آدمی آدمی سے ملتا ہے
آج کی اس پوسٹ میں ہم آدمی آدمی سے ملتا ہے جگر مرادآبادی کی ایک اہم غزل کی تشریح اور لغت کو حل کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل ❤️ مگر کم کسی سے ملتا ہے
حل لغت : دل کم ملنا ( مزاج نہ ملنا )
مفہوم : زندگی میں ان گنت لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے دل بھی مل جائے ۔
تشریح : جگر اپنے افتاد طبع کے لحاظ سے نیک ، درویش منش اور سلیم طبع انسان تھے ۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں بھی کہیں ۔ دین کی طرف ان کی توجہ اور رغبت میں اصغر گونڈوی کا بھی عمل دخل ہے ۔ جگر مراد آبادی مشاعروں میں بہت مقبول تھے ان کی آواز بہت اچھی تھی ۔ وہ شعر خوانی ترنم سے کرتے اس لیے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے ۔ ان کے ہاں تغزل کے عناصر نمایاں ہیں ۔ ابتدائی دور میں وہ داغ دہلوی سے متاثر تھے لیکن پھر غزل گوئی میں اپنا ایک خاص رنگ پیدا کیا تاہم غزل کی کلاسک کی روایت کا دامن نہیں چھوڑا ۔ ان کا کلام پختہ اور اس میں ایک والہانہ پن اور نغمگی کا احساس ہوتا ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کی تشریح کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر جگر مراد آبادی کہتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ، روزمرہ کی زندگی میں بہت سے لوگوں سے پالا پڑتا رہتا ہے لیکن ہم مزاج لوگ بہت مشکل سے ملتے ہیں ۔ شاعر کے ارد گرد بھی بے شمار لوگ رہتے ہیں مگر بہت کم ایسے ہیں جو اس کے مزاج کے مطابق ہیں یا جو اس کے احساسات و جذبات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ زندگی میں آدمی سے آدمی ملتا ہے میل ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کے ساتھ مل جائے یعنی ایسا بہت مشکل سے ہوتا ہے کہ انسان اپنا دلی اور قلبی تعلق ہر کسی سے قائم کر لے ۔ دل میں کچھ خاص لوگ ہی رہ سکتے ہیں ۔ دل میں ہر کسی کے لیے جگہ تھوڑی ہوتی ہے ۔ یہ کوئی بازار تھوڑی ہے جہاں کوئی بھی آئے اور ٹھہر جائے بلکہ یہ تو ایک مخصوص مقام ہے جہاں صرف مخصوص لوگوں کا قیام ہی ممکن ہے اور ان مخصوص لوگوں میں شاعر کا محبوب سر فہرست ہے ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے :
محبت کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا
شعر نمبر 2 :
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
حل لغت : ستم ( ظلم ) سادگی ( عام حالت ، معصومیت)
مفہوم : مجھے محبوب سے بہت سی شکایات ہوتی ہیں مگر جب وہ معصوم بن کر ملتا ہے تو میرے سارے گلے شکوے دور ہو جاتے ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی ایک خاص ادا یعنی معصومیت کا ذکر کیا ہے کہ میرا محبوب کس قدر سادہ اور معصوم ہے ۔ غزل کے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی ایک خوبی یعنی معصومیت کا تذکرہ کرتا ہے شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب جب بھی مجھ سے ملتا ہے اس خوبصورتی اور سادگی سے ملتا ہے کہ میں اس کا ہر ستم بھول جاتا ہوں شاعر محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپتا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ جب اس کا محبوب اس کے سامنے آئے گا تو وہ شکوہ کرے گا ۔ اپنے دکھ کی داستان سنائے گا محبوب کو بتائے گا کہ وہ کتنی راتوں سے سویا ہی نہیں جب محبوب سامنے آتا ہے تو ساری تکالیف اس کا معصوم اور بھولا بھالا چہرہ دیکھنے سے ہی دور ہو جاتی ہیں ۔
شعر نمبر 3 :
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
مفہوم : میرا محبوب جب ہنستا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پھول کھل گئے ہوں ۔
تشریح : غزل کے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی مسکراہٹ اور ہنسی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے محبوب کی ہنسی میں یہ خوبصورتی ہے کہ اس کی ہنسی کا رنگ پھولوں سے ملتا ہے ۔ جب محبوب ہنستا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے چاروں طرف پھول ہی پھول کھل گئے ہوں ۔ شاعر اپنے محبوب کی مسکراہٹ کو پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب جب مسکراتا ہے تو پھولوں جیسی ہنسی دکھاتا ہے ۔ محبوب پہلے ہی اتنا خوبصورت ہے اوپر سے جب وہ ہنستا ہے تو قیامت لگتا ہے ۔ جس طرح پھول کھل کھلاتے ہوئے خوبصورتی دکھاتے ہیں اسی طرح میرے محبوب کا چہرہ بھی مسکراتا ہوا پیارا لگتا ہے ۔
شعر نمبر 4 :
سلسلہ فتنہ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
حل لغت : خوش قامتی ( لمبا قد ) ، سلسلہ ( جاری و ساری ، رابطہ ) ، فتنہ قیامت ( قیامت کا جھگڑا)
مفہوم : محبوب کا لمبا قد قیامت کے فتنے سے ملتا ہے ۔
تشریح : غزل کے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے محبت کا ایک خوبصورت انداز بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر میرا محبوب میرے پاس ہے تو مجھے پھر زندگی کی کسی تکلیف اور دکھ کی پرواہ نہیں ہوتی یعنی جب میرے دل کو اپنے محبوب کی قربت کا قرار اور سکون حاصل ہو جائے تو پھر دنیا کا کوئی دکھ میرے لیے دکھ نہیں رہتا ۔ شاعر محبوب کے لمبے قد کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تیرا لمبا قد میرے دل کو بہت بھاتا ہے ۔ میرے محبوب کا لمبا قد میرے دل پر قیامت ڈھا جاتا ہے ۔ اس کے سرو قد کی وجہ سے دل پر جو قیامت آئی ہے وہ الگ میرے لیے مصیبت کا باعث ہے ۔ یعنی لمبا قد جہاں محبوب کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے وہیں شاعر کے لیے کسی قیامت کے فتنے سے کم نہیں ۔
شعر نمبر 5 :
مل کر بھی جو نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل ، اسی سے ملتا ہے
حل لغت : مل کر نہ ملنا ( ملاپ کے باوجود جدا رہنا ) ، ٹوٹ کر ملنا ( گرم جوشی سے ملنا )
مفہوم : جو مجھ سے دور دور رہنا چاہتا ہے دل ہر لمحہ اسی کی قربت میں رہنا چاہتا ہے ۔
تشریح : شاعر سے اس کا محبوب بے رخی سے ملتا ہے ۔ شاعر کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا مگر شاعر کو صرف اسی سے ملنے کی چاہ ہوتی ہے ۔ وہ صرف اسی سے ملنا چاہتا ہے شاعر کا محبوب شاعر سے دور دور رہتا ہے ۔ اس کی چاہتوں کا گرم جوشی سے جواب نہیں دیتا پھر بھی شاعر کو اسی سے ملنے کی چاہت رہتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب میرے قریب رہ کر بھی قریب نہیں ہے ۔ میں اسے اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہوں مگر وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہیں دیتا ۔ اس کی لا پرواہی اور بے وفائی سے میرا دل ٹوٹتا جاتا ہے مگر میری محبت ہے کہ دل پھر بھی اسی سے ملتا ہے اس لیے دل یہی چاہتا ہے میں ہر پل اسی کے ساتھ رہوں ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
اتنا قریب رہ کر بھی نا جانے کس لیے
کچھ اجنبی 👽 سے آپ ہیں کچھ اجنبی سے ہم
شعر نمبر 6 :
کاروبارِ جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
حل لغت : کاروبار جہاں ( دنیا کے کام دھندے ) ، سنورنا ( خوبصورت ہونا ، سدھر جانا ) ، بے خودی ( بے ہوش ہونا )
مفہوم : جب ہوش اور بے خود ایک ہو جائیں تو دنیا کے کاروبار سنور جاتے ہیں ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر نے کہا ہے کہ جب محبوب سے محبت کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ ہوش اور بے خودی ایک ہو جائیں ۔ جب محبوب کی چاہت میں عاشق ہوش کی کیفیت کو بھلا کر بے خودی کے عالم میں آ جائے تو پھر عشق و محبت کی وجہ سے دنیا کے کاروبار سنور جاتے ہیں یعنی محبوب کو اپنے عاشق کی چاہت کا یقین آ جاتا ہے تو چاہنے والے کے دل کو قرار اور دل کو سکون اور روح کو چین آ جاتا ہے ۔ اس کے دل کا کاروبار سنور جاتا ہے اس کی محبت کی دنیا میں قرار حاصل ہو جاتا ہے ۔ جو جو محبوب کی جدائی میں اس نے تکالیف اٹھائیں تھی وہ سب غم بھول جاتا ہے ۔ بس محبوب کی محبت بھری ایک جھلک سے اس کی دنیا سنور جاتی ہے ۔
شعر نمبر 7 :
روح کو بھی مزہ محبت کا
دل کی ہمسائیگی سے ملتا ہے
حل لغت : ہم سایہ ( پڑوسی ، قریب رہنے والا )
مفہوم : روح کو دل کے قریب رہنے سے جو سکون ملتا وہی سکون مجھے محبوب کے قریب رہ کر ملتا ہے ۔
تشریح : شاعر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ محبوب سے دوری دل کی تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔ شاعر کو محبت کا مزہ مزہ محبوب کی قربت میں ہی آتا ہے۔ جدائی موت سے کم نہیں نہیں ہوتی ۔ اس لیے وہ اپنے محبوب سے دور نہیں رہنا چاہتا ۔ شاعر کہتا ہے کہ روح اور دل کا بھی آپس میں محبت کا رشتہ قائم ہے ۔ روح کے بغیر دل کا اور دل کے بغیر روح کا تصور بھی ناممکن ہے ۔ بالکل اسی طرح میرا اور میرے محبوب کا تعلق ہے ۔ یعنی میں اپنے محبوب سے محبت اور پیار کرتا ہوں ۔ جس طرح روح کو دل کی ہمسائیگی میں سکون اور قرار حاصل ہوتا ہے بالکل اسی طرح مجھے بھی اپنے محبوب کی قربت میں سکون حاصل ہوتا ہے ۔ میری زندگی کا لطف اور مزہ بھی محبوب کی محبت اور چاہت سے قائم ہے ۔
جہاں روح کے رشتے قائم ہوں
وہاں پھُول موسموں کے محتاج نہیں ہوا کرتے
نوٹ : امید ہے کہ آپ کو تشریح پسند آئی ہو گی ۔ اگر اس تشریح میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.