بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

شعر نمبر 1 : 

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: بازیچہ اطفال ( بچوں کا کھیل ) ، شب و روز ( دن اور رات )

مفہوم : یہ دنیا محض کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ۔ میرے نزدیک یہ محض بچوں کا کھیل ہے ۔

تشریح: غالب نے روایتی غزل کے موضوعات کو نئے فکری زاویے دیے۔ ان کے ہاں محبوب محض ایک شخص نہیں، بلکہ ایک تصور، ایک رمز، یا خودی کا استعارہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کی زبان میں ندرت، محاورہ سازی، اور فکری بلندی نظر آتی ہے۔

اردو ادب میں غالب کا مقام بلاشبہ بلند ترین ہے۔ وہ محض شاعر نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک ہیں۔ اُن کا کلام آج بھی جدید قاری کو فکر، حیرت، اور جمالیاتی لذت فراہم کرتا ہے۔ غالب کا یہ مقام صرف فن میں مہارت کے سبب نہیں، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ وہ انسان کے باطنی کرب، جستجو، اور بےبسی کو عالمی سطح کی شاعری میں ڈھالنے والے شاعر ہیں ۔

نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس کو مراز غالب کی کسی بھی غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

مطلع کا شعر ہے ۔ مرزا غالب کا یہ مطلع ان کی مشہور غزل سے لیا گیا ہے جو ان کے منفرد فلسفیانہ انداز اور دنیا کے بارے میں گہرے تصور کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاعر ایک ایسے بلند مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے  دنیا کی رنگینیاں اور واقعات بچوں کا کھیل لگتے ہیں ۔ اس سے شاعر کی وسعت نظری اور بلند خیال کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کی سوچ اور خیالات کس قدر وسیع اور بلند ہیں ۔

   – غالب یہاں دنیا کو “بازیچہ اطفال” (بچوں کا کھیل) قرار دے رہے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی تمام سرگرمیاں، جدو جہد اور دکھ سکھ بچوں کے کھیل کی طرح بے معنی اور عارضی ہیں ۔ ان کے نزدیک دنیا کی تمام تر عظمت اور شان ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے یہاں “شب و روز” سے مراد وقت کی گذر گاہ ہے، جو ایک مسلسل تماشے کی طرح ہے ۔ غالب خود کو ایک تماشائی کی طرح پیش کرتے ہیں جو دنیا کے ہنگامے کو بے حسی اور بے نیازی سے دیکھ رہا ہے۔

فلسفہ اور مفہوم:

غالب محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک فلسفی بھی تھا ۔ جس کی غمازی اس کے اس کے اشعار کرتے ہیں ۔ غالب کے نزدیک دنیا کی تمام تر مصروفیات اور واقعات ایک کھیل کی مانند ہیں، جس میں انسان بچوں کی طرح الجھا ہوا ہے۔ وہ اس دنیا کو ایک “تماشا” سمجھتے ہیں، جس میں وہ خود کو ایک غیر جانبدار ناظر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ یہ ان کے فلسفہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں وہ دنیاوی دکھوں اور خوشیوں کو بے معنی سمجھتے ہیں۔

شعر نمبر 2 : 

اک کھیل ہے اورنگ سلماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: اورنگ سلیماں (  حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت) اعجازِ مسیحا ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جو وہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے )

مفہوم: حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت جو ہواؤں میں اڑتا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جو وہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے ۔ یہ محض دنیاوی چیزیں ہیں ۔ میرے نزدیک یہ محض ایک بات اور محض ایک کھیل سے زیادہ اہم نہیں ۔

تشریح: غالب اس شعر میں تصوف کا اندازِ فکر اختیار کرتے ہوئے دنیاوی شان و شوکت (تخت و تاج) اور مذہبی معجزات کو بھی ہلکی چیزیں سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ باطنی علم، روحانی بلندی، اور خودی کی معراج کو ان سب چیزوں سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔  اورنگِ سلیماں “اورنگ” یعنی تخت یا سلطنت، اور “سلیماں” سے مراد حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں، جو قرآن و تورات کے مطابق نہایت عظیم الشان بادشاہ اور نبی تھے، جن کو جنّات، انسان، جانور، ہواؤں اور دیگر مخلوقات پر بھی حکمرانی حاصل تھی۔ اک کھیل ہے یعنی ایک معمولی بات، ایک تماشا، ایک کھیل جیسی ہیں یہ سب طاقتیں اور حقیقتیں ۔

غالب کہہ رہے ہیں کہ حضرت سلیمان جیسی عظیم سلطنت بھی ان کے نزدیک صرف ایک کھیل ہے، کچھ بھی اہم نہیں۔ غالب نے جس طرح دنیاوی عظمتوں اور انبیاء کے معجزات کو “کھیل” اور “اک بات” کہا ہے، وہ دراصل محبت کے جذبے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا جب انسان سچے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو دنیا کی ہر عظمت، ہر جاہ و جلال، ہر معجزہ، اُس کے محبوب کے سامنے ہیچ ہو جاتا ہے۔

اعجازِ مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام (مسیحا) کا معجزہ؛ خاص طور پر وہ معجزہ کہ آپ مردوں کو زندہ کر سکتے تھے، مریضوں کو شفا دے سکتے تھے بغیر کسی دوا کے اک بات ہے یعنی ایک عام سی چیز ہے  جس کی غالب کے نزدیک زیادہ قدر و قیمت نہیں۔ غالب کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا معجزہ بھی، جو دنیا کے لیے حیرت کا باعث ہے، ان کے نزدیک محض ایک بات ہے، کوئی غیر معمولی یا ناقابلِ یقین چیز نہیں۔

یہ شعر غالب کی انانیت ، فلسفہ، اور دنیا کی بے ثباتی پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ جن چیزوں کو لوگ حد درجہ اہمیت دیتے ہیں، وہ میرے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

شعر نمبر 3 : 

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: جز ( سوائے) ، نام ( محض نام، صرف ظاہری شناخت) ، صورتِ عالم ( دنیا کی ظاہری شکل و صورت) ، وہم ( خیال، گمان ) ، ہستیِ اشیاء (چیزوں کا وجود)

مفہوم: ظاہری چیزوں کا وجود محض دھوکا ہے ۔ ظاہری چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ باطن کی سچائی ہی اصل سچائی ہے ۔

تشریح:  اس شعر میں بھی دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کا ذکر ہوا ہے ۔ غالب اس شعر میں دنیا کی مادی اشیاء اور ظاہری حقیقتوں کو باطل، وہم، اور دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا رجحان باطن، حقیقت، اور ماورائی سچائی کی طرف ہے۔ ان کے نزدیک جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، وہ حقیقت نہیں، بلکہ صرف  حقیقت لگتا ہے ۔ غالب کہتے ہیں کہ میرے نزدیک دنیا کی ظاہری صورت (جو کچھ ہم دیکھتے اور پہچانتے ہیں) درحقیقت محض نام ہے اصل حقیقت نہیں۔ یعنی یہ جو کائنات کی رنگا رنگی ہے، خوبصورتی ہے یہ سب  مادی دنیا ہے جو بہت جلد ختم ہونے والی ہے ۔ یہ صرف ایک نام کی حد تک ہے، ایک سطحی حقیقت ہے، باطن میں کچھ بھی نہیں ۔ غالب وہ کہتے ہیں مجھے صرف ظاہری شکلوں سے دلچسپی نہیں، میں باطنی حقیقت کو تلاش کرتا ہوں۔ یہ دنیا میرے لیے صرف ایک دھوکہ ہے، ایک سایہ ہے، ایک پردہ ہے ۔

غالب مزید کہتے ہیں کہ میرے نزدیک دنیا کی ہر شے کا وجود محض ایک وہم ہے، ایک خیال ہے، ایک گمان ہے ۔ اس کی کوئی پائیدار اور مستقل حقیقت نہیں۔

 اس شعر میں تصوف اور فلسفہ وجود کا ذکر ہوا ہے۔ غالب شاید وحدت الوجود یا مابعد الطبیعیات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جہاں دنیا کی ہر چیز محض ظاہر کی بازی گری ہے، اصل وجود صرف حق (اللہ) کا ہے ۔

شعر نمبر 4 : 

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے آگے

گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی:  نہاں( پوشیدہ، چھپا ہوا) ، گرد (گرد و غبار، خاک) ،  صحرا( ریگستان، بیابان) ،  جبیں ( پیشانی) ،  خاک( مٹی، خاکساری ) ، دریا( سمندر، پانی کی وسیع تر شکل؛ یہاں استعاراتی مفہوم مراد ہے)

مفہوم: میرے سامنے صحرا اور دریا بھی عاجزی و انکساری سے جھکے رہتے ہیں ۔

تشریح: یہ شعر فخر، عظمت ،  شعور اور عارفانہ بصیرت کی علامت ہے غالب کہتے ہیں کہ میں جس حقیقت کو دیکھ لوں، وہ خود کو چھپا لے یا اس کے باطن میں راز چھپے ہوں، لیکن میں اسے پا لیتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے آ کر صحرا (ریگستان) خود کو گرد و غبار میں چھپا لیتا ہے۔ گویا میری نگاہ اتنی گہری اور اثر رکھتی ہے کہ بیابان جیسی وسیع شے بھی مجھ سے پردہ نشین ہو جاتی ہے، چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔

غالب استعارہ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے سامنے دریا جیسی عظیم بہنے والی مغرور شے بھی پیشانی خاک پر رگڑتی ہے  یعنی عاجزی و  انکساری اختیار کرتی ہے۔ دریا کا خاک پر جبیں رگڑنا گویا ظاہر کرتا ہے کہ بڑی سے بڑی قوت، قدرت یا دنیاوی عظمت بھی میرے عرفان، میرے مقام یا میری نگاہ کے آگے جھک جاتی ہے۔

شعر نمبر 5 : 

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے

تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: مت پوچھ (مجھ سے نہ پوچھ، سوال نہ کر) ،  حال ( کیفیت، حالت، دلی کیفیت) ،  رنگ ( انداز، کیفیت، اثر ) ، مرے آگے (میرے سامنے، میری نگاہ میں، میرے دل و دماغ میں)

مفہوم:  ایک سچا عشق ایسا ہوتا ہے جس کا اظہار لفظوں سے نہیں، وجود کے رنگوں، آنکھوں کی نمی، اور دل کی کیفیت سے ہوتا ہے ۔

تشریح: یہ شعر ایک سچے عاشق کے دل کی خوبصورت عکاسی کرتا  ہے ۔ اس شعر میں شاعر جذبات کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے، محبوب سے کہہ رہے ہیں کہ خود دیکھ، خود محسوس کر کہ تُو میرے لیے کیا ہے اور تُو نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ۔ یہ شعر محبوب کے اثرات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ عاشق کی ہستی کا ہر رنگ، ہر پہلو بن چکا ہے۔ غالب کہتے ہیں کہ اے محبوب، تُو مجھ سے یہ سوال نہ کر کہ تیرے فراق (جدائی) میں میرا کیا حال ہوا گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری حالت ایسی نہیں کہ بیان کی جا سکے  اتنی شدید، گہری، اور تکلیف دہ ہے کہ الفاظ اُس کا احاطہ نہیں کر سکتے  بلکہ جب تو میرے سامنے آتا ہے تب میری حالت دیکھ کہ میں تیری چاہت میں کیا سے کیا ہو گیا ہوں ۔ 

سچا عشق ایسا ہوتا ہے جس کا اظہار لفظوں سے نہیں بلکہ وجود کے رنگوں، آنکھوں کی نمی، اور دل کی کیفیت سے ہوتا ہے اور یہی شاعر کی بھی ہے ۔

شعر نمبر 6 :

ایمان مجھے روکے ہے ، جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ میرے پیچھے ہے ، کلیسا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی:ایمان( اسلامی عقیدہ، مذہبی سچائی) ،  کفر ( دین سے انکار، یا وہ نظریہ جو اسلام سے مختلف ہو) ،  کعبہ اسلام کا مقدس مقام، مکہ میں واقع) ،  کلیسا ( گرجا گھر، عیسائی عبادت گاہ) ،  روکے ہے (روک رہا ہے ) ، کھینچے ہے ( اپنی طرف کھینچ رہا ہے )

مفہوم: ایمان اور کفر کی جنگ جاری  ہے ۔ کلیسا مجھے اپنی جانب کھینچتا ہے اور کعبہ اپنی جانب کچھیچ رہا ہے ۔

تشریح: غالب اس شعر میں اُس انسان کی تصویر پیش کرتے ہیں جو اپنے ایمان کے دائرے سے باہر نہیں جانا چاہتا، لیکن زمانے کی نئی فکری اور تہذیبی ہوائیں اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ کعبہ اس کا ماضی ہے، اور کلیسا اس کا مستقبل ہے ۔ وہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں مذہب، علم، اور تہذیب کی راہیں آپس میں الجھ گئی ہیں۔

غالب کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف میرا ایمان (اسلامی عقیدہ) مجھے روکتا ہے، یعنی مجھے اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر دوسری طرف کفر (غیر اسلامی یا مغربی نظریات، آزاد خیالی، عقل پرستی) مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہ شعر انسان کی باطنی کشمکش، فکر و ایمان کی جنگ، اور روحانی تذبذب کو ظاہر کرتا ہے۔

میری پشت پر کعبہ ہے (یعنی اسلامی تعلیمات، روایتی دین، ماضی)، اور میرے سامنے کلیسا (یعنی عیسائیت، جدید مغربی تہذیب، ترقی یافتہ دنیا) ہے۔ گویا وہ اس وقت کی مغربی تہذیبی یلغار، علمی و فکری انقلاب، اور اسلامی معاشرے کے تضاد کو اپنی ذات میں محسوس کر رہے ہیں ۔ کعبہ و کلیسا اور آگے پیچھے ( متضاد الفاظ) کے الفاظ سے شعر کا حسن بڑھ گیا ہے ۔

شعر نمبر 7:

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: گو (اگرچہ، حالانکہ) ،  جنبش ( حرکت، ہلنا ) ، دم (جان ، طاقت ، روشنی زندگی کی رمق) ،  ساغر( پیالہ، شراب کا جام) ،  مینا (شراب کی بوتل، یا جام کا دوسرا نام)

مفہوم: ہاتھ کام نہیں کر رہے تو کیا ہوا آنکھوں میں تو دم ہے اس لیے ساغر و مینا کو میرے سامنے سے مت ہٹاؤ ۔

تشریح: غالب اس شعر میں اس وقت کی عکاسی کرتے ہیں جب انسان جسمانی طور پر کمزور ہو چکا ہوتا ہے مگر اس کی روح، آنکھیں، اور جذبات ابھی زندہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی ساغر و مینا ہٹانے کی ضرورت نہیں ابھی زندگی کا ذائقہ باقی ہے۔ یہ ایک فنکار، عاشق اور فکری انسان کی آخری سانسوں تک حسن و لذت سے جڑے رہنے کی ترجمانی ہے۔

غالب یہاں مایوسی اور فنا سے انکار کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی عشق، شراب، اور زندگی سے تعلق ختم نہیں ہوا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ میرے ہاتھوں میں اب حرکت باقی نہیں یعنی جسمانی طور پر میں بہت کمزور ہو چکا ہوں اور بیماری و بڑھاپے یا تھکن کی وجہ سے اب کوئی کام نہیں کر سکتا لیکن میری آنکھوں میں ابھی تک زندگی کی چمک باقی ہے ۔میری روح ابھی زندہ ہے ۔ میری خواہشیں اور جمالیاتی شعور موجود ہے۔

یہاں “آنکھوں میں دم” محض جسمانی روشنی نہیں بلکہ زندگی، جذبہ، اور احساسِ حسن کی علامت ہے ۔میرے سامنے شراب کا جام اور بوتل رہنے دو ۔ انہیں نہ ہٹاؤ کیونکہ میں ابھی مکمل فنا نہیں ہوا  ۔ میرا شعور، میری روح اور میری خواہشیں زندہ ہیں۔ ساغر و مینا یہاں عشق، جمال، فن، شعور، اور دنیا کی لذتوں کا استعارہ  ہے۔

شعر نمبر 8 : 

ہم پیشہ و ہم مشرب و راز ہے میرا

غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے

مشکل الفاظ کے معانی: ہم پیشہ ( ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والا یعنی شاعر) , ہم مشرب ( ایک ہی مزاج یا نظریے والا، ہم خیال، ہم راز (گہرا تعلق، قربت) ،  بھید (راز دارانہ تعلق )  غالب ( مرزا اسد اللہ خاں غالب، مشہور شاعر)

مفہوم: غالب کو کوئی برا بھلا مت مت کہو کیونکہ وہ میرا ہم خیال اور رازداں ہے ۔

تشریح: غالب عمر کے آخری حصے میں تنہائی کا شکار ہو گئے تھے ۔سب دوست یار سن کو دلی میں تنہا چھوڑ گئے تھے ۔ وہ خود کلامی کے انداز میں کہتے ہیں کہ اب غالب ( تنہائی) ہی میرا دوست ہے ۔شاعر اپنے اور غالب کے تعلق کو نہایت دلی، فکری اور تخلیقی سطح پر جوڑ رہا ہے۔ وہ صرف رسمی تعارف نہیں کرا رہا، بلکہ کہہ رہا ہے ۔

غالب میرے دل کے قریب ہیں ۔  میرے ساتھ ہم مزاج ہیں اور ہم رازدار ہیں ۔ اس لیے اُن پر تنقید میرے سامنے مت کرو۔  مرزا غالب میرے جیسے پیشے سے تعلق رکھتے ہیں (ہم دونوں شاعر ہیں) ہماری سوچ ایک جیسی ہے (ہم مزاج یا ہم مشرب ہیں) اور وہ میرے قریبی رازدار اور مخلص ہیں۔ لہٰذا، ان کے بارے میں میرے سامنے برا کہنا نہایت نامناسب بات ہو گی ۔

 یہ شعر غالب کی عظمت، شخصیت اور شاعری کے دفاع میں ایک والہانہ اور پُراثر بیان ہے۔ شاعر غالب کو ( اپنے آپ کو) محض ایک فنکار نہیں بلکہ قریبی ساتھی، ہم فکر، ہم مزاج اور ہم راز کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لہٰذا اُس کے سامنے غالب پر تنقید ناقابلِ قبول ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادب میں محض فن کی قدر نہیں بلکہ ادیبوں کے باہمی رشتوں کی نزاکت اور گہرائی بھی اہم ہوتی ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ مرزا غالب کی غزل ” بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے” کی تشریح و توضیح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply