اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں پنجاب بورڈ کی غزل ” اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا ” جس کے شاعر مومن خان مومن ہیں ، پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج ، راحت فزا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : رنج (دکھ ) ، راحت فزا (سکون دینے والا ، خوشی دینے والا)
مفہوم : میری باتوں کا محبوب پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ مجھے کوئی سکون کا لمحہ نہیں دیتا ۔
تشریح : مومن خان مومن نے تشریح طلب شعر میں ایک روایتی موضوع باندھا ہے مگر ایسی سادگی کے ساتھ جو صرف مومن خان مومن کا ہی خاصہ ہے ۔ اس شعر میں محبوب کی سنگ دلی اور بے رحمی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ مومن خان مومن کہتے ہیں کہ میری وفاؤں اور محبتوں کا محبوب پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ وہ میری باتوں پر کان نہیں دھرتا۔ میری کہی ہوئی باتیں اس کے لیے ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتی عاشق کی خوش نصیبی اسی بات میں منحصر ہے کہ اس کا محبوب اس سے وفا کرے ۔ اس کی بات سنے مگر محبوب وہی ظلم و ستم کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں اور اس طرح سے عاشق کو تڑپا رہا ہے اور اس کا دل پاش پاش کر رہا ہے ۔ ایک سچے عاشق کی خوشی تو اسی بات میں ہے کہ اس کا محبوب ہر طرف سے اس کی بات کو اہمیت دے اور اس پر نظرِ التفات کرے مگر محبوب کی بے رحمی اور سنگ دلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عاشق اس کو دل و جان سے چاہتا ہے پھر بھی وہ ذرا برابر بھی اس بات پر توجہ نہیں دیتا ۔ یوں عاشق بےچارہ دکھی دل کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
شاعر ایسے محبوب سے محبت کر بیٹھا ہے جو جذبات اور احساسات سے عاری ہے ۔ لہٰذا اسے عاشق کی کچھ پرواہ نہیں ۔ شاعر کی کسی قربانی یا جانثاری کا محبوب پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ اسی لیے عاشق کا رنج خوشی میں تبدیل نہیں ہو رہا اور وہ مستقل طور پر غم کی وادی میں پڑا ہوا ہے ۔
بقول شاعر :
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
شعر نمبر 2 :
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : ذکر اغیار (غیروں کا ذکر) ، ناصح (نصیحت کرنے والا)
مفہوم : جب محبوب نے اغیار کی محبت کا دم بھرا تب ناصح کی باتیں یاد آنے لگیں ۔
تشریح : اردو شاعری میں عاشق اور ناصح کی جنگ جاری رہتی ہے ۔ ناصح اپنے تجربات اور ٹھوس حقائق سے عاشق کو عشق کی پرخار وادی سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر عاشق اس نصیحت کرنے والے کی ایک نہیں مانتا ، ایک نہیں سنتا ۔
تشریح طلب شعر کے اندر بھی ناصح نے عاشق کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ محبتوں کے اس سفر سے اجتناب کرو کیونکہ آج کل محبوب لوگ محبتوں اور وفاؤں جیسے الفاظ کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ دوسرا محبوب کبھی عاشق پر پیار نچھاور نہیں کرتا بلکہ غیروں سے محبت کرتا ہے ان سے وفاؤں کا دم بھرتا ہے مگر عاشق کہاں باز رہنے والا تھا ۔ جب عاشق وفا کی وادی میں کود پڑا تو اسے علم ہوا کہ محبوب تو ہمیشہ کی طرح بے وفا اور ہرجائی ثابت ہوا ۔ وہ میرے سامنے میرے دشمنوں اور غیروں کا ذکر بڑی مسرت اور خوشی سے کرتا ہے اور جب میرا ذکر آتا ہے تو وہ آنکھیں چرانے لگ جاتا ہے۔ پھر عاشق کو یقین ہوا کہ وہ لوگ جو مجھے نصیحت کرتے تھے اور ہر طرح سے ان کاموں سے روکتے تھے وہ لوگ سچے تھے ۔ آج ان کی کہی ہوئی باتیں یاد آ رہی ہیں کہ ناصح نے جن باتوں سے مجھے روکا تھا وہ ساری باتیں میرے حق میں بہتر تھیں مگر اس وقت عاشق پر پیار کا ایسا بھوت سوار تھا جس کو اتارنا مشکل تھا ۔ جب محبوب نے دوسرے لوگوں سے دل لگی کی اور ان کا ذکر کیا تو عاشق کے سامنے ناصح کی ایک ایک بات ذہن میں گردش کرنے لگی اور اس نے دل میں مان لیا کہ ناصح کا ایک ایک حرف سچ تھا مگر افسوس کہ میں نے ناصح کی نصیحتوں کو نظر انداز کیا ۔ آج جب محبوب نے غیروں کا ذکر بڑے پیار سے کیا ہے تو میری آنکھیں کھل گئی ہیں کہ محبوب واقعی ہرجائی ہے اور ناصح جو کچھ نصیحت کرتا تھا وہ سچ پر مبنی ہوتی تھی۔
شعر نمبر 3 :
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : کیا نہیں ہوتا (کیا کچھ نہیں ہوتا مراد سب کچھ ہو جاتا ہے)
مفہوم : دنیا میں ہر کام ممکن ہے مگر ایک کام ممکن نہ ہو سکا کہ محبوب مسیحائی نہیں کی ۔
تشریح : مومن خان مومن کا یہ شعر سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے ۔ یہ دنیا اتفاقات کی دنیا ہے یہاں سب کچھ ممکن ہے کئی ناممکنات آج کے دور میں ممکنات میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن عاشق کو رہ رہ کر اپنی حسرتوں پر ترس آتا ہے کہ میں اتنا سیاہ نصیب کیوں ہوں کہ یہاں سب کچھ ہو رہا ہے زمین و آسمان مل رہے ہیں لیکن میرا محبوب کسی بھی صورت میرا نہیں بن سکا ۔ اس نے میری محبت اور میری وفا کو ہر طرح جانچنے کے باوجود بھی نظر کرم نہیں کی جبکہ میں نے اس کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ اس کے ہرجائی پن کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ وہ جتنا اپنے محبوب سے قرب کا اظہار کرتا ہوں وہ اتنا دور ہو جاتا ہے ۔
بقول شاعر :
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
میں نے ہر طرح سے اپنے محبوب کو رام کرنے کی کوشش کی ۔ طرح طرح کے جتن کیے مگر وہ میرا نہ بن سکا ۔ نہ جانے وہ مجھ سے اتنا نالاں کیوں ہے ۔ میں نے محبت کی انتہا کر دی ۔ اس کے باوجود اس کے دل میں میرے لیے محبت کی چنگھاریاں نہیں سلگ سکیں اور وہ میرا نہیں بن سکا ۔
بقول شاعر :
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
شاعر جب گردش و پیش میں نظریں دوڑاتا ہے تو اسے اپنی کم نصیبی پر بہت حیرت ہوتی ہے کہ ساری دنیا کے کام ہو رہے ہیں سب کچھ ممکن ہے مگر میں نے اپنے محبوب کے لیے سب کچھ کیا اس کے ایک ایک حکم پر سر تسلیم خم کیا ۔ اس کی ہاں میں ہاں ملائی اس کی خاطر ہر ستم کو ہنس کر برداشت کیا مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود افسوس کہ میرا محبوب میرا نہ بن سکا ۔ محبوب کو اپنانے کی میری یہ حسرت میرا ایک ادھورا سپنا بن کے رہ گئی ہے۔
شعر نمبر 4 :
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : گویا ( ہم کلام ہونا ، گفتگو کرنا )
مفہوم جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو بھی کوئی میرے خیالوں میں رہتا ہے جو مجھے تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتا ۔
تشریح : مومن خان مومن کے اس شعر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے استاذ الشعرا مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا کہ ” اگر مومن اس ایک شعر کے بدلے میرا سارا دیوان لے لیں تو بھی مجھے فائدہ ہوگا اور یہ امر میرے لیے ذریعہ تسکین ہوگا ” یہ شعر سہل ممتنع کی ایک خوبصورت مثال ہے ۔ بظاہر یہ شعر بہت سادہ ہے مگر اپنے اندر بہت گہرائی سمیٹے ہوئے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں جب بھی اکیلا ہوتا ہوں اور یاد کے دریچے میں جب جھانکتا ہوں تو میرا محبوب میرے ساتھ ہوتا ہے گویا یاد تنہائی میرے لیے کوئی محرومی یا مایوسی نہیں ہے بلکہ یہ یاد میرے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہے ۔ میں جب بھی تنہا ہوتا ہوں تو محبوب میرے ساتھ خیال کی وادیوں میں ، دھیان کے آتش دان میں ہر وقت موجود ہوتا ہے ۔
بقول شاعر :
خیال یار تیرے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمال یار تیری محفلیں گلاب کے پھول
مومن خان مومن نے اس شعر میں گویا کہ لفظ سے ذو معنویت پیدا کی ہے اسی وجہ سے شعر کی وقعت بڑھ گئی ہے گویا کہ ایک معانی ہم کلام ہونا اور گفتگو کرنا کے بھی ہیں
۔ شاعر کہتا ہے کہ میں کبھی بھی تنہا نہیں ہوتا خیال کی بزم ہر وقت سجی رہتی ہے جہاں ایک ساتھ ایسا ہے جو میرے لیے روح اور جسم کا سا ہے ۔ اکیلا ہونے کے باوجود ایک ساتھ ایسا ہے کہ میں جس میں گم ہو جاتا ہوں ۔ جو مجھے کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتا گویا تصور کی وادی میں کبھی بھی تنہائی محسوس نہیں کرتا ہوں اور ہر لمحے میں اپنے محبوب کو اپنے پاس محسوس کرتا ہوں ۔
شعر نمبر 5 :
حال دل محبوب کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : کیوں کر ( کیسے ، کس طرح)
مفہوم : دل میں درد کی وجہ سے ایک ہاتھ ہمیشہ دل پر رہتا ہے ۔ اس حالت میں محبوب کو حال دل کیسے لکھوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری دلی خواہش تھی کہ اپنے اوپر گزرنے والی کیفیات کو رقم کرتا اور ان کو محبوب تک پہنچاتا میرے دل کا حال کیا ہے ۔ اس پر کس طرح تیرے بغیر اداس موسم گزرتے ہیں اور تیری جدائی میں کس طرح وقت کٹتا ہے ۔ میں اپنے دل پر کس طرح جبر مسلسل کر رہا ہوں ۔ بڑا دل تھا کہ پیار کے کاغذ پر ، دل کے قلم سے ، یہ ساری داستان رقم کر کے محبوب تک پہنچاتا مگر میں یہ کر بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ میں اپنے اوپر گزرنے والی ان اذیتوں ، بے تابیوں اور بے چینیوں کا حال بڑی وضاحت سے لکھنا چاہتا تھا۔ لیکن لکھنے کے لیے ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے اس بے چین اور مضطرب دل کو سہارا دے رکھا ہے اے میرے محبوب اگر میں نے اپنے دل سے ان ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کی تو مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ دل اپنی جگہ قائم دائم نہیں رہ سکے گا اسی خوف سے میں اپنا ہاتھ دل سے جدا نہیں کر رہا ۔ گویا شاعر کی ساری کیفیات اور اس کے دل پر گزرنے والی قیامتیں محبوب تک نہیں پہنچ سکتی ۔ شاید اگر محبوب تک یہ ساری کیفیات تحریری شکل میں پہنچ جاتی تو اس کے دل میں جذبہ محبت جاگ اٹھتا مگر شاعر راہ محبت میں ملنے والی جدائیوں کے کرب اور کانٹوں سے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہاتھ دل سے جدا کرے تو دل باہر کو آتا ہے اور اگر ہاتھوں سے دل کو سہارا دے رکھے تو پھر اپنے اوپر گزرنے والی قیامت ساعتوں کا مرثیہ نہیں لکھ سکتا ۔ محبوب کو اپنا دل کا حال بھی بیان نہیں کر سکتا اور اس کا ہاتھ دل پر رکھا ہوا ہے ۔
شعر نمبر 6 :
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو ، تمہارے سوا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی: چارہ دل (دل کا علاج) ، سوائے صبر( صبر کے بغیر )
مفہوم : دل کا علاج سوائے صبر کے ممکن نہیں مگر صبر بھی تمھارے بغیر نہیں آتا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے عمدہ رنگ میں ایک عاشق زار کے حال دل کو بیان کیا ہے ۔ ہر عاشق کی یہ دلی حسرت ہوتی ہے کہ اس کو محبوب کا قرب نصیب ہو ۔ جدائی کی گھڑیاں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں ۔ جن کو کاٹنا بڑا ہی کٹھن ہوتا ہے ۔
شاعر کہتا ہے کہ عاشق صادق محبوب کے کرب اور اذیتیں سہتے سہتے اب اس موڑ پہ آ چکا ہے کہ اسے اب صبر کا جام پی جانا چاہیے ۔ یہی اس کے دل کے لیے بہتر ہوگا اور حقیقت میں اس کی اس بگڑتی ہوئی حالت کا علاج بھی یہی ہے ۔ اسے چاہیے کہ اب محبوب کی جدائی پر صبر کر جائے یہی اس کے دکھی دل کا علاج ہے ۔ مگر راہ وفا کا متلاشی ہمیشہ اسی بات کے لیے آخری دم تک بضد رہتا ہے کہ اس کا محبوب اس کو مل جائے ۔ شاعر دوسرے مصرعے میں اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ عاشق کو تسکین اور مسرت تو اسی وقت ہونی تھی جب اس کا محبوب اس سے لذت وصل سے آشنا کرتا مگر محبوب نے وہی حسینوں کا شیوہ اپنا رکھا ہے اور عاشق صادق سے دور ہے ۔ سو عاشق کے دل کا علاج صبر کے سوا کچھ نہیں اور اسے صبر صرف اور صرف اسی صورت میں آئے گا جب اس کا محبوب اسے ملے گا اور وہ صرف اور صرف اپنے محبوب کو چاہتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے دکھتے ہوئے دل کی دوا اور کچھ نہیں ۔
بقول مرزا غالب :
عاشقی صبر طلب اور تمنا بےتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
شعر نمبر 7 :
کیوں سنے عرضِ مضطرب مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
مشکل الفاظ کے معانی : صنم (بت مراد محبوب) ، مضطرب( بے چین ، بے قرار ، پریشان)
مفہوم : محبوب میرے بے چین دل کی بے چینی سے بے خبر کیونکہ وہ ایک بت ہے خدا تھوڑی ہے اور بت کہاں کسی کی سنتے ہیں ۔
تشریح : عاشق محبوب کی سنگ دلی اور شقاوت سے تنگ آ کر کہتا ہے کہ میرا محبوب میری التجاؤں ، میری وفاؤں ، میری محبتوں اور میری صداؤں پر بالکل توجہ نہیں دیتا ۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سن کے اڑا دیتا ہے ۔ میری کہی ہوئی بات کا ذرا بھر بھی اثر نہیں لیتا ۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتا۔
بقول مومن خان مومن :
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج ، راحت فزا نہیں ہوتا
جب عاشق محبوب کی اس سنگ دلی سے تنگ آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا محبوب آج میری گذارشات پر توجہ نہیں دے رہا تو ٹھیک ہے وہ توجہ کیوں دے وہ میری باتوں پہ لبیک کیوں کہے وہ میری ایک ایک عرض پر کیوں حاضر جوابی کا ثبوت دے ۔ وہ تو بہت بے رحم اور پتھر دل ہے ۔ وہ کام تو صرف خدا کا ہے جو بندے کی عرضیوں پر جواب دیتا ہے ۔ اسے پکارا جاتا ہے تو وہ لبیک کہتا ہے ۔ مجھے اپنے محبوب کی اس بے اعتنائی اور بے رخی پر افسوس نہیں کیونکہ وہ تو پتھر کے بت کی طرح ہے اور بتوں پر صدائیں اثر نہیں کرتی ۔ اسی لیے شاعر کہہ رہا ہے کہ میری عرض محبوب کیوں سنے گا ۔ وہ کوئی خدا تھوڑی ہی ہے جو انسان کی ہر عرض اور ہر گزارش کو سنتا ہے اور پھر پوری توجہ سے جواب بھی دیتا ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ مومن خان مومن کی اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.