آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
آج کی اس پوسٹ میں ہم داغ دہلوی کی غزل ” آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کے بارے میں پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
کوئی دم اور بھی آپس میں ذرا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی: آئینہ ( قلعی کیا ہوا شیشہ، جس میں چیزوں کا عکس نظر آتا ہے ) ، جدا ( الگ)، کوئی دم (لحہ بھر، ذرا سی دیر) ، آپس میں ہونا محاورہ باہمی تکرار ہونا، مقابلہ ہونا، آمنے سامنے ہونا )
مفہوم : اے محبوب اپنی نظروں سے آئینہ الگ نہ ہونے دو کچھ دیر اور چہرے کے تاثرات خود پر واضح ہونے دو۔
تشریح : ہر شخص خواہ خوب صورت ہو خواہ بدصورت آئینے میں اپنا سراپا ضرور دیکھتا ہے۔ آئینے کو دیکھ کر اپنا بناؤ سنگھار کرتا ہے۔ بعض خود پرست لوگ اپنے ہی حسن کے شیدائی ہوتے ہیں اور آئینے کے سامنے اپنا سراپا دیکھ کر اپنے حسن پر نازاں ہوتے ہیں اور بار بار آئینہ دیکھتے ہیں۔ داغ دہلوی کہتے ہیں کہ محبوب اتنا خوب صورت ہے کہ جب وہ خود کو آئینے میں دیکھتا ہے تو خود بھی اپنے حسن کا دیوانہ ہو جاتا ہے ۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہو کر اپنے سراپا کو دیکھنے میں محو ہو جاتا ہے۔ اس طرح شاعر کے لیے یہ منظر بہت خوب صورت ہوتا ہے کیوں کہ اس طرح سے اسے بھی محبوب کو دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چناں چہ وہ کہتا ہے آئینے کو اپنی نظروں سے الگ نہ کرو، کچھ دیر اور مجھے دیدار کر لینے دو۔
بقول میر تقی میر:
طریق خوب ہے آپس میں آشنائی کا
نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا
بعض لوگ آئینے میں چہرہ دیکھتے ہوئے خود سے باتیں کرتے ہیں، گنگناتے ہیں یا اپنے حسن کی خود تعریف کرتے ہیں۔ چناں چہ شاعر کہتے ہیں کہ آئینے کو نظروں سے جدا نہ کرو کچھ دیر مزید اسی طرح آئینے کے سامنے باتیں کرتے رہو۔ شعر کا ایک پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر محبوب کو جب آئینے کے سامنے دیکھتا ہے تو وہ کبھی محبوب کو دیکھتا ہے اور کبھی آئینے میں محبوب کے عکس کو دیکھتا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ زیادہ حسین کون ہے حسن و خوبی میں محبوب بڑھ کر ہے یا آئینے میں محبوب کا عکس زیادہ حسین ہے۔ جب محجوب آئینے کے سامنے سے ہٹنے لگتا ہے تو شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ آئینے سے خود کو الگ نہ کرو مجھے کچھ دیر مزید دونوں کے حسن کا موازنہ کرنے دو۔
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ محبوب اتنا حسین اور دل کش ہے کہ جب وہ آئینے کے سامنے آتا ہے تو آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے اور آئینہ بھی اس کے حسن و جمال کا اسیر ہو جاتا ہے۔ محبوب آئینے میں اپنا سراپا دیکھنے میں مگن ہوتا ہے اسی دوران میں آئینہ محبوب کے سراپا میں محو ہو جاتا ہے ۔ شاعر کے لیے یہ منظر بڑا دلفریب ہے ۔ اس لیے شاعر محبوب کو کہتا ہے کہ آئینے کو اپنی نظروں سے جدا مت کرو ۔ کچھ دیر مزید آپس میں دیدار ہونے دو ۔
بقول شاعر:
وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ آئینے میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے عیب بتاتا ہے ۔اسی تناظر میں ” آئینہ دیکھنا” اردو میں بطور محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب اپنی حقیقت پہنچانا ہے۔ شاعری میں یہ محاورہ اپنے عیب دیکھنا، اپنا محاسبہ کرنا اور اپنے ضمیر یا گر بیان میں جھانکنا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے شعر کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ اے محبوب تمھیں اپنے حسن پر جو اتنا غرور ہے اور تم خود پر جو اتنے نازاں ہو، اور اسی وجہ سے مجھ سے بے اعتنائی اور غفلت برتتے ہو۔ ذرا دیر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھو تمھیں اپنی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ ایک خاک کے فانی پتلے کو غرور و تکبر زیب نہیں دیتا ۔ تم آئینے میں اپنا چہرہ تو دیکھ لیتے ہو، ذرا دیر اپنے سینے کے داغ بھی دیکھو، تم اپنے ضمیر میں جھانکو اور دیکھو تمھارے اندر کس حد تک صفائی کی ضرورت ہے۔ ذرا دیر اپنا محاسبہ کرو تمھیں اپنے عیب معلوم ہو جائیں گے۔
بقول مرزا غالب:
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
آئینے سے جب تک کہ سامنا نہیں ہوتا
اپنے آپ سے کوئی آشنا نہیں ہوتا
شعر نمبر 2 :
کم نگاہی میں اشارا ہے، اشارے میں حیا
یا نہ ہونے دو مجھے چین سے یا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی: کم نگاہی ( کم دیکھنا، ترچھی نظروں سے دیکھنا، کم فہمی ) ، حیا ( شرم) ، چین ( سکون، اطمینان )
مفہوم : اے محبوب تم ترچھی نظروں سے مجھے دیکھتے ہو اس میں محبت کا اشارہ بھی ہے اور حیا اور جھجک بھی ۔ یا تو بے اعتنائی سے میری بے چینی بڑھنے دو یا پھر جھجھک نہ کرو تا کہ بے چینی ختم ہو۔
تشرح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تم جو مجھے ترچھی نظروں سے دیکھتے ہو اس میں ایک طرح سے محبت کا اشارہ پوشیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت کی زبان خاموشیوں کی زبان ہوتی ہے۔ اشارے کنائے میں وہ بات بھی کہی جاسکتی ہے جس کا اظہار الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات محبت میں زبان کا کہا زیادہ معتبر نہیں مانا جاتا بلکہ خاموشی اور اشارے کنائے کو معتبر جانا جاتا ہے۔ خاموشی کی زبان میں جو راز اور اشارے پنہاں ہوتے ہیں الفاظ ان کے اظہار سے قاصر ہوتے ہیں ۔
بقول ادا جعفری
راز کہہ دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر
کتنی خاموش محبت کی زباں ہوتی ہے
چناں چہ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی ترچھی نظروں میں محبت کا اشارہ پنہاں ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ محبوب میری جانب متوجہ ہے یہ جان کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ محبوب کی جدائی میں میری جو بے چینی اور بے قراری تھی وہ محبوب کے التفات سے سکون اور طمانیت میں بدلنے لگتی ہے۔ لیکن محبوب کے اس اشارے میں شرم و حیا اور جھجک کا اشارہ بھی غالب ہے۔ جس سے مجھے گمان ہوتا ہے کہیں محبوب مجھ سے بے اعتنائی تو نہیں برت رہا۔ جس سے میری بے چینی اور بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ محبوب کی ترچھی نگاہوں سے میں ایک کشمکش میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اس لیے شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ یا تو بھر پور نظروں سے دیکھ کر میری بے چینی اور بے قراری ختم کر دو یا پھر مجھے مکمل طور پر نظر انداز کر کے بے چین اور بے قرار رہنے دو۔
بقول وزیر لکھنوی:
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دل گیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
اُردو شاعری میں محبوب کا ترچھی نگاہوں سے دیکھنا کنکھیوں سے دیکھنا، نیم باز آنکھوں سے دیکھنا یا آنکھوں کے کونوں سے دیکھنا اس طرح کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ ترچھی نظر سے دیکھنا محبوب کی طرف سے بے اعتنائی کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ محبوب کی خاص ادا ناز اور بانکپن بھی ہوسکتا ترچھی نظروں سے دیکھنا ہر دم
ہے۔
جیسا کہ میر درد کہتے ہیں :
ترچھی نظروں سے دیکھنا ہر دم
یہ بھی اک بانکپن کا بانا ہے
محبوب کی ترچھی نگاہ عاشق کے لیے کسی تیر کم نہیں ہوتی ۔ اکثر شعرا اسے تیر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ چناں چہ اس پس منظر میں شعر کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر پہلے محبوب کے دیدار اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مارا مارا پھرتا ہے، ہزار ہا جتن کرتا ہے لیکن اسے محبوب کی نظر التفات حاصل نہیں ہوتی ۔ اگر بھولے سے محبوب اس کی جانب کبھی دیکھتا بھی ہے تو اسے براہ راست بھر پور نظروں سے نہیں دیکھتا بلکہ آنکھوں کے کناروں سے ترچھی نگاہ ڈالتا ہے۔ جس سے شاعر کی بے قراری اور بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کا دل پہلے سے زیادہ بے تاب ہو جاتا ہے۔ اس لیے شاعر محبوب سے شکوہ کرتا ہے کہ یا تو مجھے بالکل نظر انداز کر دو تا کہ میں پہلے کی طرح تمھاری ایک نظر کے لیے تڑپتا رہوں یا اگر مجھ پر نظر کرم کرنی ہے تو پھر بھر پور نظروں سے دیکھو تا کہ میرے بے قرار دل کو قرار آ جائے ۔
بقول عدیم ہاشمی:
اک نظر اور ادھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
شعر نمبر 3 :
ہم بھی دیکھیں، تو کہاں تک نہ توجہ ہو گی
کوئی دن تذکرہ اہل وفا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی: توجہ ( دھیان، التفات ) ، تذکرہ ( ذکر ) ، اہل وفا ( وفادار مخلص دوست )
مفہوم: کچھ دن مزید وفاداروں کا ذکر ہونے دو، ہم بھی دیکھتے ہیں آخر کب تک محبوب ہماری جانب متوجہ نہیں ہوتا ۔
تشریح : غزل کے روایتی انداز میں عموماً محبوب کو ظالم اور مغرور دکھایا جاتا ہے جو عاشق کی تمام تر وفاؤں کو خاطر میں نہیں لاتا اور عاشق کے لاکھ جتن کرنے کے باجود بھی اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔ تشریح طلب شعر میں داغ دہلوی نے امید کا مضمون باندھا ہے کہ اگرچہ محبوب ہم سے بے رخی اور بے اعتنائی برت رہا ہے لیکن ہم امید اور مایوس نہیں ہیں ۔ آخر کار محبوب کب تک ظلم و ستم اور سنگ دلی کا رویہ اپنائے گا ؟ انسان کی فطرت ہے کہ اگر اس کی اچھے ا انداز میں اصلاح کی جائے تو وہ اسے ضرور قبول کرتا ہے۔ شاعر کو بھی محبوب کی اصلاح کی امید ہے اس لیے وہ کہتا ہے کہ کچھ دن تک محبوب کے سامنے وفادار اور مخلص لوگوں کا تذکرہ ہونے دو، ایسے عشاق اور اہلِ وفا جنھوں نے محبت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دیں اور دنیا کی تاریخ میں امر ہو گئے ۔ یقیناً محبوب جب ان وفاداروں اور مخلص لوگوں کا تذکرہ سنے گا تو اس کا دل نرم ہو جائے گا اور وہ میری وفا اور میری قربانیوں کی قدر کرے گا اس کی توجہ میری جانب ہو جائے گی۔
ایک اور شعر میں داغ دہلوی کہتے ہیں:
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
شعر میں یہ پہلو بھی ہو سکتا ہے کہ جب محبوب کے سامنے اہل وفا کا ذکر کیا جائے گا تو دنیا کے وفاداروں میں میرا نام بھی آئے گا۔ میں نے بھی محبت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں چناں چہ جب میرا نام وفاداروں میں محبوب سنے گا تو اس کا دل نرم ہو جائے گا اور وہ میری جانب توجہ و التفات کرے گا۔ شاعر کو یقین ہے کہ اس کی وفائیں اور قربانیاں سب سے بڑھ کر ہیں اس لیے محبوب کا دل اس کے لیے ضرور نرم ہو گا ۔
بقول شورش کا شمیری:
ہمارے بعد کہاں پہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان بار بار کسی کی تعریف سنتا ہے، اس کی بہادری یا وفا کے کارنامے زبان زد عام دیکھتا ہے تو اس کا دل آہستہ آہستہ اس انسان کی جانب جھکنے لگتا ہے اور دل میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاعر کو بھی اپنی وفاؤں پر بھروسا ہے اور اسے امید ہے کہ جب محبوب کے سامنے وفاداروں میں میرا نام بار بار آئے گا تو محبوب کے دل میں میرے لیے جگہ پیدا ہو گی ۔ اس طرح میں محبوب کی توجہ و التفات کا مرکز بن جاؤں گا۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے سامنے کچھ دن اور وفاداروں کا تذکرہ ہونے دو۔ اگرچہ محبوب سنگ دل ہے لیکن شاعر نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ۔
بقول ساحر لدھیانوی:
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
احمد ندیم قاسمی نے بھی اسی قسم کا مضمون باندھا ہے :
قعر دریا میں بھی آ نکلے گی سورج کی کرن
مجھ کو آتا نہیں محروم تمنا ہونا
شعر نمبر 4 :
آنکھ ملتے ہی کہوں خاک حقیقت دل کی
دیکھ کر جلوہ مرے ہوش بجا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی: آنکھ ملنا ( آنکھیں چار ہونا ، نظر سے نظر ملنا) ، خاک (مراد بے کار ، فضول، بے فائدہ ) ، دل کی حقیقت ( دل کا حال ) ، جلوہ ( نظارہ، دیدار)، ہوش بجا ہوا (ہوش بحال ہوتا )
مفہوم : محبوب سے نظر ملتے ہی میں اپنے ہوش کھو بیٹھا، ایسی حالت میں دل کا حال کیا سناؤں، پہلے میرے ہوش بحال تو ہونے دو۔
تشریح: عاشق کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا حال دل کسی طرح محبوب کے سامنے کہے تا کہ محبوب اس کی کیفیت سے آگاہ ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب سے ملاقات کے وقت وہ اپنے دکھ درد محبوب سے بیان کرے محبوب سے اس کے ظلم و ستم، بے رخی اور بے اعتنائی کا گلہ شکوہ بھی کرے۔ اس لیے وہ شدت سے اس وقت کا انتظا کرتا ہے کہ کب محبوب سے اس کا سامنا ہو اور وہ اس اپنا حال دل کہے لیکن طویل انتظار کے بعد جب محبوب سے ملاقات ہوتی ہے تو محبوب کے حسن و جمال اور اس کے رعب و دبدبہ کو دیکھ کر عاشق اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ اس نے دل میں جو کچھ سوچا ہوتا ہے وہ سب اسے بھول جاتا ہے۔ محبوب کے سامنے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے اور منھ سے ایک لفظ تک نہیں بول سکتا ۔ محبوب کے رخصت ہو جانے کے بعد پھر جب اسے ہوش آتا ہے تو وہ کف افسوس ملتا ہے۔ بقول بشیر بدر :
نہ جی بھر کے دیکھا، نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
تشریح طلب شعر میں شاعر نے بھی ایسا ہی مضمون باندھا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے محبوب کو سنانے کے لیے دل میں بہت سی باتیں سوچ رکھی تھیں۔ میری خواہش تھی کہ محبوب سے ملاقات ہو تو اپنا حال دل محبوب کو سناؤں اور اسے اپنے مصائب و آلام سے آگاہ کروں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی وفاؤں کا تذکرہ اور محبت کا اظہار بھی کروں۔ میں بڑی بے تابی سے محبوب سے ملاقات کا منتظر تھا لیکن جب محبوب میرے سامنے آیا اور میری نظر محبوب سے ملی تو میں محبوب کے حسن و جمال کو دیکھ کر اتنا بدحواس ہوا کہ جو کچھ دل میں سوچا تھا دو سب بھول گیا۔ گویا محبوب کو دیکھنے میں ایسا محو ہوا کہ کسی اور چیز کی خبر ہی نہ رہی ۔ چناں چہ جب شاعر کے خیر خواہوں نے اسے توجہ دلائی کہ محبوب کے سامنے اپنے دل کی حقیقت بیان کرو، تو شاعر نے کہا میں دل کی حقیقت کیا خاک بیان کروں ۔ محبوب کا جلوہ دیکھ کر میرے ہوش تو پہلے بجا ہونے دو محبوب سے ملاقات بذات خود ایک بڑی اہم چیز ہے۔ اس کا حسن و جمال اور رعنائی دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، حواس جاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں دل کی بات کیسے کہی جاسکتی ہے۔
بقول سرمد صہبائی :
میں آج بھی نہ تم سے کوئی بات کر سکا
لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہی
شعر میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ محبوب کی ملاقات، اس کا جلوہ و دیدار شاعر کے لیے ان سب باتوں سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا جو اس نے محجوب کے سامنے کہنے کے لیے دل میں سوچی تھیں۔ وہ ایک عرصہ سے محبوب کے دیدار کے لیے بے تاب تھا اس لیے جب محبوب سامنے آیا تو شاعر محبوب کے دیدار میں اتنا مگن ہوا کہ دوسری باتوں کی طرف اس کی توجہ ہی نہ گئی، اسے اپنا حال دل سنانے کا بھی ہوش نہ رہا۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ محبوب کے رعب و وقار کی وجہ سے شاعر کی زبان گنگ رہ گئی اور وہ کچھ کہ نہ پایا۔ داغ دہلوی ایک اور شعر میں ایسا ہی مضمون بیان کرتے ہیں :
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
شعر نمبر 5 :
تم دل آزار بنے رشکِ مسیحا کیسے
کم نہ ہونے دو مرا درد سوا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی: دل آزار ( دل دُکھانے والا ، ستم گر ) رشک مسیحا ( جس پر مسیحا کو بھی رشک آئے ، مراد ماہر معالج ) ، سوا (زیادہ)
لغت دل آزار ( دل دُکھانے والا ستم گر ) رشک مسیحا ( جس پر مسیحا کو بھی رشک آئے ، مراد ماہر معالج ) ، سوا (زیادہ)
مفہوم : اے محبوب تم تو ستم گر ہو، میرے ہمدرد معالج کیسے بن گئے تم میرے درد کو مزید بڑھنے دو۔
تشرح : غزل کے روایتی انداز میں محبوب کو سنگ دل ، ظالم ، ستم گر اور دل آزار جیسے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ محب کا کام عاشق کو طرح طرح کی تکالیف اور مصیبتیں پہنچانا ہوتا ہے۔ عاشق اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپتا ہے لیکن محبوب کے لیے اس کی تڑپ اور بے قراری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ محبوب عاشق کی آہ و فریاد پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ عاشق محبوب کی ایک ایک ادا پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے لیکن محبوب کو اس کی پروا نہیں ہوتی ۔ عاشق اس کی ایک نظر التفات کا منتظر ہوتا ہے اور اس کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلتا ہے، رسوائیاں اٹھاتا ہے۔ طعنے سنتا ہے۔ دن رات آہ و زاری کرتا ہے۔ لیکن محبوب سنگ دل ہوتا ہے وہ عاشق کی حالت زار پر رحم نہیں کھاتا۔ اس پر عاشق کی کسی بات اور کسی فریاد کا اثر نہیں ہوتا ۔ اسے خبر تک نہیں ہوتی کہ اس کی بے رخی اور لاپروائی کی وجہ سے عاشق کی حالت کیا سے کیا ہوگئی ہے ۔
: بقول مومن خان مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
انسانی فطرت ہے کہ بار بار ایک ہی چیز یا کیفیت کا سامنا کرنے سے انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔ ابتدا میں رنج و الم انسان کو تکلیف دیتے ہیں لیکن بار بار رنج و الم برداشت کرنے سے انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے انسان جب کسی چیز کا عادی ہو جائے تو اسے پھر اسی میں راحت محسوس ہوتی ہے ۔
بقول مرزا غالب:
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہو گئیں
تشریح طلب شعر میں داغ دہلوی نے بھی ایسی ہی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب نے مجھ پر ظلم وستم ڈھائے اور ہمشہ مجھے تکالیف پہنچائیں لیکن بار بار رنج و علم برداشت کرنے سے میں ان کا عادی ہو گیا اور مجھے اسی کیفیت میں سکون ملنے لگا لیکن اب اچانک محبوب نے ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیا اور وہ میری غم خواری اور مسیحائی کی جانب مائل ہو گیا اور مسیحا بھی ایسا بنا کہ جس پر دوسرے مسیحا بھی رشک کرنے لگے چنانچہ شاعر کہتا ہے اے محبوب میری اتنی دل آزاری کے بعد تم میری مسیحائی اور دل جوئی کی جانب کیسے مائل ہو گئے ۔ تم تو دل آزار ہو مسیحا کیسے ہو سکتے ہو ۔ مجھے تو تمہارے ظلم و ستم ہی میں راحت محسوس ہو رہی تھی ۔ میں درد غم سہنے کا اتنا عادی ہو گیا ہوں کہ اب مجھ سے تمہاری یہ مسیحائی برداشت نہیں ہوتی لہٰذا تم میرے مسیحا نہ بنو بلکہ میرے درد میں اضافہ کرو تاکہ مجھے راحت ملے ۔
بقول مرزا غالب :
وہ مزہ دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
میرے دونوں پہلوؤں میں دل بے قرار ہوتا
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر درد کا طلبگار اس وجہ سے ہے کہ وہ زندگی کے ہاتھوں تنگ آ چکا ہے ۔ اسے زندگی میں محبوب کی وفا حاصل ہونے کی بالکل امید نہیں ہے اس لیے وہ محبوب کے ہاتھوں ظلم و ستم سہنے کی خواہش کرتا ہے تاکہ وہ محبوب پر جان قربان کر کے خود کو وفادار ثابت کر سکے ۔
بقول مرزا غالب :
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اور بقول علامہ اقبال :
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں
شعر نمبر 6 :
کیا نہ آئے گا اسے خوف میرے قتل کے بعد
دست قاتل کو ذرا دست دعا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی : خوف ( ڈر) ، دست قاتل (قتل کرنے والے کا ہاتھ) ، دست دعا ( دعا کے لیے بلند کیے ہوئے ہاتھ)
مفہوم : میرے محبوب کو میرے قتل کے بعد خوف آئے گا ۔ جب وہ اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے گا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے روایتی مضمون کو منفرد انداز میں بیان کیا ہے ۔ روایتی شاعری میں محبوب ظالم اور بے رحم شخص کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے ۔ وہ عاشق کی تمام تر وفاؤں کے باوجود عاشق پر ظلم و ستم روا رکھتا ہے ۔ اس کی قربانیوں اور وفاداریوں کو خاطر میں نہیں لاتا جبکہ عاشق اس کے ہر ظلم و ستم کو ہنسی خوشی سہ جاتا ہے ۔ محبوب کے ہاتھوں تکالیف اٹھاتا رہتا ہے لیکن فریاد نہیں کرتا یہاں تک کہ محبوب عاشق کو قتل بھی کر دے تو اف تک نہیں کہتا ۔
تشریح طلب شعر میں محبوب کے بے انتہا ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہے ۔ محبوب ظلم و ستم سے ہاتھ نہیں روکتا یہاں تک کہ قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب مجھے قتل کرنے کے بعد ایک دن ضرور نادم ہوگا ، پچھتاوے اور ندامت کے احساس سے جب وہ انہی ہاتھوں کو دعا کے لیے بلند کرے گا جن ہاتھوں سے اس نے مجھے قتل کیا تھا تو اسے اللہ کی بارگاہ سے خوف آئے گا ۔ وہ روز محشر اللہ کے حضور ایک جان کے قتل کی جواب دہی کے احساس سے کانپ اٹھے گا ۔ اس وقت اسے میرے قتل پر افسوس ہوگا لیکن تب اس کو افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔
بقول مرزا غالب :
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب میرا محبوب مجھے قتل کرنے کے بعد میرے ہی لیے دست دوا بلند کرے گا تو میرے خون سے رنگے اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر اسے خوف آئے گا ۔ گنہگار شخص کو کبھی سکون نصیب نہیں ہوتا ۔ اس کا گناہ ہمیشہ اسے بے چین رکھتا ہے ۔
بقول شاعر :
یہ سچ ہے چند لمحوں کے لیے بسمل تڑپتا ہے
پھر اس کے بعد ساری زندگی قاتل تڑپتا ہے
دراصل یہ محبوب کو اس کے ظلم و ستم کا احساس دلانے کا ایک انداز ہے ۔ شاعر محبوب سے کہنا چاہتا ہے کہ مجھ پر اتنا ظلم و ستم نہ کرو کہ جس کی وجہ سے میری جان چلی جائے اور بعد میں تمہیں پچھتاوا ہو لیکن اس وقت ندامت سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ لہٰذا تم ابھی مجھ پر رحم کھاؤ اور مجھ سے محبت اور التفات سے پیش آؤ ۔
بقول شاعر :
چاہنے والے مقدر سے ملا کرتے ہیں
اس نے اس بات کو تسلیم کیا میرے بعد
اور بقول مرزا غالب :
میرے حبیب نے مجھے جب قتل کر دیا
تلوار پھینک جور سے وہ باز آ گیا
شعر نمبر 7 :
جب سنا داغ کوئی دم میں فنا ہوتا ہے
اس ستمگر نے اشارے سے کہا ہونے دو
مشکل الفاظ کے معانی : کوئی دم ( ذرا سی دیر) ، فنا ہونا (ختم ہونا) ، ستم گر (ظالم)
مفہوم : جب میرے محبوب نے سنا کہ میں کچھ ہی دیر میں مرنے والا ہوں تو اس ظالم نے دل جوئی کی بجائے کہا اسے مرنے دو ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کی بے رخی لاپرواہی اور سنگدلی کو بیان کیا ہے ۔ محبوب کو دم نزع بھی شاعر پر ترس نہ آیا ۔ اس وقت بھی اس نے کمال بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا اگرچہ یہ وقت نازک ہوتا ہے ہر کسی کا دل نرم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ برسوں کے روٹھے ہوئے بھی اس وقت مان جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی خطائیں معاف کر کے صلح کر لیتے ہیں ۔ بڑے سے بڑے مجرم کی بھی آخری خواہش پوری کی جاتی ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ محبوب پتھر دل تھا اس کا دل اس وقت بھی نرم نہ ہوا اور اس وقت بھی وہ میری دل جوئی کی طرف مائل نہ ہوا ۔ اس نے میری آخری خواہش کا بھی احترام نہ کیا چنانچہ جب میرے محبوب نے یہ سنا کہ میں قریب المرگ ہوں اور کچھ ہی دیر میں دنیا سے رخصت ہوا چاہتا ہوں تو اس نے اس وقت بھی انتہا درجے کی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشارے سے کہا کہ اگر مرتا ہے تو اسے مرنے دو مجھے اس کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
مومن خان مومن نے اسی مضمون کو یوں بیان کیا ہے :
کہا اس بت سے مرتا ہوں تو مومن
کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی
شعر میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ محبوب نے مرنے دو کہ الفاظ بھی زبان سے نہیں کہے بلکہ اشارے سے کہے ہیں ۔ جس سے انتہا درجے کی لا تعلقی اور اجنبیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ محبوب اتنا مغرور ہے کہ وہ زبان سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا بلکہ اشارے سے کہتا ہے کہ اسے مرنے دو ۔
بقول حبیب جالب :
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
نوٹ : امید ہے کہ آپ داغ دہلوی کی غزل ” آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو ” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.