آج کی اس پوسٹ میں ہم شکیب جلالی کی غزل ” آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے” کی تشریح ، لغت اور مفہوم کے بارے میں پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
آ کے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : دو چار (مراد چند ایک ، کچھ) ، پیڑ( درخت) ، پسِ دیوار (دیوار کے پیچھے)
مفہوم : میرے گھر کے صحن میں پتھر تو آ کر گرتے ہیں لیکن درخت کے پھل دیوار سے باہر گرتے ہیں ۔
تشریح : شکیب جلالی کا شمار ایسے جواں مرگ شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے طبعی عمر تو بہت کم پائی لیکن ان کی شعری عظمت کا علم بہت بلند ہے ۔ ان کی شاعری عصری حیثیت سے بھرپور ہے۔ انہوں نے ذاتی رنج و الم اور جدید انسان کی مایوسیوں اور سوز و گداز کو بڑی اثر آفرینی سے شعری پیکر میں ڈھالا ہے ۔ ان کے لہجے میں کلاسکیت بھی ہے اور جدیدیت بھی ہے ۔ ندرت اور معنوی تہ داری جیسے اوصاف ان کی شاعری کو آفاقی بنا دیتے ہیں ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی بدنصیبی اور محرومی پر شکوہ کناں ہیں ۔ کہتے ہیں پھل دار درخت کو لوگ عموماً پتھر مارتے ہیں تاکہ پھل نیچے گریں اور وہ انہیں کھا سکیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ میری بد نصیبی تو دیکھیے کہ گھر کے باہر پھلدار درخت تو میں نے لگایا اور میں نے اس کی نشوونما کی لیکن جب پھل کا موسم آیا تو میرے حصے میں پتھر ہی آئے ۔ لیکن جب لوگ پھل توڑنے کے لیے درخت پر پتھر مارتے ہیں تو پتھر تو میرے ذہن میں آ کر گرتے ہیں لیکن پھل کبھی نہیں گرے ۔ پھل ہمیشہ گھر کی دیوار کے پرے ہی گرتے ہیں ۔ درخت کے پھلوں سے اغیار ہی مستفید ہوتے ہیں ۔ میرے حصے میں صرف پتھر آتے ہیں یعنی میری محرومی تو دیکھیے کہ میری محنت کا ثمر کوئی اور لے جاتا ہے ۔ پھل تو اغیار کھاتے ہیں اور پتھر میرے سر پر لگتے ہیں ۔
پروین شاکر اسی بد نصیبی اور محرومی کو یوں بیان کرتی ہیں :
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
شعر میں پھل سے مراد خوشیاں اور فائدے ہیں جبکہ پتھر سے مراد غم ، مصائب اور الزامات ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں ہر وقت مشکلات میں گھرا رہتا ہوں ۔ مجھے خوشیاں دیکھنا نصیب نہیں ہوتیں ۔ جب بھی کوئی مصیبت یا غم آتا ہے تو اس کا مسکن میرا ہی گھر ہوتا ہے ۔ میری زندگی میں خوشی کے مواقع آتے ہی نہیں صرف غم اور مشکلات ہی آتیں ہیں ۔ میں خوشیوں کو ترستا رہتا ہوں لیکن خوشیاں دوسروں کی طرف چلی جاتی ہیں ۔
بقول رفیع سودا :
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
انسانی نفسیات ہے کہ اسے دوسروں کی تھالی میں گھی گھنا نظر آتا ہے ۔ اسے لگتا ہے دوسروں کی زندگی مجھ سے بہتر اور خوشحال ہے ۔ سارے غم ، مصائب اور مسائل صرف مجھے ہی درپیش ہیں حالانکہ اس کے پاس بھی بہت سی نعمتیں اور خوشیاں موجود ہوتی ہیں لیکن اسے اپنی ذات مظلوم اور محروم نظر آتی ہے اور سارا جہاں بے حس اور ظالم نظر آتا ہے ۔ شاعر نے اس شعر میں اسی نفسیاتی پہلو کی عکاسی کی ہے ۔
شعر کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر نے خود کو ایک پھلدار درخت سے تشبیہ دی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ پھلدار درخت کو لوگ ہمیشہ پتھر ہی مارتے ہیں لیکن درخت بدلے میں پھل دیتا ہے یعنی لوگوں کی برائی کا بدلہ برائی کی بجائے اچھائی سے دیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے میری زندگی سادگی ، شرافت ، خلوص و محبت اور رحم دلی کا ناجائز فائدہ لوگ اٹھاتے ہیں اور مجھے طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے ہیں ۔ وہ ہر برائی اور الزام مجھ پہ لگاتے رہتے ہیں لیکن میں پھر بھی بدلے میں ان کے ساتھ اچھائی ہی کرتا ہوں ۔
بقول ساجد اقبال :
اپنی تو وہ مثال کہ جیسے کوئی درخت
اوروں کو سایہ بخش کے خود دھوپ میں چلے
اور بقول احمد ندیم قاسمی :
جو برائی تھی میرے نام سے منسوب ہوئی
دوستوں کتنا برا تھا میرا اچھا ہونا
شعر نمبر 2 :
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : قدموں میں گرنا( شکست تسلیم کرنا ، معافی مانگنا ، منت سماجت کرنا) ، سایہ دار (دیواروں کی چھاؤں یا عکس)
مفہوم : اگر میں نے گرنا ہی ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں گا جس طرح دیوار اپنے ہی سائے پر گرتی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی انا اور خودداری کو بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ میری زندگی دکھوں ، تکلیفوں ، مسائل اور مصائب سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے باوجود میں اپنی عزت ، وقار ، خوداری اور حفظ وضع پر سمجھوتہ نہیں کروں گا ۔ میں دوسروں کے قدموں میں نہیں گروں گا ۔ کسی سے ہمدردی اور رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا اور نہ کسی کا احسان لوں گا ۔ کسی کے سامنے مدد کے لیے دست سوال دراز نہیں کروں گا۔ میں اپنی انا ، خودداری اور عزت وقار کو قائم رکھوں گا ۔ دوسروں کے قدموں میں گرنے سے انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ دوسروں کے قدموں میں گرنے سے انسان ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔ شاعر خوددار ہے اور عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا ۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ اگر میں نے گرنا ہی ہے اور میری قسمت میں گرنا ہی لکھا ہے تو میں خود اپنے قدموں میں ہی گروں گا تاکہ کسی اور کے سامنے میرا سر نہ جھکے اور میری عزتِ نفس مجروح نہ ہو ۔
بقول یامین غوری :
اپنی نظر میں آپ ہی گر جائیے نہ آپ
دامن کسی کے سامنے پھیلا یہ نہ آپ
اور بقول کیف بھوپالی :
جس دن میری جبین کسی دہلیز پر جھکے
اس دن خدا شگاف میرے سر میں ڈال دے
گرنا سے مراد شکست تسلیم کرنا ، حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ہے اور ہار مان لینا ہے ۔ اپنے قدموں میں گرنے سے مراد حالات کے مقابلے میں اپنی بے بسی اور شکست کا اظہار لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی بجائے اسے صرف اپنے ہی دل میں تسلیم کرنا ہے یعنی شاعر اپنے شکست اور کمزوری لوگوں پر عیاں نہیں کرنا چاہتا ۔ دیوار مضبوطی اور سہارے کی علامت ہوتی ہے جو حالات کی سختی کو برداشت کرتی ہے ہزاروں آندھیوں اور طوفانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے اور انہیں روکے رکھتی ہے لیکن جب دیوار شکستہ اور خستہ حال ہو جاتی ہے تو وہ اپنے حصے کی حدود میں گر جاتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے ساری زندگی کٹھن حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تن تنہا تکلیفیں اور سختیاں جھیلیں لیکن کبھی کسی کو مدد کے لیے نہیں پکارا اور کسی کا احسان نہیں لیا ۔ شاعر نے یہاں وضاحت نہیں کی کہ اسے کون سا غم لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ شکستہ حال ہو چکا ہے ۔ یہ غم دوراں بھی ہو سکتا ہے اور ہمیں جاناں بھی ۔ شاعر کا غم اگر محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہے تو بھی وہ نہیں چاہتا کہ وہ محبوب کے سامنے رحم کی اپیل کرے اور اس کے نظر التفات کے حصول کے لیے اس کی منت سماجت کرے ۔ اگر یہ غم زمانے کی مشکلات اور نشیب و فراز کی وجہ سے ہے تو بھی وہ لوگوں کا احسان نہیں لینا چاہتا ۔ الغرض زمانے کا غم ہو یا محبوب کا غم اس نے شاعر کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اس دیوار کی مانند جس کی بنیادیں بوسیدہ اور خستہ حال ہو چکی ہیں اور گرنے کے قریب ہو ایسی دیوار اگر گرے گی تو وہ اپنے حصے پر گرے گی ۔ وہ کسی کا احسان نہیں لے گی ۔
بقول شاعر :
دیواریں تنی ہوئی کھڑی ہیں
اندر سے مکاں گر رہا ہے
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ میں بھی دیوار کی مانند دوسروں کا احسان نہیں لوں گا ۔ اپنی شکست کا اظہار لوگوں سے نہیں کروں گا بلکہ اسے اپنے دل ہی میں رکھوں گا ۔ دراصل انسان جب حالات سے دل برداشتہ ہو جائے اس کے دل میں مایوسی چھا جاتی ہے اور وہ زندگی سے اکتا جاتا ہے۔ اسے بہتری کی کوئی امید نہیں ہوتی تو وہ نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے حال سے باخبر ہوں اور اس پر رحم کھائیں ۔ وہ اپنی تنہائی میں خود ہی گھٹ گھٹ کر مر جانا چاہتا ہے ۔
بقول جون ایلیا :
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے
کہا جاتا ہے کہ باپ کی ذہنی بیماری کی وجہ سے شکیب کی ماں نے ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی تھی ۔ دس سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کی ہمراہ یہ منظر دیکھا ۔ اس منظر نے تمام زندگی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا بالاخر احساسات کی تپش کے سامنے انہوں نے بھی سپر ڈال دی اور صرف بتیس سال کی عمر میں انہوں نے سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک تیز رفتار ٹرین کے سامنے آ کر خودکشی کر لی ۔ مرنے کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر نکلا :
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
شعر نمبر 3 :
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے میرے گھر ٹوٹ کے بیکار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : تیرگی (اندھیرا ، تاریکی) ، اجالے( روشنی) ، خطوط( خط کی جمع لکیر ، نشان) ، بےکار (فضول)
مفہوم : روشنی کے نشان میرے دل میں مزید اندھیرے چھوڑ گئے میرے گھر میں ستاروں کا ٹوٹ کر گرنا بھی بےکار گیا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی بدنصیبی اور محرومی پر شکوہ کناں ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں اتنی تاریکی اور اندھیرا ہے کہ وہاں ستاروں کی روشنی بھی دم توڑ جاتی ہے اور وہ بھی اندھیروں میں بدل جاتی ہے ۔ اس لیے جو ستارے آسمان سے ٹوٹ کر میرے گھر میں گرے ہیں ان کا یہاں گرنا فضول ہے ۔ ان کے گرنے سے میرے دل اور میرے گھر کی تاریکی ختم نہیں ہوگی ۔ ستارے روشنی ، خوبصورتی اور خوشیوں کی علامت ہوتے ہیں جس گھر میں آسمان سے ستارے ٹوٹ کر آ گریں وہ گھر تو روشنی میں نہا جاتا ہے ۔ ستاروں کی روشنی اور چمک سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں لیکن شاعر کہتا ہے کہ میرے گھر میں جو ستارے آسمان سے ٹوٹ کر گرے ہیں ان سے روشنی نہیں ہوئی بلکہ اندھیرا مزید بڑھ گیا ہے ۔ وہ ستارے جو آسمان پر بڑی خوبصورتی سے چمک رہے تھے میرے گھر میں گرتے ہی معدوم ہو گئے اور ان کی روشنی ختم ہو گئی۔
: بقول اطہر خان جیدی
رنگ، خوشبو، گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھوں میں موتیا اتر آیا
دل کی تاریکی ، مایوسی اور غم کی علامت ہے اور روشنی امید اور خوشی کی علامت ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اول تو میرے دل کے آنگن میں روشنی کا اترنا مشکل ہے لیکن اگر کبھی بھولے سے روشنی کی کوئی کرن میرے دل میں داخل ہو بھی جائے تو میرے دل کی تاریکی ختم کرنے کے بجائے وہاں مزید اندھیرا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ روشنی کی کرن تو بہت معمولی چیز ہے اگر میرے گھر میں آسمان کے ستارے بھی ٹوٹ کر گر جائیں جو روشنی کا منبع اور سر چشمہ ہیں تو بھی تاریکی ختم نہیں ہوگی ۔ میرے دل میں مایوسی ، تنہائی اور غموں ل کا ایسا ہجوم ہے کہ یہاں امید اور خوشی کی روشنی کا ٹھہرنا ناممکن ہے ۔ میری زندگی میں کبھی خوشیاں نہیں آ سکتیں ۔
بقول شاعر :
یہ بھی اچھا ہوا کہ ٹوٹا نہ ستارہ کوئی
ورنہ الزام تو مجھے خاک نشین پر آتا
یہ نفسیاتی امر ہے کہ جب انسان اندر سے مایوس اور غمگین ہو اس کا دل اداس ہو تو باہر کے اجالے ، خوشیاں ، رونقیں اور نظارے اسے خوشی دینے کی بجائے مزید غمگین کر دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے :
ہو لاکھ کوئی شور مچاتا ہوا موسم
دل چپ ہو تو باہر کی فضا کچھ نہیں کہتی
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں تو اداسی اور غم ہے ۔ اس لیے میرے گھر میں اگر ستارے بھی ٹوٹ کر گر جائیں تو ان کا گرنا بےکار ہی جائے گا ۔ وہ مجھے خوشیاں نہیں دے سکتے ۔ شاعر نے یہاں وضاحت نہیں کی کہ اس کا دل کس وجہ سے اداس اور غمگین ہے دل کی اداسی اور غم کی ایک وجہ غم جاناں بھی ہو سکتی ہے ۔ محبوب کی بے رخی اور لاپرواہی سے اور اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے شاعر کا دل مسلسل اداس اور غمگین رہتا ہے ۔ اسے باہر کی خوشیاں اچھی نہیں لگتی ۔ دوسری وجہ غم دوراں یعنی زمانے کا غم بھی ہو سکتا ہے ۔ حالات کی سختیاں اور تلخیوں کی وجہ سے شاعر اداس اور غمگین ہے ۔ وہ زندگی سے مایوس ہو چکا ہے اسے امید کی کرن نظر نہیں آتی ۔ اسے اپنی بد نصیبی کے بارے میں معلوم ہے کہ اچھا کام بھی اس کے حق میں برا ثابت ہوتا ہے ۔ خوشیاں بھی اس کے لیے غموں کا سبب بن جاتی ہیں ۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ ستاروں کا ٹوٹ کر گرنا بھی بیکار ہے کیونکہ یہ بھی اپنے پیچھے مزید تاریکی چھوڑ جائیں گے ۔
بقول حیدر علی آتش :
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی اگ جو باراں کی آرزو کرتے
اور بقول پروین شاکر :
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
شعر نمبر 4 :
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : در و بام (چوکھٹ اور بالا خانہ مراد گھر ) ، ہمسائے (پڑوسی) ، لرز جانا( کانپ اٹھنا )
مفہوم : جب میرے ہمسائے میں کوئی دیوار گرتی ہے تو میں اپنا گھر دیکھ کر لرز جاتا ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرا گھر تو بہت خستہ حال ہے اس کے در و دیوار بوسیدہ ہو چکے ہیں اور اس کی شکستہ حال چھت جھکی ہوئی ہے ایسے حالات میں آندھی ، طوفان اور برسات میں جب ہمسائے کی صحیح سالم دیوار گرتی ہے تو میں کانپ اٹھتا ہوں کہ ہمسائے کا گھر تو مجھ سے بہتر تھا جب اس کی دیوار گر گئی ہے تو میرے بوسیدہ اور شکستہ در و بام کا کیا ہوگا ۔ میں خوف سے کانپ اٹھتا ہوں کہ کسی وقت یہ بھی گر پڑیں گے ۔
بقول اقبال ساجد :
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
دیوار گرنے سے مراد کسی حادثے یا مصیبت کا شکار ہونا ہے ۔ کسی مہربان شخصیت کا سایہ سر سے اٹھ جانے اور اس کے سایہ شفقت سے محرومی کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔
ناصر کاظمی ایک شعر میں دیوار گرنے کو کسی مہربان شخصیت کا سایہ اٹھ جانے ہی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔
بقول ناصر کاظمی :
میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بہرحال اس شعر میں ایسے سانحہ کا بیان ہے جس نے شاعر کے سارے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ خارجی ماحول میں جو کچھ بھی واقعہ رونما ہوا اس کی وجہ سے شاعر کا اندر کا اطمینان اور سکون غارت ہو گیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں جب کسی کو تکلیف میں دیکھتا ہوں تو اس خیال سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤں ۔ وہ کسی دکھ میں مبتلا ہوا ہے تو ایک نہ ایک دن میں بھی ایسے دکھ اور حالات سے دوچار ہو سکتا ہوں ۔ پڑوس میں کوئی سانحہ یا حادثہ ہو جائے یا کوئی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں مجھے خیال آتا ہے کہ اگر آج یہ مصیبت اس پر ہے تو کل یہ مصیبت مجھ پہ بھی آ سکتی ہے ۔
بقول شکیب جلالی :
تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے بام و در بھی جانتے ہیں پرایا مجھے
- شاعر نے انسانی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا ہے جب انسان مسلسل غم اور مایوسیوں میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ نفسیاتی طور پر ہر وقت انجانے خوف اور اندیشوں میں مبتلا رہتا ہے ۔ کسی کو مصیبت یا غم میں مبتلا دیکھ کر اسے لگتا ہے کہ اب عنقریب اگلی باری میری ہے ۔ یہ مصیبت اب مجھ پر بھی مسلط ہو جائے گی ۔
بقول علامہ اقبال :
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
شاعر اس قدر غمزدہ اور پریشان ہے اور مایوسیوں کا شکار ہے کہ ہمسائے میں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کا دل اندیشوں سے لرزنے لگتا ہے کہ اب یہ مصیبت اسے بھی لاحق ہو سکتی ہے ۔ کہا جاتا ہے شکیب جلالی اکثر بیمار رہا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ بہت سے ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے تھے ۔ ہمسائے میں جب وہ کسی کی موت کی خبر سنتے تو کانپ اٹھتے تھے اور انہیں اپنی موت یاد آنے لگتی تھی ۔
بقول شوکت لکھنوی :
تو نے کیا کیا نہ اے زندگی دشت و در میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے بام و در بھی جانتے ہیں پرایا مجھے
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
شعر نمبر 5 :
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکتی ہوئی تلوار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : وقت کی ڈور ٹوٹنا( مراد زندگی کا ختم ہونا ، زندگی کی مہلت ختم ہو جانا) ، گھڑی (وقت) ، سر پر تلوار لٹکنا( مراد ہر وقت خطرہ لاحق رہنا )
مفہوم : خدا جانے زندگی کی ڈور کب ٹوٹ جائے موت کی تلوار جو سروں پر لٹک رہی ہے کسی بھی وقت سر پر گر سکتی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بیان کیا ہے ۔ انسان کی زندگی عارضی ، فانی اور ناپائیدار ہے ۔ کسی بھی وقت اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ پانی کے بلبلے کی مانند کسی بھی وقت انسان کی ہستی معدوم ہو سکتی ہے ۔
بقول شاعر :
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بلبلا ہے پانی کا
دنیا میں کوئی بھی چیز پائیدار نہیں اور کسی بھی چیز کو ثبات نہیں ہے دن رات میں ، رات دن میں بہار خزاؤں میں اور خزائیں بہاروں میں بدلتی رہتی ہیں ۔ وقت بھی ایک سا نہیں رہتا اور موسم بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ روزانہ صبح کے وقت جو سورج بڑی آب و تاب سے چمک رہا ہوتا ہے شام کے وقت وہی سورج غروب ہوتے ہوئے اپنی ناپائیداری اور بے ثباتی کا اقرار کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب انسان دنیا میں آتا ہے تو بظاہر وہ عمر کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔ زندگی موت کے سائے ہی میں پروان چڑھتی ہے ۔
بقول شاعر :
جو بہار آتی ہے پابند خزاں ہوتی ہے
زندگی موت کے سائے میں جواں ہوتی ہے
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ دنیا میں ایسے لوگ تو بہت ہیں جو خدا اور رسول کا انکار کرتے ہیں لیکن دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو موت کا منکر ہو ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے ضرور موت آ کر رہے گی۔ موت کا جام ایک ذی روح کو لازماً پینا ہے ۔ قران پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس کا ترجمہ ہے :۔
” تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو “۔
سورۃ نساء آیت نمبر 78
کون ، کب اور کس جگہ موت کا شکار ہوگا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے معلوم نہیں سانس کی ڈور کب ٹوٹ جائے ۔ موت سب کے سروں پر ایک برہنہ تلوار کی مانند لٹک رہی ہے اور وہ سانس کی ڈور کو کاٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔ ہنستے بولتے صحت مند لوگ اچانک موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اچانک کوئی حادثہ انہیں موت کی نیند سلا دیتا ہے ۔
بقول حیرت الہ آبادی :
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
وقت کی ڈور ٹوٹنے سے مراد زندگی کی مہلت ختم ہو جانا ہے ۔ زندگی کی یہ مہلت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے ۔ وقت کی اس ڈور کو موت کی تلوار کسی بھی جگہ سے کاٹ سکتی ہے ۔ لازمی نہیں کہ موت بڑھاپے میں ہی آئے موت عمر کے کسی بھی حصے میں آ سکتی ہے بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، بڑھاپا موت کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ موت کسی پر ترس کھاتی ہے ۔ دنیا میں آنے کی ترتیب تو ہوتی ہے لیکن دنیا سے جانے کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی ۔ لازمی نہیں کہ جو بعد میں آیا ہے وہ بعد میں ہی جائے ۔ ہو سکتا ہے بعد میں آنے والا پہلے چلا جائے اور پہلے آنے والا بعد میں چلا جائے ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ دادا کی موجودگی میں باپ کی موت آتی ہے اور پوتا موت کا شکار ہو جاتا ہے اور دادا موت کا انتظار ہی کرتا رہتا ہے ۔ چونکا موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے ۔ کسی کو اپنی موت کا معین وقت معلوم نہیں ۔ اس لیے یہ بات انسان کو ہمہ وقت ایک بے تابی اور بے قراری کی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہے ۔ موت کا خوف تلوار کی طرح ہمہ وقت اس کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ بے قرار اور بے سکون رہتا ہے ۔ چنانچہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ موت تو ہمارے اختیار میں نہیں لیکن زندگی ہمارے اختیار میں ہے۔ زندگی کا بننا ، بگڑنا ، سنورنا اور نکھرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی زندگی بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں ۔ اگر زندگی بہتر ہوگی تو موت خود بخود بہتر ہو جائے گی ۔ اس لیے ہمیں اس زندگی کو بنانے اور سنوارنے کی فکر کرنی چاہیے ۔
بقول احمد ندیم قاسمی :
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے
شعر نمبر 6 :
دیکھتے کیوں ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کہ یہ دستار گرے
مشکل الفاظ کے معانی : بلندی( اونچائی ، عروج) ، دستار( پگڑی ، امامہ مراد عزت)
مفہوم : اے شکیب اتنی بلندی کی طرف نہ دیکھا کرو ایسا نہ ہو کہ سر اٹھانے میں دستار گر پڑے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے شکیب اتنی بلندی کی طرف کیوں دیکھتے ہو کہ سر اٹھانے میں سر کی دستار نیچے گر جائے۔ اپنا سر اتنا اونچا نہ اٹھاؤ کہ سر کی دستار گر جائے ۔ اگر انسان کسی بہت بلند عمارت کے قریب کھڑا ہو کر اس کی چوٹی کی طرف نگاہ کرے تو اس کا سر پیچھے کی جانب جھک جاتا ہے اور اس کے سر پر رکھی پگڑی اس کے سر سے گر جاتی ہے ۔ دراصل شاعر کہنا چاہتا ہے کہ انسان کو اپنی حیثیت اور اوقات سے بڑھ کر خواہش نہیں کرنی چاہیے ۔ اسے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیے ۔
بقول اقبال عظیم :
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
ہر انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کا نصیب اور رزق بھی مقرر کر دیا جاتا ہے ۔ انسانوں کی آزمائش کے مطابق ان کا نصیب اور رزق بھی مختلف ہوتا ہے ۔ کسی کا کم اور کسی کا زیادہ ۔ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جو اس کے لیے اللہ نے مقرر کیا ہوتا ہے ۔ نصیب سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا ۔ چونکہ انسان کو اپنا نصیب معلوم نہیں ہوتا اس لیے وہ محنت اور تگ و دو کرتا رہتا ہے ۔ بعض اوقات خود سے کسی بلند درجہ یا زیادہ آرام و آسائش کے حامل شخص کو دیکھ کر حسد کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی اوقات سے بڑھ کر اسی جیسا آرام و آسائش اور مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ خود کو ذہنی طور پر بے قراری اور بے چینی میں مبتلا کر لیتا ہے ۔ بعض اوقات ناجائز حربے بھی استعمال کرتا ہے اور آخر میں نقصان اٹھاتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ انسان کو اپنی اوقات سے بڑھ کر خواہش نہیں کرنی چاہیے اور اپنی اوقات میں رہنا چاہیے ۔
بقول بہادر شاہ ظفر :
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
دوسرا مطلب یہ ہے کہ شاعر کہتا ہے کہ تم اتنے مغرور کیوں ہوتے ہو اور اتنی بلندی کی طرف کیوں دیکھتے ہو ۔ غرور اچھا نہیں ہے ۔ اس سے انسان کی عزت ایک نہ ایک دن خاک میں مل جاتی ہے ۔ جب انسان خود سے کم تر کی جانب دیکھتا ہے تو اس میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور اگر وہ خود سے بلند اور برتر کی جانب دیکھتا ہے تو کفرانِ نعمت کا شکار ہو جاتا ہے اور میسر نعمتوں کی بے قدری کا مرتکب ہو جاتا ہے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ شکیب جلالی کی غزل ” آ کے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گرے” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.