات ، برگ حنا ، گھر سے گھر تک ، کوہ پیما ، اس راستے پر  ، پت جھڑ ، کپاس کا پھول اور نیلا پتھر وغیرہ ۔

شعری تصانیف:

دھڑکنیں

رِم جھم

جلال و جمال

شعلۂ گُل

دشتِ وفا

محیط

دوام

لوح خاک

ارض و سماء

بسیط

ندیم کی نظمیں

ندیم کی غزلیں 

 ندیم بیت بازی اور ندیم کی منتخب نظمیں وغیرہ شامل ہیں ۔

وفات : ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ان کی اولاد ہیں ۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انھیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے  پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انھیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے ۔ لاہور ہی میں ملتان روڈ پر ملت پارک کے نزدیک شیخ المشائخ قبرستان لاہور میں انھیں دفن کر دیا گیا  ۔

اعزاز: احمد ندیم قاسمی نے زندگی تو جیسے تیسے گزاری یا ان کے ساتھ کیا کیا سلوک ہوتا رہا مگر بعد از مرگ ہم نے اسے ضرور اعزازات سے نوازا ۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

10جولائی 2009ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے احمد ندیم قاسمی کی تیسری برسی کے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پر احمد ندیم قاسمی کی ایک خوب صورت تصویر لگائی گئی ۔ پانچ روپیہ مالیت کا یہ ڈاک ٹکٹ فیضی امیر صدیقی نے ڈیزائن کیا تھا اور اس پر انگریزی میں

3RD DEATH ANNIVERSARY OF AHMAD NADEEM QASMI 

کے الفاظ تحریر تھے ۔

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply