اب تو کچھ اور ہی اعجاز دیکھایا جائے
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، پنجاب بورڈ کی غزل ” اب تو کچھ اور ہی اعجاز دیکھایا جائے” جس کے شاعر احمد ندیم قاسمی ہیں ، کی تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
اب تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے
شام کے بعد بھی سورج نہ بجھایا جائے
مشکل الفاظ کے معانی : اعجاز( معجزہ ، انوکھی بات)
مفہوم : کوئی ایسا نیا کام کیا جائے کہ رات کو بھی روشنی رہے ۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو ۔
تشریح : احمد ندیم قاسمی غزل کے اس مطلع میں لکھتے ہیں کہ اب تو کچھ ایسا عجیب و غریب کام کیا جائے کہ جو عام روایت سے ہٹ کر ہو دوسرے مصرعے میں اس کام کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ یہ اندھیروں کا جو سفر ہے اس کو ختم کیا جائے ۔ شام کے بعد بھی تاریکی نہ ہو بلکہ اجالا ہی اجالا رہے۔ شام کے بعد بھی سورج روشن رہے اور یہ جو معاشرے پر ظلمتیں چھائی ہوئی ہیں یہ ختم ہو جائیں ۔ میری قوم روشنی سے اپنی منزل کی طرف جانے والے راستوں کا یقین کر لے گویا احمد ندیم قاسمی نے رجائیت سے بھرپور لہجے میں اس انوکھے کام کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اب رات بھی رات نہ لگے بلکہ ہر طرف دن کی روشنی ہی روشنی نظر آئے ۔
بقول شاعر :
کچھ اور بڑھ گئے اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں طلوع سحر سے ہم
شاعر نے اندھیروں کے سفر میں امید کی شمع جلانے کی خوبصورت سعی کی ہے کہ انسان کو ایسا کام کرنا چاہیے جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہو ۔ محنت و ہمت سے ایسے کام کیے جائیں جو معاشرے میں تاریکیوں کو ختم کر کے روشنیوں کو جگہ دیں اور امید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں ۔ بقول حیدر علی آتش :
ہوائے دور مے خوش گوار رہ میں ہے
خزاں چمن سے جاتی ہے بہار راہ میں ہے
شعر نمبر 2 :
نئے انسان سے تعارف جو ہوا ، تو بولا
میں ہوں سقراط مجھے زہر پلایا جائے
مشکل الفاظ کے معانی : سقراط (یونان کا ایک مشہور مفکر اور دانشور جس کو وہاں کے بادشاہوں نے زہر پلا کر مار دیا تھا)
مفہوم : نئے لوگوں سے جب میرا تعارف ہوا تو میں نے کہا کہ میں بھی سقراط کی طرح حق پرست ہوں مجھے بھی زہر کا پیالہ پلایا جائے ۔
تشریح : احمد ندیم قاسمی اس شعر میں لکھتے ہیں کہ نئے خیالات اور جدید تقاضوں کے مطابق سوچ رکھنے والا آدمی جب ایک عام روایت سے ہٹ کر کوئی بات کرتا ہے تو فرسودہ خیالات رکھنے والے لوگ اس کی بات کو جھٹلا دیتے ہیں اور اس کی بات کو محض خیال خام خیالی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں ۔ آج کے اس ترقی پذیر معاشرے میں بھی جب کوئی ذی فہم اور باشعور آدمی نئے تقاضوں سے مزین اور جدید حوالے سے بات کرتا ہے تو اسے پاگل قرار دیا جاتا ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے بات کو تلمیح کے ذریعے واضح کیا ہے ۔ جس طرح یونان میں سقراط نے جدید سوچ کے ذریعے معاشرے کو جدید طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور مساوات ، انصاف اور سچائی کا علم بلند کیا تو اسے دیوتاؤں کا منکر اور کلیسا کے خلاف بغاوت قرار دے کر مطلق العنان بادشاہوں نے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا ۔ آج کے انسان سے بھی جب تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ بھی حق و صداقت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے ۔ نئی نسل انصاف اور سچائی کی پاداش میں سقراط کی طرح زہر کا پیالہ تک پی سکنے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ نوجوان نسل اسی چیز کو سمجھ چکی ہے کہ راست باز اور سچے لوگ ہمیشہ مصائب سے دوچار ہوتے ہیں اور دنیا میں زندہ رہ جانے والی چیز صرف اور صرف سچائی ہی ہے ۔
بقول سلیم کوثر :
حق بات پر تعزیریں کچھ آج نہیں کوثر
بے درد زمانے کی یہ ریت پرانی ہے
شعر نمبر 3 :
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے
مشکل الفاظ کے معانی : مفر ( نجات ، رہائی ، فرار) ، سلیقہ (طریقہ ، انداز ، ڈھنگ)
مفہوم : موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے مگر مرنے سے پہلے لوگوں کو جینے کا طریقہ تو سکھایا جائے ۔
تشریح : موت ایک اٹل حقیقت ہے ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے موت سے کوئی بچ نہیں سکتا حتی کہ قیامت کے دن موت کو بھی موت آ جائے گی ۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ اس میسر شدہ زندگی میں انسان کو چاہیے کہ ایسی زندگی گزارے جو سلیقہ مندی اور تہذیب کے تقاضوں کے مطابق ہو ۔ ان میسر شدہ لمحوں کو غنیمت سمجھا جائے ۔ انسان ہی انسان کے لیے ایک اچھی مثال بن سکتا ہے ۔ مر تو سب نے جانا ہی ہے مگر جو زندگی آپ جی رہے ہیں اس زندگی کو یوں گزاریں کہ زمانہ آپ کی مثال دے ۔
اس لیے شاعر نے کہا ہے کہ موت کا رونا رونے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جو زندگی جی رہے ہیں وہ کیسی زندگی ہے ؟ کس انداز سے آپ زندگی گزار رہے ہیں یعنی انسان کو اچھے رویوں ، اچھے اخلاق و عادات کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے ۔ دراصل آج کا انسان اخلاقی اقدار کو پامال کر رہا ہے ۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ ہوس اور حرص نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آج کا انسان مادی فائدے کے لیے حیوانوں کی سطح پر اتر آیا ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جہاں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد
شعر نمبر 4 :
حکم ہے کہ سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیم
زخم کو زخم نہیں ، پھول بتایا جائے
مشکل الفاظ کے معانی : قرینے سے (طریقے سے ، سلیقے سے)
مفہوم : سچ کو اس قرینے سے بولا جائے کہ زخم کو بھی پھول بنا کر پیش کیا جائے ۔
تشریح : ظالم اور آمر حکمران اپنے خلاف کچھ سننا گوارا نہیں کرتے ۔ چاہے وہ بات سچ پر ہی کیوں نہ مبنی ہو ۔ دور آمریت میں زبان بندی کر دی جاتی ہے ۔ سچ کہنے اور سچائی کو بیان کرنا جرم قرار دیا جاتا ہے ۔ مظلوم کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ حق کو اور سچائی کے علمدار کو باغی قرار دیا جاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اس قسم کے حالات میں بھی ہمیشہ حالات کے پیش نظر سچ کو قرینے اور سلیقے سے بیان کرنا چاہیے تاکہ بات بھی ہو جائے اور ظالموں کی گرفت سے بھی بچا جا سکے ۔ بات کو تشبیہ ، استعارہ اور علامت وغیرہ کے قرینوں سے بیان کیا جائے مثلاً زخم کو زخم کی بجائے پھول بتایا جائے یا سمجھنے والے خود ہی سمجھ جائیں ۔
اردو شاعری کی روایت ہے کہ محبوب ہمیشہ ظالم اور ستم گر ہی نکلتا ہے وہ عاشق کو تڑپاتا رلاتا ترساتا اور نظر التفات سے محروم رکھ کر اس کو اذیت دینے میں خوشی اور لذت محسوس کرتا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ محبوب بھی یہ چاہتا ہے کہ اسے جفا کار ظالم اور بے وفا ہرگز نہ کہا جائے بلکہ اس کو ظلم ستم اور کج ادائی کے باوجود عاشق اسی کا دم بھرے اور اس کے کوچے کا ہی بن کر رہے ۔ کسی قسم کا شکوہ گلا زبان پر نہ لائے اور ہمیشہ جانثاری اور جان نثاری کا مظاہرہ کرے ۔ عاشق بھی یہی کرتا ہے کہ محبوب کے ظلم سہتا رہتا ہے لیکن اف تک نہیں کرتا ۔ اگر کبھی تقاضائے بشری کے تحت عاشق پر بہت زیادہ گھبرا جائے اور محبوب کی جدائی اور ظلم اس کی برداشت سے باہر ہو جائے تو وہ محبوب سے گلا شکوہ کرتا ہے ۔ کبھی اس میں یہ بھی قرینہ ملحوظ رکھتا ہے کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں گلا کیا جائے تاکہ محبوب کو بات ناگوار نہ گزرے اس شعر میں بھی شاعر یہ بات کرتا ہے کہ سچ بات تو یہی ہے کہ محبوب ظالم اور جفا جور ہے لیکن اس بات کو قرینے سے بیان کرنا چاہیے کیونکہ محبوب کا معاملہ ہے جو ہمیشہ سے نازک رہا ہے اس لیے زخموں کو بھی پھول کہنا چاہیے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ احمد ندیم قاسمی کی غزل ” اب تو کچھ اور ہی اعجاز دیکھایا جائے” کی تشریح و تفسیر کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.